فرد اور معاشرے میں انقلاب کا لائحۂ عمل


اب آپ ان چاروں اصطلاحات کو ایک مرتبہ پھر اپنے ذہن کے سامنے لایئے : (۱
یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ (۲وَیُزَکِّیْہِمْ (۳وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ (۴وَالْحِکْمَۃَ اور دیکھئے کہ انقلاب کے عمل میں ان کو بتدریج کیسے بروئے کار لایا جا سکتا ہے. مثال کے طور پر آپ کا کوئی عزیز‘ کوئی نوجوان ہے جو آپ کو محبوب ہے اور آپ پورے خلوص کے ساتھ چاہتے ہیں کہ وہ دین کی طرف آئے‘ یا یوں تعبیر کیجیے کہ اس میں دینی انقلاب برپا ہو جائے. اس کی کچھ عادات اور دلچسپیاں ایسی ہیں کہ جو آپ کی نظر میں کھٹکتی ہیں‘ اس کے صبح و شام کا رنگ کچھ بدل گیا ہے. آپ اس کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اس کے فکر اور ذہن کا جائزہ لیجیے کہ کہیں اس کے ذہن میں کوئی ’’برٹینڈ رسل‘‘ تو نہیں ہے‘ وہاں کوئی ’’ساخت‘‘ اور اس کا فلسفہ موجودیت تو مسلط نہیں ہے‘ کہیں کسی ’’فرائیڈ‘‘ کے نظریات نے تو اس پر تسلط حاصل نہیں کر لیا‘ کہیں کسی اور کا نظریہ تو نہیں ہے کہ جو اس کے ذہن اور دل میں مستولی ہو گیا ہو. اگر آپ یہ تجزیہ نہیں کر سکتے اور اس کا مداوا نہیں کر سکتے‘ آیاتِ قرآنیہ کے ذریعے سے اس کے دل میں نور ایمان‘ اللہ کا یقین‘ آخرت کا یقین‘ جنت و دوزخ کا یقین اور وحی اور رسالت کایقین پیدا نہیں کر سکتے‘ تو جان لیجیے کہ آپ کی وہ ساری خواہش دھری رہ جائے گی اور اس کے اندر کوئی تبدیلی برپا نہ ہو سکے گی. وہ اگر سعادت مند ہے تو آپ کے سامنے چپ ہو جائے گا‘ گردن جھکا دے گا. ہو سکتا ہے آپ کے دباؤ کے تحت‘ جہاں آپ کے سامنے ہو‘ نماز بھی پڑھ لے‘ لیکن اس کی فکر کچھ اور ہے‘ اس کی سوچ کچھ اور ہے ؎

گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لا الٰہ الا اللہ!

اس کی فکر اور اس کی سوچ پر تو کچھ اور چیزوں کا تسلط ہو چکا ہے‘ جن میں کہیں نماز یا روزے کی گنجائش ہی نہیں.
اوامر و نواہی اور حلال وحرام کی بنیاد یہ ہے کہ کوئی صاحبِ ایمان ہو‘ وہ وحی و رسالت اور کتاب کو مانتا ہو‘ اگر وہ بنیاد ہی موجود نہ ہو تو کیا حلال اور کیا حرام؟ اس کے ذہن میں کس چیز کے بارے میں فرض کا تصور قائم ہو گا اور کس چیز کو وہ ممنوع اور حرام سمجھے گا؟ یہ ساری چیزیں اس وقت تک بے بنیاد 
ہیں جب تک ایمان دل کے اندر پیدا نہ ہو جائے. یہی ایک واحد راہِ عمل ہے کسی شخص کو بدلنے کی. اور یہ بات عرض کی جا چکی ہے کہ اس سارے عمل کا مرکز و محور قرآن حکیم ہے. اگر ’’ تلاوتِ آیات‘‘ کے ذریعے اس میں ذہن و فکر کی تبدیلی آتی ہے تو اس کی بری عادتیں خود بخود بدل جائیں گی اور سب بری لتوں سے وہ خود بخود آزاد ہوتا چلا جائے گا اور اب آپ کو ایک ایک چیز کے لیے علیحدہ علیحدہ دردِ سر مو لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی. جب وہ جڑیں کٹ جائیں گی جن سے ان عاداتِ فاسدہ کے پتوں کو فاسد غذا باہم پہنچ رہی تھی تو وہ خود بخود خشک ہو کر گر پڑیں گے. اب وہ وقت آئے گا کہ آپ اسے بتائیں کہ یہ ہے دین کا حکم‘ اور وہ اس پر عمل پیرا ہو جائے گا. اور یہ عمل مصنوعی نہیں ہو گا‘ بلکہ فطری ہو گا. اس کے بعد اگر اس میں استعداد ہے تو اسے مرتبۂ حکمت تک پہنچایئے. یہاں پہنچ کر اس کی شخصیت کو دین کے بارے میں ٹھہراؤ‘ تمکن اور دوام حاصل ہو گا. اس کے کیا ہی کہنے ہیں! ظاہر بات ہے کہ حکمت کا یہ مقام کچھ نرالا ہی مقام ہے. یہاں انسان گویا کہ اپنی بصیرتِ باطنی سے دیکھ رہا ہوتا ہے کہ حق یہی ہے. یہ اس کا ذاتی تجربہ بن جاتا ہے . وہ جان لیتا ہے کہ دین میں کیا مقدم ہے‘ کیا مؤخر ہے. کس چیز کی حیثیت جڑ کی ہے اور کس کی فرع کی. اب وہ اندھے کی طرح ٹامک ٹویئے نہیں مار رہا ہوتا‘ بلکہ وہ دین کی تمام اقدار کو ان کے صحیح مقام پر صحیح توازن و اعتدال کے ساتھ برقرار رکھتا ہے. یہ ہے مرتبۂ حکمت‘ کہ جس کو عطا ہو گیا اسے خیر کثیر عطا ہو گئی.

اب یہاں ایک اور بات سمجھ لیجیے تو یہ مضمون مکمل ہو جائے گا.جس طرح کا معاملہ ایک فرد نوعِ بشر کا ہے بالکل اسی طرح ایک قوم یا اجتماعیت کے تحت زندگی بسر کرنے والے ایک مجموعۂ افراد کا ہے. ایک ہیئت اجتماعیہ سے منسلک ہونے والے افراد بھی مجموعی طور پر ایک فرد 
(individual) ہی کی طرح کا رویہ رکھتے ہیں. اور جس طرح ایک فرد کے وجود میں دماغ قوتِ فیصلہ کا حامل ہوتا ہے اور پورے وجود پر اثر انداز ہوتا ہے اسی طرح ایک ہیئت اجتماعیہ میں ایک ’’ذہین اقلیت‘‘ اس پورے مجموعۂ افراد پر اثر انداز ہوتی ہے. آپ کو معلوم ہے کہ دماغ میں پکڑنے کی طاقت نہیں ہے‘ یہ طاقت ہاتھ میں ہے ‘ لیکن پکڑنے کا حکم اسے دماغ سے ملتا ہے. ہاتھ کیا پکڑے اور کیا نہ پکڑے‘ اس کا فیصلہ بھی دماغ کرتا ہے. اسی طرح پاؤں چل سکتے ہیں‘ لیکن چلیں نہ چلیں ‘ اور اگر چلیں تو کدھر جائیں کدھر نہ جائیں‘ اس کا فیصلہ دماغ کرے گا. نوعِ انسانی کے ایک فرد میں ہاتھ پاؤں اور دیگر اعضاء و جوارح ہیں‘ لیکن ان سب کو دماغ کنٹرول کر رہا ہوتا ہے. گویا کہ انسان کے دو ڈھائی من کے وجود میں پاؤ ڈیڑھ پاؤ کے دماغ کو ایک حکمران کی حیثیت حاصل ہوتی ہے.بالکل اسی طریقے سے جان لیجیے کہ کسی قوم‘ کسی معاشرے‘ کسی سوسائٹی‘ کسی کمیونٹی یا کسی ہیئت اجتماعیہ میں جو ایک ذہین اقلیت(intellectual minority) یا intelligentsia ہوتی ہے‘ جسے آپ brain trust سے تعبیر کر سکتے ہیں‘ اس پوری ہیئت اجتماعیہ کو کنٹرول کر رہا ہوتا ہے. اس طبقہ کے لوگ اگرچہ تعداد میں بہت کم ہوتے ہیں‘ لیکن یہ اپنے معاشرے ‘ اپنی قوم اور اپنے ملک میں بالکل اسی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کہ جو اہمیت ایک فردِ بشر میں اس کے اپنے دماغ کو حاصل ہے. یہ سوچتے ہیں اور معاشرے کے رخ کا تعین کرتے ہیں. باقی عوام الناس اعضاء و جوارح کی مانند ہیں. جدھر یہ رخ کر لیں گے پورا معاشرہ اُدھر رخ کرلے گا‘ بالکل اسی طرح جیسے دماغ کے فیصلے کے تحت پاؤں چلتے اور ہاتھ حرکت کرتے ہیں.

آپ کسی بھی معاشرے میں تبدیلی برپا کرنا چاہتے ہیں‘ کسی قوم یا ہیئت اجتماعیہ کو اسلام کے حق میں بدلنا چاہتے ہیں یا یوں کہیے کہ کسی جگہ پر بھی آپ اسلامی انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے نبی اکرم کے طریق انقلاب پر اساسی منہاج یہی ہو گا کہ پہلے اس ذہین اقلیت کو تبدیل کیجیے. اگر اس کو آپ اسلام کے حق میں 
convert کر لیں اور اس میں ایمان و یقین کی روشنی پیدا ہو جائے تو اس طرح اس حلقے اور طبقے میں ایک ایسا مضبوط نیوکلیس پیدا ہو جائے گا جس نے دین کی بنیادی اقدار کو علی وجہ البصیرت قبول کیا ہو گا‘ نہ کہ محض اعتقادی طور پر صرف ایک ’’dogma‘‘ کی حیثیت سے. چنانچہ اس ذہین اقلیت اور brain trust کے تبدیلی قبول کرنے سے مجموعی طور پرپور امعاشرہ تبدیلی قبول کر لے گا. ورنہ آپ عوام میں وعظ و نصیحت کرتے رہیے تو اگرچہ اس سے عوام الناس کے اندر ایک رجوع عام بھی ہو جائے‘ تبدیلی برپا نہیں ہو گی.

اس بات کو سمجھنے کے لیے اس چھوٹی سی مثال پر غور کر لیجیے کہ ہمارے ہاں کسی زمانے میں ترقی پسند ادیبوں نے بعض اصطلاحات کا استعمال شروع کیا اور آج وہ اصطلاحات ہمارے معاشرے کے نچلے طبقات تک پہنچ گئی ہیں. ’’استحصال‘‘ جیسا بھاری بھرکم لفظ آج کسی تانگے بان اور کسی ریڑھی چلانے والے کی زبان پر آپ کے سننے میں آئے گا‘ اس لیے کہ یہ عمل ان لوگوں سے چلا تھا جو اس ملک کے اندر غور و فکر کرنے والے اور سوچ بچار کرنے والے لوگ تھے. اس ’’ذہین اقلیت‘‘ نے ایک فلسفے کو قبول کیا تھا اور پھر وہ فلسفہ اس معاشرے کے اندر سرایت کرتا چلاگیا. آپ کسی پارٹی کو تو 
ban کر سکتے ہیں‘ لیکن فکر پر کوئی قدغنیں عائد نہیں کی جا سکتیں‘ فکر کے لیے کسی پاسپورٹ اور ویزا کی ضرورت نہیں ہوتی. وہ خود بخود پھیلتا ہے اور کسی ملک یا کسی معاشرے میں اس کو قید و بند میں ڈالنا ممکن نہیں ہے. اس وقت کی دنیا میں جبکہ فاصلے معدوم ہو گئے ہیں آپ کسی ملک یا خطۂ زمین کو محفوظ خطہ بنا کر نہیں رکھ سکتے کہ یہ فکر وہاں نہ آنے پائے. اصل معاملہ فکر ہی کا ہے. اگر فکر بدلے گا‘ سوچ بدلے گی‘ تو انسان بدلے گا. انسان کی انفرادی تبدیلی کے لیے بھی فکر کی تبدیلی لازمی ہے اور کسی معاشرے میں انقلاب برپا کرنے کے لیے بھی فکر کی تبدیلی ناگزیر ہے. اسلامی انقلاب کے لیے فکری بنیاد بھی قرآن حکیم سے مہیا ہوتی ہے اور اس کا پورا اساسی منہاج بھی قرآن حکیم ہی پر مبنی ہے:

یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ 
چوں بجا در رفت جاں دیگر شود
جاں چو دیگر شد جہاں دیگر شود

اس ضمن میں بعض لوگوں کو مغالطہ اور اشتباہ لاحق ہو سکتا ہے کہ کیا اتنا عظیم انقلاب اور اتنی بڑی تبدیلی صرف ایک کتاب کے بل پر پیدا ہو جائے گی؟ میں انہیں دعوت دوں گا کہ ذرا نگاہ دوڑایئے‘ ا س وقت اشتراکی نظام روئے ارضی کے کتنے بڑے حصے پر قائم ہے. پورے مشرقی یورپ‘ پورے شمالی ایشیا‘ بلکہ چین سمیت ایشیا کے اکثر و بیشتر حصے کے علاوہ دنیا کے کئی دور دراز ممالک میں یہ جو نظام قائم ہے اس کا سراغ لگایئے کہ یہ کس کانتیجہ ہے؟ یہ سب کارل مارکس کی کتاب داس کیپیٹل (Das Capital) اور اس کے فلسفے کا اثرہے کہ ذہنوں نے جس کو قبول کیا اور ان پر اس کی چھاپ قائم ہوئی. اور یہ انقلابات درحقیقت اسی کی بنیاد پر آئے ہیں. یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال نے مارکس کے بارے میں کہا تھا ؏ 
’’نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب‘‘

اس کی بغل میں ’’کتاب‘‘ تھی ‘ اور یہ بات کسی کو پسند ہو یاناپسند ہو‘ کوئی اسے غلط سمجھے یا صحیح‘ لیکن اس سے انکار ممکن نہیں کہ یہ سارے انقلابات درحقیقت اسی کتاب کا ایک ظہور اور اسی کتاب کا ایک بروز ہیں. تو ذرا سوچیے کہ ایک انسان کی کاوش‘ اس کی تصنیف کردہ ایک کتاب اگر دنیا میں اتنے وسیع و عریض پیمانے پر اتنے وسیع و عریض خطے میں انقلاب برپا کر سکتی ہے تو کیا کتاب اللہ دنیا میں انقلاب برپا نہیں کر سکتی؟ اس کے لیے شرط یہ ہے کہ اس کتاب کی طرف 
approach درست ہو‘ اس کتاب کو اس کا صحیح مقام دیا گیا ہو‘ اس کتاب سے واقعتا وہ کام لیا جائے کہ جس کے لیے وہ نازل کی گئی ہے‘ جس کے لیے محمدٌ رسول اللہ کی شان میں یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں: یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ جس کے ذریعے سے افراد بدلے‘ ان کے اندر انقلاب آیا اور پھر انہوں نے ساری انقلابی جدوجہد سے گزر کر انقلابِ محمد  کی عملی تکمیل فرما دی.

سورۃ الجمعہ کا عمود معین ہو جانے کے بعد اور اس کی مرکزی آیت کے مفہوم و معنی کو کسی حد تک سمجھ لینے کے بعد اب آیئے کہ اس کا آغاز سے تسلسل کے ساتھ مطالعہ شروع کریں. ہمیں اس کی ایک ایک آیت پر بھی اجمالاً غور کرنا ہے اور خاص طور پر ہر آیت کا اس سورۃ کے عمود اور مرکزی مضمون کے ساتھ جو ربط بنتا ہے اس کو سمجھنے کی کوشش بھی ناکام ہوتی ہے.