بیسویں صدی اس اعتبار سے نمایاں ترین صدی ہے کہ سابقہ صدیوں کے دوران حضورﷺ کی ذات مبارک سے جو تعصب غیر مسلموں کو تھا وہ رفتہ رفتہ اس صدی کے دوران ختم ہوا ہے اور اس صدی کے دوران آپﷺ کی عظمت کا اس پہلو سے اعتراف اور اقرار تدریجاً پوری دنیا میں ہوا. اس صدی کے آغاز میں اسی شہر لاہور میں ایم این رائے نے 1920ء میں ’’بریڈ ہال‘‘ میں ایک لیکچر دیا تھا جس کا موضوع ’’The Historical Role of Islam‘‘ تھا. اسی نام سے کتاب اب بھی ہندوستان میں طبع ہوتی ہے، جسے بمبئی کا ایک ناشر شائع کرتا ہے‘ میں نے حیدر آباددکن میں اس کا نسخہ دیکھا ہے‘ لیکن پاکستان میں کہیں دستیاب نہیں ہے. ایم این رائے کون تھا؟ یہ ’’کمیونسٹ انٹرنیشنل ‘‘ کا ممبر تھا. روس میں 1918میں اشتراکی انقلاب آیا اور اس کے بعد پوری دنیا میں اس کا بڑا چرچا ہوا اس کے بعد عالمی سطح پر کمیونزم کی جو تنظیم قائم ہوئی وہ ’’کمیونسٹ انٹر نیشنل ‘‘ کہلاتی تھی. دنیا کے چوٹی کے انقلابی لوگ اس کے ممبر تھے.
ایم این رائے ہندوستان کی جانب سے اس کارکن تھا جو کہ بہت بڑاانقلابی تھا‘ لیکن وہ ’’Historical Role of Islam‘‘ میں واضع اور بڑے تفصیلی انداز سے لکھتا ہے کہ تاریخ انسانی کا عظیم ترین انقلاب وہ تھا جو محمد عربیﷺ نے برپا کیا تھا. حضورﷺ کے جانشینوں اور جاں نثاروں نے جس سرعت کے ساتھ فتوحات حاصل کیں اور عراق ‘شام‘ایران‘ مصر‘ جس تیزی کے ساتھ فتح کئے‘ اگرچہ اس تیزی کے ساتھ تاریخ انسانی میں فتوحات پہلے بھی ہوئی ہیں‘ ریکارڈ پر ہے کہ سکندرِ اعظم مقدونیہ سے چلا تھا اور دریائے بیاس تک پہنچا اور وہ جس تیزی کے ساتھ فتح کرتا ہوا آیا وہ اپنی جگہ بہت بڑی مثال ہے. وہ تو مغر ب سے مشرق کی طرف آیا تھا جبکہ اَٹیلا مشرق سے مغرب کی طرف گیا تھا، چین کے شمال میں صحرائے گوبی سے نکل کر وہ ڈینور کی وادی تک جاپہنچا تھا. لیکن ایم این رائے کہتا ہے کہ ان فاتحین کی فتوحات محض ہوسِ ملک گیری کا شاخسانہ تھیں، اس نے انہیں ’’brute military Campaigns‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اِن کے نتیجے میں کوئی نئی تہذیب یا کوئی نیا تمدن و جود میں نہیں آیا‘ دنیا میں کوئی روشنی نہیں پھیلی‘ کوئی علم کا فروغ نہیں ہوا. جبکہ محمد عربی ﷺ کے جانشینوں کے ذریعے سے شرقاًغرباً جو فتوحات بڑی تیزی کے ساتھ ہوئی ہیں ان کے نتیجے میں ایک نیا تمدن ‘ نئی تہذیب، علم کی روشنی اور انسانی اقدار کا فروغ وجود میں آیا. ایک ایسا معاشرہ وجود میں آیا جو ہر طرح کی زیادتیوں سے پاک تھا. اس میں سیاسی جبر نہیں تھا‘ اس میں معاشی استحصال نہیں تھا، اس میں کوئی سماجی فرق وتفاوت نہیں تھا. جیسا کہ علامہ اقبال نے بھی محمد ﷺ کے بارے میں کہا ہے کہ ؎
در شبستانِ حرا خولت گزید
قوم و آئین و حکومت آفرید
دنیا میں اور بھی بڑے بڑے لوگ رہے ہیں جو سالہا سال تک پہاڑوں کی غاروں کے اندر تپسیائیں کرتے رہے ہیں‘ لیکن محمد عربی ﷺ نے غارِ حرا میں چند روز کے لیے جو خلوت گزینی اختیار کی تھی وہ اس قدر productive اور نتیجہ خیز تھی کہ اس سے نئی قوم‘ نیا تمدن‘ نیا آئین اور حکومت وجود میں آگئی. یہ ہے آنحضورﷺ کی وہ عظمت کہ جس کا اظہار ایم این رائے نے اس صدی کے ربع اوّل کے آخری سالوں میں کیا‘ جو مسلمان نہیں ‘ ہندوکمیونسٹ تھا.دوسری طرف اس صدی کے ربع آخر کے ابتدائی سالوں میں امریکہ میں ڈاکٹر مائیکل ہارٹ کی کتاب ’’The Hundred‘‘ 1980ءمیں منظر عام پر آئی‘ جس میں اس نے پوری معلوم تاریخ انسانی کا جائزہ لیا ہے کہ تاریخ کے سفر کے دوران کن کن شخصیات نے اس تاریخی دھارے کا رخ موڑا ہے. اس نے ایسے سو افراد کو چن کر ان پر کتاب لکھی ہے اور ان کے اندر بھی درجہ بندی (Gradation) کی ہے کہ کس شخصیت نے سب سے زیادہ تاریخ کے دھارے کو متاثر کیا ہے اور سب سے زیادہ گھمبیر انداز میں اسے موڑا ہے. اس نے حضرت محمدﷺ کو اس درجہ بندی میں سب سے اوپر رکھا ہے. کتاب کا مصنف تا حال عیسائی ہے اور ابھی زندہ ہے. وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تیسرے نمبر پر لایا ہے جبکہ نیوٹن کو دوسرے نمبر لایا ہے. نیوٹن کی فزکس نے جس طرح سے تاریخ انسانی کو متاثر کیا ہے اس میں واقعتا کوئی شک نہیں. سائنس اور ٹیکنالوجی کے پورے explosion کا نقطۂ آغاز نیوٹن ہے. شخصیات کے انتخاب اور درجہ بندی میں مؤلف نے کوئی مذہبی پہلو مد نظر نہیں رکھا‘ نہ ہی اپنے عقائد کو پیش نظر رکھا ہے‘ بلکہ اس کا موضوع ہی یہ ہے کہ تاریخ انسانی کے دھارے کے رخ کو موڑنے والی کون کون سے شخصیات ہیں. ان شخصیات میں نمبر ایک پر محمد رسول اللہ ﷺ نمبر دو پر نیوٹن اور نمبر تین پر حضرت مسیح علیہ السلام ہیں. مسلمانوں میں سے اس نے ایک اور شخصیت کو ان سو100افراد کی فہرست میں شامل کیا ہے اور وہ ہیں ٹھیک پچاسویں نمبر پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ.اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے‘ بلکہ اس نے خود سوال اٹھایا ہے کہ میں ایک عیسائی ہوں اور عیسائی ہوتے ہوئے محمدﷺ کو میں نمبر ایک پر کس اعتبار سے رکھ رہا ہوں ؟ اس کا جواب وہ خود دیتا ہے:
This is because he is the only person supremely successful in both the religious and the secular fields
یہ بہت گھمبیر اور معنی خیز جملہ ہے. لیکن سمجھنے کے لیے پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ اس وقت کی عالمی فضا میں انسانی زندگی کو دوجداگانہ گوشوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے. ایک مذہب کا گوشہ ہے‘ اس کا تعلق اجتماعیات سے نہیں ہے‘ بلکہ صرف افراد سے ہے کہ ہر فرد کو اجازت ہے کہ جس کو چاہے مانے‘ جس پر چاہے یقین رکھے’ ایک خدا کو مانے ‘ سوکو مانے‘ کسی کو نہ مانے‘ فرد کو اس کی پوری آزادی حاصل ہے‘ جسے چاہے پوجے پتھروں کو پوجے‘ درختوں کو پوجے‘ ستاروں کو پوجے‘ چاند کو پوجے‘ اسے اجازت ہے. لیکن یہ معاملہ انفرادی ہے. اس میں مراسم عبودیت (rituals) کے علاوہ کچھ سماجی رسومات (Social Customs) کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے. مثلاً بچے کے پیدائش ہوئی ہے تو اس کی خوشی کیسے منائیں‘ کوئی فوت ہوگیا ہے تو اس کی میت کو کیسے ٹھکانے لگائیں؟ جلائیں‘ دفن کریں یا کہیں رکھ دیں کہ چیل اور کوے کھا جائیں‘ وغیرہ. اس کی بھی ہر شخص کو آزادی ہے. لیکن یہ تینوں چیزیں عقیدہ (dogma) ‘ مراسم عبودیت (rituals) اور سماجی رسوم (Social customs) انفرادی زندگی سے متعلق ہیں. دوسری طرف معاشرتی‘ معاشی اور سیاسی نظام کا تعلق زندگی کے سیکولر میدان سے سمجھا جاتا ہے جس کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں. اس پر تو لوگ خود غور کریں گے‘ ان کے نمائندے بیٹھیں گے اور طے کریں گے‘ اور وہ بیٹھ کر اکثریت سے جو طے کر لیں وہی سماجی اقدار فروغ پا جائیں گی. جو بھی اکثریت سے طے کر لیں کہ یہ سماجی برائیاں ہیں ان کا وہ قلع قمع کریں گے. اگر وہ شراب کی اجازت دینا چاہیں تو دیں اور اگر شراب پر پابندی لگانا چاہیں تو پابندی لگائیں. زنا کو قابل دست اندازی پولیس جرم قرار دینا چاہیں گے تو دے دیں گے‘ اگر زنابالرضا ہے تو اس میں کوئی جرم والی بات ہی نہیں. اگر اس میں کسی شوہر کا حق مارا گیا ہو تو وہ جائے اور سول کورٹ مین مقدمہ دائر کردے.
اسی طرح اگر چاہیں گے تو دو مردوں کی شادی کو بھی قانونی حیثیت دے دیں گے کہ ٹھیک ہے ایک شخص ملکی قانون میں شوہر کی حیثیت اور دوسرا شخص بیوی کی حیثیت رکھتا ہے. گویا سماجی‘ معاشی‘ یا سیاسی معاملات میں سے کسی کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ یہ Secular filed of life ہے.اب نوٹ کیجئے کہ ڈاکٹر مائیکل ہارٹ کا یہ بات کہنے کا مقصد یہ ہے کہ تاریخ انسانی میں جتنی عظیم شخصیات ہیں وہ اگر ایک پہلو سے بلندی کی حامل ہیں تو دوسری طرف ان کا سرے سے کوئی مقام نہیں‘ ممکن ہے وہ کسی معاملے میں صفر ہوں‘ بلکہ شاید ان کے لیے کوئی minus value معین کی جائے. مثلاً مشرق میں گوتم بدھ اور مغرب میں حضرت مسیح علیہ السلام‘ دونوں کی مذہب اور روحانیت کے میدان میں اور پیروکاروں کی تعداد کے اعتبار سے کتنی عظمت ہے‘ لیکن ریاست‘ سیاست اور معاملاتِ ملکی میں ان کا کوئی مقام اور کوئی حصہ نہیں‘ اس میںوہ دونوں صفر تھے. اسی طرح دوسری طرف اٹیلا ہو‘ سکندراعظم ہو یا اور بہت بڑے بڑے حکمران جو دنیا میں گزرے ہیں‘ یہ سیکولر میدان میں تو بہت بلندی پر ہیں لیکن مذہبی میدان میں اس درجے پستی کا شکار ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ صفر سے بھی کام نہ چلے بلکہ منفی minus ویلیو لانی پڑے. مائیکل ہارٹ کا کہنا یہ ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں محمدﷺ صرف اور صرف واحد انسان ’’The only person‘‘ ہیں جو دونوں میدانوں میں انتہائی بلندی پر ہیں.یعنی اور کوئی ہے ہی نہیں ‘ اس کا تقابل کیا ہو گا؟یہ میں نے آپ کو صدی کے ایک سرے اور دوسرے سرے سے دومثالیں دی ہیں. اب ذرا صدی کے درمیان بھی مثال دے دوں.
H.G Wells برطانوی سائین ٹیفک فکشن رائٹر کی حیثیت سے بڑی شہرت رکھتا تھا. اس نے تاریخ عالم پر دوکتابیں ’’Short History of the World‘‘ اور ’’Concise History of the world‘‘لکھیں. موخرالذ کتاب زیادہ ضخیم ہے اور اس میں آنحضور ﷺ پر جوباب ہے اس میں اس نے (میں اپنے دل پر جبر کرکے آپ کو بتا رہا ہوں کہ) ابتداء میں حضورﷺ کی ذاتی ‘ نجی اور خانگی زندگی پر نہایت رکیک حملے کئے ہیں . یوں سمجھئے جیسے دو ملعون نام نہاد مسلمانوں ‘ انگلینڈ میں سلمان رشدی اور بنگلہ دیش میں تسلیمہ نسرین نے ‘ آنحضورﷺ کی شخصیت پر جس قدر چھینٹے اڑائے ہیں اسی طرح کے چھینٹے H.G. Wells نے حضورﷺ کی ذات مبارکہ پر خصوصاً ازدواجی زندگی کے حوالے سے اڑائے ہیں‘ لیکن جب وہ اس باب کے آخر میں پہنچتا ہے اور خطبہ حجتہ الوداع کا ذکر کرتاہے تو آنحضورﷺ کی عظمت کے سامنے گھٹنے ٹیک کر خراج تحسین پیش کرنے پر مجبور رہو جاتا ہے. وہ آپ ﷺ کے الفاظ نقل کرتا ہے:’’لوگو! کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں! اسی طرح کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں! کسی سرخ و سفید رنگ والے شخص کو کسی سیاہ فام پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور اسی طرح کسی سیاہ فام کو کسی سفید فام پر کوئی فضیلت حاصل نہیں فضیلت کی بنیاد صرف تقویٰ ہے. تمام انسان آدمؑ کی اولاد ہیں اور آدمؑ کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے‘‘.ان جملوں کا وہ باقاعدہ حوالہ دیتا ہے اور پھر لکھتا ہے:ترجمہ: ’’اگرچہ انسانی حریت‘ اخوت اور مساوات کے وعظ تو دنیا میں پہلے بھی بہت سے کہے گئے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ ان چیزوں کے بارے میں مسیح ناصری کے ہاں بھی بہت سے مواعظ حسنہ ملتے ہیں‘ لیکن یہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ یہ صرف محمد عربیﷺ تھے جنہوں نے تاریخ انسانی میں پہلی مرتبہ بالفعل ایک باضابطہ معاشرہ انہی اصولوں پر قائم کر کے دکھایا‘‘. آپ اندازہ کیجئے کہ یہ دشمن کا خراج تحسین ہے جو کہ معتقد نہیں ہے.سچ ہے کہ اصل فضیلت تو وہ ہے جس کا اعتراف وا قرار دشمن بھی کریں. گویا جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے. ظاہر بات ہے جو دوست ہے‘ عقیدت مند ہے اور محبت کرنے والا ہے‘ اس کی نگاہ تو محبوب کی کسی خامی کو دیکھ ہی نہیں سکتی‘ اس کی طرف سے تو گویا وہ نابینا ہو جاتی ہے جبکہ دشمن کو کوئی خیر اور خوبی نظر نہیں آتی‘ لیکن اگر کوئی دشمن بھی کسی کی فضیلت کا اعتراف کرے تو پھر اس معاملے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی.