اب ذرا جہاد کی اہمیت کے حوالے سے دونوں آیات کا موازنہ کیجیے! پہلی آیت میں چار فعل امر آئے تھے : اِرْکَعُوْا‘ وَاسْجُدُوْا‘ وَاعْبُدُوْا اور وَافْعَلُوا ‘ اور اس دوسری آیت میں جو حجم کے اعتبار سے بہت طویل ہے صرف ایک فعل امر آ رہا ہے وَ جَاہِدُوۡا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ؕ معلوم ہوا کہ جہاد کا معاملہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے. پوری آیت جہاد اور اس کی غرض و غایت ہی کے بیان پر مشتمل ہے.
فرمایا ’’جہاد کرو اللہ کے لیے‘‘ ’’فِی اللّٰہِ‘‘ دراصل ’’فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ‘‘ کا مخفف ہے. مراد ہے اللہ کی راہ میں ’’in the cause of Allah‘‘ یایوں کہیے: ’’for the cause of Allah‘‘ اس کے لیے محنتیں کرو‘ جدوجہد کرو‘ کوششیں کرو. کشمکش‘ تصادم اور مجاہدہ اس میدان میں ہونا چاہیے. یہ تمہارے ایمان کا چوتھا بنیادی تقاضا ہے.