یہ بالکل وہی نفسیاتی بات ہے جو میں حقیقت ِنفاق کے ضمن میں بار ہا بیان کر چکا ہوں کہ نفاق جب اپنی تیسری منزل کو پہنچتا ہے تو پھر ان مؤمنین صادقین سے بغض اور دشمنی ہو جاتی ہے جو دیوانہ وار جان و مال کھپا رہے ہوتے ہیں. منافقین یہ سوچتے ہیں کہ ان کے اس دیوانہ وار اپنی جان و مال کی بازی لگانے سے ہماری بزدلی اور ہمارا بخل نمایاں ہو رہا ہے. اگر پکار آتی اور سب بیٹھے رہتے‘ کوئی بھی جنبش نہ کرتا تو سب برابر تھے. سیرتِ طیبہ میں ایک موقع پر ایسا بھی ہوا ہے .صلح حدیبیہ کے موقع پر جب حضورﷺ نے فرمایا کہ اب صلح ہو گئی ہے‘ اس کی شرائط طے ہو گئی ہیں‘ اب اٹھو اور یہیں پر قربانیاں دے دو اور احرام کھول دو تو صحابہ کرام ث میں سے کوئی ایک بھی نہیں اٹھا. یہ تاریخ کا ایک عجیب واقعہ ہے اور میرے لیے تو تاحال ایک عقدہ ہے کہ حضرت ابوبکر ص کی بھی صراحت نہیں ہے کہ وہ بھی اٹھے ہوں.
کوئی بھی اپنی جگہ سے نہیں اٹھا تو آپؐ دل گرفتہ اور رنجیدہ ہو کر اپنے خیمے میں چلے گئے. وہاں حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا ساتھ تھیں جو بہت مدبر خاتون تھیں. حضورﷺ نے ان سے جا کر کہا کہ میں نے مسلمانوں سے تین دفعہ کہا ہے کہ اب اٹھو ‘احرام کھول دو اور قربانی دے دو‘ لیکن کوئی نہیں اٹھ رہا. انہوں نے مشورہ دیا کہ آپؐ انہیں کچھ نہ کہئے‘ بس آپ قربانی دے دیجیے اور اپنا احرام کھول دیجیے. جب آپؐ نے باہر آ کر یہ کام کیا تو سب کھڑے ہو گئے اور آپﷺ کی اتباع میں قربانی کے جانور ذبح کرنے لگے اور احرام کھولنے لگے.میری تاویل یہ ہے کہ وہ کچھ حالت ِمنتظرہ میں تھے کہ شاید ابھی کوئی نئی صورت پیدا ہوجائے‘ شاید اللہ ابھی ہمارا امتحان ہی لے رہا ہو! اس لیے ایک عجیب سی حالت منتظرہ طاری ہو گئی تھی کہ کوئی بھی نہیں اٹھا. لیکن اِس وقت یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ جب کوئی نہیں اٹھا تو سب برابر ہو گئے.اگر کچھ لوگ اٹھ جاتے اور کچھ بیٹھے رہ جاتے تو جو اٹھ گئے ہوتے اُن کا ایک مرتبہ واضح ہوجاتا کہ یہ نبیﷺ کی پکار پر فوراً لبیک کہنے والے ہیں اورجو بیٹھے رہ گئے وہ گویا کہ تربص و انتظار میں ہیں.
منافقین کو یہی غصہ آتا تھا کہ جب اللہ کی راہ میں نکلنے کا حکم آتا ہے‘ اِنۡفِرُوۡا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا (التوبۃ:۴۱) کی پکار آتی ہے تو یہ بے خوف و خطر نکل پڑتے ہیں. یہ کچھ سوچتے ہی نہیں‘ اپنا نفع و نقصان دیکھتے ہی نہیں‘ کوئی اندیشے‘ کوئی خطرات ان کے پائوں کی بیڑی نہیں بنتے. موسم کو نہیں دیکھ رہے کہ شدید ترین گرمی کا موسم ہے. یہ نہیں دیکھ رہے کہ شیر کے منہ میں جا رہے ہیں‘ سلطنت ِروما کے ساتھ ٹکر لے رہے ہیں ع ’’بازی بازی باریش بابا ہم بازی!‘‘ غزوئہ تبوک سے پہلے جو بھی جنگیں ہوئی تھیں وہ اندرونِ ملک ِعرب ہوئی تھیں‘ لیکن اب سلطنت ِروما کے ساتھ ٹکرائو تھا جس کی لاکھوں کیstanding armies تھیں. اور غزوئہ موتہ کے اندر بھی یہی ہواکہ تین ہزار گئے تھے جن کا ایک لاکھ سے ٹکرائو ہو گیا جبکہ ایک لاکھ فوج مزید موجود تھی. ایک رائے یہ بھی ہے کہ دو لاکھ کے ساتھ ٹکرائو ہوا تھا. بہرحال غزوئہ تبوک کے موقع پر جب نفیر عام آئی تو جن میں ایمانِ صادق تھا وہ نکل کھڑے ہوئے اور منافقین کا نفاق ظاہر ہو گیا. تو دراصل یہ حقیقت ہے کہ جو شخص خود بخل کرتا ہے وہ دوسروں کو بھی بخل کا مشورہ دے گا. جو خود آگے نہیں بڑھنا چاہتا وہ دوسروں کو بھی نہ صرف آگے بڑھنے کا مشورہ نہیںدے گابلکہ انہیں آگے بڑھنے سے روکے گا. سورۃ الاحزاب میں جنگ کے کام میں رکاوٹیں ڈالنے والے منافقین (اَلْمُعَوِّقِیْنَ) کا یہ قول نقل ہوا ہے کہ ھَلُمَّ اِلَیْنَا ’’آئو ہمارے پاس!‘‘ بس یہیں پر بیٹھے رہو! کہاں جا رہے ہو ؟ کیوں خطرات مول لیتے ہو؟ تو یہ ہے وہ بات کہ وہ خود بھی بخل سےکام لیتے ہیں اور لوگوں کو بھی بخل ہی کا مشورہ دیتے ہیں.