ان دونوں قبیلوں کو اسلام اور حضور‘ﷺ سے دلی عداوت تو پہلے ہی سے تھی. مدینہ سے جلاوطنی نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور یہ قبیلے خیبر میں بیٹھ کر مسلمانوں کے خلاف عرب کے مشرک قبائل کو بھڑکانے اور مدینہ پر چڑھائی کرنے پر اکسانے کے لئے مسلسل سازشیں کرتے رہے. ان کے سردار‘ ان کے شعراء اور ان کے خطیب مشرکین کے قبیلوں میں جا کر مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے رہے. چنانچہ ۵ھ میں غزوۂ احزاب میں ہر چہار سمت سے عرب کے مشرک قبائل نے مدینہ پر جو یلغار کی وہ انہی یہود کی سازش کا نتیجہ تھی اور اس یلغار کی نقشہ بندی میں بھی یہی یہودی پیش پیش تھے. اس موقع پر‘ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں‘ حملہ آور لشکریوں کی تعداد تقریباً بارہ ہزار جنگجوؤں پر مشتمل تھی. مسلمانوں کے خلاف اتنی بڑی جمعیت اس سے قبل کبھی جمع نہیں ہوئی تھی. اگر یہ حملہ اچانک ہوتا تو سخت نقصان دہ اور تباہ کن ہوسکتا تھا. لیکن نبی اکرم ﷺ نے ایسا انتظام کر رکھا تھا کہ آپؐ کو دشمنوں کی نقل و حرکت کی برابر اطلاعات ملتی رہتی تھیں. آپؐ نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مشورے پر دفاع کے لئے جبل اُحد کے مشرقی اور مغربی گوشوں میں خندق کھدوا کر شہر کو محفوظ کر لیا.مدینہ کی جغرافیائی پوزیشن ایسی تھی کہ اسی طرف سے حملہ ہو سکتا تھا ‘بقیہ سمتوں میں قدرتی رکاوٹیں موجود تھیں. کفار و مشرکین اس طریقِ دفاع سے ناآشنا تھے. ناچار انہیں جاڑے کے موسم میں ایک طویل محاصرے کے لئے مجبور ہونا پڑا‘ جس کے لئے وہ تیار ہو کر اپنے ٹھکانوں سے نہیں آئے تھے.
اب ان کے لئے ایک ہی چارۂ کار رہ گیا تھا کہ وہ بنوقریظہ کے یہودی قبیلے کومدینہ منورہ پر جنوب مشرقی گوشے سے حملہ کرنے پر آمادہ کریں.چونکہ اس قبیلے سے مسلمانوں کا باقاعدہ حلیفانہ معاہدہ طے تھا کہ مدینہ پر حملہ ہونے کی صورت میں وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر مدافعت کریں گے لہذا اس طرف سے بے فکر ہو کر مسلمانوں نے نہ صرف یہ کہ اس سمت میں دفاع کا کوئی انتظام نہیں کیا تھا بلکہ اپنی عورتیں اور بچے بھی ان گڑھیوں میں بھجوا دیئے تھے جو بنوقریظہ کی جانب تھیں.کفار نے مسلمانوں کے دفاع کے اس کمزور پہلو کو بھانپ لیا اور انہوں نے بنوقریظہ کے سرداروں کے پاس سفارت بھیج کر ان کو غدّاری پر آمادہ کرنے کی کوشش کی. اوّل تو وہ ہچکچائے کہ ہمارا محمد (ﷺ ) سے معاہدہ ہے اور ہم کو ان سے کبھی کوئی شکایت نہیں ہوئی. ابتداء میں ان کا موقف یہی تھا ‘لیکن اس کے بعد حُیَی بن اَخطب نے ان کو مزید دلائل دیئے کہ ’’دیکھو میں عرب کی متحدہ قوت کو محمدﷺ پر چڑھا لایا ہوں‘ اسلام کو ختم کرنے کا یہ آخری موقع ہے. اتنے بڑے لشکر آئندہ کبھی جمع نہیں ہو سکیں گے اور پھر ساری عمر ہم سب کو کف افسوس ملنا پڑے گا‘کیونکہ پھر محمد (ﷺ ) کا مقابلہ کوئی بھی نہیں کر سکے گا.‘‘ ابنِ اخطب کی ان باتوں سے بنو قریظہ پر بھی معاہدے کی پاسداری اور اخلاقی اقدار کے لحاظ پر اسلام دشمنی غالب آ گئی اور وہ نقضِ عہد پر آمادہ ہو گئے.
نبی اکرم‘ﷺ اس صورتِ حال سے بے خبر نہیں تھے. آپ ﷺ کو پل پل کی اطلاعات مل رہی تھیں. آپؐ نے انصار کے سرداروں میں سے حضرت سعدبن عبادہ اور سعد بن معاذ نیز دو اور حضرات (رضی اللہ عنہم) کو بنوقریظہ کے پاس بھیجا کہ جاکر تحقیق کر کے آئیں کہ صورت حال کیا ہے! ادھر خود اہل ایمان کے لشکر میں منافقین کا ففتھ کالمسٹ عنصر موجود تھا. وہ مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کے لئے خبریں پھیلا رہے تھے کہ اب بنوقریظہ کی جانب سے بھی حملہ ہوا چاہتا ہے لہذا ہوش کے ناخن لو اور اپنے گھروں کی خبر لو جو جنوب مشرقی گوشے سے بنوقریظہ کی براہِ راست زد میں ہیں. آیت ۱۳ میں منافقین کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں: یٰۤاَہۡلَ یَثۡرِبَ لَا مُقَامَ لَکُمۡ فَارۡجِعُوۡا ’’اے یثرب کے لوگو! تمہارے لئے اب ٹھہرنے کا کوئی موقع نہیں ہے‘ پس پلٹ چلو‘‘ .نبی اکرم :ﷺ نے جن سرداروں کو بنی قریظہ سے گفت و شنید کے لئے بھیجا تھا‘ ان کو تاکید فرمائی تھی کہ اگر تم دیکھو کہ بنو قریظہ اپنے عہد پر قائم ہیں تو تم آ کر سارے لشکر کے سامنے علی الاعلان خوش خبری دینا کہ یہ محض افواہ ہے‘ اس کے پیچھے کوئی حقیقت نہیں ہے‘ لیکن اگر وہ نقضِ عہد کا فیصلہ کر چکے ہیں تو صرف مجھے اشارۃً اس کی اطلاع دینا‘ عام لوگوں کے سامنے بیان نہ کرنا‘ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ بعض لوگوں کے حوصلے مزید پست ہو جائیں. ان حضرات نے واپس آ کر حضورﷺ کو اشارہ و کنایہ میں بنو قریظہ کے عزائم سے آگاہ کر دیا. اس لئے کہ بنو قریظہ کے سرداروں نے ان انصار سے برملا کہہ دیا تھا کہ لَا عَقْدَ بَیْنَنَا وَبَیْنَ مُحَمَّدٍ وَلَا عَھْدَ ’’ہمارے اور محمد (ﷺ ) کے مابین کوئی عہد و پیمان نہیں ہے.‘‘