زیر نظر آیت کے اس حصے سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً میں دو مزید الفاظ وضاحت طلب ہیں‘ ایک ’’اَسْرٰی‘‘ اور دوسرا ’’لَیْلًا‘‘. عربی میں ’’اسراء‘‘ کے معنی ہیں راتوں رات لے جانا. حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذکر میں سورۃ الشعراء کی آیت ۵۲ میں یہی لفظ آیا ہے : وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی مُوۡسٰۤی اَنۡ اَسۡرِ بِعِبَادِیۡۤ اِنَّکُمۡ مُّتَّبَعُوۡنَ ﴿۵۲﴾ ’’اور ہم نے موسیٰؑ کو وحی بھیجی کہ (اے موسیٰؑ) راتوں رات میرے بندوں کو لے کر نکل جاؤ‘ تمہارا پیچھا کیا جائے گا‘‘. تو حضور کے لیے بھی یہی لفظ آیا ہے: سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ … اس کے بعد ’’لَیْلًا‘‘ کیوں آیا‘ جبکہ اَسْرٰی میں ’’راتوں رات‘‘ کا مفہوم و معنی شامل ہے؟ اس لیے کہ سفر معراج میں پوری رات نہیں لگی تھی‘ بلکہ رات کا ایک نہایت قلیل‘ نہایت مختصر حصہ َصرف ہوا تھا. اسی لیے ’’لَیْلًا‘‘ کا ترجمہ ’’رات کا ایک حصہ‘‘ کیا جاتا ہے: 

سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ ﴿۱

’’پاک ہے وہ ذات جو لے گئی راتوں رات اپنے بندے کو‘ شب کے ایک حصے میں‘ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک‘ جس کے ماحول کو ہم نے بابرکت بنایا ہے‘ تاکہ ہم (اپنے) اس (بندے) کو اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائیں. یقینا سب کچھ سننے (اور) دیکھنے والا تو وہی (اللہ تعالیٰ) ہے.‘‘

اب دوبارہ ترجمے سے پوری بات آپ کے سامنے بالکل واضح ہوکر آگئی ہوگی. اب دوباتیں وضاحت طلب رہ گئیں‘ ایک تویہ کہ کون سی نشانیاں حضور کو دکھائی گئیں! وہ میں آپ کو آگے چل کر احادیث کے حوالے سے بتاؤ ں گا. اس لیے کہ ان کا ذکر احادیث میں بصراحت موجود ہے. دوسرے اس آیت کا آخری ٹکڑا اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ ہے. یعنی ’’سب کچھ سننے والا‘ سب کچھ دیکھنے والا تو صرف اللہ تبارک و تعالیٰ ہے‘‘. یہ دراصل اُس کے علم ِ کامل کی شرح ہے. یہاں حصر کا اسلوب ہے. یعنی اُس کے سوا یہ وصف کسی اور میں ہے ہی نہیں‘ چاہے وہ ملائکہ ہوں‘ انبیاء و رُسل ہوں یا اولیاء ہوں. البتہ یہ اُس کو اختیار ہے کہ وہ اپنے علم میں سے جتنا جس کو چاہے عطا فرمادے‘ اپنی سماعت میں سے جتنا حصہ چاہے کسی کو مرحمت فرمادے‘ اپنی بصارت میں سے جتنا چاہے کسی پر فیضان فرمادے. یہ اُسی کو اختیار ہے: وَ لَا یُحِیۡطُوۡنَ بِشَیۡءٍ مِّنۡ عِلۡمِہٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ ۚ (البقرۃ:۲۵۵’’اور وہ اللہ کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے ماسوائے اس کے جو وہ خود چاہے‘‘. اورسُبۡحٰنَکَ لَا عِلۡمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمۡتَنَا ؕ (البقرۃ:۳۲’’(اے اللہ) تو پاک ہے اور ہمیں کوئی علم حاصل نہیں ہے مگر وہ جو تو نے ہمیں سکھایا‘‘. یہ ملائکہ کا قول نقل ہواہے . پس فرشتوں کے علم کی نوعیت بھی یہی ہے اور انبیاء و رسل کے علم کی کیفیت بھی یہی ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا‘ اتنا ہی ان کو علم ہے. باقی سب کچھ سننے والا‘ سب کچھ دیکھنے والا‘ سب کچھ جاننے والا صرف اللہ تبارک و تعالیٰ سبحانہ ہی ہے.