نظریاتی پس منظر کے حوالے سے ایک عملی تجویز

تنظیم اسلامی کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ یہ ایک انقلابی جماعت ہے جو مسلکی و گروہی تعصبات سے بلند تر رہتے ہوئے نفاذِ دین کے لیے جدوجہد کر رہی ہے. دینی جماعتوں کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ ہر جماعت اپنے ہی خول میں بندہے اور ان کے قائدین باہم اتحاد و اتفاق کی فضا قائم کرنے اور آپس کے اختلافات کو کم کرنے کی بجائے باہم دگربر سر پیکار رہتے ہیں. یہ تاثر کچھ اتنا غلط بھی نہیں ہے‘ لیکن بحمد ِاللہ تنظیم اسلامی اور اس کے امیر کا یہ امتیازی وصف ہے کہ انہوں نے دیگر دینی جماعتوں اور شخصیات کے باہمی اختلافات کو سمجھنے‘ انہیں کم کرنے اور ان کے ساتھ اشتراکِ عمل کی خصوصی طور پر کوششیں کی ہیں. ان کوششوں اور مساعی کی کسی قدر تفصیل درج ذیل ہے: 

(۱) تنظیم اسلامی کے امیر محترم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب پر یہ اللہ کا خصوصی فضل رہا کہ انہوں نے ابتدا ہی سے مختلف مکاتب فکر کے علماء و اکابرین سے ربط ضبط رکھا اور ان سے نہ صرف یہ کہ علمی و نظری استفادہ کرنے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی بلکہ ان کے مابین فکری و عملی سطح پر ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوششیں بھی مسلسل جاری رکھیں. تنظیم اسلامی کی تاسیس سے تین سال قبل۱۹۷۲ء میں محترم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے مرکزی انجمن خدام القرآن کے نام سے خدمت قرآنی کا ادارہ تشکیل دیا تھا. احباب جانتے ہیں کہ ۱۹۷۲ء سے لے کر سالِ رواں یعنی ۱۹۹۶ء تک‘ مرکزی انجمن خدام القرآن کے تحت ہر سال منعقد ہونے والی قرآن کانفرنسوں/ محاضراتِ قرآنی میں محترم ڈاکٹر صاحب مختلف مسالک اور مکتبہ ہائے فکر کے علماء و دانشور حضرات کو مدعو کر کے انہیں ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا اہتمام کرتے اور قرآن حکیم کی بنیاد پر ان کے درمیان فکری فاصلوں کو کم کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں. بسا اوقات ایسا بھی ہوا کہ قرآن کانفرنس کی کسی نشست کے صدر اگر دیوبندی مکتبہ فکر کے جید عالم ہیں تو مہمان خصوصی بریلوی مسلک کے چوٹی کے علماء میں سے ہیں اور ان کی موجودگی میں تقریر کرنے والے کوئی فاضل مقرر اہل حدیث مسلک سے تعلق رکھتے ہیں‘ یا اس کے برعکس بھی معاملہ دیکھنے میں آیا کہ صدارت بریلوی مکتبہ فکر کے عالم کر رہے ہیں اور مہمانِ خصوصی کسی دوسرے مسلک سے متعلق ہیں. علٰی ھٰذا القیاس… ڈاکٹر صاحب محترم مختلف مکتبہ ہائے فکر کے جن علماء کی خدمت میں حاضر ہو کر ان سے استفادہ کرتے رہے ان میں مولانا سید حامد میاں ؒ ‘ مولانا مفتی محمد حسین نعیمی ؒ ‘ مولانا محمد مالک کاندھلویؒ اور مولانا محمد حنیف ندوی ؒ کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں. طالب علمی کے دور میں موصوف کا بڑا قریبی رابطہ مولانا دائود غزنویؒ اور ان کے خانوادے سے بھی رہا. 

(۲) جون ۱۹۸۲ء میں جب محترم ڈاکٹر صاحب کے ٹیلیویژن پروگرام الہدیٰ کو بند کرنے کے سلسلے میں مغربی تہذیب کی دلدادہ خواتین نے مظاہرہ کیا تو میاں طفیل محمد صاحب نے جو اُن دنوں جماعت اسلامی کے امیر تھے‘ڈاکٹر صاحب کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے مغرب زدہ خواتین پر تنقید کی تھی اور حکومت وقت سے الہدیٰ پروگرام کو جاری رکھنے کا مطالبہ کیا. انہی دنوں لاہور میں تعلیم القرآن کے نام سے منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں میاں طفیل محمد صاحب نے جملہ مسلمانانِ پاکستان کو دعوت دی تھی کہ وہ اسلام اور قرآن کی اساس پر متحد ہو جائیں. اس پر محترم ڈاکٹر صاحب نے فوری طور پر میاں طفیل صاحب کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے انہیں ایک مراسلہ بھیجا جس میں اتحاد کے لیے موصوف سے شرائط اور طریقہ کار کی وضاحت چاہی. میاں صاحب کی جانب سے جلد ہی’’صاف‘‘ جواب موصول ہو گیا کہ آپ سے(یعنی ڈاکٹر اسرار احمد سے) کسی قسم کا اتحاد نہیں ہو سکتا. تاہم ان کی جانب سے یہ مشورہ دیا گیا کہ دونوں تحریکیں اپنے اپنے 
طریقہ کار اور پالیسی کے مطابق اقامت دین کا کام مثبت انداز میں جاری رکھیں اورایک دوسرے کے کام کو پبلک پلیٹ فارم یا پریس میں ہدفِ ملامت و نکتہ چینی نہ بنائیں. 

بعد میں جماعت اسلامی کے موجودہ امیر محترم قاضی حسین احمد صاحب کی اسی طرح کی عوامی پیشکش کے نتیجے میں ڈاکٹر صاحب محترم دو مرتبہ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے مفصل تبادلہ خیال کیا ‘لیکن امیر جماعت اسلامی کی جانب سے اس ضمن میں کوئی قابل ذکر مثبت پیش رفت سامنے نہیں آئی. 

(۳) فروری ۱۹۸۵ء میں محترم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے اپنے تصورِ فرائض دینی پر مشتمل ایک مختصر تحریر اہل سنت کے تمام معروف مکاتب فکر کے۶۰ سے زائد جید علماء کرام اور دیگر صاحبانِ علم وفضل کی خدمت میں اس درخواست کے ساتھ بھجوائی کہ اگر وہ اس میں کسی اعتبار سے کوئی کجی یا خامی محسوس فرمائیں تو اس پر متنبہ کریں. یہی تحریر ماہنامہ میثاق کے مارچ ۱۹۸۵ء کے شمارے میں بھی شائع کر دی گئی اور ان علماء کرام کے اسماء گرامی کی مکمل فہرست بھی شائع کی گئی جن کو یہ تحریر بڑے اہتمام کے ساتھ بھجوائی گئی تھی. اس مقصد کے لیے ڈاکٹر صاحب محترم نے ۲۳ تا۲۸مارچ۱۹۸۵ء چھ روزہ سیمینار کا بھی اہتمام کیا جس میں تنظیم اسلامی اور انجمن خدام القرآن لاہور سے وابستہ پانچ صد سے زائد رفقاء واحباب شریک ہوئے. 

یہ ایک نہایت منفرد قسم کا اجتماع تھا. دینی جماعتوں کی تاریخ میں اس سے قبل اس قسم کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی انقلابی جماعت کے قائد نے تمام قابل ذکر مکاتب فکر کے علماء کرام کو اپنے پلیٹ فارم پر دعوت دی ہو کہ وہ آکر اس جماعت کے ارکان کے سامنے اس کے قائد کے افکار اور تصورِ دین کو تنقید کا نشانہ بنائیں. چھ روزہ سیمینار میں مختلف مکاتب فکر کے۲۱ علماء کرام اور اہل علم وفضل حضرات نے مجوزہ تحریر کے حوالے سے اظہار خیال کیا. یہ بڑا اہم موقع تھا جہاں مختلف الخیال اور مختلف مسالک سے متعلق اہل علم حضرات مل بیٹھے اور انہوں نے غلبہ ٔدین کی جدوجہد کے حوالے سے باہم ایک دوسرے سے استفادہ کیا. اس سیمینار میں شرکت کرنے والے نمایاں علماء کرام میں مولانا 
محمد مالک کاندھلوی‘ مفتی سیاح الدین کا کاخیل‘ مفتی محمد حسین نعیمی‘ حافظ عبد القادر روپڑی‘ سید عنایت اللہ شاہ بخاری اور مولانا وحید الدین خان(انڈیا) شامل تھے. سیمینار میں تشریف لا کر اظہار خیال فرمانے والے اہل علم ودانش کی مکمل فہرست حسب ذیل ہے: 

لاہور سے 
(۱)مولانا محمد مالک کاندھلوی (۲)مفتی محمد حسین نعیمی
(۳)حافظ عبد القادرروپڑی (۴)سید محمد متین ہاشمی
(۵)پروفیسر حافظ احمد یار (۶)ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی
(۷)حافظ عبد الرحمن مدنی (۸)قاری سعید الرحمن علوی
(۹)ڈاکٹر خالدعلوی (۱۰)حافظ نذر احمد 

بیرون لاہور سے 
(۱)مفتی سیاح الدین کاکاخیل (اسلام آباد) (۲)سید مظفر حسین ندوی(مظفر آباد)
(۳)سید عنایت اللہ شاہ بخاری(گجرات) (۴)مولانا عبد الغفار حسن (فیصل آباد)
(۵)مولانا عبد الوکیل خطیب (کراچی) (۶)مولانا محمد اسحق روپڑی(کراچی)
(۷)مولانا الطاف الرحمن(بنوں) (۸)مولانا شبیر احمد نورانی(کراچی)

ہندوستان سے 
(۱) مولانا وحید الدین خان (دہلی) (۲)قاری عبد العلیم (حیدر آباد)
(۳) میر قطب الدین علی چشتی (حیدر آباد)

قارئین کی دلچسپی کے پیش نظر اور اس اہم معاملے کو ریکارڈ پر لانے کے لیے ان معزز اہل علم ودانش کے نام بھی ذیل میں دیے جا رہے ہیں جنہیں اس سیمینار میں شرکت کا دعوت نامہ بھیجا گیا تھا لیکن وہ کسی سبب سے تشریف نہ لا سکے. ان میں سے بعض قابل احترام علماء نے اپنے خیالات تحریری طور پر ارسال فرما دیے تھے(ان علماء کرام میں سے کئی بزرگ اس عرصے میں انتقال فرما چکے ہیں. 
اللّٰھم اغفرلھم وارحمھم): مولانا سید حامد میاں‘ لاہور مولانا عبید اللہ انور‘ لاہور

مولانا عطاء اللہ بھوجیانی‘ لاہور علامہ احسان الٰہی ظہیر‘ لاہور
مفتی غلام سرور قادری‘ لاہور علامہ محمود احمد رضوی‘ لاہور
نعیم صدیقی‘ لاہور علامہ طاہر القادری‘ لاہور
مولانا اسعد گیلانی‘ لاہور جسٹس ملک غلام علی‘ لاہور
جسٹس محمد تقی عثمانی‘ کراچی جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمن ‘ کراچی
مولانا محمد یوسف‘ کراچی مولانا محمد اسحق سندیلوی‘ کراچی
مولانا محمد طاسین‘ کراچی ڈاکٹر غلام محمد‘ کراچی
مولانا منتخب الحق قادری‘ کراچی مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی‘ کراچی
مفتی ولی حسن‘ کراچی مولانا سلیم اللہ خان‘ کراچی
شاہ بدیع الدین پیر آف جھنڈا‘ سندھ مولانا سعید احمد کاظمی‘ ملتان
مولانا محمد ازہر‘ ملتان مولانا اللہ بخش ایاز ملکانوی‘ ملتان
مفتی زین العابدین ‘ فیصل آباد حکیم عبد الرحیم اشرف‘ فیصل آباد
مولانا اسحاق چیمہ‘ فیصل آباد ڈاکٹر محمد نذیر مسلم‘ رحیم یار خان
مولانا محمد طاہر‘ پنج پیر مولانا محی الدین لکھوی‘ اوکاڑہ
مولانا گوہر رحمن‘ مردان مولانا خان محمد‘ میانوالی
جسٹس پیر کرم شاہ‘ سرگودھا مولانا سمیع الحق‘ اکوڑہ خٹک
مولانا محمد عبد اللہ‘ اسلام آباد مولانا عبد القیوم حقانی‘ اکوڑہ خٹک
مولانا ابو الحسن علی ندوی‘ لکھنؤ مولانا محمد منظور نعمانی‘ لکھنؤ
مولانا تقی امینی ‘ علی گڑھ مولانا سعید احمد اکبر آبادی‘ انڈیا
مولانا اخلاق حسین قاسمی‘ دہلی مولانا عبد الکریم پاریکھ‘ ناگ پور
جناب شمس پیر زادہ‘ بمبئی قاری تقی الدین‘ حیدر آباد

(۴) گزشتہ تین سالوں(۱۹۹۲ء تا۱۹۹۵ئ) کے دوران ان کوششوں میں مزید اضافہ ہوا. تنظیم اسلامی کے اٹھارہویں سالانہ اجتماع منعقدہ اکتوبر۱۹۹۶ء کے موقع پر مختلف معاصر دینی جماعتوں کے سربراہوں کو قرآن آڈیٹوریم میں تنظیم اسلامی کے پلیٹ فارم پر 
جمع کرنے کا پروگرام ترتیب دیا گیا اور پاکستان میں نفاذِ دین کے طریق کار پر باہم تبادلہ خیال اور ایک دوسرے کے منہج عمل کو سمجھنے کی غرض سے ایسی اہم دینی جماعتوں کے سربراہوں کو مفصل خطاب کی دعوت دی گئی جو انتخابات کی بجائے انقلابی طریقے سے پاکستان میں نفاذِ دین کے لیے کوشاں ہیں. اس ضمن میں بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں میں تحریک اسلامی انقلاب کے امیر مولانا مفتی سید جمال الدین کاظمی‘ سلاسل تصوف سے تعلق رکھنے والی ایک اہم شخصیت اور تنظیم الاخوان کے امیر مولانا محمد اکرم اعوان‘ تحریک فہم القرآن کے بانی میجرمحمد امین منہاس اور اہلحدیث مکتبہ فکر کی ایک اہم شاخ کے قائد پروفیسر محمد سعید نے اپنی اپنی تنظیم کے طریق کار کو بیان کیا. تبلیغی جماعت کے رہنما مولانا محمد احمد صاحب سے بھی بہاولپور میں رابطہ کیا گیا لیکن علالت کے باعث ان کا آنا ممکن نہ ہو سکا. 

بعد ازاں جنوری ۱۹۹۵ء میں اسی سلسلے کے تحت تحریک منہاج القرآن کے بانی و قائد پروفیسر طاہر القادری‘ ملتان کی معروف علمی شخصیت جناب عطاء المحسن اور لاہور کے معروف سکالر ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ملک کو دعوتِ خطاب دی گئی. ان حضرات نے رفقائے تنظیم کے سامنے نفاذِ دین کے طریق کار کے ضمن میں اپنے اپنے موقف کو واضح کیا. ان تمام پروگراموں میں(بشمول۸۵ء کے تاریخی سیمینار کے) امیر تنظیم اسلامی نے میزبان کی حیثیت سے محض سامع کے طور پر شرکت کی اور مہمان مقررین کو اظہار خیال کا بھرپور موقع دیا. اس طرح کی کوئی اور مثال کسی دوسری جماعت کی جانب سے ہمارے علم کی حد تک تاحال سامنے نہیں آئی. 

(۵) الاخوان کے امیر مولانا محمد اکرم اعوان سے ڈاکٹر صاحب نے اسی حوالے سے کئی خصوصی ملاقاتیں بھی کیں. ایک خصوصی ملاقات کے لیے ڈاکٹر صاحب ان کے مرکز منارہ (چکوال) بھی تشریف لے گئے. بعد ازاں مولانا محمد اکرم اعوان کو اپنے ہاں قرآن اکیڈمی بھی مدعو کیا اور پاکستان میں نفاذِ دین کے لیے کسی مشترکہ پلیٹ فارم کی تشکیل پر تبادلہ ٔخیال ہوا. اس ضمن میں اس تجویز پر اتفاق ہوا کہ ابتدائی قدم کے طور پر دونوں تنظیموں کی صف دوم کے اکابر پر مشتمل ایک مذاکراتی ٹیم تشکیل دی جائے جو اشتراکِ عمل کی مختلف تجاویز پر غور کرے اور کوئی قابل عمل لائحہ عمل تجویز کرے. چنانچہ دونوں جانب سے ایک بااختیار کمیٹی تشکیل دی گئی. اس کی متعدد نشستیں قرآن اکیڈمی لاہور میں منعقد ہوئیں. کارکنوں کے درمیان باہمی ربط ضبط بڑھانے اور مشترکہ پلیٹ فارم پر عوامی جلسے کرنے کے حوالے سے تجاویز پر مفصل گفتگو ہوئی جس کے نتیجے میں درج ذیل امور پر اتفاق ہوا: 

(i موجودہ استحصالی اور ظالمانہ نظام جو کہ اللہ تعالیٰ سے بغاوت پر مبنی ہے‘ کو ختم کر کے نظام خلافت یعنی رب کی دھرتی پر رب کا نظام نافذ کرنے کے لیے جدوجہد کی ضرورت ہے. 
(ii نظام کی تبدیلی ملک میں مروّجہ انتخابات کے ذریعے ناممکن ہے. اس کے لیے انقلابی طریقہ کار اختیار کرنا ہو گا. 
وہ طریقہ کیا ہو‘ اس سلسلے میں بات کو آگے بڑھانے کے لیے اور مشترکہ حکمت عملی کے لیے متفق نکات تک پہنچنے کی خاطر ابتدائی قدم کے طور پر مندرجہ ذیل اقدامات کیے جائیں گے: 

(ا)
اپنی اپنی جماعت کے ممبران کو ہدایات جاری کی جائیں کہ وہ ایک دوسرے کے پروگراموں اور اجتماعات میں شرکت کریں.

(ب)
اپنے اپنے زیر انتظام تعلیمی اداروں کے طلباء کو آپس میں ‘ تقریری مقابلوں‘ کھیلوں اور دوسری سرگرمیوں میں حصہ لینے کے مواقع فراہم کیے جائیں.

(ج)
لٹریچر کا تبادلہ کیا جائے. فری تقسیم کا لٹریچر بھی ایک دوسرے کو مہیا کیا جائے. 

(د)
مشترکہ عوامی جلسوں کا انتظام ‘جن میں مشترک نکات بیان ہوں اور مختلف فیہ نکات زیر بحث نہ لائے جائیں. 

(ھ)
دونوں تنظیموں سے چند ذمہ دار افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو اس بات کااہتمام کرتی رہے کہ آپس میں طے شدہ امور پر مناسب طریق سے عمل کا اہتمام کرایا جائے. 

چنانچہ اس ضمن میں تنظیم اسلامی کی جانب سے پیش قدمی کرتے ہوئے مئی۱۹۹۵ء میں تنظیم اسلامی کے تحت منعقدہ والٹن روڈ پر ایک بڑے عوامی جلسے میں مولانا محمد اکرم اعوان صاحب کو دعوتِ خطاب دی گئی جو انہوں نے کمال مہربانی سے منظور فرمائی. اس موقع پر دونوں تنظیموں کے رہنمائوں یعنی امیر تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد صاحب اور امیر تنظیم الاخوان جناب محمد اکرم اعوان صاحب نے ایک دوسرے کی موجودگی میں خطاب کیا … تاہم بعد میں تنظیم ’’الاخوان‘‘ کی جانب سے کسی واضح لائحہ عمل کے سامنے نہ آنے کے سبب مذکورہ بالا بااختیار کمیٹی کی بات چیت آگے نہ بڑھ سکی. 

دوسری جانب یہ صورتحال نہایت ہی افسوسناک ہے کہ تنظیم اسلامی کی جانب سے کی گئی ان قابل قدر مساعی کے باوجود کسی ایک جماعت کی طرف سے بھی امیر تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹر صاحب کو اپنے پلیٹ فارم پر اظہارِ خیال کی بھی دعوت نہیں دی گئی‘ اور نہ ہی اس مشن کو آگے بڑھانے کے لیے کسی دوسری جماعت نے مشاورتی میٹنگ کا کبھی اہتمام کیا. بعض جماعتوں کے قائدین کی جانب سے تنظیم اسلامی کی ان مساعی کے جواب میں بعض مواقع پر اس عزم کا اظہار بھی ہوا کہ مجوزہ مقاصد کے حصول کے لیے آئندہ وہ بھی اپنے ہاں ایسے پروگرام کریں گے‘ لیکن’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘ کے مصداق تاحال اس قسم کی کوئی کوشش کسی دوسری جماعت کی طرف سے سامنے نہیں آئی. محترم ڈاکٹر صاحب بحمد اللہ اس ناموافق صورتحال کے باوجود بد دل اور مایوس نہیں ہوئے بلکہ ؎

ا ِک طرز تغافل ہے‘ سو وہ ان کو مبارک
اِک عرض تمنا ہے‘ سو ہم کرتے رہیں گے

کے مصداق انہوں نے اپنی مساعی جاری رکھیں.

(۶) ڈاکٹر صاحب محترم اس حقیقت سے پورے طور پر آگاہ ہیں کہ مختلف مسلکوں کے فروعی اختلافات میں موجود غیر معمولی شدت اس راہ کی بڑی رکاوٹ ہے‘ جسے جماعتوں کے سربراہان کو عبور کرنے میں دِقت کا سامنا ہے. چنانچہ گزشتہ برس محترم ڈاکٹر صاحب نے مذہبی جماعتوں کے اتحاد کے ضمن میں ان کے تاریخی اور نظریاتی پس منظر کے حوالے سے ایک نئی عملی تجویز پیش کی. یہ پر خلوص تجویز محترم ڈاکٹر صاحب نے پہلے اپنے ۲۵ ستمبر ۱۹۹۵ء کے خطابِ جمعہ بمقام دارالسلام باغ جناح میں وضاحت کے ساتھ پیش کی. اور بعد ازاں اسے پوری تفصیل کے ساتھ ماہنامہ میثاق کے ماہ اکتوبر ۹۵ء کے شمارے میں شائع بھی کر دیا گیا. اس میں انہوں نے دیوبندی‘ بریلوی اور اہلحدیث مسالک کے مختلف پارٹیوں میں تقسیم رہنمائوں کو اپنے اپنے مسالک کی بنیاد پر اپنے فروعی اختلافات کو بھلا کرا کٹھا ہونے کی طرف توجہ دلائی. مزید برآں امیر تنظیم نے اس مبارک عمل کا آغاز خود کرتے ہوئے مشترک تاریخی اور نظریاتی پس منظر رکھنے والی تین جماعتوں یعنی تنظیم اسلامی‘ جماعت اسلامی اور تحریک اسلامی کے وفاق کی نہ صرف تجویز پیش کی بلکہ اس ضمن میں خود آگے بڑھ کر جماعت اسلامی اور تحریک اسلامی کے ساتھ اشتراکِ عمل کی پیشکش بھی کی. اس تجویز پر تحریک اسلامی کی جانب سے تو کسی قدر مثبت ردّعمل سامنے آیا لیکن جماعت اسلامی نے اس تجویز کو در خورِ اعتناء نہیں سمجھا. 

(۷) یہاں اس امر کا تذکرہ بھی بے محل نہ ہو گا کہ گزشتہ تین چار بر سوں کے دوران تحریک خلافت پاکستان جس کے ’’داعی‘‘ محترم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب ہی ہیں‘ اور جسے تنظیم اسلامی ہی کا ایک شعبہ قرار دیا جا سکتا ہے‘ کے زیر اہتمام وقتا فوقتا منعقد ہونے والے خلافت سیمینارز اور خلافت کانفرنسوں میں بھی تمام مکاتب فکر کے علماء کرام اور دانشوروں کو اظہارِخیال کی دعوت دی جاتی رہی ہے. یہاں تک کہ ایک شیعہ عالم دین جناب ہادی علی نقوی بھی محترم ڈاکٹر صاحب کی دعوت پر تحریک خلافت کے ایک پروگرام میں تشریف لا کر اظہارِ خیال فرما چکے ہیں.

قارئین کو یاد ہو گا کہ گزشتہ سال سالانہ اجتماع کے موقع پر منعقد ہونے والی دوسری عالمی خلافت کانفرنس کے مقررین میں دیگر مقررین کے علاوہ جماعت اسلامی کے مولانا گوہر رحمن صاحب اور تحریک اسلامی کے حکیم سروسہار نپوری بھی شامل تھے… اور ابھی دو ماہ قبل ۱۸/اگست کو قرآن کالج کی تقسیم اسناد کی تقریب میں محترم ڈاکٹر صاحب کی دعوت پر تحریک اسلامی کے دونوں دھڑوں کے قائدین یعنی جناب نعیم صدیقی اور مولانا مختار گل ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے تھے. محترم نعیم صدیقی صاحب اگرچہ اپنی علالت کے باعث تقریر نہ فرما سکے تاہم وہ شدید علالت اور ضعف کے باوصف محترم ڈاکٹر صاحب سے 
کیے گئے وعدے کو نبھانے جلسہ گاہ تک تشریف لائے. اس تقریب میں بھی جماعت اسلامی کی نمائندگی مولانا گوہر رحمان صاحب نے کی.

اس طرح ایک سٹیج پر تنظیم اسلامی کے امیر ڈاکٹر اسرار احمد‘ تحریک اسلامی کے امیر مولانا مختار گل اور جماعت اسلامی کے ایک اہم رہنما مولانا گوہر رحمان کے بیک وقت جمع ہو جانے سے تینوں جماعتوں کے وفاق کا جو خواب امیر تنظیم اسلامی نے دیکھا تھا اس کی ایک ابتدائی جھلک عملاً دیکھنے کو ملی. یہ سب کچھ اللہ کی تائید و توفیق سے ہوا جس نے محترم ڈاکٹر صاحب کی ان مساعی کو شرف قبول سے نوازا ہے. 
فللّٰہ الحمد والمنۃ. 

بحمد اللہ‘ تنظیم اسلامی کامل یکسوئی کے ساتھ منہج انقلابِ نبویؐ کی رہنمائی میں پاکستان میں اللہ کے دین یعنی نظام خلافت کے قیام کے لیے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے اور پورے خلوص اور وسعت قلبی کے ساتھ اشتراکِ عمل کی ہر معقول تجویز پر غور کرنے اور اس کا خیر مقدم کرنے کے لیے پہلے بھی آمادہ رہی ہے اور ‘ان شاء اللہ ‘آئندہ بھی رہے گی.