ایمان کے دونوں درجوں کو لازم و ملزوم سمجھنے سے یہ بات خودبخود منطقی طور پر سمجھ میں آ جائے گی کہ ایمان جب یقینِ قلبی کے درجے تک پہنچتا ہے تو اس کے نتیجے کے طور پر انسان کے عمل میں کچھ اثرات لازماً پیدا ہونے چاہئیں.اس ایمان کا پہلا لازمی نتیجہ تو وہ ہے جو اسی آیت میں ایمان کے ذکر کے بعد ’’عَزَّرُوْہُ‘‘ کے لفظ میں آیا ہے. فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِہٖ وَ عَزَّرُوۡہُ یعنی ’’پس وہ لوگ جو محمد(ﷺ )پر ایمان لائے اور جنہوں نے ان کی توقیر و تعظیم کی‘‘ .گویا ایمان کا پہلا تقاضا توقیر و تعظیم ہے. جب رسول اللہﷺ کے بارے میں یہ یقین حاصل ہو گیا کہ آپؐ ہمارے خالق‘ ہمارے مالک‘ ہمارے آقا اور ہمارے پروردگار کے فرستادہ ہیں‘ اس کے پیغامبر ہیں‘ اس کے رسول ہیں‘ جنہیں اس نے ہماری ہدایت و رہنمائی کے لیے مبعوث فرمایا ہے اور آنحضورﷺ نے جو کچھ پیش فرمایا ہے‘ جو تعلیم دی ہے‘ جو احکام دیے ہیں‘ جو خبریں دی ہیں‘ جو اوامر و نواہی بتائے ہیں‘ حلال و حرام کی جو قیود عائد فرمائی ہیں‘ ان میں سے کوئی بات بھی انہوں نے اپنے جی سے پیش نہیں کی ہے بلکہ ہر بات اللہ کی طرف سے پیش فرمائی ہے‘ جیسا کہ سورۃ النجم میں ارشاد ہوا: وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی ؕ﴿۳﴾اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی ۙ﴿۴﴾ ’’اور یہ (رسول ﷺ ) اپنی خواہش ِ نفس سے نہیں بولتے. یہ تو صرف وحی ہے جو (ان پر) بھیجی جاتی ہے‘‘ تو دل میں آپؐ ‘کی توقیر و تعظیم کا جذبہ پیدا ہونا اور عمل میں اس کا اظہار منطقی ہے. پس معلوم ہوا کہ ایمان کا پہلا فطری اور لازمی نتیجہ آنحضورﷺکی توقیر و تعظیم اور آپؐ کا ادب و احترام ہے.
سورۃ الحجرات میں اس ادب و احترام اور توقیر و تعظیم کی شرح بیان ہوئی ہے جو مسلمانوں سے مطلوب ہے اور جو انہیں ملحوظ رکھنا چاہیے. چنانچہ فرمایا:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَکُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجۡہَرُوۡا لَہٗ بِالۡقَوۡلِ کَجَہۡرِ بَعۡضِکُمۡ لِبَعۡضٍ اَنۡ تَحۡبَطَ اَعۡمَالُکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَشۡعُرُوۡنَ ﴿۲﴾
’’اے ایمان والو! مت بلند کرو اپنی آوازوں کو نبیؐ ‘کی آواز پر اور نہ ان سے گفتگو میں آواز کو اس طرح بلند کیا کرو جس طرح تم باہم ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی آواز بلند کرتے ہو‘ مبادا تمہارے اعمال برباد ہو جائیں اور تمہیں شعور تک نہ ہو.‘‘
شعور و احساس تو اسی وقت ہوتا ہے جب انسان یہ سمجھے کہ وہ آنحضورﷺ کی کسی نافرمانی کا مرتکب ہو رہا ہے. غور کیجیے کہ یہاں رسولﷺ کی نافرمانی اور معصیت کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوا ‘بلکہ مجرد سوئے ادب کی وجہ سے سارے نیک اعمال اکارت ہونے کی وعید سنائی جا رہی ہے. رسول اللہﷺ کی نافرمانی اور حکم عدولی اور آپﷺ کی رائے کو پس ِ پشت ڈال دینا تو بڑی دُور کی بات ہے‘ جس کے معصیت ہونے میں کوئی کلام نہیں‘ محض یہ سوئے ادب کہ رسول اللہﷺ کی آواز پر اپنی آواز کو بلند کر دیا جائے ‘تو اس پر کیسی دھمکی دی گئی ہے اور کیسی زبردست تنبیہہ کی گئی ہے کہ حضورﷺ کے معاملے میں ایسی بے احتیاطی برتنے کے سبب سے اب تک کے تمام کیے کرائے پر پانی پھر جائے گا‘ تمہاری سب نیکیاں برباد ہو جائیں گی اور تمہیں معلوم تک نہ ہو گا کہ تم نے اس بے ادبی اور بے احتیاطی سے کیا کچھ کھو دیا اور تم کیسے عظیم نقصان اور خسارے سے دوچار ہو گئے. اس لیے کہ تم اس مغالطے میں رہو گے کہ ہم نے حضورﷺ کی کوئی حکم عدولی تو نہیں کی اور ہم سے کسی معصیت ِ صریحہ کا ارتکاب تو نہیں ہوا. سورۃ الحجرات کی اس آیت ِ مبارکہ سے یہ بات واضح طور پر سامنے آ جاتی ہے کہ ایمان بالرسالت کا پہلا لازمی نتیجہ نبی اکرمﷺ کا ادب و احترام اور آپؐ کی توقیر و تعظیم ہے.
اب اسی ایمان کے دو مضمرات رسول اللہﷺ کی دو مشہور احادیث کے حوالے سے آپ کے سامنے لانا چاہتا ہوں. ان میں سے ایک ہے اطاعت ِ رسولﷺ اور دوسرا ہے محبت ِ رسولﷺ .