اب اس آیت میں تیسری بات نوٹ کیجیے کہ وَ اَنۡفِقُوۡا مِمَّا جَعَلَکُمۡ میں لفظ ’’مِمَّا‘‘ مِنْ اور مَا سے بنا ہے‘ اور مِنْ یہاں تبعیضیہ ہے . اللہ کا یہ مطالبہ نہیں ہے کہ اپنا سارا مال لگا دو. اللہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ اپنے جسم اور جان کی ساری قوتیں اور صلاحیتیں ہماری راہ میں لگا دو‘ بلکہ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ جن جن چیزوں میں ہم نے تمہیں استخلاف عطا کیا ہے اس میں سے ہماری راہ میں لگاؤ. یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’کتنا؟‘‘ اس کا جواب سورۃ البقرۃ میں بایں الفاظ آیا ہے : وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ مَا ذَا یُنۡفِقُوۡنَ ۬ؕ قُلِ الۡعَفۡوَؕ (آیت ۲۱۹’’(اے نبی !) یہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کتنا خرچ کریں؟ کہہ دیجیے جو بھی تمہاری ضرورت سے زائد ہو‘‘. میں چاہتا ہوں کہ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ بندئہ مؤمن اگر اس تقاضے کو واقعتا کماحقہ ٗ ادا کرنا چاہتا ہے تو اس ضمن میں وہ کیا طرزِ عمل اختیار کرے! پہلے اپنی نیتوں کو صاف کیجیے‘ خالص کیجیے کہ جو بات سامنے آئے گی اس پر اگر دل گواہی دے گا کہ واقعتا صحیح ہے تو قبول کریں گے. میرے نزدیک یہاں مِنْ تبعیضیہ اس بات کو واضح کر رہا ہے کہ بندئہ مؤمن اپنے جان اور مال‘ اپنی صلاحیت ‘ قوت‘ اوقات اور اپنی ذہانت و فطانت میں سے صرف اتنا حصہ اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے وقف کرے جو اُن کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے لازم ہے‘ جسے آپ subsistence level کہتے ہیں‘ اور وہ بھی اس لیے کہ زندہ رہنا ہے تاکہ ہم کام جاری رکھ سکیں. زندگی برائے زندگی نہیں‘ زندگی بجائے خود مطلوب ومقصود نہیں ہے‘ مطلوب و مقصود تو اللہ ہے. لا مقصودَ الا اللّٰہ اور لا مطلوبَ الا اللّٰہ. لیکن زندگی کو برقرار رکھنا ہے کہ یہ اللہ کی عطا کردہ ایک نعمت ہے‘ اور اس لیے برقرار رکھنا ہے تاکہ اللہ کی راہ میں‘ اس کے دین کی اقامت اور سربلندی کے لیے‘ زمین پر اللہ تعالیٰ کی بادشاہت کو بالفعل قائم کرنے کے لیے مسلسل محنت اور جدوجہد کی جا سکے. سائیں عبدالرزاق صاحب کا یہ قول میں متعدد بار بیان کر چکا ہوں کہ ’’جو دم غافل سو دم کافر‘‘. یعنی جو وقت اللہ کی یاد سے غفلت میں بیت گیا وہ گویا حالت کفر میں گزر گیا. اسی طرح جو کچھ بھی ضرورت سے زائد ہے اسے جمع کرنا حقیقت کے اعتبار سے کفر اور ضلالت ہے . سورۃ الہمزۃ ابتدائی مکی دَور کی سورت ہے. اس میں فرمایا گیا : وَیۡلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِۣ ۙ﴿۱﴾الَّذِیۡ جَمَعَ مَالًا وَّ عَدَّدَہٗ ۙ﴿۲﴾یَحۡسَبُ اَنَّ مَالَہٗۤ اَخۡلَدَہٗ ۚ﴿۳﴾ یعنی تباہی ہے‘ ہلاکت ہے‘ بربادی ہے‘ وَیل ہے ان لوگوں کے لیے جو ایک طرف اس اخلاقی پستی میں مبتلا ہیں کہ لوگوں کی عیب چینی اور عیب جوئی کرتے ہیں‘ طنز و طعن کا کام کرتے ہیں اور دوسری طرف مال جمع کرتے ہیں اور اسے گنتے رہتے ہیں‘ اپنی مالی حیثیت کا جائزہ لیتے رہتے ہیں کہ آج کی بیلنس شیٹ کیا ہے اور اس سال ہمارے اثاثوں (assets) میں کتنا اضافہ ہوا.ان کے دل کی کلی اسی سے کھلتی ہے. وہ یوں محسوس کرتے ہیں شاید اسی مال کی بدولت انہیں خلد اور دوام حاصل ہو جائے گا. ان تین آیات میں ایک پوری انسانی شخصیت کا ہیولیٰ اور ایک پوری ذہنیت کا نقشہ پیش کر دیا گیا ہے.

مدنی قرآن میں انتہائی زمانے کی سورۃ التوبۃ کی آیات ۳۴۳۵ ملاحظہ کیجیے : 

وَ الَّذِیۡنَ یَکۡنِزُوۡنَ الذَّہَبَ وَ الۡفِضَّۃَ وَ لَا یُنۡفِقُوۡنَہَا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۙ فَبَشِّرۡہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿ۙ۳۴﴾یَّوۡمَ یُحۡمٰی عَلَیۡہَا فِیۡ نَارِ جَہَنَّمَ فَتُکۡوٰی بِہَا جِبَاہُہُمۡ وَ جُنُوۡبُہُمۡ وَ ظُہُوۡرُہُمۡ ؕ ہٰذَا مَا کَنَزۡتُمۡ لِاَنۡفُسِکُمۡ فَذُوۡقُوۡا مَا کُنۡتُمۡ تَکۡنِزُوۡنَ ﴿۳۵﴾ 
یعنی جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس مال کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کر رہے‘ (اے نبی !) انہیں بشارت دے دیجیے دردناک عذاب کی. (طنز کیا گیا ہے کہ انہیں بشارت دے دیجیے.) ایک دن آئے گا کہ یہی سونا چاندی جہنم کی دہکتی آگ میں تپا تپا کر اس سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور پہلوئوں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا. اور ان سے کہا جائے گا کہ یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا‘ لواَ ب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزہ چکھو!

تو 
مِمَّا میں مِنْ تبعیضیہ سمجھ کر آسانی سے نہیں گزر جانا چاہیے‘بلکہ یہ بڑا فکر انگیز مقام ہے. ہاں‘ آدمی کی ضروریات کتنی ہیں‘ یہ معاملہ ہر شخص پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے لیے اس کا تعین خود کر لے. یہ اس کی اپنی‘ assessment ہے. مختلف ذمہ داریوں کے ادا کرنے کے حوالے سے سب کی ضروریات برابر نہیں ہوتی. ایک چیز ایک شخص کے لیے تعیش (luxury) ہے‘ لیکن ہو سکتا ہے کہ دوسرے شخص کے لیے وہی چیز ضرورت (necessity) ہو.اس اعتبار سے کوئی لگا بندھا ضابطہ نہیں دیا جا سکتا. البتہ ہر شخص اپنا جائزہ لے لے کہ درحقیقت ان تمام چیزوں میں سے جو اللہ نے اسے عطا کی ہیں‘ اس قدر جتنا زندگی کے لیے‘ جسم اور جان کے تسلسل کو باقی رکھنے کے لیے اور اپنے اہل و عیال کے لیے ناگزیر ہے وہ تو اس کا صحیح اور جائز حق ہے‘ اس سے زائد جو کچھ ہے وہ اللہ کی راہ میں خرچ کر دے. جیسا کہ اقبال نے کہا تھا ؎

جو حرفِ قُلِ العَفْو میں پوشیدہ تھی اب تک
اس دَور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار!

واقعہ یہ ہے کہ دین کی بہت سی باتوں پر بہت گہرے اور دبیز پردے پڑ گئے ہیں. آپ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا وہ قول سن رکھا ہو گا کہ حَفِظْتُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ  وِعَائَیْنِ ... حضرت ابوہریرہؓ ‘کا انتقال سن ۵۷ یا ۵۸ ‘یازیادہ سے زیادہ ۵۹ ہجری میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ حکومت میں ہو گیا تھا. اس وقت بھی انقلابِ حال اس درجے ہو چکا تھا کہ فرماتے تھے: 

حَفِظْتُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ  وِعَائَیْنِ ‘ فَاَمَّا اَحَدُھُمَا فَبَثَثْتُہٗ فِیْکُمْ ‘ وَاَمَّا اْلآخَرُ فَلَوْ بَثَثْتُہٗ قُطِعَ ھٰذَا الْبُلْعُوْمُ (۱
’’میں نے اللہ کے رسول سے (علم کے) دو برتن حاصل کیے تھے. ان میں سے ایک کو تو میں نے تمہارے مابین خوب عام کیا ہے‘لیکن اگر دوسرے میں سے پھیلانا شروع کر دوں تو میری یہ گردن کاٹ دی جائے گی.‘‘

اس درجے انقلاب اُس وقت آ چکا تھا اور لوگوں کی سوچ میں اس قدر تبدیلی آ چکی تھی.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا ایک اور واقعہ بھی ہے کہ دِمشق کی جامع مسجد سے نکلے اور ناک صاف کر نے کی ضرورت پیش آئی تو رومی کٹان‘ جو بہت قیمتی کپڑا ہوتا تھا‘ اس کا رومال نکالا اور ناک صاف کر کے پھینک دیا اور پھر خود ہی کہنے لگے : اے ابوہریرہ! آج تمہارا حال یہ ہے‘ اور وہ دن بھی تھے جب تم پر فاقوں کی وجہ سے بے ہوشی طاری ہو جاتی تھی اور لوگ یہ سمجھتے تھے کہ شاید مرگی کا دورہ پڑا ہے 
(۱) صحیح البخاری‘ کتاب العلم‘ باب حفظ العلم. تو پاؤں رکھ کر تمہاری گردن دباتے تھے. اصحابِ صفہ کا دَور عسرت اور تنگ دستی کا دَور تھا. بعد میں فتوحات کے نتیجے میں دولت کی ریل پیل ہو گئی. ظاہر بات ہے کہ جب اس طور سے دنیا عام ہوئی تو پھر لوگوں کے اندازِ فکر میں بھی تبدیلی آ گئی. حضور نے فرمایا تھا: 

فَوَا اللّٰہِ لَا الْفَقْرَ اَخْشٰی عَلَیْکُمْ وَلٰـکِنْ اَخْشٰی عَلَیْکُمْ اَنْ تُبْسَطَ عَلَیْکُمُ الدُّنْیَا کَمَا بُسِطَتْ عَلٰی مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ فَتَنَافَسُوْھَا کَمَا تَنَافَسُوْھَا وَتُھْلَکَکُمْ کَمَا اَھْلَکَتْھُمْ (۲)
’’(اے مسلمانو!) پس اللہ کی قسم‘ مجھے تم پر فقر اور احتیاج کا کوئی اندیشہ نہیں ہے ‘ بلکہ مجھے تم پر اس بات کا خوف ہے کہ تم پر دنیا کشادہ کر دی جائے گی جیسے کہ تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کی گئی‘ پھر تم اس کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو گے جیسے کہ وہ لوگ کرتے رہے‘ پھر یہ تمہیں تباہ و برباد کر کے رکھ دے گی جیسے کہ اس نے ان لوگوں کو تباہ و برباد کیا.‘‘

فقر اور احتیاج میں تو اللہ یاد آتا ہے‘ اللہ کی طرف رجوع ہوتا ہے. رسول اللہ کو اندیشہ تھا تو اس کا کہ دنیا کے خزانے تمہارے قدموں میں آئیں گے اور پھر تم اس دنیا کی وجہ سے ایک دوسرے کی گردنیں کاٹو گے اور نتیجتاً تباہ و برباد ہو جائو گے.