دریں حالات ایک ہی راستہ باقی ہے. وہ یہ کہ ایک پُرامن ‘منظم عوامی تحریک اٹھے جو توڑ پھوڑ نہ کرے اور سرکاری یا غیر سرکاری املاک کو نقصان نہ پہنچائے. البتہ یہ لوگ خود جانیں دینے کو تیار ہوں. اس کو میں ’’ یک طرفہ جنگ‘‘ سے تعبیر کرتا ہوں. یہ لوگ سڑکوں پر
آ کر منکرات کے خلاف احتجاجی مظاہرے کریں .یہ لوگ حکومت پر اپنا موقف واضح کریں کہ ہم نے منکرات کے انسداد کے لیے آپ سے بہت درخواستیں کیں‘ آپ کے آگے ہاتھ جوڑے کہ خدارا سودختم کر دو ‘ لیکن اب ہم picketing کریں گے‘ دھرنا دیں گے‘ بینکوں کا گھیراؤ کریں گے اور اس سودی نظام کو جیتے جی نہیں چلنے دیں گے. چلاؤ ہم پر گولیاں!
میرے خیال میں اس وقت انقلاب کے لیے یہی قابل عمل طریقہ ہے. اگر ہم مشتعل ہو کر اسلحہ اٹھائیں تو کس کے خلاف اٹھائیں گے؟ بری افواج یا ایئر فورس کے خلاف؟ کیا ہماری ماضی کی حکومتوں نے بلوچستان میں دو مرتبہ ایئر فورس استعمال نہیں کی؟ کیا ایئر فورس کے ذریعے سے حافظ الاسد نے ایک دن میں ہزاروں اخوان ختم نہیں کر دیئے تھے؟ اور ان کا مرکز بمباری کر کے تباہ و بربادنہیں کر دیا تھا؟ تو آج مقابلہ بہت غیر مساوی (unequal) ہے. جہاںممکن ہو دو طرفہ جنگ بھی ہو سکتی ہے‘ کسی پہاڑی ملک میں کوئی چھاپہ مار جنگ بھی ہو سکتی ہے‘ یہ حرام نہیں ہے. دین کو قائم کرنے کے لیے حضورﷺ نے جنگ لڑی ہے تو ہم بھی لڑ سکتے ہیں اور کلمہ گو کے خلاف بھی لڑ سکتے ہیں. امام ابوحنیفہؒ کے موقف کے مطابق مسلمان حکمران اگر فاسق و فاجر ہوں تو ان کے خلاف بغاوت کی جا سکتی ہے. پہلے تو امر بالمعروف ونہی عن المنکر زبان سے کیا جائے . اگر یہ زبان سے کہنا مؤثر ثابت نہ ہو تو پھر تلوار کے ذریعے سے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کیا جا سکتا ہے. تو جنگ اگرچہ جائز ہے‘ لیکن موجودہ حالات میں عملاً ممکن نہیں ہے.آج کے مسلمان حکمرانوں کے خلاف یک طرفہ جنگ ہی موزوں لائحہ عمل ہے.
اگر کسی حکومت کے خلاف اس طرح کی ایک احتجاجی تحریک چلتی ہے تو ظاہر ہے اسے روکنے کی کوشش کی جائے گی. شروع میں فوج حکومت کا حکم مانے گی اور مظاہرین پر گولیاں چلائے گی. لیکن ایک وقت میں آ کر فوج ہاتھ اٹھا دے گی کہ ہم اپنے ہم وطنوں کا مزید قتل نہیں کر سکتے. یہ کوئی قابض فوج نہیں ہے ‘ قومی فوج ہے‘ اور جو سامنے کھڑے ہیں وہ بھی کہیں اور سے نہیں آئے. ۱۹۱۹ء میں جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائر نے اگر سینکڑوں ہزاروں افراد بھون کر رکھ دیئے تھے تو اسےان کا کیا دکھ تھا؟ وہ انگریز تھا اور مرنے والے ہندوستانی تھے‘ چاہے مسلمان ہوں چاہے ہندو یا سکھ ہوں. لیکن اپنی قوم کے لوگوں کو مارنا اتنا آسان نہیں ہوتا. ایک حد تک تو حکم کی تعمیل کی جاتی ہے‘ پھر ایک وقت آتا ہے کہ جب اپنے فوجی افسر ہاتھ کھڑے کر دیتے ہیں. جیسے لاہور میں بریگیڈیئر محمد اشرف گوندل‘ اللہ تعالیٰ انہیں اجر و ثواب دے‘ کھڑے ہو گئے کہ اب ہم لوگوں پر مزید گولیاں نہیں چلائیں گے. پھر دو اور بریگیڈیئر کھڑے ہو گئے اور بھٹو صاحب کو پیغام مل گیا. چند دن پہلے انہوں نے ٹیلی ویژن پر خطاب کرتے ہوئے اپنی کرسی کے بازو پکڑ کر اکڑتے ہوئے کہا تھا کہ میری یہ کرسی بہت مضبوط ہے. مجھے آج تک وہ نقشہ یاد ہے. لیکن جب لاہور سے پیغام پہنچ گیا کہ فوج کا اب یہ نقطہ نظر ہے تو وہ کرسی ڈول گئی. پھر انہوں نے پی این اے کو مذاکرات کاپیغام بھجوایا.بہرحال اسلامی انقلاب کے لیے جانیں تو دینی ہوں گی‘ اس کے بغیر یہ کام نہیں ہو گا.
دورِ حاضر میں ہمارے سامنے ایرانیوں کی مثال موجود ہے کہ انہوں نے اپنی جانیں دے کر انقلاب برپا کر دکھایا. اگرچہ ایرانی انقلاب کو میں صحیح اسلامی انقلاب نہیں سمجھتا‘ بلکہ میرے نزدیک تو وہ ایک حقیقی انقلاب بھی نہیں تھا‘ اس لیے کہ وہ اپنی سرحدوں سے باہر نکل نہیں سکا‘ جبکہ ’’تصدیر انقلاب‘‘ ایک حقیقی انقلاب کا لازمی خاصہ ہے .۸۵.۱۹۸۴ء میں مَیں نے مسجد دارالسلام باغ جناح میں اس موضوع پر خطابات کیے تھے کہ کیا ایرانی انقلاب اسلامی انقلاب ہے؟ اور پھر اس کے بعد ’’منہج انقلابِ نبویؐ ‘‘ کے موضوع پر گیارہ تقریریں کی تھیں‘ جن کا خلاصہ آج آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں. وہ تقریریں اب ’’منہج انقلابِ نبویؐ ‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہو چکی ہیں .اگر آپ کے دل میں ذرا بھی کوئی جذبہ ابھرا ہے تو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں.