اور ع اب جگر تھام کے بیٹھو میری باری آئی!… اب ذکر ہے مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کا! علامہ اقبال کی ملی شاعری کا ڈنکا ۱۹۰۸ء میں بج چکا تھا‘ جبکہ مولانا آزاد کی حزب اللہ ۱۹۱۳ء میں قائم ہوئی تھی. ان دو اکابر کے افکار و نظریات سے فیض یاب ہو کر مولانا مودودی میدان میں آئے. انہوں نے ۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی قائم کی. اس سے پہلے انہوں نے متحدہ قومیت کی مخالفت میں جمعیت علماء ہند پر شدید تنقیدیں کیں‘ جس سے گویا مسلمانوں کی قومی تحریک کو تقویت پہنچی. پھر انہوں نے مسلم قوم پرستی کو بھی اسلام کے خلاف قرار دیا اور مسلم قومی تحریک اور مسلم لیگ سے علیحدگی اختیار کر لی اور پھر ۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی قائم کی. یہ جماعت اس وقت کی تمام جماعتوں میں اس اعتبار سے منفرد ہے کہ یہ ایک شخص کی دعوت اور اس کی فکر پر قائم ہونے والی جماعت ہے. اس کے جو منفرد ہے کہ یہ ایک شخص کی دعوت اور اس کی فکر پر قائم ہونے والی جماعت ہے. اس کے جو عمدہ و اعلیٰ اوصاف آج تک بھی برقرار ہیں وہ نوٹ کیجیے:
(۱)یہ فرقہ واریت سے بالکل بالا تر ہے. اسی بنا پر کوئی انہیں وہابی کہہ دیتا ہے تو کوئی غیر مقلد کا نام دیتا ہے. لیکن انہوں نے اپنے آپ کو فرقہ واریت اور مسلک سے بلند تر رکھا ہے اور جماعت اسلامی کی دعوت کے اندر کسی مسلک یا فرقے کی طرف دعوت شامل نہیں ہے.
(۲)اس تحریک کا بنیادی فکر اصل دین اور اس کی تفہیم ‘ دعوتِ دین‘ اور اقامت دین کی جدوجہد کی دعوت پر مشتمل تھا.
(۳) اس تحریک میں شامل ہونے والوں کی عظیم اکثریت سکولوں اور کالجوںسے تعلیم یافتہ لوگوں کی تھی. ابتدا میں علماء میں سے کچھ اہلحدیث اور کچھ دیوبندی اکابر بھی شامل ہوئے تھے لیکن جلدیا بدیر وہ اس سے علیحدہ ہو گئے‘ بلکہ پت جھڑکے پتوں کی طرح جھڑتے چلے گئے. ابتدا میں جماعت میں شامل ہونے والے علماء میں مولانا محمد منظور نعمانی‘ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی‘مولانا جعفر شاہ پھلواروی‘ اور مولانا شاہ صبغت اللہ بختیاری جیسی شخصیتیں شامل تھیں. ان چار میں سے کم ازکم پہلے دو ناموں سے تو بہت سے لوگ واقف ہوں گے. اس کے بعد مولانا امین احسن اصلاحی‘ مولانا عبد الغفار حسن‘ مولانا عبد الجبار غازی اور مولانا عبد الرحیم اشرف کے علاوہ علماء میں سے مختلف لوگ جماعت میں آئے. مفتی سیاح الدین کاکاخیل اگرچہ جماعت میں شامل نہیں ہوئے‘ لیکن اس کے مؤید تھے. اسی طرح مولانا محمد چراغ صاحب گوجرانوالہ والے‘ جو بہت بڑے عالم دین اور مولانا انور شاہ کشمیری کے شاگردِ رشید تھے‘ وہ بھی جماعت میں شامل نہیں ہوئے‘ لیکن مولانا مودودی کی تائید کرتے رہے. شروع میں اس طرح کے متعدد حضراتِ علم وفضل جماعت میں آئے ‘لیکن اکثریت اسکولوں‘ کالجوں اور یونیورسیٹوں کے تعلیم یافتہ لوگوں کی ہے.
(۴) اس تحریک کا سیاسی موقف بھی بالکل منفرد اور یکتا (unique) تھا‘ جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں‘ یعنی ایک طرف متحدہ قومیت کی مخالفت‘ جو گویا کہ مسلمانوں کی قومی تحریک کی تائید اور مولانا حسین احمد مدنی اور ان کے ساتھیوں کی اور مولانا ابوالکلام آزاد اور ان کے ہم خیال لوگوں کی مخالفت کے مترادف تھی. لیکن دوسری طرف تحریک ِ پاکستان سے محض لاتعلقی اور علیحدگی ہی نہیں‘ بلکہ اس سے بڑھ کر آخری ایام میں اس کی شدید مخالفت.
(۵) اہم ترین بات یہ ہے کہ اس تحریک نے بالکل واضح تصور دیا کہ دنیا میں’’اسلامی حکومت کیسے قائم ہوتی ہے‘‘. اس عنوان سے مولانا مودودی کا ایک چھوٹا سا کتابچہ ہے جو انگریزی میں ’’The Process of Islamic Revolution‘‘ اور عربی میں ’’منہج الانقلاب الاسلامی‘‘ کے نام سے شائع ہوتا ہے. میں آج بھی اس کتابچے کو حرف بحرف صحیح سمجھتا ہوں. اس موضوع پر مولانا مرحوم نے علی گڑھ کے سڑیچی ہال میں۱۹۴۰ء میں خطاب بھی فرمایا تھا (اور عجیب اتفاق یہ ہوا ہے کہ۱۹۸۰ء میں‘ ٹھیک چالیس سال بعد‘ مجھے بھی وہاں جا کر ایک خطاب کا موقع ملا). مولانا مودودی کے پیش کردہ طریق کار کے دو نکات تو بالکل نمایاں اور واضح تھے ‘جبکہ اس کا تیسرا نکتہ غیر واضح تھا. ممکن ہے کہ انہوں نے اسے وقتی مصلحت کی وجہ سے واضح نہ کیا ہو اورہو سکتا ہے کہ یہ خود ان کے اپنے ذہن میں بھی واضح نہ ہو. اس طریق کار کے دو نکات جو واضح تھے‘ وہ یہ تھے کہ (۱) پہلے خود مسلمان بنو‘ لیکن نام کے مسلمان نہیں‘ بلکہ عملی مسلمان جو حلال وحرام میں تمیز کرنے والے ہوں‘ حلال پر کار بند ہوں‘ حرام سے مجتنب ہوں اور فرائض کے پابند ہوں. (۲) پھر ایک مضبوط ڈسپلن والی جماعت میں شامل ہو جائو‘ اور اپنے تن من دھن کو اسی دعوت کے پھیلانے میں لگا دو. اس پر مولانا مرحوم نے ایک معرکۃ الآراء مضمون ’’ایک صالح جماعت کی ضرورت‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا‘ جس کے نتیجے میں پھر۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی قائم ہوئی. اور یہ کام درحقیقت سورۂ آل عمران کی آیت۱۰۴کے حوالے سے ہوا تھا:
وَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۱۰۴﴾
سورۂ آل عمران کی آیات ۱۰۲‘ ۱۰۳ اور۱۰۴ کی روشنی میں اب میری ایک کتاب ’’امت مسلمہ کے لیے سہ نکاتی لائحہ عمل‘‘ کے عنوان سے موجود ہے. ان تین آیات میں ایک مکمل لائحہ عمل بڑی جامعیت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے. پہلی آیت(۱۰۲) میں ایک انفرادی لائحہ عمل دیا گیا ہے‘ یعنی امت کے افراد تقویٰ اختیار کریں‘ خود متقی اور پرہیزگار بنیں:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَ لَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۰۲﴾
’’اے ایمان والو! اللہ کا تقویٰ اختیارکرو جتنا کہ اُس کے تقویٰ کا حق ہے اور دیکھنا تمہیں ہر گز موت نہ آنے پائے مگر اس حال میں کہ تم(اللہ کے) فرمانبردار رہو!‘‘
دوسری آیت (۱۰۳) میں حیاتِ ملی کے استحکام کا نکتہ بیان کر دیا گیا ہے کہ جب مسلم اجتماعیت کی ہراینٹ پختہ ہو جائے تو پھر ان اینٹوں کو باہم کیسے جوڑا جائے:
وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا ۪…
’’اور اللہ کی رسی(یعنی قرآن) سے مجموعی طور پر چمٹ جائو‘ اور باہم تفرقہ میں مت پڑو…‘‘
تیسری آیت (۱۰۴) میں اجتماعی لائحہ عمل بیان کر دیا گیا کہ اب ایسے افراد باہم مل کر ایک اجتماعیت وجود میں لائیں‘ ایک جماعت بنائیں‘ جو تین کام کرے:
وَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۱۰۴﴾
اور چاہیے کہ تم سے ایک ایسی جماعت وجود میں آئے جو خیر کی دعوت دے‘ نیکی کا حکم کرے اور بدی سے روکے ‘اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں.‘‘
مجھے مولانا مودودی کے بیان کردہ طریق کار پر آج بھی صدفی صد یقین ہے‘ سوائے اس ایک مسئلے کے کہ جب یہ فضا تیار ہو جائے تو آخری قدم کیا ہو گا؟ مولانا کے اس مقالے میں یہ نکتہ غیر واضح اورتشنہ ہے.
بہرحال میں نے اِس وقت جماعت اسلامی کی خصوصیات کے حوالے سے جو پانچ نکات بیان کیے ہیں ان کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جماعت اسلامی کا آغاز ایک خالص اصولی اسلامی انقلابی جماعت کے طور پر ہوا تھا. وہ نہ تو معروف معنی میں کوئی سیاسی جماعت تھی اور نہ ہی معروف معنی میں کوئی مذہبی جماعت تھی‘ اس لیے کہ وہ فرقہ واریت کی بنیاد پر قائم نہیں ہوئی تھی. لیکن اسے ہماری بدقسمتی کہیے یا جماعتی قیادت کی کوتاہی کہ پاکستان بننے کے بعد انہوں نے غلط قدم اٹھایا اور انتخابی سیاست میں کود پڑے. ۱۹۵۱ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی نے بھرپور حصہ لیا اور اس کے نتیجے میں پوری تحریک کی قلب ماہیت ہو گئی.
میں نے جماعت کے بارے میں۱۹۵۶ء میں یہ الفاظ لکھے تھے کہ:
’’یہ جماعت خالص اصولی اسلامی انقلابی جماعت کی بجائے ایک اسلام پسند قومی سیاسی جماعت بن گئی ہے.‘‘
اپنے اس تجزئیے میں میں نے تین الفاظ کو تین الفاظ کے مقابلے پر رکھا ہے‘ اصولی‘ اسلامی‘ انقلابی بمقابلہ اسلام پسند‘ قومی‘ سیاسی جماعت. ۱۹۵۶ء میں میں نے جماعت اسلامی کے ایک رکن ہونے کی حیثیت سے ایک مفصل بیان تحریر کیا تھا‘ جسے دس برس بعد ۱۹۶۶ء میں اڑھائی سو صفحے کی کتاب کی صورت میں’’تحریک جماعت اسلامی‘ ایک تحقیقی مطالعہ‘‘ کے عنوان سے شائع کیا. یہ کتاب آج بھی شائع ہوتی ہے اور اس میں میری۱۹۵۶ء کی تحریر حرف بحرف جوں کی توں موجود ہے. جن حضرات کو اس موضوع سے دلچسپی ہو وہ اس کا مطالعہ ضرور کریں.