حضورﷺ کے جانشینوں اور جاں نثاروں نے جس سرعت کے ساتھ فتوحات حاصل کیں اور عراق‘ شام‘ ایران‘ مصر جس تیزی کے ساتھ فتح کیے‘ اگرچہ اس تیزی کے ساتھ تاریخ انسانی میں فتوحات پہلے بھی ہوئی ہیں… ریکارڈ پر ہے کہ سکندرِ اعظم مقدونیہ سے چلا تھا اور دریائے بیاس تک پہنچا اور وہ جس تیزی کے ساتھ علاقے فتح کرتے ہوئے آیا وہ اپنی جگہ بہت بڑی مثال ہے. وہ تو مغرب سے مشرق کی طرف آیا تھا جبکہ اَٹیلا مشرق سے مغرب کی طرف گیا تھا. چین کے شمال میں صحرائے گوبی سے نکل کر وہ ڈینور کی وادی تک جا پہنچا تھا. لیکن ایم این رائے کہتا ہے کہ ان فاتحین کی فتوحات محض ہوسِ ملک گیری کا شاخسانہ تھیں. اس نے انہیں ’’brute military campaigns‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے نتیجے میں کوئی نئی تہذیب یا کوئی نیا تمدن وجود میں نہیں آیا‘ دنیا میں کوئی روشنی نہیں پھیلی‘ کوئی علم کا فروغ نہیں ہوا. جبکہ محمد عربیﷺ اور آپؐ کے جانشینوں کے ذریعے سے شرقاً غرباً جو فتوحات بڑی تیزی کے ساتھ ہوئی ہیں‘ ان کے نتیجے میں ایک نیا تمدن‘ نئی تہذیب‘ علم کی روشنی اور انسانی اقدار کا فروغ وجود میں آیا. ایک ایسا معاشرہ وجود میں آیا جو ہر طرح کی زیادتیوں سے پاک تھا. اس میں سیاسی جبر نہیں تھا‘ اس میں معاشی استحصال نہیں تھا‘ اس میں کوئی سماجی فرق و تفاوت نہیں تھا. جیسے کہ علامہ اقبال نے محمد ٌرسول اللہﷺ کے بارے میں کہا ہے ؎
در شبستانِ حرا خلوت گزید
قوم و آئین و حکومت آفرید
دنیا میں اور بھی بڑے بڑے لوگ رہے ہیں جو سالہا سال تک پہاڑوں کی غاروں کے اندر تپسیائیں کرتے رہے ہیں‘ لیکن محمد ِعربیﷺ نے غارِ حرا میں چند روز کے لیے جو خلوت گزینی اختیار کی تھی وہ اس قدر productive اور نتیجہ خیز تھی کہ ا س سے ایک نئی قوم‘ نیا تمدن‘ نیا آئین اور حکومت وجود میں آ گئی . یہ ہے آنحضورﷺ کی وہ عظمت کہ جس کا اظہار ایم این رائے نے اس صدی کے رُبع اوّل کے آخری سالوں میں کیا‘ جو مسلمان نہیں‘ ہندو کمیونسٹ تھا.
دوسری طرف اس صدی کے رُبع آخر کے ابتدائی سالوں میں امریکہ میں ڈاکٹر مائیکل ہارٹ (پیدائش:اپریل۱۹۳۲ء)کی کتاب ’’Te Hundred‘‘ ۱۹۸۰ ء میں منظر عام پر آئی ‘ جس میں اُس نے پوری معلوم تاریخ انسانی کا جائزہ لیا ہے کہ تاریخ کے سفر کے دوران کن کن شخصیات نے اس تاریخ کے دھارے کا رخ موڑا ہے. اُس نے ایسے سو افراد کو چن کر اُن پر کتاب لکھی ہے اور ان کے اندر بھی درجہ بندی (gradation) کی ہے کہ کس شخصیت نے سب سے زیادہ تاریخ کے دھارے کو متاثر کیا ہے اور سب سے زیادہ گھمبیر انداز میں اسے موڑا ہے. چنانچہ اس نے حضرت محمدﷺ کو اس درجہ بندی میں سب سے اوپر رکھا ہے. اس کتاب کا مصنف تاحال عیسائی ہے اور ابھی زندہ ہے. وہ حضرت عیسیٰؑ کو تیسرے نمبر پر لایا ہے‘ جبکہ نیوٹن کو دوسرے نمبر پر لایا ہے. نیوٹن کی فزکس نے جس طرح سے تاریخ انسانی کو متأثر کیا ہے اس میں واقعتا کوئی شک نہیں. سائنس اور ٹیکنالوجی کے پورے explosion کا نقطہ ٔآغاز نیوٹن ہے. شخصیات کے انتخاب اور درجہ بندی میں مؤلف نے کوئی مذہبی پہلو مدنظر نہیں رکھا‘ نہ ہی اپنے عقائد کو پیش نظر رکھا ہے‘ بلکہ اس کا موضوع ہی یہ ہے کہ تاریخ انسانی کے دھارے کے رُخ کو موڑنے والی کون کون سی شخصیات ہیں. ان شخصیات میں نمبر ایک پر محمد ٌرسول اللہﷺ ‘ نمبر دو پر نیوٹن اور نمبر تین پر حضرت مسیح ؑ ہیں. مسلمانوں میں سے اس نے ایک اور شخصیت کو ان سو (۱۰۰) کی فہرست میں شمار کیا ہے اور وہ ہیں ٹھیک پچاسویں نمبر پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ.
اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے‘ بلکہ اس نے خود سوال اٹھایا ہے کہ میں ایک عیسائی ہوں اور عیسائی ہوتے ہوئے محمد (ﷺ ) کو میں نمبر ایک پر کس اعتبار سے رکھ رہا ہوں؟ اس کا جواب وہ خود دیتا ہے:
My choice of Muhammad to lead the list of the worlds most influential persons may surprise some readers and may be questioned by others but he was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular levels
یہ بہت گھمبیر اور معانی خیز جملہ ہے‘ لیکن اسے سمجھنے کے لیے پہلے یہ سمجھنا ہو گا کہ ِاس وقت کی عالمی فضا میں انسانی زندگی کو دوجداگانہ گوشوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے. ایک مذہب کا گوشہ ہے‘ اس کا تعلق اجتماعیات سے نہیں ہے‘ بلکہ صرف افراد سے ہے کہ ہر فرد کو اجازت ہے کہ جس کو چاہے مانے‘ جس پر چاہے یقین رکھے‘ ایک خدا کو مانے‘ سو کو مانے‘ کسی کو نہ مانے‘ فرد کو اس کی پوری آزادی حاصل ہے‘ جسے چاہے پوجے‘ پتھروں کو پوجے‘ درختوں کو پوجے‘ ستاروں کو پوجے‘ چاند کو پوجے‘ یہاں تک کہ اعضاءِ تناسل کو پوجے‘ ٹھیک ہے اسے اجازت ہے. لیکن یہ معاملہ انفرادی ہے. اس میں مراسم ِعبودیت (rituals) کے علاوہ کچھ سماجی رسومات (social customs) کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے. مثلاً بچے کی پیدائش ہوئی ہے تو اس کی خوشی کیسے منائیں‘ کوئی فوت ہو گیا ہے تو اس کی میت کو کیسے ٹھکانے لگائیں؟ جلائیں‘ دفن کریں یا کہیں رکھ دیں کہ چیل اور کوے کھا جائیں‘ وغیرہ.
اس کی بھی ہر شخص کو آزادی ہے. لیکن یہ تینوں چیزیں عقیدہ (dogma) ‘مراسم عبودیت (rituals)اور سماجی رسوم (social customs) انفرادی زندگی سے متعلق ہیں دوسری طرف معاشرتی‘ معاشی اور سیاسی نظام کا تعلق زندگی کے سیکولر میدان سے سمجھا جاتا ہے جس کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں. اس پر تو لوگ خود غور کریں گے‘ ان کے نمائندے بیٹھیں گے اور طے کریں گے‘ اور وہ بیٹھ کر اکثریت سے جو طے کر لیں وہی سماجی اقدار فروغ پا جائیں گی. جو بھی اکثریت سے طے کر لیں کہ یہ سماجی برائیاں ہیں ان کا وہ قلع قمع کریں گے. اگروہ شراب کی اجازت دینا چاہیں تو دے دیں اور اگر شراب پر پابندی لگانا چاہیں تو پابندی لگادیں. زنا بالجبر کو قابل دست اندازی ٔپولیس جرم قرار دے دیں گے اور اگر زنا بالرضا ہے تو اس میں کوئی جرم والی بات ہی نہیں. البتہ اس ضمن میں کسی شوہر کا حق مارا گیا ہو تو وہ جائے اور سول مقدمہ دائر کردے. اسی طرح اگر چاہیں گے تو دو َمردوں کی شادی کو بھی قانونی حیثیت دے دیں گے کہ ٹھیک ہے ایک شخص ملکی قانون میں شوہر کی حیثیت اور دوسرا شخص بیوی کی حیثیت رکھتا ہے. گویا سماجی‘ معاشی یا سیاسی معاملات میں سے کسی کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں‘ کیونکہ یہ secular field of life ہے.
اب نوٹ کیجیے کہ ڈاکٹر مائیکل ہارٹ کا یہ بات کہنے کا مقصد یہ ہے کہ تاریخ انسانی میں جتنی عظیم شخصیات ہیں وہ اگر ایک پہلو سے بلندی کی حامل ہیں تو دوسری طرف ان کا سرے سے کوئی مقام نہیں‘ ممکن ہے وہ کسی معاملے میں صفر ہوں‘ بلکہ شاید ان کے لیے کوئی minus value معین کی جائے. مثلاً مشرق میں گوتم بدھ اور مغرب میں حضرت مسیحؑ‘ دونوں کی مذہب اور روحانیت کے میدان میں اور پیروکاروں کی تعداد کے اعتبار سے کتنی عظمت ہے‘ لیکن ریاست‘ سیاست اور معاملاتِ ملکی میں ان کا کوئی مقام اور کوئی حصہ نہیں.اسی طرح دوسری طرف اٹیلا ہو‘ سکندر اعظم ہو یا اور بہت بڑے بڑے حکمران جو دنیا میں گزرے ہیں‘ یہ سیکولر میدان میں تو بہت بلندی پر ہیں‘ لیکن مذہبی میدان میں اس درجے پستی کا شکار ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ صفر سے بھی کام نہ چلے بلکہ منفی (minus)ویلیو لانی پڑے. سکندر اعظم کے لیے لازماً کوئی نہ کوئی منفی (minus) ویلیو لانی پڑے گی. مائیکل ہارٹ کا کہنا یہ ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں صرف اور صرف ایک ہی انسان (The only man) ہے جو دونوں میدانوں میں انتہائی بلندی پر ہے.
He was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular levels
یعنی اور کوئی ہے ہی نہیں‘ اس کا تقابل کیا ہو گا؟
یہ میں نے آپ کو صدی کے اُس سرے اور اِس سرے سے دو مثالیں دی ہیں. اب ذرا صدی کے درمیان سے بھی مثال دے دوں.ایچ جی ویلز (۱۸۶۶ء . ۱۹۴۶ء) برطانوی سائنٹیفک فکشن رائٹر کی حیثیت سے بڑی شہرت رکھتا تھا. اس نے بڑے اچھے اچھے ناول اور کہانیاں لکھیں جن میں اس نے یہ عکاسی کی کہ سائنس کدھر جا رہی ہے. سائنس کی جو ایجادات اور جو اکتشافات ابھی ہونے تھے ان کو پہلے سے visualize کر کے ان پر اس نے اپنی کہانیوں اور ناول کے بنیادی خاکے اور پلاٹس کو مبنی کیا.لہٰذا وہ scientific fiction کے اعتبار سے مشہور ہے. لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے تاریخ عالم پر دو کتابیں ’’A Short History of the World‘‘ اور ’’Concise History of the World‘‘ لکھیں.مؤخر الذکر کتاب زیادہ ضخیم ہے اور اس میں آنحضورﷺ پر جو باب ہے اس میں اس نے (میں اپنے دل پر جبر کر کے آپ کو بتا رہا ہوں کہ )ابتدا میں حضورﷺ کی ذاتی‘ نجی و خانگی زندگی پر نہایت رکیک حملے کیے ہیں. یوں سمجھئے جیسے دو ملعون نام نہاد مسلمانوں‘انگلینڈ میں سلمان رشدی اور بنگلہ دیش میں تسلیمہ نسرین نے‘ آنحضورﷺ کی شخصیت پر جس قدر چھینٹے اڑائے ہیں اسی طرح کے چھینٹے H.G.Wells نے حضورﷺ کی ذاتِ مبارکہ پر خصوصاً خانگی زندگی کے حوالے سے اڑائے ہیں‘ لیکن جب وہ اس باب کے اخیر میں پہنچتا ہے اور خطبہ حجۃالوداع کا ذکر کرتا ہے تو آنحضورﷺ کی عظمت کے سامنے گھٹنے ٹیک کر خراجِ تحسین پیش کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے. وہ آپؐ کے الفاظ نقل کرتا ہے:
لَا فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی اَعْجَمِیٍّ وَلَا لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ وَلَا لِاَحْمَرَ عَلٰی اَسْوَدَ وَلَا اَسْوَدَ عَلٰی اَحْمَرَ اِلاَّ بِالتَّقْوٰی (۱) اَلنَّاسُ کُلُّھُمْ بَنُوْ آدَمَ وَآدَمُ خُلِقَ مِنْ تُرَابٍ (۲)
’’لوگو! کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں! اسی طرح کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت نہیں! کسی سرخ و سفید رنگ والے شخص کو کسی سیاہ فام پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور اسی طرح کسی سیاہ فام کو کسی سفید فام پر کوئی فضیلت حاصل نہیں! فضیلت کی بنیاد صرف تقویٰ ہے… تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے.‘‘
ان جملوں کا وہ باقاعدہ حوالہ دیتا ہے اور پھر لکھتا ہے :
Although the sermons of human freedom, fraternity
۱) مسند احمد‘ ح ۲۲۹۷۸.
۲) سنن الترمذی‘ ابواب المناقب‘ باب فی فضل الشام والیمن.
sermons in Jesus of Nazareth, but it must be admitted that it was Mohammad who for the first time in history established a society based on these principles
’’اگرچہ انسانی حریت ‘ مساوات اور اخوت کے وعظ تو دنیا میں پہلے بھی بہت کہے گئے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ ان چیزوں کے بارے میں مسیح ناصری کے ہاں بھی بہت سے مواعظ حسنہ ملتے ہیں‘ لیکن یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ یہ صرف محمد عربی (ﷺ ) ہی تھے جنہوں نے تاریخ انسانی میں پہلی مرتبہ بالفعل ایک باضابطہ معاشرہ انہی اصولوں پر قائم کر کے دکھایا.‘‘
آپ اندازہ کیجیے کہ یہ دشمن کا خراج تحسین ہے جو کہ معتقد نہیں ہے. میں نے اسی لیے جبر کر کے بتایا ہے کہ وہ شخص اتنی بڑی حماقت کا مظاہرہ کر رہا ہے اور کہتا ہے کہ ’’سمجھ میں نہیں آتا کہ (معاذ اللہ‘ ثم معاذ اللہ‘ نقل کفر کفرنباشد) محمد جیسے گھٹیا آدمی کے گرد خدیجہ‘ ابوبکر‘ عثمان اور عمر جیسے عظیم انسان کیسے جمع ہو گئے!‘‘ حالانکہ اس احمق سے کوئی پوچھے کہ اس سوال کا جواب تو تمہیں دینا چاہیے. درخت تو اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے. تم مخمصے میں ہو جبکہ تمہیں حضرت خدیجہ ‘ ابوبکر‘عمر‘ عثمان وعلیjکی عظمت کا اعتراف و اقرار ہے پھر بھی تمہیں سمجھ میں نہیں آتا کہ اتنی عظیم شخصیتیں محمد (ﷺ ) کے گرد کیسے جمع ہوگئیں! آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ ان لوگوں کے دل و دماغ کے اندر ذاتی طور پر کتنا عناد ‘ بغض اور دشمنی ہے‘ لیکن اس کے باوجود وہ اس حقیقت کے اعلان و اعتراف پر مجبور ہے کہ محمد عربی(ﷺ )کے ہاں انسانی حریت و اخوت و مساوات کے صرف وعظ ہی نہیں ملتے بلکہ آپؐ نے ان اصولوں پر بالفعل ایک معاشرہ قائم کر کے دکھایا.
سچ ہے کہ ’’اَلْفَضْلُ مَا شَھِدَتْ بِہِ الْاَعْدَائُ‘‘ یعنی اصل فضیلت تو وہ ہے جس کا اعتراف و اقرار دشمن بھی کریں. گویا جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے. ظاہر بات ہے جو دوست ہے‘ عقیدت مند ہے اور محبت کرنے والا ہے‘ اس کی نگاہ تو محبوب کی کسی خامی کو دیکھ ہی نہیں سکتی‘ اس کی طرف سے تو گویا وہ نابینا ہو جاتی ہے ‘جبکہ دشمن میں کوئی خیر اور خوبی نظر نہیں آتی. لیکن اگر کوئی دشمن کسی کی فضیلت کا اعتراف کرے تو اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی.یہاں البتہ ایک بات نوٹ کر لیجیے کہ آنحضورﷺ کی مدح میں H.G.Wells نے اپنی کتاب میں یہ جملے جو لکھ دیے تھے انہیں کتاب کے موجودہ مرتبین اور نئے ایڈیٹرز نے حذف کر دیا ہے. یہ جملے ان کے حلق سے نیچے نہیں اتر پائے. H.G.Wells کو تو فوت ہوئے بہت عرصہ گزر چکا ہے. اب ’’Concise History of the World‘‘ کا جو نیا ایڈیشن شائع ہوا ہے اس میں وہ جملے حذف کر دیے گئے ہیں. یہ وہ کڑوی گولی تھی جو ان کے حلق سے نیچے نہیں اُتر پائی.لیکن آپ کو پنجاب پبلک لائبریری یا کسی او رپرانی لائبریری سے یہ پرانے نسخے مل جائیں گے جن میں مذکورہ بالا الفاظ موجود ہیں.