پھر جناب مسیح علیہ السلام کی شخصیت کو لیجیے. یہود کے نزدیک وہ مرتد ‘ کافر‘ جادو گر اور واجب القتل. اس موقف میں انہوں نے آج تک کوئی ترمیم نہیں کی. اگر آج کے یہودی اس سے اعلانِ براء ت کر لیتے تو بات اور تھی. اس صورت میں کہا جا سکتا تھا کہ اب ان کی ان نسلوں کو تو بہرحال ان کے اسلاف کے جرائم کی سزا نہیں دی جانی چاہیے. لیکن ان کا موقف بھی بعینہٖ یہی ہے کہ یسوع جادو گر تھا لہٰذا کافر تھا‘ اور چونکہ کافر تھا لہٰذا مرتد تھا اور مرتد واجب القتل ہے. یہ علماء یہود کا فتویٰ ہے. اس کے برعکس ہمارے نزدیک وہ اللہ کے رسول ہیں. قرآن مجید نے خود حضرت مسیح علیہ السلام کی زبانی آنجنابؑ کی کیا خوبصورت مدح بیان کی ہے: 

وَ السَّلٰمُ عَلَیَّ یَوۡمَ وُلِدۡتُّ وَ یَوۡمَ اَمُوۡتُ وَ یَوۡمَ اُبۡعَثُ حَیًّا ﴿۳۳﴾ذٰلِکَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ ۚ 
(مریم) 

’’اور سلام ہے مجھ پر جس روز میں پیدا ہوا اور جس روز میں مروں اور جس روز زندہ کر کے اٹھایا جائوں یہ ہے عیسیٰ ابن مریم.‘‘

حضرت مسیح علیہ السلام نے جبکہ وہ ابھی گود ہی میں تھے‘ لوگوں سے یہ گفتگو کی تھی. یہ ہمارا بھی عقیدہ ہے اور حضرت مسیح علیہ السلام کے پیروکاروں کا بھی. حضرت مسیح علیہ السلام کے عظیم ترین معجزات کو ہم بھی مانتے ہیں‘ وہ بھی مانتے ہیں. اس کے برعکس یہودی آپ علیہ السلام کے معجزات کو جادو گری قرار دیتے ہیں. لہٰذا مسیحیوں کو سوچنا چاہیے‘ غور کرنا چاہیے. انہوں نے کیوں آنکھیں بند کر لی 
ہیں‘ کیوں کان بند کر لیے ہیں؟ یہ کن کے آلہ ٔکار بن گئے ہیں؟ انہیں دوست اور دشمن کو پہچاننا چاہیے.