اس قسم کے بعض واقعات تو یقینا ہوئے لیکن ہجرتِ حبشہ کے بعد ان میں ایک نئی کیفیت کا اضافہ ہوا. اور وہ یہ کہ جب لوگوں نے یہ محسوس کیا کہ یہ بات کسی طریقے سے بھی رک نہیں رہی ‘ ہمارے تشدد کے نتیجے میں کوئی ایک شخص بھی اس نئے دین سے واپس نہیں لوٹا‘ تو انہوں نے ایک کام تو یہ کیا کہ لالچ کا پھندا پھینکا. ابوطالب کے پاس آئے کہ اگر تمہارا بھتیجا بادشاہی چاہتا ہے تو ہم اسے اپنا بادشاہ بنانے کو تیار ہیں‘ اگر اسے کچھ دولت کی خواہش ہے تو ہم اس کے قدموں میں دولت کا انبار لگا دیں گے‘ اگر اسے کسی جگہ نکاح کرنا ہو تو اشارہ کرے‘ عرب کے جس گھرانے میں وہ چاہے ہم شادی کرا دیں گے. ہم اس کا ہر مطالبہ ماننے کے لئے تیار ہیں لیکن کسی طریقے سے تم اس دعوت سے اسے روکو. ابو طالب نے حضورﷺ کو بلایا‘ ساری بات سامنے رکھی. حضورﷺکی عزیمت دیکھئے‘ آپﷺ نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ میرے داہنے ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند بھی رکھ دیں تب بھی میں اس دعوت سے باز نہیں آ سکتا.