اب یہاں ایک اہم بات بھی لگے ہاتھوں بیان کر دیتا ہوں. وہ یہ کہ ہمارے ہاں جو دو مکاتیب فکر ہیں ‘یعنی اصحاب الرائے اور اصحاب الحدیث‘ ان کے مابین اصل اختلاف کیا ہے! وہ نوٹ کر لیجئے. حضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ کوئی مسلمان عصر کی نماز نہ پڑھے جب تک بنی قریظہ پر نہ پہنچ جائے. معنی کیا تھے ؟یہ کہ جلد سے جلد پہنچو! اللہ کا حکم ہے‘ حضرت جبریل ؑنے آ کر بتایا ہے . پس جلد پہنچنے کے لئے حضورﷺ نے فرمایا کہ عصر سے پہلے پہلے پہنچ جاؤ تاکہ ان کا معاملہ چکا دیا جائے. اب راستے میں صورت یہ پیش آ گئی کہ ایک ٹکڑی ابھی بنوقریظہ تک نہ پہنچ پائی تھی کہ عصر کی نماز کا وقت ہو گیا. لشکر مختلف ٹکڑیوں میں منزل کی جانب بڑھ رہاتھا ‘کئی میل کا سفر تھا. جس ٹکڑی کو راستہ ہی میں عصر کی نماز کا وقت آ گیا تو نماز قضا ہونے کا امکان پیدا ہو گیا. اب ان لوگوں کے مابین اختلاف پیدا ہوا. ایک فریق نے کہا کہ حضورؐ کا منشا یہ نہیں تھا کہ وہاں پہنچے بغیر عصر مت پڑھو‘ بلکہ منشا یہ تھا کہ ہم عصر سے پہلے پہلے وہاں پہنچ جائیں. لیکن اگر کسی وجہ اور مجبوری سے درمیان ہی میں عصر کا وقت ہو گیا ہے تو ہمیں نماز پڑھ لینی چاہئے. لیکن دوسرے فریق نے کہا کہ نہیں ‘جو حضورﷺ نے فرمایا ہے ہم تو اسی کے مطابق عمل کریں گے. حضورﷺ نے تو ’’منشا‘‘ بیان نہیں فرمایا ‘لہذا ہم تو رسول اللہ‘ﷺ کے الفاظ کی پیروی کریں گے اور عصر کی نماز بنوقریظہ کی بستی تک پہنچنے سے قبل نہیں پڑھیں گے‘ چاہے نماز قضا ہو جائے .دونوں فریقوں نے اپنی اپنی رائے کے مطابق عمل کر لیا. جب حضورﷺ کے سامنے یہ معاملہ پیش ہوا تو حضورؐ نے فرمایا کہ دونوں نے صحیح عمل کیا.
اب یہ ہے وہ حکمت جو محمدرسول اللہ ﷺ ہمیں تعلیم فرما گئے ہیں. لہذا خدارابات کو کھلے دل سے سمجھئے اور خواہ مخواہ رائے‘ تعبیر اور اجتہاد کے اختلاف پر مستقل طور پر من دیگرم تو دیگری کا رویہ اختیار نہ کیجئے. یہ تفرقہ وحدتِ اُمت کے لئے سمِ قاتل ہے. ایک رویہ یہ ہے کہ حدیث کے جو الفاظ (letters) ہیں‘ ہم تو بالکل حرف بہ حرف‘ ہوبہو‘ literally اُس پر عمل کریں گے. ہم نہیں جانتے کہ علت کیا ہے ‘اور حکمت کیا ہے؟ وہ اللہ جانے اور اس کا رسولؐ جانے. اگر مسواک کا لفظ حدیث میں آیا ہے تو ہم تو مسواک ہی استعمال کریں گے.جبکہ دوسرا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ مسواک کرنے کی اصل غایت و علت دانت صاف رکھنا ہے‘ اگر ٹوتھ پیسٹ اور برش سے دانت صاف کر لئے تو مقصد پورا ہوگیا. اس طرح یہ دو مکاتیب فکر ہیں. ایک اصحابِ حدیث جو حدیث کے الفاظ کو جوں کا توں اختیار کرنے کو صحیح اور اقرب الی السنہ سمجھتے ہیں اور اسی طرزِعمل میں عافیت خیال کرتے ہیں. دوسرے اصحاب الرائے ہیں جو غور و تدبر کرتے ہیں کہ کسی حدیث کی اصل حکمت کیا ہے‘ اس کی غرض و غایت کیا ہے! نبی اکرم ﷺ نے دونوں قسم کے طرز عمل کی تصویب فرمائی یہ اللہ کا شکر اور اس کا کرم و فضل ہے کہ اس معاملے میں اس نے اپنے رسولﷺ سے دونوں طرزِعمل کی تائید کرا دی. اس لئے کہ دونوں کی نیت دراصل تعمیل حکم اور اتباع تھا. پس ہم کو بھی یہی رویہ اختیار کرنا چاہئے کہ دونوں attitudes کے لئے اپنے دل میں کشادگی پیدا کریں. عمل تو ایک ہی پر ہو گا‘ اس میں تو کوئی شک نہیں. یا آپ الفاظِ ظاہر پر عمل کریں گے یا اس کی حکمت و علت معلوم کر کے اسے اختیار کریں گے. اجتہاد کی بنیادبھی تو یہی ہے کہ اہلِ علم احکامِ شرعیہ کی علت تلاش کریں اور دیکھیں کہ درپیش مسئلہ میں علت کس درجہ کی مشترک ہے‘اسی کے مطابق قیاس کر کے مسئلہ کا حل نکال لیا جائے تو یہ طریق تھا اصحابِ فقہ کا‘ جن کو اصحاب الرائے بھی کہا گیا ہے اور اوّل الذکر طریقہ تھا اصحابِ حدیث کا لیکن حقیقت نفس الامری کے اعتبار سے دونوں مسلک حق ہیں. اس لئے کہ نبی اکرم‘ﷺ نے اس واقعہ میں دونوں فریقوں کی تصویب فرمائی. یہ واقعہ اسی غزوہ کے دوران پیش آیا تھا تو میں نے چاہا کہ اسے بھی آپ حضرات کے سامنے رکھ دوں. نبی اکرم ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے ہر واقعہ میں ہمارے لئے رہنمائی ہے اور یہی حضورؐ کے اسوۂ حسنہ کے اکمل و اتم ہونے کی دلیل ہے بہرحال یہ ایک ضمنی بحث تھی جو درمیان میں آ گئی. اب اصل موضوع کی طرف رجوع کیجئے.