مملکت ِ خداداد پاکستان میں دین اسلام کا قیام ونفاذ نہ ہونے کے بھی بہت سے اسباب ہیں‘ لیکن ان میں بھی اہم ترین ایک ہے‘ اور وہی میری آج کی گفتگو کے لیے مرکزی نکتہ ہے. اور وہ ہے’’دینی جماعتوں کی غلط حکمت عملی‘‘ جو میرے نزدیک سب سے بڑا سبب ہے. دینی جماعتوں کی غلط حکمت عملی یہ ہے کہ انہوں نے الیکشن کا راستہ اختیار کر کے اسلام کو ایک سیاسی نعرے کی حیثیت دے دی. اس طرح یہ ایک پارٹی ایشوبن کر متنازع فیہ مسئلہ بن گیا. اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام پوری قوم کی پشت پناہی سے محروم ہو کر کچھ سیاسی جماعتوں کا پشت پناہ بن کر کھڑا ہو گیا. پھر مختلف مذہبی جماعتوں کے انتخابی میدان میں اترنے نے اس جلتی پرتیل کا کام کیا اور مختلف برانڈ کے اسلام منظر عام پر آگئے. اس طرح مذہبی جماعتیں دین میں تفریق کا باعث بھی بنیں. سب سے پہلے جماعت اسلامی میدانِ سیاست میں کودی. ۱۹۵۱ء کے پنجاب الیکشن میں اسے چالیس سیٹوں کی توقع تھی لیکن ایک بھی نہیں مل سکی اور وہ چاروں شانے چت ہو گئی. اس کے بعد نورانی میاں نے سوچا کہ ؎
کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آئو نا ہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی!
ہم تو سوادِاعظم کے نمائندے ہیں. وہ انتخابی میدان میں کودے تو انہیں کچھ کامیابی بھی ہوئی. کراچی‘ حیدر آباد اور بعض دوسری جگہوں پر ان کے نمائندے کامیاب بھی ہوئے. جمعیت علماء اسلام کا معاملہ یہ تھا کہ اپنے تاریخی پس منظر کے حوالے سے وہ کچھ عرصے منقار زیر پر رہے‘ اس لیے کہ تقسیم سے قبل وہ پاکستان کے مخالف تھے اور ابتدا میں انہیں یہاں بولنے کا حق تھا ہی نہیں. پھر انہوں نے سوچا کہ اس جولانگاہ میں ہمیں بھی قسمت آزمائی کرنی چاہیے‘ چنانچہ وہ بھی اس میں کود پڑے. رہ گئے اہلحدیث تو انہوں نے سوچا کہ ہماری بھی کچھ Pockets موجود ہیں.
اگر زیادہ نہیں تو ہمارے ایک دو آدمی تو اسمبلی میں پہنچ ہی جائیں گے‘ اور بعض اوقات کسی نازک لمحے پر ایک آدمی بھی بڑا قیمتی ثابت ہوتا ہے‘ جب ایک ووٹ کے فرق پر ہی سارا معاملہ موقوف ہوتا ہے. ایک موقع پر صدر ایوب خان نے مفتی محمود صاحب کے ایک ووٹ سے دستور میں ترمیم کی تھی. اور کہا گیا تھا کہ مفتی صاحب کو اس تعاون کے عوض دس لاکھ روپے دیے گئے تھے. اندازہ لگائیے‘ اُس دور کے دس لاکھ آج کے دس کروڑ سے کم نہیں ہیں. مفتی صاحب نے اس الزام کی تردید نہیں کی تھی‘ البتہ یہ کہا تھا کہ ہاں‘ میرے مدرسے کو دیے ہیں. یہ کچھ اسی طرح کا معاملہ ہے جیسے بعد میں ایک ایسے ہی موقع پر کسی مذہبی سیاسی جماعت کے امید وار نے یہ کہا تھا کہ ہم بکے نہیں‘ ہم نے سودے بازی کی ہے. میرے نزدیک اس چیز نے اسلام کو بے انتہا نقصان پہنچایا ہے. دراصل یہ نتیجہ ہے اس غلط حکمت عملی کا کہ مذہبی جماعتوں نے انتخابی سیاست کو اپنا میدانِ کاربنایا اور ان کے نفاقِ باہمی نے جلتی پرتیل کا کام کیا. عوام کے سامنے مختلف برانڈ کے اسلام آنے لگے. بریلوی مکتب فکر‘ دیوبندی مکتب فکر‘ اہلحدیث مکتب فکر اور جماعت اسلامی کے اپنے اپنے’’اسلام‘‘ تھے‘ ان کے علاوہ ایک لبرل اسلام بھی تھا. اس طرح پانچ مختلف اسلام وجود میں آگئے اور اسلام ایک پارٹی ایشو اور انتخابی نعرہ بن کر رہ گیا. اگر ایک ہی جماعت میدان میں اتری ہوتی تو شاید کچھ نہ کچھ حاصل کر بیٹھتی.