ایک جانب نیوورلڈ آرڈر کے پردے میں یہودیوں کی عالمی بالادستی کا سیلاب ہے‘ جس کا فوری ٹارگٹ ایران‘ پاکستان اور افغانستان ہیں.
دوسری جانب مسلمانانِ کشمیر کا جہادِ حریت اب ان حدوں کو چھو چکا ہے جس کے نتیجے میں بھارت پاکستان کے خلاف ننگی اور کھلی جارحیت کا ارتکاب کر سکتا ہے. اور اگر ہمارے پاس ایٹمی ڈیٹرنٹ نہ ہوتا‘ تو وہ کب کا کر چکا ہو تا اور ہو سکتا ہے کہ کسی وقت وہ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کے مصداق یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ ہماری ایٹمی صلاحیت ان سے دس گنا زیادہ ہے‘ اگر ہمارا دسواں حصہ تباہ ہو گا تو یہ پورا ملک تباہ ہو جائے گا. لہٰذا بھارتی جارحیت کو خارج ازامکان نہ سمجھئے. انہوں نے اپنی میزائل ٹیکنالوجی پر جوارب ہا ارب روپے خرچ کیے ہیں‘ وہ کاہے کے لیے کیے ہیں؟ بنیا تو ایک پیسہ بھی کسی مقصد اور منفعت کے بغیر خرچ کرنے کو تیار نہیں ہوتا!
تیسری جانب مسلح دہشت گردی اور کھلی بغاوت کی صورت میں نفاذِ اسلام سے روگردانی کی سزا یعنی نفاقِ باہمی کا عذاب کراچی کی بندر گاہ سے ملک میں داخل ہو چکا ہے. بالفاظِ دیگر ہم اپنے ہاتھوں عذابِ خداوندی کو درآمد کر چکے ہیں. کہا گیا تھا کہ ہم نے دہشت گردی کی کمر توڑ دی ہے‘ لیکن ابھی تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی شاید ایک آدھ انگلی ہی کٹ سکی ہو‘ کمر ٹوٹنے کا تو کوئی سوال نہیں.
چوتھی جانب ملک میں معاشرتی بدامنی اور آوارگی‘ سیاسی خلفشار اور محاذآرائی اور مالیاتی لوٹ کھسوٹ‘ اور بندر بانٹ آخری حدوں کو پہنچ چکی ہے‘ اس کی بھی اگر میں تفصیل بیان کروں تو ’’کہے صنم بھی ہری ہری!‘‘ ان موضوعات پر تفصیل میں جانے کا وقت نہیں ہے. یہ چیزیں بارہا میری گفتگوئوں کا موضوع بن چکی ہیں‘ اِس وقت صرف گنوا رہا ہوں. لیکن آج کی گفتگو کے اعتبار سے اہم ترین اور ان سب پر مستزاد مذہبی جماعتوں کا باہمی نفاق ہے جو روز بروز تقسیم در تقسیم کی صورت میں بڑھتا چلا جا رہا ہے. چنانچہ جمعیت علمائے اسلام‘ جمعیت علمائے پاکستان اور جمعیت اہلحدیث کے کئی کئی دھڑے وجود میں آچکے ہیں. اب جماعت اسلامی بھی دھڑوں میں تقسیم ہو گئی ہے. اس تقسیم در تقسیم کے عمل میں روز بروز اضافہ ہی ہو رہا ہے اور سینے کے چاک کو رفو کرنے کی کوئی تدبیر کسی طرف سے نہیں کی جا رہی‘بلکہ اسے مزید پھاڑنے کا عمل دن بہ دن شدت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے.