آخری بعثت کے لیے وقت کی تعیین و انتخاب میں حکمت

مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ختم نبوت‘ اتمامِ نعمت شریعت اور تکمیل دین حق کے لیے وقت کے انتخاب میں جوحکمت ِالٰہی کارفرما ہے اس کی جانب بھی انہی دو الفاظ سے رہنمائی ملتی ہے. اس لیے کہ بعثت ِمحمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ نوعِ انسانی کی تاریخ کا وہ دور ہے جس میں دو ہی اعتبارات سے نسل ِانسانی گویا عہد ِطفولیت سے نکل کر بلوغ کو پہنچی تھی:

(۱) ایک اس اعتبار سے کہ عقل انسانی اپنی پختگی کو پہنچ گئی تھی اور انسان بحیثیت ِانسان جو کچھ سوچ سکتا تھا سوچ چکا تھا. یا یوں کہہ لیں کہ نسل انسانی عقلی و فکری اعتبار سے بالغ ہو گئی تھی. محترم پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم و مغفور جنہوں نے مذاہب ِعالم ‘ فلسفہ‘ تصوف اور علم کلام کا نہایت وسیع مطالعہ کیا ‘ گواہی دیتے ہیں کہ تاریخ انسانی کے بارہ سو سال یعنی چھ سو سال قبل مسیح سے چھ سو سال بعد مسیحؑ تک کا عرصہ فکر ِانسانی کے عہد ِطفولیت سے نکل کر عقل و شعور کی پختگی تک پہنچنے کا زمانہ ہے. چنانچہ اس عرصے کے دوران میں تمام مذاہب عالم بھی پیدا ہو چکے تھے اور تمام مکاتب فلسفہ بھی وجود میں آ چکے تھے. اس کے بعد مادی علوم نے ضرور ترقی کی ہے اور انسانی معلومات کا دائرہ یقینا نہایت وسیع ہوا ہے ‘لیکن فکر کے میدان میں ہرگز کوئی ترقی نہیں ہوئی. چنانچہ نہ کوئی واقعتا نیا مذہب وجود میں آیا ہے نہ حقیقتاً جدید مکتب ِفکر یا مدرسہ فلسفہ. اور ’فلسفہ ٔجدید‘ کے نام سے بھاری بھرکم عنوانات اور اصطلاحات کے ساتھ جو مکاتب فکر سامنے آئے ہیں ان کی حیثیت نئی بوتلوں میں پرانی شراب کے سوا اور کچھ نہیں اب اگر یہ صحیح ہے‘ اور یقینا صحیح ہے تو
 (۱) لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (الحدید:۲۵صاف سمجھ میں آتا ہے کہ ساتویں صدی عیسوی ہی موزوں و مناسب تھی اس کے لیے کہ ؏ ’’نوعِ انساں را پیامِ آخریں!‘‘یعنی قرآن حکیم ’’اَلْہُدٰی‘‘ بنا کر نازل کر دیا جاتا اور اس کی ابد الآباد تک حفاظت کا اہتمام و انتظام بھی کر دیا جاتا کہ نوعِ انسانی کی فکری رہنمائی کا مستقل سامان ہو جائے. یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم ان دعاوی کے ساتھ نازل ہوا کہ:

۱
اِنَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ یَہۡدِیۡ لِلَّتِیۡ ہِیَ اَقۡوَمُ (الاسرائ:۹
’’یقینا یہ قرآن رہنمائی کرتا ہے اس راہ کی طرف جو سب سے سیدھی ہے.‘‘

۲
وَ بِالۡحَقِّ اَنۡزَلۡنٰہُ وَ بِالۡحَقِّ نَزَلَ ؕ (الاسرائ:۱۰۵
’’اور اس (قرآن) کو ہم نے حق ہی کے ساتھ نازل فرمایا اور حق ہی کے ساتھ وہ نازل ہوا.‘‘

۳
قُلۡ لَّئِنِ اجۡتَمَعَتِ الۡاِنۡسُ وَ الۡجِنُّ عَلٰۤی اَنۡ یَّاۡتُوۡا بِمِثۡلِ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ لَا یَاۡتُوۡنَ بِمِثۡلِہٖ وَ لَوۡ کَانَ بَعۡضُہُمۡ لِبَعۡضٍ ظَہِیۡرًا ﴿۸۸﴾ (الاسرائ) 
’’کہہ دو کہ اگر مجتمع ہوجائیں تمام انسان اور تمام جن اس پر کہ لے آئیں اس جیسا قرآن تو نہ لا پائیں گے اس کا مثل خواہ وہ سب ایک دوسرے کے لیے مددگار اور حمایتی بن جائیں.‘‘

اور اُس نے پوری نوعِ انسانی کو بار بار چیلنج کیا کہ: 

وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ رَیۡبٍ مِّمَّا نَزَّلۡنَا عَلٰی عَبۡدِنَا فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَۃٍ مِّنۡ مِّثۡلِہٖ ۪ 
(البقرۃ:۲۳
’’اور اگر ہو تم شک میں اس کے بارے میں جو نازل فرمایا ہے ہم نے اپنے بندےؐ پر تو لے آؤ اس جیسی ایک ہی سورۃ!‘‘

افسوس کہ تاحال قرآن حکیم کے وجوہِ اعجاز میں سے اصل توجہ صرف اُس کے ادبی و لغوی محاسن اور انداز و اسلوب کی مٹھاس گویا فصاحت و بلاغت ہی پر صرف کی جاتی رہی ہے اور ساری بحث الفاظ کی موزونیت‘ تراکیب کی چستی اور اصوات کے آہنگ ہی کے گرد گھومتی رہی ہے اور اس کے فکر کی جانب کوئی توجہ ہوئی بھی ہے تو نہایت بھونڈے انداز میں ‘بایں طور کہ کبھی ارسطو کی منطق کو اس پر حاکم بنا کر لابٹھایا گیا اور کبھی جدید سائنسی نظریات کی بیڑیاں اس کے قدموں میں ڈال دی گئیں‘ درآں حالیکہ ابھی وہ خود نہایت خام اور ناپختہ حالت میں تھے. 
واضح رہنا چاہیے کہ قرآن اصلاً’’اَلْہُدٰی‘‘ ہے اور اس کا اصل اعجاز اس کی ’فکری وعملی رہنمائی‘ ہی میں مضمر ہے اور یہ انسان کو اس وقت عطا کیا گیا جب فکر ِانسانی بطورِ خود (as such) اپنی آخری بلندیوں کو چھو چکی تھی! گویا انسان عقلی اور فکری اعتبار سے ’بالغ‘ ہو گیا تھا!

(۲) آخری بعثت کے لیے وقت کے انتخاب میں دوسرا پہلو جو سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ ساتویں صدی عیسوی تک انسان کا اجتماعی شعور بھی پختہ ہو چکا تھا اور انسان کی ہیئت ِ اجتماعیہ بھی ارتقاء کے جملہ مراحل طے کر کے گویا اپنے عروج کو پہنچ چکی تھی. چنانچہ انسان اولاً قبائلی زندگی اور اس کے بعد شہری ریاستوں 
(city states) کے قیام کے مراحل طے کر چکا تھا اور عظیم سلطنتوں کے دور کا آغاز ہو چکا تھا. گویا حیاتِ انسانی پر نظامِ اجتماعی کی گرفت پوری شدت کو پہنچ چکی تھی‘ اور انسان کو تمدن و اجتماعیت کے نازک اور پیچ در پیچ مسائل سے سابقہ پیش آ چکا تھا . مزید برآں اب اس دور کا آغاز ہونے والا تھا جس میں فرد بمقابلہ جماعت‘ مرد بمقابلہ عورت اور سرمایہ بمقابلہ محنت ایسے پیچیدہ اور لاینحل مسائل کے ضمن میں انسان کی عقلی ٹھوکروں اور فکری بے اعتدالیوں کے طفیل عالم ِ انسانیت کو موت و حیات کی شدید کشمکش اور to be or not to be کی سی اذیت بخش کیفیت سے دوچار ہونا تھا لہٰذا یہی موزوں وقت تھا کہ انسان کو ایک ایسا ’نظامِ عدلِ اجتماعی‘ عطا کر دیا جائے جو واقعتا ’’الْمِیْزَان‘‘ کے حکم میں ہو اور تمدن و اجتماعیت کے جملہ نازک اور پیچیدہ مسائل میں مختلف پہلوؤں سے راہِ وَسط َکا تعین کر دے اور معاشرت‘ معیشت اور سیاست تینوں کے ضمن میں صراطِ مستقیم اورسواء ّالسبیل کوپوری طرح واضح کر دے ‘تاکہ نہ معاشرتی بے راہ روی (social perversion) کا کوئی امکان باقی رہے نہ معاشی استحصال (economic exploitation) کا اور نہ سیاسی جبر(political repression) کا. اور ارسالِ رُسل اور انزالِ کتاب و میزان کا جو مقصد ہمیشہ سے پیش نظر تھا ‘یعنی ’’لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ‘‘ وہ نبی آخر الزماں پر تکمیل ِدین ِحق کے ذریعے ابد الآباد تک کے لیے پورا ہو جائے‘ بفحوائے آیت قرآنی: 

اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ 
الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا (المائدۃ:۳
’’آج کے دن میں نے کامل کر دیا تمہارے لیے تمہارا دین اور پوری کر دی تم پر اپنی نعمت اور پسند کر لیا میں نے تمہارے لیے دین اسلام کو.‘‘