اب آئیے دیکھتے ہیں کہ یورپ میں مزید تین سو برس کے بعد یہود کو کیا کامیابیاںحاصل ہوئیں. جب انہوں نے عیسائیت میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کی تفریق پیدا کر دی تو پوپ کی حیثیت کیتھولک عیسائیت کے سربراہ کی رہی‘ لیکن پروٹسٹنٹ فرقہ آزاد خیالی کا علمبردار اور ’’حقوقِ انسانی‘‘ کا دعویدار بن گیا. چنانچہ آزادیٔ فکر‘ حریت ِ عمل اور مردوزن کی مساوات سب سے بڑے انسانی حقوق قرار پائے اور ان کا عالمگیر تصور اس انداز سے پیش کیا گیا کہ ہر شخص کو سوچنے سمجھنے اور اپنی سوچ کے مطابق عمل کرنے کی آزادی ہے. ایک شخص سڑک پر ننگا ہو کر پھرنا چاہے تو آپ کون ہوتے ہیں اسے روکنے والے؟ آپ اسے نہیں دیکھنا چاہتے تو اپنی آنکھیں بند کر لیجیے. اگر دو مرد اپنی جنسی تسکین آپس میں کرنا چاہتے ہیں تو یہ ان کا حق ہے‘ آپ کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے والے؟ باہمی رضا مندی سے اگر ایک مرد اور ایک عورت زنا کر رہے ہیں تو یہ کوئی جرم نہیں ہے. اگر کسی شخص کی بیوی کسی دوسرے مرد کے ساتھ حرام کاری میں ملوث ہو گئی ہے تو اسے اپنی بیوی کے خلاف اقدام کا کوئی حق نہیں پہنچتا. البتہ وہ عدالت سے رجوع کر سکتا ہے کہ میرے حقوق میں مداخلت ہو گئی ہے. یہ ایک دیوانی مقدمہ ہو گا‘ فوجداری مقدمہ نہیں ہو گا. اگر زانیہ اور زانی دونوں راضی ہیں تو پھر حکومت کو کوئی اعتراض نہیں. یہ ساری یہودی ذہن کی چالاکی ہے جس نے اس سارے معاشرے کو بدکردار بنا کر اسے اخلاقی اعتبار سے اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے. نتیجتاً وہاں پر خاندان کا ادارہ موجود ہی نہیں رہا. ہوس پرستی اس انتہا کو پہنچ گئی ہے کہ ماں‘ بیوی اور بیٹی میں کوئی فرق ہی نہیں رہا. یہ سب کچھ ایسے ہی تو نہیں ہو گیا. اس کے پیچھے یہود کا سازشی ذہن کارفرما ہے.
یہودیوں نے دوسری کامیابی یہ حاصل کی کہ وہاں پر سود کی اجازت حاصل کر لی اور سود کے ہتھکنڈے سے پورے یورپ کی معیشت پر چھا گئے. اور یاد رہے کہ یورپ کی معیشت پر چھا جانے والوں میں ایک یہ گولڈسمتھ کا خاندان ہے جس کی دامادی کی سعادت عمران خان کے حصے میں آئی ہے. یہ یہودی بینکرز کہ آج تمام یورپی حکومتیں جن کی مقروض ہیں‘ ان کا طریقہ واردات یہ تھا کہ سازش کر کے حکومتوں کو آپس میں لڑاتے ‘ پھر حکومتوں کو ہتھیار خریدنے کے لیے سرمائے کی ضرورت پڑتی تو انہیں قرض دیتے. اب جو قرض کے جال میں بندھ گئے ان سے جو چاہو کر والو. یہی حال اس وقت امریکہ کا ہے کہ وہ یہودی بینکرز کے شکنجے کے اندر کسا ہوا ہے. چنانچہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی مقروض حکومت امریکہ کی ہے. اور وہاں کے بینک ریاست کے تابع نہیں ہیں بلکہ آزاد اور خود مختار ہیں. جس طرح فرائڈ کے نزدیک ego کے اوپر super ego ہے ‘اسی طرح امریکہ میں State کے اوپر Super State کی حیثیت در حقیقت یہودی بینکرز کو حاصل ہے. بہر حال یورپ میں یہودیوں کو بہت بڑی کامیابی یہ حاصل ہوئی کہ انہوں نے وہاں کی معیشت پر اپنا تسلط قائم کر لیا. گویا ؏
فرنگ کی رگِ جاں پنجہ ٔیہود میں ہے! یہ بات علامہ اقبال نے اس صدی کے آغاز میں کہہ دی تھی جبکہ ہٹلر کو ابھی شاید اس کا احساس بھی نہیں ہوا تھا. اس وقت ’’ہالو کاسٹ‘‘ (Holocaust) زیر بحث نہیں ہے. اس سے قطع نظر کہ وہ کتنا صحیح تھا کتنا غلط‘ میں یہ بتانا چاہ رہا ہوں کہ جبکہ جرمنوں کو ابھی اس کا احساس اور شعور بھی نہیں تھا‘ ہمارے حکیم الامت شاعرمشرق نے اس حقیقت کا ادراک کر لیا تھا. اس لیے کہ علامہ صحیح معنوںمیں ’’شاعر‘‘ تھے اور شاعر وہ ہوتا ہے جس کا شعور بیدار ہو. اقبال کہتے ہیں ؎
گاہ مری نگاہِ تیز چیر گئی دلِ وجود
گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں
تو ان کی نگاہِ دور رس نے دلِ وجود کو چیر کر دیکھ لیا کہ ؏
فرنگ کی رگِ جاں پنجہ ٔیہود میں ہے!
اور یہ صرف اقبال ہی دیکھ سکتا تھا‘ کسی اور کے بس کا روگ نہیں تھا. اِس چھٹے دور میں انہوں نے آزاد خیال’’واسپ‘‘ (White Anglo Saxon Protestants ) کو اپنا آلہ ٔکاربنایا‘ جبکہ رومن کیتھو لکس یعنی پاپائے روم کے ساتھ اپنی وفاداری برقرار رکھنے والے پرانے عیسائی ان کے ہتھکنڈوں میں نہیں آئے. ’’واسپ‘‘ (WASP) کی اِس وقت دنیا میں تین بڑی حکومتیں ہیں: امریکہ‘ برطانیہ اور فرانس‘ اور یہی تین آپ کو ہر جگہ اکٹھے ملیں گے. ہر بین الاقوامی معاملہ میں ہمیشہ ان کا موقف ایک ہو گا. البتہ حال ہی میں ایک معجزہ ہوا ہے کہ یہ تینوں ایک ساتھ نہیں رہے. (۱) یہ چیز حالات و واقعات کی تبدبلی کی ایک علامت ہے. (۱) یہاں اشارہ اس اہم واقعے کی طرف ہے کہ حال (۱۹۹۵ئ) ہی میں اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے اسرائیل کی اس بنیاد پر مذمت کی ہے کہ اس نے عرب زمینوں پر قبضہ کیا ہے. یہودی دراصل ہیکل سلیمانی کے پورے علاقے کو گھیرے میں لے لینا چاہتے ہیں تاکہ وہ کسی بھی وقت اس میں کوئی تخریبی کارروائی کر سکیں. یہ بات غیر معمولی ہے کہ اسرائیل کی مذمت کی یہ قرار داد سکیورٹی کونسل میں تنہا امریکہ کو ویٹو کرنا پڑی ہے‘ فرانس اور برطانیہ نے بھی اس کا ساتھ نہیں دیا .