صحیح بخاریؒ اور صحیح مسلمؒ میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’گمان ہے کہ فرات سے سونے کا ایک خزانہ برآمد ہو جائے گا‘‘ اور صحیح مسلمؒ میں حضرت ابی ابن کعبؓ سے مروی ہے کہ آنحضورؐ نے ارشاد فرمایا ’’گمان ہے کہ فرات سے سونے کا ایک پہاڑ برآمد ہو گا تو جب لوگ اس کے بارے میں سنیں گے تو اس پر ٹوٹ پڑیں گے. جو لوگ اس کے پاس ہوں گے وہ سوچیں گے کہ اگر ہم نے انہیں چھوڑ دیا تو وہ ساری دولت لے جائیں گے پھر اس پر جنگ کریں گے یہاں تک کہ ننانوے فیصد لوگ ہلاک ہو جائیں گے‘‘ (ان احادیث کو پڑھتے ہوئے یہ بات پیش نظر رہے کہ قدیم زمانے میں ملکوں اور علاقوں کو دریائوں یا پہاڑوں یا بڑے شہروں کے نام سے موسوم کرنے کا رواج عام تھا) تو ذرا غور فرمائیں کہ کیا یہ بات محض ’’اتفاق‘‘ ہے اور عظمت حدیث کی دلیل نہیں کہ آج تیل کی دولت کو ’’سیال سونا‘‘ قرار دیا جا رہا ہے؟ پھر کیا یہ واقعہ نہیں کہ خلیج کی حالیہ جنگ کا اصل باعث یہی تیل کی دولت ہے؟ مزید برآں کیا یہ امر قابل توجہ نہیں ہے کہ عراق کے صدر صدام حسین نے اس جنگ کو ’’ام المحارب‘‘ یعنی جنگوں کی ماں یا جنگوں کی سلسلے کا نقطہ آغاز قرار دیا؟ (واضح رہے کہ صدام حسین خواہ اپنی ذاتی حیثیت میں دینی اعتبار سے کتنی ہی ناپسندیدہ شخصیت کی حیثیت رکھتا ہو، بہرحال عرب ہونے کے ناطے قرآن سے بھی واقف ہے اور حدیث نبویؐ سے بھی).

یہی وجہ ہے کہ دسمبر 90ء میں میں نے اس کا جو طویل انٹرویو لاس اینجلس میں سی این این پر دیکھا تھا، جو ایک نہایت ماہر و شاطر شخص جان رادر نے لیا تھا، اس موقع پر میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا تھا کہ اس کی پشت پر جو طغریٰ آویزاں تھا وہ سورۃ الانبیاء کی آیت 18کے اس حصے کا تھا ’’بل نقذف بالحق علی الباطل فیدمغہ فاذا ھو زاھق‘‘ یعنی ’’ہم حق کا کوڑا باطل کے سر پر دے مارتے ہیں جو اس کے دماغ کا بھرکس نکال دیتا ہے اور اس طرح باطل نیست و نابود ہو جاتا ہے.‘‘)

اس وقت یہی صدام حسین امریکہ اور اس کے حواریوں کے حلق میں پھنسی ہوئی ہڈی بنا ہوا ہے کہ نہ اگلی جائے نہ نگلی جائے. امریکی صدر بش کے ارادوں اور بیانات سے یہ حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ امریکہ اور اس کے حواری ہر ممکن کوشش کریں گے کہ ان کے کسی ایک سپاہی کو بھی کوئی گزند نہ پہنچے خواہ دشمن کا بچہ بچہ ہلاک ہو جائے. اس موقع پر اس امر کا ذکر بھی دلچسپی کا موجب ہوگا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری حضرت یوحنا کے مکاشفات میں بھی، جو بائیبل کے عہد نامہ جدید کی آخری کتاب میں درج ہیں، عراق کی ایسی ہی شدید تباہی کا ذکر موجود ہے. ان مکاشفات میں عراق کو ’’بڑے شہر بابل‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اور سب سے حیران کن امر یہ کہ اس ’’شہر‘‘ کے تین ٹکڑے ہو جانے کی نہایت واضح الفاظ میں خبر دی گئی ہے. (دیکھئے کتاب ’’مکاشفات‘‘ کے باب16کی آیات 19-18) اور آج یہ حقیقت نگاہوں کے سامنے موجود ہے کہ عراق بالفعل تین حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے. چنانچہ شمال میں کردستان تقریباً خود مختار ہو چکا ہے اور جنوبی علاقے کو ’’نو فلائی زون‘‘ قرار دے کر عملاً عراق کی حکومت کے کنٹرول سے آزاد کر دیا گیا ہے اور صرف بقیہ درمیانی علاقے پر حکومت بغداد کی واقعی عملداری باقی رہ گئی ہے.بوسنیا ہر زیگو وینا سے شروع ہونے والی صلیبی جنگوں کا سلسلہ افغانستان اور عراق کے بعد کہاں تک پہنچے گا. ایک نوجوان محقق کی تحقیق جس کا لب لباب یہ ہے کہ ان جنگوں کے دوران شدید جانی و مالی نقصانات کی صورت میں امت مسلمہ کے افضل اور برتر 
حصے یعنی مسلمانان عرب کو ان کے اس اجتماعی جرم کی بھرپور سزا مل جائے گی جس کا ارتکاب انہوں نے دین حق کے نظام عدل و قسط کو ایک کامل نظام زندگی کی صورت میں قائم نہ کر کے کیا ہے. ان جنگوں میں ایک مرحلے پر ’’دارالسلام‘‘ صرف حجاز تک محدود ہو کر رہ جائے گا اور دشمن مدینہ منورہ کے ’’دروازوں‘‘ تک پہنچ جائے گا.

لیکن پھر رحمت خداوندی جوش میں آئے گی، مسلمانان عرب ایک نئی ہیئت اجتماعی تشکیل دیں گے اور ایک نئے قائدامیر محمد ابن عبداللہ المہدی کے ہاتھ پر ’’بیعت‘‘ کر کے جوابی کارروائی کے لیے مستعد ہو جائیں گے. اس موقع پر یہ تذکرہ یقینا دلچسپی کا موجب ہو گا کہ عیسائیوں کی روایات میں بھی اس دنیا کے خاتمے سے قبل ایک عظیم جنگ کا ذکر موجود ہے جو حق اور باطل کے مابین ہو گی.چنانچہ حضرت یوحنا کے جن مکاشفات کا تذکرہ اس سے قبل ہو چکا ہے ان ہی میں نہ صرف یہ کہ اس جنگ کا ذکر بھی موجود ہے، بلکہ یہ صراحت بھی ہے کہ اس میں حصہ لینے کے لیے ’’مشرق کے بادشاہوں کی فوجیں‘‘ بھی آئیں گی! مکاشفات میں اس جنگ کے دن کو ’’خدائے اعظم وقادر کا دن‘‘ کہا گیا ہے اور اس کے محل وقوع کا نام ’’آرمیگاڈان‘‘ بتایا گیا ہے. (دیکھئے ’’مکاشفات‘‘ باب 16آیات 12تا 16) .گویا حدیث نبوی ؐ کا ’’الملحمۃ العظمی‘‘ اور بائیبل ’’آرمیگاڈان‘‘ ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں! احادیث نبویہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان جنگوں کے پہلے مرحلوں میں مقابلہ صرف عیسائیوں اور مسلمانوں کے مابین ہو گا اور یہودی اگرچہ پس پردہ تو شریک ہوں گے لیکن سامنے نہیں آئیں گے. چنانچہ خلیج کی جنگ کے دوران اس صورت حال کی بھی ایک ابتدائی جھلک دنیا کے سامنے آ چکی ہے کہ امریکہ اور اس کے حواریوں نے اسرائیل کو جنگ میں شرکت سے روکے رکھا ہے اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود پوری کر رہا ہے. تاہم جب حضرت مہدی کی قیادت میں اور مشرق سی آنے والی کمک کی مدد سے مسلمانان عرب کامیابیاں حاصل کرنی شروع کریں گے تو یہودی بھی جنگ میں کود پڑیں گے اور یہی مرحلہ ’’المسیح الدجال‘‘ کے خروج کا ہو گا… جس کے ہاتھوں مسلمانوں پر عذاب الٰہی کے کچھ مزید اور شدید تر کوڑے پڑیں گے. تاہم اس کے بعد حضرت مسیح ؒ نازل ہوں گے اور ان کے ہاتھوں نہ صرف یہ کہ دجال قتل ہو گا بلکہ پوری قوم بنی اسرائیل پر بھی اللہ کا وہ عذاب استیصال نازل ہو جائے گا جس سے وہ اب سے دو ہزار برس قبل حضرت مسیح ؑانکار کر چکے تھے.چنانچہ اگرچہ ابتداء میں مسیح الدجال کے ہاتھوں ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ وجود میں آجائے گا، تاہم بالآخر وہی عظیم تر اسرائیل‘‘ سابقہ معزول و مغضوب امت مسلمہ کا ’’عظیم تر قبرستان‘‘ بن جائے گا.