اب اس کے بعد اگر دلوں کو ٹٹولیں اور محسوس ہو کہ واقعتا وہ حقیقی ایمان تو موجود نہیں ہے‘ تو سوال ہے کہ کہاں جائیں؟ ع’’کس طرف جائوں‘ کدھر دیکھوں‘ کسے آواز دوں؟‘‘ وہ کون سا بازار ہے جہاں سے ایمان کی جنس گراں مایہ ملتی ہے؟اس کی طرف بھی اشارہ کر دیا: ہُوَ الَّذِیۡ یُنَزِّلُ عَلٰی عَبۡدِہٖۤ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ لِّیُخۡرِجَکُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ؕ ’’وہی تو ہے (اللہ) جو نازل فرما رہا ہے اپنے بندے پر روشن آیات تاکہ تمہیں نکال لائے اندھیروں سے روشنی کی طرف‘‘.یہاں دیکھئے ‘بجائے ’’رسول‘‘ کے ’’عبد‘‘ کا لفظ آیا ہے. یہ میں نے بارہا عرض کیا ہے‘ اس وقت صرف اشارہ کر رہا ہوں کہ جہاں بھی اللہ کا اپنے رسول ﷺ کے لیے شفقت اور عنایت خصوصی کا انداز ہوتا ہے وہاں نسبت رسالت کی بجائے نسبت عبدیت کو نمایاں کیا جاتا ہے. جیسے سورئہ بنی اسرائیل کے آغاز میں فرمایا: سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا اور سورۃ الکہف کا آغاز ہوا ان الفاظ مبارکہ سے: اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلٰی عَبۡدِہِ الۡکِتٰبَ وَ لَمۡ یَجۡعَلۡ لَّہٗ عِوَجًا ؕ﴿ٜ۱﴾ وہی انداز یہ ہے : ہُوَ الَّذِیۡ یُنَزِّلُ عَلٰی عَبۡدِہٖۤ لیکن یہ سمجھ لیجیے کہ ’’عبد‘‘ (بندہ) اور چیز ہے اور ’’عبدہٗ‘‘ (اُس کا بندہ) اور چیز ہے. بقول اقبال ؎ عبد دیگر عبدہٗ چیزے دگر
ما سراپا انتظار او منتظر!
کہنے کو تو ہم بھی کہتے ہیں کہ ہم اُس کے بندے ہیں‘ نام بھی عبد اللہ رکھ لیتے ہیں‘ لیکن عبدیت کا حق ادا کرنا آسان کام نہیں ہے . تو فرمایا : ہُوَ الَّذِیۡ یُنَزِّلُ عَلٰی عَبۡدِہٖۤ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ وہی ہے جو نازل فرما رہا ہے اپنے بندے (ﷺ ) پر وہ آیات جو بین ہیں‘ روشن ہیں. بین اس شے کو کہتے ہیں جو از خود واضح اوراز خود روشن ہو‘ اسے کسی اور وضاحت کی ضرورت نہ ہو‘ اسے کسی دلیل خارجی کی حاجت نہ ہو .جیسے ہم کہتے ہیں ع’’آفتاب آمد دلیل آفتاب!‘‘ یعنی سورج طلو ع ہو گیا تو اب سورج کے وجود کے ثبوت کے لیے کسی اور دلیل کی ضر ورت نہیں ہے. وہ تو خود اپنے وجود پر سب سے بڑی برہان اور دلیل قاطع ہے. قرآن مجید اپنی آیات کے لیے اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ (روشن اور بین آیات) کی ترکیب استعمال کرتا ہے. سورۃ التغابن میں تو قرآن حکیم کے لیے لفظ ہی ’’نور‘‘ آیا ہے: فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ النُّوۡرِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلۡنَا ؕ ’’پس ایمان لائو اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس نور پر جو ہم نے نازل فرمایا‘‘. یہ از خود نور ہے اور درحقیقت اسی سے نورِ ایمان پیدا ہوتا ہے. یہ نورِ وحی‘ نورِ فطرت کے ساتھ مل کر نورِ ایمان پیدا کرتا ہے. ہمارے اس منتخب نصاب کے حصہ دوم میں سورۃ النور کی آیات کے ضمن میں یہ بحث تفصیل سے آئی ہے کہ نُوۡرٌ عَلٰی نُوۡرٍ ؕ میں ایک نورِ فطرت ہے اور ایک نورِ وحی‘ ان دونوں کے امتزاج سے نورِ ایمان وجود میں آتا ہے.
یہ بات پہلے بیان ہو چکی ہے کہ قرآن مجید میں نور کا لفظ ہمیشہ واحد آتا ہے‘ جبکہ ’’ظلمات‘‘ ہمیشہ جمع کی صورت میں آتا ہے. چنانچہ سورۃ النور میں بھی الفاظ آئے ہیں : ظُلُمٰتٌۢ بَعۡضُہَا فَوۡقَ بَعۡضٍ (آیت۴۰) ’’اندھیرے ہیں تہہ بر تہہ‘‘.اس لیے کہ نور ایک بسیط حقیقت ہے اور تاریکی (darkness) کے بے شمار shades ہیں‘ مثلاً کفر‘ شرک‘ الحاد‘ انسانی حاکمیت کا تصور‘ مادہ پرستی‘ شہوت پرستی‘ دولت پرستی‘ شہرت پرستی‘ قوم پرستی‘ خود پرستی‘ نفس پرستی اور اس طرح کی بے شمار پرستشیں. یہ سب ظلمات ہی کے مختلف سائے ہیں‘ یہ تمام اندھیرے ہیں اور ان تمام اندھیروں سے نکال کر نورِ ایمان میں لانے والی شے قرآن حکیم کی آیاتِ بیّنات ہیں.
یہاں آیات کے باہمی ربط‘ ان کی ترتیب اور سیاق و سباق کے حوالے سے یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ جو ایمانِ حقیقی مطلوب ہے اس کا واحد منبع اور سرچشمہ قرآن حکیم ہے. ایمان کے دعوے داروں سے کہا جا رہا ہے کہ تمہارے دلوں میں حقیقی ایمان کیوں موجود نہیں ہے جب کہ یہ ایمان کا منبع و سرچشمہ موجود ہے؟ عین کنویں کے کنارے پر کھڑے ہوئے پیاسے کیوں ہو؟ اور اس کنویں کی نشان دہی ان الفاظ میں کر دی گئی: ہُوَ الَّذِیۡ یُنَزِّلُ عَلٰی عَبۡدِہٖۤ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ لِّیُخۡرِجَکُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ اس سے واضح ہو رہا ہے کہ ایمانِ حقیقی کا منبع اور سرچشمہ قرآن مجید ہے.
۱۹۹۱ء میں ’’حقیقت ِایمان‘‘ کے موضوع پر محاضرات میں میں نے نظری اعتبار سے یہ بات مانی تھی اور آج بھی مانتا ہوں کہ ایک وہ ایمان ہے جس کے لیے آج کی اصطلاح blind faith ہے. یہ ایمان بھی اگر یقین کے درجے کو پہنچ جائے گا تو اُس شخص متعلق کے لیے مفید ہو گا‘ مؤثر ہو گا. یہ blind faith انسان کو محض صحبت ِصالحہ سے بھی حاصل ہو جاتا ہے ‘جیسے آگ کے سامنے بیٹھیں گے تو آپ کو حرارت مل جائے گی‘ صاحب ِیقین کی صحبت ہو گی تو آپ کو یقین حاصل ہو جائے گا. اس میں آپ کے فہم اور شعور کا کوئی حصہ نہیں‘ یہ تو درحقیقت ایک طبعی عمل (physical phenomenon) ہے. اسی طرح ایک ایمان عمل سے بھی پیدا ہوتا ہے. آپ دین کے جملہ احکام پر عمل شروع کر دیجیے . فرض کیجیے کہ ایک شخص نسلی مسلمان ہے‘ ابھی ایمانِ حقیقی اسے حاصل نہیں ہے‘ لیکن جو بھی فرائض دینی ہیں ان کو بجا لا رہا ہے تو اس سے بھی یقینا ایک reflection ہو گی اور قلب میں یقین کی سی کیفیت پیدا ہوجائے گی. تو عمل سے اور صحبت ِصاحب ِایمان سے بھی ایمان پیدا ہوتا ہے. لیکن یہاں ایمان کا ذکر جس سیاق و سباق میں ہو رہا ہے وہ درحقیقت حکومت ِالٰہیہ کے قیام کے لیے شرط ِ اوّل ہے‘ یعنی انقلاب برپا کرنا اور اَفراد کو نہیں بلکہ نظام کو بدلنا ہے.
اس کے لیے ایک اصول ذہین نشین کر لیجیے کہ انسانی زندگی کے اجتماعی نظام میں معاشرہ ایک شخص واحد کی طرح behave کرتا ہے. ایک فرد کے اعضاء و جوارح کو کنٹرول کرنے والی شے اس کا دماغ ہے. ہاتھ کسی شے کو پکڑ سکتا ہے‘ اس میں یہ طاقت ہے‘ لیکن کس شے کو پکڑے اور کس کو نہ پکڑے‘ اس کا فیصلہ ہاتھ خود نہیں کر سکتا‘ بلکہ ذہن کرتا ہے. اسی طرح پائوں میں آپ کو لے کر چلنے کی صلاحیت ہے ‘ مگر وہ کدھر کو جائے‘ کدھر کو نہ جائے‘ اس کا فیصلہ پائوں خودنہیں کر سکتا ‘بلکہ ذہن کرتا ہے. اسی طرح ہر انسانی معاشرے میں ایک brain trust ہوتا ہے .یہ وہاں کی ذہین اقلیت(intelligentsia یا intellectual elite ) ہے جو brain trust کی حیثیت رکھتی ہے اور اس معاشرے کا رُخ معین کرتی ہے.
اگر یہ ’’ذہین اقلیت‘‘ دولت ِایمان سے محروم رہتی ہے اور آپ نے کچھ افراد کو اِدھر اُدھر ایمان کی دولت دے بھی دی‘ کچھ اصلاح ہو بھی گئی تو بھی معاشرہ بحیثیت مجموعی اس رُخ پر تبدیلی اختیار نہیں کرے گا جو آپ چاہتے ہیں. چنانچہ معاشرے کی بحیثیت مجموعی اصلاح کے لیے وہ ایمان درکار ہے جو علیٰ وجہ البصیرت ہو. جیسے کہ سورئہ یوسف میں حضورﷺ کو حکم دیا گیا: قُلۡ ہٰذِہٖ سَبِیۡلِیۡۤ اَدۡعُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ ۟ؔ عَلٰی بَصِیۡرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیۡ (آیت ۱۰۸) ’’کہہ دیجیے (اے نبیﷺ !) یہ ہے میرا راستہ ‘میں اللہ کی طرف بلا رہا ہوں ‘ میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی‘‘. میں اپنے راستے کی طرف علیٰ وجہ البصیرت بلا رہاہوں . میں اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں نہیں مار رہا ہوں‘ اور نہ صرف میں بلکہ وہ بھی جو میری پیروی کررہے ہیں علیٰ وجہ البصیرت میرا ساتھ دے رہے ہیں. تو دراصل ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ جو انقلاب برپا کرسکتے ہیں. ایسے ہی لوگ معاشرے کے brain trust کو transform کریں گے‘ اور جب اس کی قلب ماہیت ہو گی تو معاشرہ مجموعی طور پر تبدیلی قبول کرے گا ‘ورنہ نہیں کرے گا. اوراس شعوری ایمان کا منبع اورسرچشمہ صرف قرآن ہے. اس لیے کہ قرآن مجید ایک انسان کو ایک کل کی حیثیت سے‘ مجموعی حیثیت سے اپیل کرتا ہے. یہ انسان کے احساسات و جذبات کو بھی اپیل کرتا ہے اور اس کے تعقل و تفکر کو بھی. قرآن مجید بار بار تعقل و تفکر کی دعوت دیتا ہے: اَفَلَا تَتَفَکَّرُوۡنَ ﴿٪۵۰﴾ ’’کیا تم غور نہیں کرتے؟ (تمہیں کیا ہو گیا ہے؟)‘‘ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ ’’کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟‘‘ قرآن مجید میں بڑے سے بڑے فلسفی کے لیے بھی ہدایت موجود ہے اور ایک عام انسان کے لیے بھی اس میں ہدایت ہے. اس حوالے سے درحقیقت انقلاب کے لیے‘ حکومت ِالٰہیہ کے قیام کے لیے‘ معاشرے کو بدلنے کے لیے جو ایمان درکار ہے اُس کا واحد منبع اور سرچشمہ قرآن حکیم ہے.
اس سلسلۂ کلام میں بھی اسی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے بایں الفاظ : ہُوَ الَّذِیۡ یُنَزِّلُ عَلٰی عَبۡدِہٖۤ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ لِّیُخۡرِجَکُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ بِکُمۡ لَرَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۹﴾ ’’وہی ہے (اللہ تعالیٰ) جو اپنے بندے (محمدﷺ ) پر واضح آیات نازل فرماتا ہے‘ تاکہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لائے.اور یقینااللہ تمہارے حق میں رؤف بھی ہے‘ رحیم بھی ہے‘‘. یہ دونوں صفات رَئُ و ف اور رَحِیم اس سورئہ مبارکہ کی آیت ۲۷ میں ’’رأفـۃ‘‘ اور ’’رَحمۃ‘‘ کے الفاظ میں آئی ہیں: وَ جَعَلۡنَا فِیۡ قُلُوۡبِ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُ رَاۡفَۃً وَّ رَحۡمَۃً ’’اور جن لوگوں نے ان (عیسٰی ں) کی اتباع کی ان کے دلوں میں ہم نے نرم دلی اور رحم ڈال دیا‘‘.یہاں پر ذرا اچھی طرح جان لیجئے کہ لفظ ’’رَئُ و ف‘‘ قرآن مجید میں گیارہ مرتبہ آیا ہے اور ان میں سے نو مرتبہ لفظ ’’رَحِیْمٌ‘‘ ہی کے ساتھ جڑ کر آیا ہے. قرآن مجید میں کسی اور صفت کے ساتھ اس لفظ (رَئُ وْ فٌ) کی combination نہیں ہے‘ البتہ بعض مقامات پر تنہا آیا ہے‘ جیسے رَءُوۡفٌۢ بِالۡعِبَادِ ﴿۲۰۷﴾ (آل عمران) .یہ بھی نوٹ کر لیجئے کہ یہ دس مرتبہ تو اللہ تعالیٰ کے لیے آیا ہے اور ایک مرتبہ سورۃ التوبۃ کی آیت ۱۲۸ میں محمد رسول اللہﷺ کے لیے بایں الفاظ آیا ہے : بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۲۸﴾ ’’مؤمنوں پر نہایت مہربان اور رحم والا ہے.‘‘
’’رأفت‘‘ اور ’’رحمت‘‘ میں جو ایک نسبت اور رشتہ ہے اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے. اگرچہ ہم اللہ تعالیٰ کے لیے یہ لفظ استعمال کرتے ہوئے جھجک محسوس کریں گے کہ اللہ تمہارا ہمدرد ہے‘ یہ لفظ اللہ کے شایانِ شان نہیں ہے‘ لیکن رأفت کی اصل حقیقت ہمدردی ہی ہے. مشہور شعر ہے ؎ خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے!
ایک سلیم الفطرت انسان کے دل میں کسی کو تکلیف اور مصیبت میں دیکھ کر جو احساس ہوتا ہے اور وہ اس کے درد کو اپنے اندر محسوس کرتا ہے‘ اسی کو ہم رأفت یا ہمدردی کہتے ہیں. درحقیقت جس شخص کے اندر رأفت کا وصف ہو گا وہی اس مصیبت زدہ شخص کے لیے بھلائی کی کوشش کرے گا‘ اس کے لیے کوئی relief فراہم کرنے اور اسے کسی طریقے سے مصیبت سے نجات دلانے کی کوشش کرے گا .پہلے ایک احساس ہو گا تب اس کانتیجہ برآمد ہو گا. تو ’’رأفت‘‘ اصل میں وہ عکس ہے کہ جو کسی کے دکھ اور درد کو دیکھ کر باطن میں پڑتا ہے اور اس کا نتیجہ ’’رحمت‘‘ ہے. اس احساس کے نتیجے میں اب اس کے درد کو رفع کرنے کے لیے‘ اس کے مسئلہ اور مشکل کو حل کرنے کے لیے جو کوشش ہو گی وہ درحقیقت رحمت کا مظہر ہے . گویا ’’رأفت‘‘ اور ’’رحمت‘‘ کا تعلق باہمsensory اور motor کا سا ہے‘ جو کہ فزیالوجی کی اصطلاح ہے. کسی بھی معاملے میں پہلے sensation ہوتی ہے. اگر کسی چیونٹی نے آپ کے ہاتھ پر کاٹا ہے تو پہلے sensation کے ذریعے دماغ کو اس کی اطلاع ملی اور وہاں سے motor کے ذریعے حکم آیا تو آپ نے فوراً ہاتھ کھینچ لیا کہ یہاں تو کوئی چیز ہے جو تجھے تکلیف پہنچا رہی ہے. یہی معاملہ رأفت اور رحمت یا ر ئو ف اور رحیم کے مابین ہے. چنانچہ قرآن حکیم میں ہمیشہ لفظ رء وف لفظ رحیم سے پہلے آیا ہے. جیسے ہم نے ’’العزیز‘‘ اور ’’الحکیم‘‘ کی نسبت کو سمجھا تھا کہ ایک طرف اس کے پاس اختیار مطلق (authority) ہے‘ اس پر کوئیchecks and balances نہیں ہیں‘ دوسری طرف اس کی حکمت کامل ہے‘ اور اس کا اختیارِ مطلق اس کی حکمت کاملہ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ رئوف بھی ہے اور رحیم بھی .اپنی زبان میں ہم الفاظ استعمال کرسکتے ہیں کہ نہایت شفیق اور مہربان ہے.
اب یہاں جو بات قابل غور ہے وہ یہ کہ اللہ کی رحمت کا مظہراعظم اور مظہراَتم یہ قرآن ہے. سورۃ الرحمن کی پہلی چار آیات میں دراصل اسی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے. فرمایا: اَلرَّحۡمٰنُ ۙ﴿۱﴾عَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَ ؕ﴿۲﴾ ’’نہایت رحم والا ہے ‘جس نے قرآن سکھایا‘‘. اب دیکھئے ان میں کیا نسبت ہے! یہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی شانِ رحمانیت کا مظہر ہے کہ اس نے قرآن سکھایا . ’’رَحْمٰن‘‘ ’’فَعْلان‘‘ کے وزن پر اسم مبالغہ ہے کہ جس میں کوئی بھی کیفیت پورے جوش و خروش کے ساتھ ہوتی ہے‘ ایک طوفانی کیفیت ہوتی ہے. تو درحقیقت اللہ تعالیٰ کی رحمت کی طوفانی اور ہیجانی کیفیت کا مظہر اَتم یہ قرآن ہے. اس لیے کہ یہ ہدایت ہے اور رحمت ہے. اسی سے تمہاری عاقبت یعنی آخرت کی زندگی سنورے گی جو کہ اصل اور ابدی زندگی ہے. یہی نور ہے‘ یہی راستہ دکھانے والا ہے. جیسے کہ نبی اکرمﷺ سے ایک بہت ہی پیاری اور جامع دعا مروی ہے جس میں ہم کہتے ہیں :… وَاجْعَلْہُ لَنَا اِمَامًا وَّنُوْرًا وَّھُدًی وَّرَحْمَۃً کہ اے ہمارے پروردگار! اس قرآن مجید کو ہمارا امام بنا دے‘ اسے ہمارے لیے نور‘ ہدایت اور رحمت بنا دے.