اس مقام پر ایک خیال سا آتا ہے کہ اس فصیل میں دروازے کی کیا ضرورت ہوگی؟ لیکن آج مجھے اس پر انشراح ہوا ہے کہ یہاں دروازے کا تذکرہ کیوں ہے. یہ درحقیقت ہمارے اہل سنت کے ایک مجمع علیہ عقیدے کے لیے بنیاد ہے‘ جس کے لیے قرآن مجید میں اس کے علاوہ کہیں اور ذکر نہیں ہے .اہل سنت کا مجمع علیہ عقیدہ ہے کہ جس شخص کے دل میں ایمان کی کچھ رمق بھی ہو گی وہ اپنے گناہوں کی سزا پا کر بالآخر جہنم سے نکال لیا جائے گا .جہنم میں خلود صرف ان کے لیے ہے جن کے دلوں میں سرے سے ایمان کی کوئی رمق نہیں ہو گی.
جن غیر شعوری منافقین کا میں نے تذکرہ کیا ہے ان کے اور عام گناہگاروں کے مابین درحقیقت صرف ایک تعبیر کا فرق ہے ‘ ورنہ جو تضاد اُن کی زندگیوں میں ہے وہی تضاد اِن کی زندگیوں میں بھی ہے. اس بارے میں میں سائیں عبدالرزاق صاحب کا یہ قول سنایا کرتا ہوں :’’جو دم غافل سو دم کافر !‘‘اور ارشادِ الٰہی ہے : وَ مَنۡ لَّمۡ یَحۡکُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡکٰفِرُوۡنَ ﴿۴۴﴾ (المائدۃ)’’اور جس نے اس کے مطابق فیصلہ نہ کیا جو اللہ نے نازل کیا ہے سو وہی تو کافر ہیں‘‘. ہماری عدالتوں میں ہر روز نامعلوم کتنے فیصلے قرآن و سنت کے خلاف ہو رہے ہیں. پورے ملک اور پوری اُمت مسلمہ کی سطح پر جو فیصلے ہو رہے ہیں وہ سب کے سب اللہ کی شریعت کے خلاف ہو رہے ہیں. قرآن کے فتوے کے مطابق تو ہم سب کے سب کافر ہیں. لہٰذا غیر شعوری منافق اور گناہگار میں کوئی فرق نہیں ہے.چنانچہ ایک مرتبہ جو فصیل حائل کر دی جائے گی وہ ابدی نہیں ہے ‘بلکہ ان میں سے بھی جن کے اندر ایمان کی کچھ رمق ہو گی ان کو بہرحال وہاں سے نکلنا ہے. اس لیے یہاں پر صراحت کے ساتھ دروازے کا ذکر کیا گیا ہے ‘ورنہ واقعہ یہ ہے کہ اس کا کوئی اور محل نہیں ہے .جن لوگوں نے اس مقام پر زیادہ غور و فکر نہیں کیا وہ کہتے ہیں کہ اہل ایمان اُس دروازے کے ذریعے سے جنت میں داخل ہوں گے‘ حالانکہ اس مرحلے کی پوری تصویر جب سامنے آتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ فصل تو پہلے سے قائم ہو چکا ہو گا‘ کیونکہ جن کے پاس نور ہو گا وہ تو آگے نکل جائیں گے اور دوسرے انہیں پکارتے رہ جائیں گے کہ ذرا ٹھہرو ‘اور پھر ان کے مابین فصیل قائم کر دی جائے گی. فَضُرِبَ بَیْنَھُمْ میں ’’ف‘‘ تاکید کے لیے ہے.لہٰذا یہ دروازہ اہل جنت کے جنت میں داخلے کے لیے نہیں ہے ‘بلکہ درحقیقت یہ دروازہ اب آئندہ ان لوگوں کے لیے ہے جن کے دلوں میں ایمان کی کچھ نہ کچھ رمق اور روشنی ہو گی‘ لیکن وہ مجموعی طرزِ عمل کے اعتبارسے اس سزا کے مستحق ہو چکے ہوں گے. لہٰذا وہ اپنے گناہوں کے بقدر سزا پا کر باہر نکل آئیں گے. یہ اہل سنت کا اجتماعی عقیدہ ہے.
اب قرآن کریم میں کہیں اور اس کا تذکرہ کیوں نہیں ہے ‘اسے بھی سمجھ لینا چاہیے. دراصل بعض چیزیں عقلی اعتبار سے اتنی بلند ہوتی ہیں کہ عام لوگوں کے سامنے ان کو بیان کرنا اُن کے لیے فتنے کا سبب بن سکتا ہے‘ لہٰذا اعلیٰ ترین فلسفیانہ مسائل کو قرآن حکیم نے بہت ہی خفیہ اور فلسفیانہ انداز میں بیان کیا ہے کہ سمجھنے والا سمجھ جائے گا‘ عقلمند کے لیے اشارہ کافی ہوتا ہے ‘لیکن عام آدمی اس مقام پر سے یہ سمجھ کر گزر جائے گا کہ کوئی خاص بات نہیں ہے.اگر یہ بات بڑے اہتمام کے ساتھ آئی ہوتی تو عام آدمی بھی رک جاتا اور غور کرنے پر مجبور ہو جاتا‘ جبکہ اس کے اندر اس کی استعداد اور صلاحیت نہیں ہوتی. قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے‘ جس میں سب کے لیے راہنمائی موجود ہے اور اس میں سب کی ضروریات کا احاطہ کیا گیا ہے‘جبکہ دین کے بعض حقائق ایسے ہیں کہ ان کو زیادہ عام کر دیا جائے تو لوگوں میں بے عملی پیدا ہو جائے گی .ویسے تو یہ تصور کرنا بھی ہمارے لیے ممکن نہیں ہے کہ ایک لمحے کے لیے بھی جہنم کا داخلہ کس درجے شدائد اور مصائب کا ذریعہ بن جائے گا‘ لیکن اگر آدمی یہ سمجھ لے کہ ایمان کی کوئی رمق بھی ہوئی تو بالآخر جہنم سے نکل جائیں گے تو اس سے خواہ مخواہ اس کے اعصاب ڈھیلے پڑتے ہیں اور اس کے اندر عمل کا جذبہ کمزور پڑتاہے . لہٰذا یہ مضمون قرآن مجید میں شرح و بسط کے ساتھ نہیں آیا.اسی طرح سورۃ الفرقان میں ایک مقام ایسا آیا ہے کہ اس سے قرآن مجید میں عذابِ قبر کا ثبوت مل جاتا ہے‘ ورنہ قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ عذابِ قبر کا تذکرہ نہیں ہے. وہاں فرمایا گیا ہے : یُّضٰعَفۡ لَہُ الۡعَذَابُ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ِ (آیت ۶۹) ’’دوگنا کیا جائے گا اس کے لیے عذاب قیامت کے دن‘‘. معلوم ہوا کہ قیامت سے پہلے بھی عذاب کی کوئی شکل ہے‘ جب ہی تو وہ دوگنا کیا جائے گا.