غزوۂ احزاب ۵ھ میں وقوع پذیر ہوا. یہ زمانہ مدنی دور کا وسط ہے. منافقین کے باب میں آپ کو قرآن مجید میں یہ تدریج نظر آئے گی کہ شروع میں یعنی سورۃ البقرۃ اور سورۂ آلِ عمران میں لفظ نفاق آیا ہی نہیں. صرف اس مرضِ نفاق کی علامات ظاہر کی گئیں. سورۃ النساء میں لفظ نفاق کے ساتھ سخت لہجہ اور اسلوب میں گفتگو شروع ہوتی ہے. یہاں یہ معاملہ ہے کہ منافقین کا کردار تو واضح اور نمایاں طور پر بیان کر دیا گیا ہے‘ لیکن ان کے رویئے کے متعلق آخری فیصلہ ابھی نہیں سنایا گیا تاکہ اگر کسی کے اندر اصلاح پذیری کا کوئی مادہ اور رمق موجود ہے تو وہ اصلاح کر لے. کوئی اگر نفاق کی حالت سے لوٹ سکتا ہے تو لوٹ آئے. کوئی اگر ایمانِ حقیقی کی طرف رجوع کر سکتا ہے تو کر لے‘ دروازہ ابھی کھلا ہوا ہے. لیکن آگے جا کر اس ضمن میں آخری احکام اور فیصلے آئے ہیں‘ جن میں سے ایک فیصلہ تو سورۃ النساء میں شامل کیا گیا کہ: اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ فِی الدَّرۡکِ الۡاَسۡفَلِ مِنَ النَّارِ ۚ وَ لَنۡ تَجِدَ لَہُمۡ نَصِیۡرًا ﴿۱۴۵﴾ۙ (آیت ۱۴۵) ’’یقینا منافق جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں جائیں گے‘ اور تم کسی کو اُن کا مددگار نہ پاؤ گے‘‘. اور سورۃ التوبہ (البراء ۃ) میں جو ۹ھ میں غزوۂ تبوک کے موقع پر نازل ہوئی ‘ مختلف مقامات پر مختلف اسالیب سے ‘ان منافقین کی اصل حقیقت کھول کر یہ فیصلے صادر فرما دیئے گئے کہ:
وَعَدَ اللّٰہُ الۡمُنٰفِقِیۡنَ وَ الۡمُنٰفِقٰتِ وَ الۡکُفَّارَ نَارَ جَہَنَّمَ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ ہِیَ حَسۡبُہُمۡ ۚ وَ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ مُّقِیۡمٌ ﴿ۙ۶۸﴾ (آیت ۶۸)
’’منافق مردوں اور منافق عورتوں اور کافروں کے لئے اللہ نے آتشِ دوزخ کا وعدہ کیا ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے. یہی ان کے لئے موزوں ٹھکانہ ہے. ان پر اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لئے قائم و دائم رہنے والا عذاب ہے.‘‘
آگے یہاں تک فرما دیا کہ:
اِسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ اَوۡ لَا تَسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ ؕ اِنۡ تَسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ سَبۡعِیۡنَ مَرَّۃً فَلَنۡ یَّغۡفِرَ اللّٰہُ لَہُمۡ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ کَفَرُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿٪۸۰﴾ (آیت ۸۰)
’’(اے نبیؐ !) آپ خواہ ایسے لوگوں کے لئے استغفار کریں یا نہ کریں‘ اگر آپؐ ستر بار بھی ان کو معاف کر دینے کی درخواست کریں گے تب بھی اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا‘ اس لئے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ کفر کیا ہے ‘اور اللہ فاسقوں کو راہ یاب نہیں فرماتا.‘‘
حضور‘ﷺ کا اپنا مزاج ہے. آپؐ رؤف بھی ہیں اور رحیم بھی. لہذا آپ فرماتے ہیں کہ اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ ستر سے زیادہ باراستغفار کرنے سے ان کی مغفرت ہو سکتی ہے تو میں کرتا نبی اکرم‘ﷺ کے اس قول کا کیا مطلب ہوا؟ یہ کہ یہاں ستر سے مراد عدد یا ہندسہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک استعارہ ہے. یہاں ستر کا لفظ کثرت کے لئے آیا ہے کہ اب ان کے لئے توبہ کا دروازہ بند کر دیا گیا ہے. ان کو بار بار متوجہ کیا گیا. تقریباً دس سال بیت گئے. ان کو اصلاح کا پورا پورا موقع دیا گیا اس مقام پر ہی دیکھ لیجئے کتنے پیارے انداز میں فرمایا گیا: وَیُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِیْنَ اِنْ شَآءَ اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْھِمْؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا ﴿﴾ مؤمنینِ صادقین کے لئے تو قطعیت کے ساتھ فرمایا گیا: لِیَجْزِیَ اللّٰہُ الصّٰدِقِیْنَ بِصِدْقِھِمْ لیکن منافقین کے لئے توبہ کرنے اور اپنے رویئے کی اصلاح کرنے کا موقع رکھا گیا اور ان کو مہلت دی گئی کہ ابھی ان کے بارے میں قطعیت کے ساتھ فیصلے کا وقت نہیں آیا ہے‘ ابھی ان کے لئے راستہ کھلا رکھا گیا ہے. چونکہ ان کے لئے توبہ کا دروازہ ابھی کھلا رکھا گیا تھا لہٰذا یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت غفوریت اور رحمانیت کا بیان فرما دیا تاکہ منافقین بالکل مایوس نہ ہو جائیں. گویا ان کو دعوت دی جا رہی ہے کہ آؤ لوٹو اور رجوع کرو ؎
باز آ باز آ آں ہرچہ ہستی باز آ گر کافر و گبر و بت پرستی باز آ!
ایں درگہِ ما درگہِ نومیدی نیست صد بار اگر توبہ شکستی باز آ!