میں یہ بات بتکرار و اعادہ کہہ رہا ہوں کہ قرآن حکیم میں ’’آیات‘‘ بھی ہیں‘ یعنی دلائل و براہین بھی ہیں‘ اس میں حمد کے ترانے بھی ہیں‘ اس میں تزکیہ نفس کا سامان بھی ہے‘ اس میں کتاب یعنی احکام بھی ہیں‘ اور اس میں حکمت بھی ہے‘ لیکن انجیل صرف حکمت اور تورات صرف احکام پر مشتمل ہے. اصل میں اب یہ بھی بڑی مشکل ہے کہ ہم تورات کہیں کسے؟ آج جو پانچ کتابیں عہد نامہ قدیم(Old Testament) کی شمار ہوتی ہیں انہیں یہ لوگ ’’Five Books of Moses‘‘ توکہہ دیتے ہیں لیکن یہ ’’تورات ‘‘ نہیں ہیں. البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ تورات کسی حد تک ان پانچوں کتابوں کے اندر موجود ہے. اپنے زمانہ ٔطالب علمی میں مجھے اناجیل اربعہ‘ خاص طور سے متی کی انجیل سے بہت شغف ہو گیا تھا. اس میں شامل حضرت مسیح علیہ السلام کے ’’پہاڑی کے وعظ‘‘ (Sermon of the Mount) سے مجھے بہت ہی دلی مناسبت ہے. اُن دنوں میں ساہیوال میں تھا(جو اُس وقت منٹگمری کہلاتا تھا) وہاں عیسائی مشن کا بہت بڑا مرکز ہے. ایک روز میں نے وہاں جا کر پادری سے اناجیل کے بارے میں یہ سوال کیا کہ Which one of them is Bible? یعنی تمہاری چار انجیلوں(متی‘ مرقس‘ لوقا اور یوحنا) میں سے بائبل کون سی ہے؟ اس نے بڑا پیارا جواب دیا کہ (None of them is Bible; Bible is in them) یعنی ’’ان میں سے کوئی سی بھی بائبل نہیں ہے‘ بائبل ان میں ہے‘‘. اسی طرح عہد نامہ قدیم کی پانچ کتابوں میں سے کوئی سی بھی تورات نہیں ہے بلکہ تورات ان میں ہے. 

اس کی حقیقت اس طرح سمجھئے کہ نزولِ قرآن کے ابتدائی دور میں رسول اللہ  نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو احادیث لکھنے سے سختی سے منع کر دیا تھا اور فرمایا تھا کہ لَا تَکْتُبُوا عَنِّی غَیْرَ الْقُرآنِ (رواہ مسلم‘ عن ابی سعید الخدریؓ ) یعنی ’’مجھ سے قرآن کے سوا اور کچھ مت لکھو‘‘. اس لیے کہ اُس وقت قرآن اور حدیث کے باہم گڈمڈ ہو جانے کا امکان تھا. اگر اُس وقت حضور صحابہؓ کو اس سے منع نہ فرماتے اور بالفرض یہ صورت پیدا ہوجاتی کہ حضور  نے جو قرآن سنایا وہ بھی ایک صحابی ؓ نے اپنے پاس درج کر لیا‘ حضور  نے کوئی وعظ یا خطبہ ارشاد فرمایا تو اسے بھی نقل کر لیا‘ پھر سیرت کا کوئی واقعہ آیا تو اسے بھی ساتھ ہی نوٹ کر لیا‘ تو اس طرح ساری چیزیں باہم گڈمڈ ہو جاتیں. دین محمدی ؐ چونکہ آخری دین تھا اور قرآن کے بعد کوئی اور کتاب آنے والی نہیں تھی‘ لہٰذا اس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لیا اور یہ ہم پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل و کرم ہوا.

چنانچہ ’’قرآن‘‘ علیحدہ ہے جو ’’وحی باِللفظ‘‘ (Verbal Revelation) ہے‘ حدیث نبویؐ علیحدہ ہے اور سیرت کی کتابیں علیحدہ ہیں. اس طرح یہ تینوں categories ہمیشہ کے لیے علیحدہ علیحدہ ہیں. اگر کہیں خدا نخواستہ آپ آج بھی اس طرح کریں کہ تینوں کو گڈمڈ کر دیں‘مثال کے طور پر سورۃ الانفال میں جہاں غزوۂ بدر کا ذکر ہو رہا ہے وہاں آپ متن قرآنی کے ساتھ ہی سیرت ابن ہشام یا سیرت ابن اسحق سے اس غزوہ کے واقعات بھی درج کردیں اور اسی میں اس غزوہ سے متعلق حضور  کے اقوال بھی شامل کر دیں تو یہ ایک نئی شے وجود میں آ جائے گی. بعینہٖ یہی حقیقت عہد نامہ قدیم کی پانچ کتابوں کی ہے کہ ان میں تورات بھی ہے‘ حدیث موسوی بھی ہے‘ سیرتِ موسوی ؑبھی ہے اور تاریخ بنی اسرائیل بھی. ظاہر بات ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام قوم کو وہ چیز بھی پہنچا رہے تھے جو ان پر اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ‘ اپنی تقریریں اور وعظ و نصیحت بھی فرماتے تھے‘ پھر ان کی اپنی زندگی کے واقعات بھی تھے‘ یہ سب جمع ہو گئے. چنانچہ پانچوں کتابوں کے اندر یہ سب کچھ گڈمڈ ہے. اسی طرح اناجیل کے اندر بھی یہی چیزیں ہیں. حضرت مسیح علیہ السلام پر جو وحی ہو رہی تھی وہ بھی ان میں ہے‘ اور اس کے ساتھ حضرت مسیح علیہ السلام کے اپنے مواعظ اور آنجناب علیہ السلام کے حالاتِ زندگی بھی ان میں شامل ہیں. گویا کتاب اللہ+ حدیث نبوی+ سیرت+ تاریخ ‘یہ چار چیزیں جمع ہو کر حضرت مسیح علیہ السلام کے ضمن میں اناجیل اربعہ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ضمن میں تورات کی پانچ کتابیں بنتی ہیں. جبکہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کا احسان ہے کہ ہمارے ہاں یہ سب چیزیں علیحدہ علیحدہ ہیں. کتاب اللہ علیحدہ سے محفوظ ہے‘ حدیث نبوی  کے مجموعے الگ ہیں‘ سیرت الگ سے مرتب صورت میں موجود ہے اور تاریخ کی کتابیں علیحدہ ہیں.