میں دورانِ درس یہ عرض کر چکا ہوں کہ رسول اللہ  کی سیرتِ مطہرہ اور حیات طیبہ ہر ایک اعتبار سے اسوہ ہے. ’’اسوہ‘‘ کا اصل مفہوم اتباع اور پیروی ہے. لیکن سورۃ الاحزاب کے درس کے دوران آنحضور  کا جو اُسوہ ہمارے سامنے آتا ہے‘ اس کو پیش نظر رکھئے اور پہلے ایک سوال کا جواب آپ خود اپنے طور پر دینے کی کوشش کیجئے کہ آنحضور کی جو اجتماعی جدوجہد ہے‘ وہ کیا ہے؟

آنحضور : کے بعض کام خالص انفرادی ہیں اور وہ ایسے بھی ہیں کہ ہم ان کا 
اتباع نہیں کر سکتے مثلاً نبی اکرم  صومِ وصال رکھتے تھے. یعنی آپؐ بغیر افطار کے ایک کے بعد دوسرا ‘پھر تیسرا روزہ بلکہ اس سے بھی زیادہ رکھا کرتے تھے‘لیکن آپؐ نے امت کو اس سے روک دیا. صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا بھی کہ آپؐ ہمیں کیوں منع فرماتے ہیں؟ جواب میں ارشاد ہوا:وَاَیُّکُمْ مِثْلِیْ؟ ’’تم میں سے کون ہے جو مجھ جیسا ہو؟‘‘ اِنِّیْ اَبِیْتُ یُطْعِمُنِیْ رَبِّیْ وَیَسْقِیْنِیْ (۱’’میں تو اس حال میں رات بسر کرتا ہوں کہ میرا رب مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے‘‘. معلوم ہوا کہ آنحضور  کی انفرادی زندگی کے بعض پہلو ایسے ہو سکتے ہیں جن کے لئے ہم اتباع کے مکلف نہیں ہیں وہ خصوصیات ہیں جناب محمد رسول اللہ  کی حضورؐ فرماتے ہیں کہ میں اپنی پشت کی طرف سے بھی دیکھتا ہوں.ظاہر ہے کہ ہمارے لئے یہ ناممکن ہے.اس اعتبار سے اوّلیت جس اسوہ کو حاصل ہے‘ وہ اُسوہ آپ کی اجتماعی زندگی کا نقشہ ہے.اس کا ہر ہر قدم واجب الاتباع ہے. اسی اعتبار سے یہ فرمایا گیا ہے کہ: قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ اس لئے میں یہ کہہ رہا ہوں کہ آپ ذرا اپنے ذہن میں یہ سوال لائیے کہ نبی اکرم کی جو اجتماعی جدوجہد ہے‘ وہ کس نوعیت کے کام سے زیادہ مشابہت رکھتی ہے! مثلاً ایک نوعیت ہوتی ہے رفاہِ عامہ کے کاموں کی لوگ یہ کام کرتے ہیں. پھر خدمتِ خلق کے بے شمار میدان ہیں‘ جن کے لئے انجمنیں بنتی ہیں‘ ادارے وجود میں آتے ہیں.

دوسرے کچھ محدود پیمانے کے تبلیغی کام ہوتے ہیں.دنیا میں بے شمار مشنریز (Missionaries) ہیں جو تبلیغ کے کام میں مصروف ہیں. یہودیوں کی تبلیغ ہے‘ عیسائیوں کی تبلیغ ہے. بدھ مت کے بھکشو ہیں جو تبلیغ کرتے ہیں. آریہ سماجی بھی یہ کام کرتے ہیں. یہ بھی ایک اجتماعی نوعیت کا کام ہے. یہ وہ تبلیغ ہے جس میں تلوار کبھی ہاتھ میں نظر نہیں آئے گی اس تبلیغ کا معاملہ کبھی جہاد و قتال تک نہیں جائے گا. وہ ساری عمر (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الصوم‘ باب التنکیل لمن اکثر الوصال.وصحیح مسلم‘ کتاب الصیام‘ باب النھی عن الوصال فی الصوم. تبلیغ ہی رہے گی اور نسلاً بعد نسلٍ یہ سلسلہ چلتا رہے گا.

ذہن میں تیسرا خانہ بنائیے تعلیمی اور تحقیقی کام کا اس کے لئے بھی انجمنیں بنتی ہیں‘ ادارے بنتے ہیں تعلیم کو عام کرنے کی عملی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں. مکتب‘ اسکول‘ کالج اور یونیورسٹیاں قائم ہوتی ہیں. ریسرچ کے لئے ادارے اور فائونڈیشنز قائم ہوتی ہیں جن کے تحت یہ کام ہوتا ہے. کسی خاص فکر کو پھیلانے اور promote کرنے کے لئے اکیڈمیاں بنتی ہیں ‘جیسے ’’اقبال اکیڈمی‘‘ جو ڈاکٹر اقبال مرحوم کے فکر کو پھیلانے کے کام میں مصروف ہے. سقراط نے بھی ایک اکیڈمی بنائی تھی‘ جس میں وہ اپنے فکر کے مطابق کچھ ذہین لوگوں کو تیار کرتا تھا. 

چوتھا کام سیاسی نوعیت کا ہوتا ہے. اس کے لئے بھی جماعتیں‘ جمعیتیں اور پارٹیاں بنتی ہیں‘ تحریکیں اٹھتی ہیں‘ سیاسی میدان میں کام ہوتا ہے ‘الیکشن ہوتے ہیں. اس سیاسی کام کی اصل نوعیت عموماً یہ ہوتی ہے کہ جس جگہ جو نظام قائم ہوتا ہے اصولی اعتبار سے اُس سے اختلاف نہیں ہوتا. صرف تفصیلات میں اور انتظامی اعتبارات سے ایک جماعت کا منشور (Manifesto) کچھ اور ہوتاہے اور دوسری جماعت کا کچھ اور. مثلاً امریکہ میں ڈیموکریٹس اورری پبلکن پارٹیاں ہیں‘ انگلینڈ میں لیبر پارٹی‘ کنزرویٹو پارٹی اور لبرل پارٹی ہے ‘تو امریکہ یا انگلستان میں جو بنیادی دستور موجود ہے اور جو نظام رائج ہے یعنی جمہوریت کا نظام‘ وہ سب پارٹیوں کے نزدیک متفق علیہ ہوتا ہے. لیکن تفصیلات میں جا کر چند پالیسیوں کے بارے میں اختلافات ہوتے ہیں اور اس ضمن میں پارٹیوں کے منشور اختلافات کے حامل ہوتے ہیں. ہر پارٹی اس اعلان کے ساتھ الیکشن کے میدان میں اترتی ہے کہ اگر ہمیں زیادہ ووٹ ملیں گے اور اقتدار ہمارے ہاتھ میں آ جائے گا تو ہم یہ اور یہ کام کریں گے جس سے ملک اور عوام کو فائدہ پہنچے گا. یہ ہوتی ہے سیاسی کام کی حقیقی نوعیت.
اسی طرح کئی دیگرنوعیتوں کے کام بھی ہو سکتے ہیں‘ لیکن آپ ان چار انواع کے کاموں کو ذہن میں رکھ کر اب پانچویں نوعیت کے کام پر غور کیجئے ‘اور وہ ہے انقلابی کام انقلاب یہ ہوتا ہے کہ کسی جگہ پر جو نظام قائم ہے اس کو جڑ سے اکھیڑنا ہے‘ بنیادی تبدیلی لانی ہے اور پورے نقشے کو بدلنا ہے ؎

گفت رومی ہر بنائے کہنہ کآ باداں کنند
تومی دانی اوّل آں بنیاد را ویراں کنند!

یہ انقلابی کام اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ رائج الوقت نظام کو جڑ اور بنیادسے اکھیڑ کر اس کی جگہ دوسرا نظام نہ لایا جائے. 

اب ان پانچ انواع کے کاموں کو ذہن میں بٹھا لیجئے: ۱. رفاہی کام ‘۲. تبلیغی کام‘ ۳. تعلیمی‘ علمی اور تحقیقی کام ‘۴. سیاسی کام ‘اور ۵. انقلابی کام ان میں سے ہر ایک کے اپنے تقاضے اور اپنیconnotations ہیں. چنانچہ ہر ایک کا نقشہ جدا بنے گا‘ ہر ایک کے لوازم جدا ہوں گے. 

اب آپ میرے ا س سوال کا جواب دیجئے کہ نبی اکرم  کا اسوۂ حسنہ ان پانچ کاموں میں سے کس کام سے مشابہت رکھتا ہے؟

کیا اس میں کوئی شک ہے کہ وہ انقلابی کام ہے؟ یعنی نظام کی تبدیلی اور وہ بھی جزوی نہیں‘ بلکہ پورے نظام کی تبدیلی. وہ صرف تبلیغی کام نہیں تھا‘ صرف علمی کام نہیں تھا‘ صرف سیاسی کام نہیں تھا‘ صرف رفاہی کام نہیں تھا بلکہ اجتماعی پیمانے پر رفاہی کام تو ہمیں نبی اکرم‘ کی انقلابی جدوجہد کے درمیان نظر ہی نہیں آتے. نبی اکرم  کی زندگی میں اجرائے وحی سے قبل بالکل انفرادی سطح پر خدمتِ خلق اور رفاہِ عامہ کا کام اپنے پورے عروج پر نظر آتا ہے‘ لیکن نبوت و رسالت کے منصب پر سرفرازہونے کے بعد حضور  کی پوری زندگی ایک انقلابی جدوجہد کا نقشہ پیش کرتی ہے جزوی نہیں‘ بلکہ مکمل انقلابی جدوجہد گویا ؏ 

نظامِ کہنہ کے پاسبانو! یہ معرضِ انقلاب میں ہے!
سیرت النبی  کے موضوع پر اپنی متعدد تقاریر میں مَیں اس انقلابی جدوجہد کے نقشے کو اپنی امکانی حد تک بڑی تفصیل سے بیان کر چکا ہوں. اس موقع پر میں چاہوں گا کہ 
اختصار کے ساتھ اس جدوجہد کے اہم خصائص اور اصول و مبادی آپ کے سامنے اس طرح پیش کروں کہ آپ ان کو ترتیب وار ذہن نشین کر لیں.