عراق کے ایک بادشاہ ملک مظفر ابوسعید نے‘ جو ایک بے دین عیش پرست انسان تھا‘ ۶۰۴ھ میں اپنے ایک ساتھی کے ساتھ مل کر اس رسم کو ایجاد کیا‘ جو ایک دنیا پسند کذاب مولوی تھا. بادشاہ نے اس مولوی کو ایک ہزار دینار انعام دیا‘ لہٰذا مولوی نے اس کے حق میں فتویٰ دے دیا. یہ بادشاہ ہر سال عید میلاد النبیؐ کے موقع پر تیس ہزار دینار خرچ کرتا‘ جس میں مولوی اور صوفی حضرات اپنا حصہ ڈال کر برابر اضافہ کرتے چلے آ رہے ہیں. لاہور میں دہلی دروازے کو میلاد چوک بنا دیا گیا‘ اکیس توپوں کی سلامی کا آغاز ہوا‘ اور جیسا کہ ہم سب دیکھ رہے ہیں ابھی تک مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے. آج ہمارے بچوں کے نصاب کی کتابوں میں تین عیدوں کا تذکرہ ملتا ہے‘ جبکہ احادیث ِ مبارکہ سے صرف دو عیدیں ثابت ہیں. اندھے عشق میں ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ۱۲ ربیع الاول نبی اکرم  کی وفات کا دن ہے‘ جبکہ پیدائش کے دن کے بارے میں تو اختلاف ہے. جس دن کو ہم نے عید کا نام دیا ہے سوچنے کی بات ہے کہ آپ  کے صحابہ کرام ؓ پر کیسی قیامت ٹوٹ پڑی تھی اس دن!

۱۲ ربیع الاول سے متعلق بدعات میں حلوے مانڈے پکا کر تقسیم کرنا‘ میلاد کی محفلیں سجانا‘ مساجد میں روشنی کرنا‘ جلوس نکالنا‘ سبیلیں لگانا اور بے شمار چیزیں شامل ہیں.