’’نصرتِ رسولﷺ ‘‘ کی مزید وضاحت ’’اتباعِ رسولﷺ ‘‘ کے حوالے سے بھی ہوتی ہے. جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا‘ اتباع کے معنی ہیں آنحضورﷺ کے نقش قدم پر چلنا اورآپﷺ کے ہر عمل کی پیروی کرنا. اب ہمیں غور کرنا چاہیے کہ نبی اکرمﷺ کی حیاتِ طیبہ میں جو عمل تواتر کے ساتھ ہوا ہے‘ پیہم و مسلسل ہوا ہے‘ جو پورے تیئیس برس تک شب و روز ہوا ہے‘ جس میں ایک لمحے اور ایک گھڑی کا وقفہ نہیں‘ وہ عمل کیا ہے؟ نماز کے بارے میں پوچھا جا سکتا ہے کہ کب فرض ہوئی؟ رکعتوں کا تعین کب ہوا؟ کب دو تھیں‘ کب چار ہوئیں؟ روزوں کی فرضیت کب ہوئی؟ زکوٰۃ کا نظام کب قائم ہوا اور مقدارِ نصاب کب متعین ہوا؟ شراب و قمار کب حرام ہوئے؟ سود کی حرمت کا حکم کب نازل ہوا؟ ان سب کے لیے احادیث اور سیرت سے اوقات اور زمانے کا تعین کیا جا سکتا ہے‘ جس میں اختلاف بھی ہو سکتا ہے.
لیکن ایک بات متفق علیہ ہے جس میں کسی اختلاف اور قیل و قال کی گنجائش نہیں‘ اور وہ بات یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اوّل یومِ بعثت سے لے کر اس حیاتِ دُنیوی کے آخری سانس تک جو عمل پیہم‘ مسلسل اور متواتر شب و روز کیا ہے‘ جلوت و خلوت میں کیا ہے‘ وہ عمل دعوت و تبلیغ کا عمل ہے‘ وہ تکبیر ِ ربّ کی سعی و جہد ہے‘ وہ اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے جہاد ہے‘ وہ دین ِ حق کے سربلند کرنے کی تگ و دَو ہے‘ وہ غلبہ و اقامت ِ دین کے لیے مجاہدہ اور تصادم ہے. اس سعی و جہد اور مجاہدہ و جہاد کی شکلیں بدلی ہیں‘ صورتوں میں تبدیلی آئی ہے‘ بتدریج مختلف مراحل آئے ہیں. کہیں مکی دَور میں یہ جدوجہد دعوت و تبلیغ اور شدائد و مصائب کے برداشت کرنے کے درجے میں تھی‘ جس میں آپؐ کو طائف کے گلی کوچوں میں پتھر بھی کھانے پڑے. کہیں وہ مدنی دَور میں باطل کے ساتھ مسلح تصادم کے نتیجے میں بدر و اُحد اور احزاب و تبوک کے معرکوں کی صورت میں ہویدا تھی‘ کہیں قبائل عرب اور قرب و جوار کے سلاطین کو وفود و خطوط کے ذریعے دعوت دینے کے مراحل میں تھی اور کہیں صلح حدیبیہ‘ فتح مکہ اور غزوئہ حنین کی صورت میں جاری و ساری تھی. لیکن آپؐ کا جو عمل تیئیس سال کے عرصہ پر پھیلا ہوا ہے‘ ہر لمحہ ‘ہر گھڑی اور ہر آن انجام دیا جا رہا ہے‘ وہ ہے عمل ِ دعوت و تبلیغ. اب جو شخص بھی متبع ِ رسولﷺ ہونے کا مدعی ہو‘ جو یہ سمجھتا ہو کہ سنت ِ رسولﷺ کا التزام ضروری ہے‘ اس کے بارے میں سب سے پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ اس کی زندگی میں آنحضورﷺ کی سب سے بڑی‘ سب سے زیادہ متواتر‘ متفق علیہ اور ثابت شدہ سنت کس حال میں ہے؟ اس کے اندر دعوت و تبلیغ کی کتنی تڑپ اور کتنی لگن ہے؟ اور وہ اس کام میں کتنا وقت خرچ کر رہا ہے اور کتنا مال لگا رہا ہے؟