چنانچہ ذرا چشم تصور سے دیکھئے! حجۃ الوداع کا موقع ہے‘ عرفات کا میدان ہے‘ حضورﷺ نے اپنے اس آخری حج میں متعدد خطبے ارشاد فرمائے‘ عرفات کے میدان میں بھی اور منیٰ کی وادی میں بھی. تیئیس برس کی محنت شاقہ کا حاصل‘ ایک لاکھ سے زائد افراد کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا ایک سمندر ہے. عرب کے کونے کونے سے کھنچ کر آئے ہوئے لوگ جمع ہیں. حضورﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے ہیں جس کے آغاز ہی میں آپؐ یہ فرما کر لوگوں کو چونکا دیتے ہیں کہ لوگو! شاید دوبارہ اس مقام پر ملاقات نہ ہو! گویا اشارہ دے دیا گیا کہ یہ الوداعی خطبہ ہے‘ آخری باتیں ہیں جو حضورﷺ ارشاد فرما رہے ہیں.
اسی خطبے میں وہ الفاظ بھی آئے جن کا حوالہ سورۃ الحجرات کے درس کے ضمن میں دیا جا چکا ہے. آپﷺ نے اپنی تعلیمات کا ملخص‘ لب لباب اور اہم نکات کو بتکرار و اعادہ بیان فرمایا کہ کسی انسان کو کسی دوسرے انسان پر کوئی فضیلت نہیں. عورتوں اور غلاموں کے حقوق کی طرف آپؐ نے انتہائی تاکیدی انداز میں توجہ دلائی. بڑا مفصل خطبہ ہے جسے پورا نقل کرنا یہاں پیشِ نظر نہیں ہے. خطبے کے اخیر میں آپؐ پورے مجمع سے ایک سوال کرتے ہیں: اَلَا ھَلْ بَلَّغْتُ؟ لوگو‘ کیا میں نے پہنچا دیا ہے؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عام معمول یہ تھا کہ حضورﷺ جب بھی بغرضِ تعلیم ان سے کوئی سوال کرتے تھے تو صحابہؓ بالعموم اوّلاً اس کے جواب میں کہتے تھے اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ (یعنی اللہ اور اُس کے رسولؐ بہتر جانتے ہیں)پھر جب آپؐ دوبارہ یا سہ بارہ سوال کرتے تب وہ اپنی سمجھ کے مطابق مختصر سا جواب دیتے تھے.
لیکن اس موقع پر ہم دیکھتے ہیں کہ خلافِ معمول اس ایک سوال کا مفصل جواب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بیک زبان دیا کہ ’’اِنَّا نَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ وَاَدَّیْتَ وَنَصَحْتَ‘‘ (۱) بلکہ ایک (۱) صحیح مسلم‘ کتاب الحج‘ باب حجۃ النبیﷺ روایت میں مزید تفصیل وارد ہوئی : ’’اِنَّا نَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ الرِّسَالَۃَ وَاَدَّیْتَ الْاَمَانَۃَ وَنَصَحْتَ الْاُمَّۃَ وَکَشَفْتَ الْغُمَّۃَ‘‘ کہ اے نبیﷺ !ہم گواہ ہیں کہ آپؐ نے حق امانت ادا کر دیا‘ آپؐ نے حق تبلیغ ادا کر دیا‘ آپؐ نے حق نصح و خیر خواہی ادا کر دیا‘ آپؐ نے گمراہی کے پردوں کوچاک کر دیا اور ہدایت کا سراجِ منیر اور خورشیدِ تاباں آپؐ کی کوششوں کے نتیجے میں اس وقت نصف النہار پر چمک رہا ہے حضورﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے یہ گواہی تین مرتبہ لی. پھر آپؐ نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور تین مرتبہ زبان سے یہ الفاظ ادا فرمائے : ’’اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ‘ اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ‘ اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ‘‘. تفصیل یہاں تک آتی ہے کہ آپؐ نے اپنی انگشت شہادت سے پہلے اشارہ فرمایا آسمان کی طرف‘ پھر لوگوں کی طرف‘ زبان پر یہ الفاظ جاری تھے: ’’اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ‘‘. کہ اے اللہ! تو بھی گواہ رہ. اے اللہ! توبھی گواہ رہ. اے اللہ تو بھی گواہ رہ کہ میں آج سبکدوش ہو گیا. میری ذمہ داری ختم ہوگئی. تیری ایک امانت مجھ تک پہنچی تھی بواسطہ جبریل. پیغام تھا نوعِ انسانی کے لیے. میری حیثیت امین کی تھی‘ میں نے وہ ذمہ داری ادا کر دی. میں نے وہ پیغام لوگوں تک پہنچا دیا اور ان سے گواہی لے لی ہے کہ میں نے احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کا حق ادا کر دیاہے.