اگر آپ کسی ایک فرد کی زندگی میں بھی یہ ’انقلاب‘ لانا چاہیں تو اس کے لیے ناگزیر ہے کہ پہلے آپ اس کے فکر کا جائزہ لیں اور تلاوتِ آیات کے ذریعے اس کے ذہن کو فاسد خیالات اور غلط نظریات سے اور اُس کے قلب کو فاسد ارادوں اور غلط اُمنگوں اور خواہشات سے پاک کریں. اس کے فکر کی ایمان باللہ‘ ایمان بالآخرت اور ایمان بالرسالت کی محکم اساسات پر ازسر ِنو تعمیر کریں اور اس کے قلب کو نورِ ایمان سے منور کر دیں. اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ غیر صالح اعمال اور غلط عادات و اطوار پت جھڑ کے پتوں کی طرح خود بخود جھڑ جائیں گے. اور تب موزوں وقت آئے گا اس کا کہ شریعت کے اوامر و نواہی کی تلقین اسے کی جائے. گویا اس کے وجود پر شریعت کا نفاذ عمل میں آ جائے. پھر اگر وہ صاحب ِاستعداد ہو تو ایک قدم اور آگے بڑھ کر حکمت کی تحصیل کرے جس سے اصل انشراحِ صدر اور اطمینانِ قلب بھی حاصل ہوجائے گا اور اس کی شخصیت میں اس انقلاب کو تمکن ّو استقلال بھی حاصل ہو جائے گا. اصل میں یہ ہے وہ محنت و مشقت جس کا ثمرہ بیان ہوا آنحضورﷺ کے اس حکیمانہ قول میں جو آپؐ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے خطاب کر کے فرمایا تھاکہ :
فَوَ اللّٰہِ لَاَنْ یَّـھْدِیَ اللّٰہُ بِکَ رَجُلًا وَّاحِدًا خَیْرٌ لَّکَ مِنْ اَنْ یَکُوْنَ لَکَ حُمْرُ النَّـعَمِ (۱) ’’اے علیؓ ! اللہ کی قسم‘ اگر اللہ تمہارے ذریعے کسی ایک شخص کو بھی ہدایت دے دے تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بڑھ کر ہے‘‘. اور اگر آپ اس ہفت خواں کو طے کرنے کے لیے تیار نہ ہوں تو آپ کی حالت وہی ہو گی جو ہمارے معاشرے میں ان بہت سے بڑے بوڑھوں کی ہوتی ہے جنہوں نے اپنی نوجوان نسل کو حوالے تو اس نظام تعلیم کے کیا ہے جس کے بارے میں غلط نہیں کہا جس نے بھی کہا کہ ؎ یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی!
اور
گلا تو گھونٹ دیا اہل ِمدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لا الٰہ الا اللہ!
نتیجتاً کسی کے ذہن پر برٹرینڈرسل سوار ہے اور کسی کے ساغت‘کوئی فرائڈ کا شیدائی ہے (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الجھاد والسیر‘ باب غزوۃ خیبر.وصحیح مسلم‘ کتاب فضائل الصحابۃ‘ باب من فضائل علی بن ابی طالب ص. اور کوئی یونگ یا ایڈلریا میکڈوگل کا‘ کسی پر ڈارون کا جادو چلا ہوا ہے اور کسی پر ہیگل اور مارکس کا‘ چنانچہ خدا وآخرت اور وحی و رسالت پر ایمان و یقین کے آثار کا کوسوں پتا نہیں لیکن تلقین ہو رہی ہے نماز اور روزے کی اور فرمائش و فہمائش ہو رہی ہے شعائر دینی کے احترام کے بارے میں. نتیجہ اس کے سوا اور کیا نکل سکتا ہے کہ نوجوان اگر نسبتاً شریف اور سعادت مند ہے تو نگاہیں نیچی کر لے اور آپ کی موجودگی میں احتراماً آپ کی خواہش بھی پوری کر دے‘ لیکن اگر ذرا بے باک اور جری ہو تو صاف کہہ دے کہ ’’چھوڑیئے ابا جان! یہ سب ڈھکوسلے ہیں‘ جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے!‘‘