ورنہ کتاب میں بہت اچھی باتیں لکھی جا سکتی ہیں کہ یہ یوں ہونا چاہیے‘ یہ ایسا ہونا چاہیے‘ اس کا یہ اصول ہونا چاہیے .آپ اپنے دماغ سے کام لیجئے‘ اعلیٰ سے اعلیٰ باتیں نکلیں گی‘ لیکن جب تک آپ اسے قائم کر کے اس کا نمونہ نہ دکھائیں‘ یہ ثابت نہ کریں کہ یہ قابل عمل ہے‘ یہ نافذ کیا جا سکتا ہے‘ اُس وقت تک وہ حجت اپنے درجہ اتمام کو نہیں پہنچ سکتی. افلاطون نے ایک کتاب لکھی تھی: ’’The Republic‘‘ اس میں اس نے نقشہ کھینچا کہ نظام ایسا ہونا چاہیے‘ حکومت ایسی ہونی چاہیے‘ فلاں معاملات ایسے ہونے چاہئیں .اور وہ کتاب ‘ ایک کتاب کی حیثیت سے‘ اس قدر وقیع ہے کہ ۲۳۰۰ برس سے دنیا میں موجود ہے . ورنہ لاکھوں کتابیں چھپتی ہیں‘ ختم ہو جاتی ہیں‘ ان کا نام و نشان تک نہیں رہتا. کتاب تو وہی باقی رہتی ہے جس کے اندر کوئی وزن ہو‘ جس میں کوئی ٹھوس مواد ہو. اور ’’Republic‘‘ آج بھی دنیا میں موجود ہے. لیکن اس کتاب میں افلاطون نے جو نظام پیش کیا تھا وہ کہیں ایک دن کے لیے بھی قائم نہیں ہوا. لہذا وہ حجت نہیں ہے .کہہ سکتے ہیں کہ یوٹوپیا ہے‘ ایک خیالی جنت کا نقشہ کسی نے کھینچ دیا ہے‘لیکن یہ ہونے والی بات نہیں ہے بابا! کیا کہہ رہے ہو؟
اب میں بڑی سادہ سی مثال دے رہا ہوں. آنحضورﷺ کا ارشاد ہے : سَیِّدُ الْقَوْمِ خَادِمُھُمْ ’’قوم کا سردار اس کا خادم ہوتا ہے‘‘. کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ جی ہاں‘ بہت اعلیٰ بات ہے‘ بڑی اچھی شاعری کی ہے آپ نے‘ لیکن یہ ہونے والی بات نہیں ہے‘ سردار‘ سردار ہوتا ہے‘ خادم کیسے ہو گا؟ لیکن کیا محمد رسول اللہﷺ نے اس کا عملی نمونہ دکھا دیا یا نہیں؟ کیا خلیفہ وقت کی حیثیت سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے کندھے پر آٹے کی بوری اٹھا کر اس خاندان کو نہیں پہنچائی جس کے بچے بھوک کی وجہ سے بلبلا رہے تھے؟ لاکھوں مربع میل کے اوپر اُن کا حکم چل رہا ہے اور اپنے کندھے پر آٹے کی بوری اور دیگر سامانِ خورد و نوش اٹھاکر انہیں پہنچا کر آتے ہیں. غلام نے کہا بھی کہ حضور میں حاضر ہوں‘ مَیں لیے چلتا ہوں. فرمایا: نہیں‘ قیامت کے دن تم میرا بوجھ نہیں اٹھا سکتے. رات کے وقت گشت کر رہے ہیں اور ایک گھر سے ایک عورت کے کراہنے کی آواز آ رہی ہے. معلوم ہوا کہ عورت دردِ زِہ میں مبتلا ہے اور اس کی تیمارداری کرنے والی کوئی عورت ‘ کوئی دایہ نہیں. چنانچہ حضرت عمر فاروق ؓ گھر جا کر خاتونِ اوّل یعنی اپنی اہلیہ محترمہ کو ساتھ لے کر آئے اور آپؓ کی اہلیہ نے جا کر وہاں دایہ گیری کی.تو ’’سَیِّدُ الْقَوْمِ خَادِمُھُمْ‘‘ کا نقشہ دکھا یا یا نہیں؟اسی طرح انسانی مساوات کا نقشہ پیش کر کے دکھا یا یا نہیں؟ بیت المقدس کا سفر ہو رہا ہے‘ سرکاری سفر ہے‘ کوئی پرائیویٹ سفر نہیں ہے‘ کوئی علاج معالجے کے لیے نہیں جا رہے‘ معاذ اللہ‘ بلکہ بیت المقدس کا چارج لینے کے لیے جا رہے ہیں ‘اور کس شان کے ساتھ کہ صرف ایک اونٹ اور ایک خادم ساتھ لیا ہے.
یہ نہیں کہ کوئی دستہ ہونا چاہیے‘ کوئی باڈی گارڈ ہونے چاہئیں.آج کل کہا جاتا ہے کہ کوئی باقاعدہ گروہ ساتھ جانا چاہیے‘ جس کو Entourage کہا جاتا ہے. ایک خلیفہ وقت ہے‘ ایک ان کا خادم اور ایک اونٹ. چونکہ راستے کا راشن بھی اسی اونٹ پر ہے لہذا ایک وقت میں صرف ایک آدمی سوار ہو سکتا ہے. چنانچہ ایک منزل حضرت عمرؓ اوپر بیٹھتے ہیں اور خادم نکیل پکڑ کر آگے آگے چلتا ہے. اگلی منزل میں خادم اوپر بیٹھتا ہے اور خلیفہ وقت نکیل پکڑ کر آگے آگے چلتے ہیں. جب بیت المقدس میں پہنچے ہیں تو وہاں غلغلہ مچ گیا کہ ’’ آ گئے عمرؓ ‘ آ گئے عمرؓ ‘‘.حضرت ابوعبیدہؓ بن الجراح اس محاذ کے سپہ سالار تھے‘ وہ استقبال کے لیے آگے بڑھے تو انہوں نے دیکھا کہ حضرت عمرؓ اونٹ کی نکیل پکڑے چلے آ رہے ہیں اور خادم اونٹ پر بیٹھا ہے‘ اس لیے کہ آخری منزل میں سوار ہونے کی باری اس کی تھی. حالانکہ اس نے ہاتھ جوڑ دیے تھے کہ خدا کے لیے امیر المؤمنین‘ آپ اونٹ پر سوار ہو جائیں‘ لوگ کیا کہیں گے!لیکن آپؓ نے فرمایا: اَلدَّوْرُ دَوْرُکَ نہیں! اب باری تمہاری ہے. یہ حساب کا معاملہ ہے ‘تمہاری باری ہے‘ تم بیٹھو. راستے میں کہیں کیچڑ بھی تھا‘ لہذا جوتے اپنے ہاتھ میں اٹھائے ہوئے ہیں. حضرت عمر ؓ بیت المقدس پہنچے ہیں تو ایک ہاتھ میں جوتے اٹھائے ہوئے ہیں اور ایک میں اونٹ کی نکیل پکڑ رکھی ہے. اِس دَور میں یہ کہانیاں معلوم ہوتی ہیں‘ اَن ہونی باتیں معلوم ہوتی ہیں‘ لیکن یہ مصدقہ تاریخی واقعات ہیں. یہ کوئی پانچ چھ ہزار سال پرانی بات نہیں ہے. انسانی تاریخ کے اندر چودہ سو برس کیا ہوتے ہیں! یہ تمام تاریخ محفوظ ہے‘ ایک ایک چیز محفوظ ہے. تو محمد رسول اللہ ﷺ پر رسالت کی تکمیل اس درجے میں یوں ہوئی کہ جو دین حق آپؐ پر کامل ہو گیا‘ اسے آپؐ نے عملاً قائم کر کے اور نافذ کر کے دکھایا. یہ ہے درحقیقت تکمیل رسالت کا مظہر اوّل.
تکمیل رسالت کا مظہر ثانی‘ جو میں بیان کرنے لگا ہوں ‘یہ معمولی بات نہیں‘ بلکہ بہت بڑی بات ہے اور سیرت کا یہ حصہ اکثر و بیشتر لوگوں کے سامنے نہیں ہے. ہمارے ہاں میلاد کی محفلیں ہوتی ہیں‘ سیرت کے جلسے ہوتے ہیں‘ حضورﷺ کے مناقب بیان کیے جاتے ہیں‘ حضورﷺ کی فضیلتیں بیان ہوتی ہیں‘ آپؐ کے گیسوؤں کی بات ہوتی ہے‘
آپؐ کا سایہ تھا یا نہیں تھا‘ اس کی باتیں ہوتی ہیں‘ حالانکہ یہ سب باتیں غیر متعلقہ ہیں‘ جبکہ اصل سیرت یہ ہے کہ حضور ﷺ نے اللہ کے دین کو قائم کرنے کی جدوجہد خالص انسانی سطح (Human Level) پر کی ہے اور اس میں معجزات کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہے. آپ:ﷺ نے تکلیفیں جھیل کر ‘ مصائب برداشت کر کے‘ فاقے جھیل کر‘ زخم جھیل کر‘ اپنا خون زمین پر گرتا ہوا دیکھ کر‘ اپنے ۲۵۹ جان نثاروں کی لاشیں دیکھ کر اور خاک و خون سے گزر کر یہ کام کیا ہے. ایسا نہیں ہے کہ بس دعا مانگی اور بیڑا پار ہو گیا. تین برس کی شعب بنی ہاشم کے اندر نظر بندی کو یاد کیجئے. یہاں کی جیل میں کھانے کو تو ملتا ہے‘ وہاں کھانے کی بھی پابندی تھی. اس دوران ایسا وقت بھی آیا کہ بنو ہاشم کے پھول جیسے بچے بھوک سے بلکتے تھے اور اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ سوکھا چمڑا ابال کر اس کا پانی ان کے حلق کے اندر ٹپکا دیا جائے.
اور طائف میں جو نقشہ پیش آیا ہے ؏
رسوا سر بازارے آں شوخ ستم گا رے اور ؎
اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے ‘ سو گزری
تنہا پس زنداں‘ کبھی رسوا سر بازار!
طائف پہنچ کر آپﷺ نے وہاں کے تینوں بڑے سرداروں سے گفتگو کی. اس کے جواب میں انہوں نے ایسے چبھنے والے جملے کہے جو کلیجے کو چیر دیتے ہیں. پھر آوارہ لڑکوں کو اشارہ کیا کہ ذرا ان کی خبر لو‘ یہ نبی بنے پھرتے ہیں‘ نبوت کا دعویٰ کرتے ہیں. اور وہ پتھراؤ شروع کر دیتے ہیں. ساتھ صرف ایک جان نثار حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ہیں. وہ سامنے سے آ کر روک بنتے ہیں‘ ڈھال بنتے ہیں تو پیچھے سے پتھر آرہے ہیں. وہ پیچھے کی طرف جاتے ہیں تو سامنے سے پتھر آتے ہیں. جسم ِاطہر لہولہان ہو گیا ہے‘ خون بہہ بہہ کر جا کر جوتیوں میں جم گیا ہے. غشی طاری ہوئی ہے‘ آپؐ تھک کر بیٹھ گئے ہیں تو دو غنڈے آئے ہیں. ایک نے ایک بغل میں ہاتھ ڈالا‘ دوسرے نے دوسری بغل میں ہاتھ ڈالا کہ اٹھو جاؤ. محمد عربی ﷺ ہیں‘ سیّد المرسلین ہیں‘ محبوب ربّ العالمین‘ سیّد الاوّلین والآخرین ہیں اور یہ نقشہ ہے. یہ ہے سیرت‘ جسے بہت کم بیان کیا جاتا ہے .اس موقع پر حضورﷺکے قلب کی گہرائیوں سے جو دعا نکلی ہے‘ واقعہ یہ ہے کہ اسے پڑھتے ہوئے کلیجہ شق ہوتا ہے. جب وہاں سے نکل کر باہر آئے اور ایک باغ میں تھوڑی سی دیر کے لیے سستانے کو بیٹھ گئے تو وہاں اب آپؐ نے مناجات کی ہے اَللّٰھُمَّ اِلَیْکَ اَشْکُوْ ضُعْفَ قُوَّتِیْ وَقِلَّۃَ حِیْلَتِیْ وَھَوَانِیْ عَلَی النَّاسِ ’’اے اللہ! تیری جناب میں فریاد لے کر آیا ہوں اپنے وسائل اور طاقت کی کمی کی‘ اور لوگوں کے سامنے جو رسوائی ہو رہی ہے اس کی‘‘. کہاں جاؤں‘ کس سے فریاد کروں؟ تیری ہی جناب میں فریاد لے کر آیا ہوں. اِلٰی مَنْ تَکِلُنِیْ؟ ’’تو نے مجھے کس کے حوالے کر دیا ہے؟ ‘‘ اِلٰی بَعِیْدٍ یَتَجَھَّمُنِیْ اَوْ اِلٰی عَدُوٍّ مَلَّکْتَ اَمْرِیْ؟ ’’کیا دشمن کے حوالے مجھے کر دیا ہے کہ جو چاہے کر گزرے؟‘‘ ذرا اندازہ کیجئے! یہ الفاظ کہاں سے نکل رہے ہیں. لیکن پھر یہ فریاد کیا رخ اختیار کرتی ہے اِنْ لَّمْ یَکُنْ عَلَیَّ غَضَبُکَ فَلَا اُبَالِیْ ’’پروردگار! اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے تو مجھے کوئی پروا نہیں ہے‘‘. ؏ سرتسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے!
یہ میں نے سیرت کا ایک نقشہ دکھایا ہے.وحی کے آغاز کے بعد سے حضورﷺ کی ۲۳ برس کی زندگی دن رات کی مشقت اور محنت سے عبارت ہے. جو نکتہ سمجھنے کا ہے‘ وہ کیا ہے! اس جدوجہد میں معجزات نہ ہونے کے برابر ہیں. حضورﷺ کا اصل معجزہ قرآن مجید ہے. قرآن کے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ کفارِ قریش کہتے تھے کہ جیسے موسیٰ علیہ السلام کومعجزات ملے‘ جیسے عیسیٰ علیہ السلام کو معجزے ملے ایسا کوئی معجزہ دکھاؤ .اللہ کا فیصلہ تھا کہ نہیں دکھائیں گے‘ ہمارا معجزہ قرآن ہے! حضرت موسیٰ ؑکے معجزوں کو دیکھ کر کون ایمان لے آیا تھا؟ کیا فرعون نے مان لیا تھا؟ کیا یہودی حضرت عیسیٰ ؑکے معجزے دیکھ کر ایمان لے آئے تھے ؟ایسے معجزے جن سے بڑے حسی معجزے ممکن ہی نہیں ہیں. مردے سے کہا جائے ’’قُمْ بِاِذْنِ اللّٰہِ‘‘ اور وہ کھڑا ہو جائے‘ چلنا شروع کر دے‘ یا یہ کہ گارے سے ایک پرندے کی شکل بنائی‘ اس میں پھونک ماری اور وہ اڑتا ہوا پرندہ ہو گیا. احیائے موتی ٰ اور تخلیق ِحیات سے آگے کوئی شے ہے؟ باقی یہ کہ مادر زاد اندھے کے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور اس کی بینائی آ گئی‘ یہ تو نسبتاً چھوٹی چیزیں ہیں. تو کیا مردوں کو زندہ ہوتے دیکھ کر وہ لوگ ایمان لے آئے؟ نہیں‘ بلکہ لوگوں نے کہا یہ جادوگر ہے اور جادو کفر ہے‘ لہذا کافر ہو گیا‘ مرتد ہو گیا ‘ واجب القتل ہے‘ ا س کو سولی پر چڑھا دو. تو اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہﷺ کے بارے میں طے کیا کہ اب معجزے نہیں دکھائے جائیں گے. کوئی ہدایت کا طالب ہے تو قرآن موجود ہے‘ جو سب سے بڑا معجزہ ہے. اور کوئی ہدایت کا طالب نہیں ہے تو بڑے سے بڑا معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائے گا.
خاص طو رپر یہ بھی نوٹ کیجئے کہ جب بنی اسرائیل کو صحرا میں بھوک لگی تھی اور کھانے کو کچھ نہیں تھا تو من و سلویٰ نازل ہوئے تھے یا نہیں؟ لیکن یہاں جیش العسرہ ‘ سفرتبوک کے دوران بھوک کا یہ عالم اور رسد کی کمی کا یہ حال کہ تین تین مجاہدین کو چوبیس گھنٹوں کا راشن ایک کھجور دی گئی. پہلے ایک شخص نے اسے مُنہ میں رکھا اور چوس لیا‘ پھر دوسرے کو دے دیا‘ اس نے چوس لیا‘ پھر تیسرے کو دے دیا. اس سے تینوں کو کچھ گلوکوز مل گیا‘کچھ انرجی حاصل ہو گئی. بتایئے! من و سلویٰ کیوں نازل نہیں ہوا؟کیا بنی اسرائیل اللہ کو زیادہ محبوب تھے حضرت محمدﷺ کے ساتھیوں سے؟ کیا موسیٰ علیہ السلام زیادہ عزیز تھے محمد رسول اللہﷺ سے؟ غزوۂ خندق کے اندر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی حالت یہ تھی کہ کئی کئی وقت کا فاقہ ہے‘ کمریں دوہری ہوئی جا رہی ہیں تو کمر سے پتھر باندھ لیے ہیں. پیٹ کے اوپر پتھر رکھا اور چادر سے کس لیا تاکہ کمر سیدھی رہے. پھر صحابہؓ نے رسول اللہﷺ سے آ کر فریاد کی کہ حضور! اب یہ فاقہ کشی ناقابل برداشت ہو رہی ہے‘ دیکھئے ہم نے یہ پتھر باندھے ہوئے ہیں. اس پر حضورﷺ اپنا کرتہ ٔمبارک اٹھاکر دکھاتے ہیں‘ وہاں دو پتھر بندھے ہوئے ہیں. یہ سارے نقشے سیرت کے ہیں‘ لیکن ہمارے ہاں سیرت کے جلسے ہوتے ہیں تو ان کا موضوع کیا ہوتا ہے ؎
حسن یوسف ‘ دمِ عیسٰی‘ ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند توتنہا داری!
یعنی اے محمدﷺ ! تمام انبیاء کو جو خوبیاں دی گئیں وہ ساری کی ساری تنہا آپؐ کو دے دی گئیں. یوسف علیہ السلام بہت حسین تھے‘ ان سے بڑھ کر حسن حضرت محمدﷺ کو عطا کر دیا گیا‘ دم عیسیٰ اور ید بیضا جیسے معجزات آپ کو عطا کر دیے گئے! لیکن حضورﷺ کی یہ حدیث آپ کو کوئی نہیں سنائے گا کہ ’’تمام نبیوں پر جو تکالیف آئی ہیں‘ میں نے تنہا وہ ساری جھیلی ہیں‘‘. بہرحال اس پوری بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے جو انقلاب برپا کیا یہ معجزوں سے نہیں ہوا‘ یہ دعاؤں سے نہیں ہوا. یقینا دعائیں بھی ہوئی ہیں‘ اس میں کوئی شک نہیں‘ اللہ کی مدد بھی آئی ہے‘ مثلاً غزوۂ بدر میں اللہ کی مدد آئی ہے اور مدد کا دروازہ آج بھی بندنہیں ہے ؎
چمن کے مالی اگر بنا لیں موافق اپنا شعار اب بھی
چمن میں آ سکتی ہے پلٹ کر چمن سے روٹھی بہار اب بھی!
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی!
مدد تو اب بھی آئے گی. معجزہ صرف نبیوں کے لیے ہوتا تھا. حضورﷺ کے لیے بھی بعض معجزے ہیں. بعض مواقع پر تھوڑا سا کھانا بہت سے لوگوں کے لیے کفایت کر گیا. ایسی کرامات کی نوعیت کی چیزیں ضرور ہوئی ہیں‘ لیکن ایسے معجزات نہیں آئے جیسے ہم بنی اسرائیل کے معاملے میں دیکھتے ہیں کہ دھوپ پریشان کر رہی ہے تو ساتھ کے ساتھ بادل چل رہا ہے وَ ظَلَّلۡنَا عَلَیۡکُمُ الۡغَمَامَ وَ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکُمُ الۡمَنَّ وَ السَّلۡوٰی ؕ بنی اسرائیل چھ لاکھ تھے جو مصر سے نکلے تھے. اندازہ کیجیے کہ یہ قافلہ جب چلتا ہو گا تو کتنا بڑا ایریا ہوتا ہو گا ‘اور اس کے اوپر سائبان کی طرح مسلسل ابر ساتھ ساتھ جا رہا ہوتا .یہاں تو نہیں ہوا! یہاں جو کچھ ہوا ہے ‘ زمین پر قدم بقدم چل کر ہوا ہے‘ عام انسانی سطح پر ہوا ہے‘ محنت اور مشقت سے ہوا ہے‘ تکلیفیں جھیل کر اور مصائب برداشت کر کے ہوا ہے‘ آزمائشوں اور امتحانات سے گزر کر ہوا ہے. حضورﷺ کا اپنا خون دو مرتبہ گرا ہے. اگرچہ حضور اکرمﷺ کی اپنی خواہش تویہ تھی :
وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ ‘ لَوَدِدْتُّ اَنِّیْ اُقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ اُحْیَا‘ ثُمَّ اُقْتَلُ ‘
ثُمَّ اُحْیَا‘ ثُمَّ اُقْتَلُ‘ ثُمَّ اُحْیَا‘ ثُمَّ اُقْتَلُ (صحیح البخاری)
’’اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے !میری شدید خواہش ہے کہ میں اللہ کی راہ میں قتل کیاجاؤں‘ پھر زندہ کیا جاؤں‘ پھر قتل کیا جاؤں‘ پھر زندہ کیا جاؤں‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘پھر زندہ کیا جاؤں‘ پھر قتل کیا جاؤں.‘‘
لیکن اللہ کے رسول قتل نہیں ہو سکتے. میں نے آپ سے عرض کیا تھا کہ رسول اور نبی میں فرق ہے. ایک فرق یہ نوٹ کر لیجئے کہ نبی تو قتل ہو سکتا ہے لیکن رسول قتل نہیں ہو سکتا. حضرت یحیی علیہ السلام صرف نبی تھے‘ قتل ہو گئے‘ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام صرف نبی نہیں تھے‘ رسول بھی تھے وَ رَسُوۡلًا اِلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ لہذا وہ قتل نہیں ہو سکتے تھے‘ وہ سولی نہیں چڑھائے جا سکتے تھے‘ انہیں زندہ آسمان پر اٹھایا گیا‘ اور وہ دوبارہ آئیں گے. بہرحال یہ ہے میرے نزدیک تکمیل رسالت کا دوسرا مظہر .