خیر و شر کے مابین جو داخلی معرکہ انسان کی شخصیت کے باطنی میدانِ کارزار میں جاری ہے‘ اس کو تقویت پہنچانے والے کچھ داعیاتِ خیر و شر خارج میں بھی موجود ہیں. بقول علامہ اقبال مرحوم ؎
دنیا کو ہے پھر معرکہ ٔروح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو اُبھارا
اللہ کو پامردیٔ مؤمن پہ بھروسہ
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا!
لیکن یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ اصل اور فیصلہ کن اہمیت داخلی کشاکش ہی کی ہے ‘ خارجی داعیات محض تقویت کے موجب ہو سکتے ہیں‘ خواہ وہ خیر کی جانب تشویق و ترغیب پر مشتمل ہوں خواہ شر کی طرف تحریص و تحریض پر. چنانچہ نہ کسی داعی ٔشر حتیٰ کہ ابلیس لعین و شیطانِ رجیم تک کو یہ قوت و اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی انسان کو بالجبر برائی پر مائل کر سکے‘ بفحوائے آیاتِ قرآنی:
(۱) اِنَّ عِبَادِیۡ لَیۡسَ لَکَ عَلَیۡہِمۡ سُلۡطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الۡغٰوِیۡنَ ﴿۴۲﴾ (الحجر)
’’جو میرے بندے ہیں تیر ااُن پر کچھ زور نہیں! سوائے اُس کے جس نے خود ہی تیری پیروی کی بہکے ہوؤں میں سے !‘‘
(۲) اِنَّہٗ لَیۡسَ لَہٗ سُلۡطٰنٌ عَلَی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَلٰی رَبِّہِمۡ یَتَوَکَّلُوۡنَ ﴿۹۹﴾ (النحل)
’’اسے (ابلیس کو) کوئی اختیار حاصل نہیں ہے ان پر جو ایمان رکھتے ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں!‘‘ اور نہ ہی کسی داعی ٔخیر حتیٰ کہ سید الاوّلین والآخرین‘ خاتم النبیین ّو آخر المرسلین ﷺکو یہ اختیار حاصل تھا کہ جسے چاہتے ہدایت سے نواز دیتے ‘ ازروئے آیت قرآنی:
اِنَّکَ لَا تَہۡدِیۡ مَنۡ اَحۡبَبۡتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ (القصص:۵۶)
’’(اے نبیﷺ !) تو راہ پر نہیں لا سکتا جسے چاہے‘ بلکہ اللہ ہی جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے.‘‘
خیر اور شر کے ان خارجی داعیوں میں سے جہاں تک شر کے داعیوں کا تعلق ہے انہیں تو سب جانتے ہیں ‘یعنی ابلیس اور اس کی صلبی و معنوی ذُرّیت ‘انسانوں میں سے بھی اور ِجنوں ّمیں سے بھی! جن کے بارے میں قرآن میں بھی وضاحت ہے :
اِنَّہٗ یَرٰىکُمۡ ہُوَ وَ قَبِیۡلُہٗ مِنۡ حَیۡثُ لَا تَرَوۡنَہُمۡ (الاعراف:۲۷)
’’وہ (ابلیس لعین) دیکھتا ہے تم کو اور اس کے ہم جنس بھی‘ جہاں سے تم ان کو نہیں دیکھتے!‘‘
اور حدیث ِنبویؐ میں بھی تصریح ہے کہ : اِنَّ الشَّیْطَانَ یَجْرِیْ مِنَ الْاِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ (صحیح البخاری) یعنی شیطان انسان کے وجود میں خون کے مانند سرایت کر جاتا ہے‘ لیکن داعیانِ خیر کے بارے میں یہ حقیقت بہت سے لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہے کہ ملائکہ حیاتِ دنیو ی کے دوران اصحابِ خیر اور اہل حق کے لیے تقویت و تثبیت کا ذریعہ بنتے ہیں‘ اور جس طرح شیاطین ِجن و اِنس انسان کے نفسانی داعیات کی تحریک و اشتعال کا سبب بنتے ہیں اسی طرح ملائکہ انسان کی روحِ ملکوتی میں نشاط و اہتزاز کا ذریعہ بنتے ہیں اور معرکہ حق و باطل کے دوران اہل ِحق کے قلبی سکون و اطمینان اور عملی ثبات و استقلال کا سبب بنتے ہیں. بفحوائے آیاتِ قرآنی : (۱) ہُوَ الَّذِیۡ یُصَلِّیۡ عَلَیۡکُمۡ وَ مَلٰٓئِکَتُہٗ لِیُخۡرِجَکُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ؕ (الاحزاب:۴۳)
’’وہی (اللہ) ہے جو رحمت بھیجتا ہے تم پر اور اس کے فرشتے بھی‘ تاکہ نکالے تمہیں اندھیروں سے اُجالے میں!‘‘
(۲) اِذۡ یُوۡحِیۡ رَبُّکَ اِلَی الۡمَلٰٓئِکَۃِ اَنِّیۡ مَعَکُمۡ فَثَبِّتُوا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ؕ (الانفال:۱۲)
’’جب وحی (کے ذریعے حکم) فرما رہا تھا تیرا رب فرشتوں کو کہ میں تمہارے ساتھ ہوں‘ پس دلوں کو جمائے رکھو اہل ایمان کے!‘‘
(۳) اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا تَتَنَزَّلُ عَلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَ اَبۡشِرُوۡا بِالۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ کُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ ﴿۳۰﴾نَحۡنُ اَوۡلِیٰٓؤُکُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ ۚ (حٰمٓ السجدۃ:۳۱)
’’بے شک جن لوگوں نے کہا اللہ ہی ہمارا ربّ ہے‘ پھر اس پر جم گئے‘ ان پر نازل ہوتے ہیں فرشتے کہ نہ خائف ہو نہ غمگین ‘اور خوشخبری حاصل کرو اس جنت کی جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا. ہم ہیں تمہارے ساتھی اور مددگار دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی!‘‘