اب اس پس منظر میں سمجھئے کہ تورات ‘ انجیل اور زبور کا معاملہ اس کے برعکس ہے. تورات میں صرف احکام ہیں‘ اس میں حکمت کی تعلیم دی جا سکتی ہی نہیں تھی‘ کیونکہ اُس وقت نسل انسانی ذہنی اور فکری اعتبار سے ابھی عہد طفولیت میں تھی‘ لہٰذا تورات صرف ’’کتاب‘‘ ہے. زبور حمد کے ترانوں پر مشتمل ہے‘ یعنی اس میں آپ کو صرف ’’آیات‘‘ ملیں گی‘ جبکہ انجیل صرف ’’حکمت‘‘ ہے. قرآن مجید میں بھی حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں واضح الفاظ میں آیا ہے کہ :
وَ لَمَّا جَآءَ عِیۡسٰی بِالۡبَیِّنٰتِ قَالَ قَدۡ جِئۡتُکُمۡ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ لِاُبَیِّنَ لَکُمۡ بَعۡضَ الَّذِیۡ تَخۡتَلِفُوۡنَ فِیۡہِ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوۡنِ ﴿۶۳﴾ (الزخرف) ’’اور جب عیسیٰ( علیہ السلام ) صریح نشانیاں لیے ہوئے آیا تھا تو اس نے کہا تھا کہ’’میں تم لوگوں کے پاس حکمت لے کر آیا ہوں‘ اور اس لیے آیا ہوں کہ تم پر بعض ان باتوں کی حقیقت کھول دوں جن میں تم اختلاف کرر ہے ہو‘ لہٰذا اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو.‘‘
دیکھئے ‘ یہاں صرف ایک لفظ’’حکمت‘‘ آیا ہے کہ ’’میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا ہوں.