غلبہ ٔدین حق کی تکمیل کے بعد بھی رسول اللہﷺ نے حج کے معاملے میں خصوصی حکمت عملی اختیار فرمائی. ۸ ھ میں جب حج کا موقع آیا تو آپؐ نے سابق انتظام کو برقرار رکھا. مشرکین کو نہ صرف یہ کہ حج کرنے کا پورا موقع دیا بلکہ حج کا پورا انتظام بھی انہی کے ہاتھوں میں رہنے دیا. اگلے سال یعنی ۹ھ کے حج میں ایک تبدیلی کی گئی. مشرکین کو بھی اگرچہ اہل ایمان کے ساتھ حج کرنے کی اجازت برقرار رکھی گئی ‘لیکن حج کے انتظامات کی ذمہ داری اب مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھی. اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حضورﷺ نے امیر الحج مقرر فرمایا تھا. چنانچہ آپؓ کی زیر امارت سن نو ہجری کا حج ادا ہوا.اسی موقع پر سورئہ براء ۃ (سورۃ التوبۃ)کی ابتدائی چھ آیات نازل ہوئیں جن میں مشرکین مکہ کو آخری الٹی میٹم دیا گیا تھا. ان آیات کے نزول سے قبل حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ قافلۂ حج لے کر روانہ ہو چکے تھے.
حضورﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ:کو بھیجا کہ میرے ذاتی نمائندے کی حیثیت سے اجتماع میں ان آیات کو پڑھ کر سنائو اور اللہ کی جانب سے مشرکین سے براء ت کا اعلان کر دو. حضرت علیؓ جب حضورﷺ کے حکم کی تعمیل میں حضرت ابوبکرؓ کے پاس پہنچے تو انہوں نے حضرت علیؓ سے جو پہلا سوال کیا وہ ہمارے لیے بظاہر بڑا عجیب ہے. لیکن اس کا ذکر یہاں اسی لیے کیا جا رہا ہے کہ یہ معلوم ہو جائے کہ حضورﷺ نے جو اجتماعی نظام تشکیل دیا تھا اس میں ڈسپلن کی اہمیت کس قدر تھی. حضرت علیؓ :کو دیکھتے ہی حضرت ابوبکرؓ نے پہلا سوال یہ کیا کہ : ’’اَمِیْرٌ اَوْ مَاْمُوْرٌ؟‘‘ (امیر بن کر آئے ہو یا بطورِ مامور آئے ہو؟) یعنی کیا حضورﷺ نے آپؓ کو قافلۂ حج کا امیر معین کر کے بھیجاہے یا امارت کی ذمہ داری بدستور مجھ پر ہے؟ حضرت علیؓ نے جواب دیا کہ امیر آپ ہی ہیں‘ میں مامور کی حیثیت سے آیا ہوں‘ تاہم بات صرف اتنی ہے کہ حضورﷺ کے ذاتی نمائندے کی حیثیت سے اس اجتماعِ حج میں یہ آیاتِ براء ۃمیں پڑھ کر سنائوں گا. اس خدمت پر مجھے نبی اکرمﷺ نے مامور فرمایا ہے.
بَرَآءَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖۤ اِلَی الَّذِیۡنَ عٰہَدۡتُّمۡ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ؕ﴿۱﴾ (التوبۃ ۱ )