رہا یہ سوال کہ یہ عظیم تبدیلی کیسے رونما ہوئی اور انقلابِ محمدی (علیٰ صاحبہ الصلوٰۃ والسلام) کا منہاجِ اساسی کیا ہے؟ اور آپؐ کی انقلابی جدوجہد کن کن مراحل سے گزری؟ تو یہ بجائے خود ایک مستقل موضوع ہے ‘ جس پر کسی اور صحبت میں گفتگو ہو گی!

سردست موضوع زیر بحث کی مناسبت سے مزید دو امور کی نشاندہی مطلوب ہے: 


(۱) مغربی مفکرین ّکی ناسمجھی
ایک یہ کہ نبی اکرم کے مقصد ِبعثت کے اسی اِتمامی و تکمیلی پہلو کو نہ سمجھنے کے باعث سخت ٹھوکریں کھائی ہیں آنحضور کی سیرتِ طیبہ کے فہم میں مغربی مفکرین یا مستشرقین نے. ان بے چاروں کے سامنے بعثت ِانبیاء و رسل کی اساسی غرض و غایت تو ہے‘ چنانچہ وہ یہ تو جانتے ہیں کہ نبی و رسول داعی بھی ہوتے ہیں اور مبلغ بھی‘ معلم بھی ہوتے ہیں اور مربی و مزکی ّبھی‘ بشیر بھی ہوتے ہیں اور نذیر بھی‘ واعظ بھی ہوتے ہیں اور ناصح بھی‘ ریفارمر (reformer) بھی ہوتے ہیں اور مصلح بھی.لیکن چونکہ ان پر ختم ِ نبوت اور تکمیل رسالت کے تقاضے واضح نہیں ہیں‘ لہٰذا یہ بات ان کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ کوئی نبی یا رسول صاحب ِسیف بھی ہو سکتا ہے اور صاحب ِعلم بھی‘سپہ سالار بھی ہوسکتا ہے اور مدبر و سیاست دان بھی. چنانچہ جب وہ آنحضور کی شخصیت مبارکہ میں یہ جملہ کمالات پہلو بہ پہلو دیکھتے ہیں تو سخت خلجان میں مبتلا ہو جاتے ہیں .چنانچہ ان میں سے کوئی تو آپؐ کونبی یا رسول ماننے سے ہی صریحاً انکار کر دیتا ہے اور آپؐ کی عظمت صرف بطورِ انسان تسلیم کر کے رہ جاتا ہے (۱‘کوئی ایسی احمقانہ بات کہہ بیٹھتا ہے کہ ’’محمد بحیثیت نبی تو ناکام ہو گئے‘ البتہ بحیثیت مدبر و سیاست دان کامیاب ہو گئے‘‘ (۲اور کوئی آپؐ کی شخصیت کو دو مستقل حصوں میں منقسم کر بیٹھتا ہے‘ چنانچہ اسے ’’مکے والا محمدؐ ‘‘ اور نظر آتا ہے اور ’’مدینے والا‘‘ (۳اور ! فَلَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْجَاھِلِیْنَ! (۱) جیسے پروفیسر منٹگمری واٹ کے الفاظ: 
ONE OF THE GREATEST SONS OF ADAM 

یا جیسے ڈاکٹر مائیکل ہارٹ کے الفاظ: 
THE ONLY MAN IN HISTORY WHO WAS SUPREMELY SUCCESSFUL ON BOTH THE RELIGIOUS AND SECULAR LEVELS 

(۲) جیسے پروفیسر ٹائن بی نے کہا: 
MUHAMMAD FAILED AS A PROPHET BUT SUCCEEDED AS A STATESMAN 

(۳) جو وہم پید اکرنا چاہا ہے پروفیسر منٹگمری واٹ نے آنحضور کی سیرت پر دو مستقل
کتابیں تصنیف کر کے ایک 
MUHAMMAD AT MECCA اور دوسری MUHAMMAD AT MEDINA

(۲) اُمت کا فرضِ منصبی

اور دوسرے یہ کہ آیا نبی اکرم کے مقصد ِبعثت کی تکمیل جملہ اعتبارات سے بتمام و کمال ہو چکی ہے یا وہ کسی پہلو یا اعتبار سے ہنوز شرمندۂ تکمیل ہے؟ اور اگر بات دوسری ہے اور صورتِ واقعہ یہ ہے کہ ؎

وقت ِفرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے!

تو کیا اُمت صرف عید میلاد النبی ؐ مناکر ‘ یا جلسے کر کے اور جلوس نکال کر یا ذوق و شوق کے ساتھ درود و سلام بھیج کر اپنے فرضِ منصبی سے عہدہ برآ ہو جاتی ہے؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہے اور صورتِ حال واقعتایہ ہے کہ ؎

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا!

تاہم ؎

اِک طرزِ تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک
اک عرضِ تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے!

کے مصداق گزارش ہے کہ اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ ختم نبوت و رسالت کا ایک لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جو کام آنحضور سے قبل انبیاء و رسل کیا کرتے تھے آپؐ کے بعداب وہ سب کے سب آپؐکی اُمت کے ذمے ہیں. گویا خواہ دعوت وتبلیغ‘ انذار و تبشیر‘ تعلیم و تربیت اور اصلاح و تزکیہ پر مشتمل فریضہ شہادتِ حق ہو جو بعثت ِانبیاء و رُسل کی غرضِ اصلی اور غایت ِاساسی ہے ‘خواہ 
اعلائِ کلمۃ اللہ ‘ اقامت ِدین اور اظہارُ دینِ الحقّ علی الدِّین کُلِّہ پر مشتمل بعثت ِمحمدیؐ کا مقصد ِامتیازی اور منتہائے خصوصی ہو‘ جملہ اہل ارض اور جمیع کرۂ ارضی کے اعتبار سے یہ سارے فرائض اب ان لوگوں پر عائد ہوتے ہیں جو آنحضور کے نام لیوا ہیں اور آپؐ کے نام نامی سے منسوب ہونے پر فخر کرتے ہیں اور آپؐ کی اُمت میں ہونے کو موجب سعادت جانتے ہیں.

اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ چونکہ نبی اکرم پر نبوت و رسالت کا سلسلہ ختم ہو گیا ‘ 
لہٰذا آپؐ دو بعثتوں کے ساتھ مبعوث ہوئے‘ ایک اپنے زمانے کے اہل عرب کی جانب اور دوسری تاقیامِ قیامت پوری نوعِ انسانی کی جانب .چنانچہ سورۃ الجمعہ میں بھی فرمایا گیا کہ آپؐ ’’اُمیین‘‘ کے لیے بھی مبعوث ہوئے اور ’’آخرین‘‘ کے لیے بھی ‘اور آغازِ کلام میں آنحضور کے جس خطبے سے اقتباس دیا گیا تھااس میں بھی آپ نے فرمایا: 
اِنِّیْ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ خَاصَّۃً وَّاِلَی النَّاسِ‘کَافَّۃً 

’’میں یقینا اللہ کا فرستادہ ہوں تمہاری طرف خصوصاً اور پوری نوعِ انسانی کی جانب بالعموم!‘‘
ان میں سے 
’’ بعثت اولیٰ‘‘ کے جملہ فرائض ’’شہادت علی النّاس‘‘ اور ’’اظہارِ دینِ الحقِّ علی الدِّین کُلِّہ‘‘ دونوں کے اعتبار سے آپؐ نے بنفس نفیس ادا فرما دیے‘ خواہ اس میں مخالفت ہوئی یا مزاحمت‘ تمسخر ہوا یا استہزاء‘ ذہنی کوفت کا سامنا ہوا یا جسمانی اذیت کا‘ مصیبتیں آئیں یا مشکلات‘ محنت کرنی پڑی یا مشقت‘ پھر خواہ شعب بنی ہاشم کا دور آیا یا یومِ طائف‘ اور ہجرت کا مرحلہ آیا یا جہاد کا. خواہ غارِ ثور میں چھپنے کی نوبت آئی یا سراقہ ابن مالک کے تعاقب کی‘ اور بدر کا معرکہ پیش آیایا اُحد کا.اور خواہ مصعبؓ بن عمیر کی بے گورو کفن لاش سامنے آئی یا حمزہؓ بن عبدالمطلب کا اَعضاء بریدہ لاشہ‘ خواہ خندق کا مرحلہ آیایا حنین کا‘اور خواہ خیبر کی مہم سر کرنی پڑی یا تبوک کی‘ آپ  کے پائے ثبات میں کہیں لغزش نہ آئی اور ؎

’’یا تن رسد بہ جاناں 
یا جاں زتن بر آید!‘‘

کے مصداق آپؐ اپنے فرضِ منصبی کی ادائیگی میں لگے رہے!

حتیٰ کہ تیئیس برس کی محنت ِشاقہ کے نتیجے میں حق کا بول واقعتا بالا ہو گیا‘ کلمہ حق بالفعل سب سے بلند ہو گیا اور سرزمین ِعرب پر دین ِحق کا پرچم فی الواقع لہرانے لگا‘ تاآنکہ حجۃ الو ِداع کے موقع پر جمیع اطراف و اکناف عرب سے آئے ہوئے کم از کم تعداد کے مطابق چالیس ہزار اور بعض دوسری روایات کے مطابق سوا لاکھ افراد کے اجتماع سے 
اَلَا ھَلْ بَلَّغْتُ؟ (۱کے جواب میں یہ گواہی لینے کے بعد کہ : نَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ وَاَدَّیْتَ وَنَصَحْتَ! (۲آپؐ چند ہی ماہ کے اندر اندر رفیق اعلیٰ کی طرف رحلت فرما گئے‘ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَـیْہِ رَاجِعُوْنَ! 

آپ کے بعد‘ آپؐ کی بعثت ِعامہ کی جملہ ذمہ داریاں اُمت کے کاندھوں پر آگئیں‘ بفحوائے آیت ِقرآنی : لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَھِیْدًا عَلَیْکُمْ وَتَـکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ .چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ‘جو آپؐ کے حقیقی جانشین تھے‘ خلافت ِراشدہ کے دوران جو واقعتا خلافت علیٰ منہاج النبوۃ تھی‘ آپؐ کی جانب سے تبلیغ دین و ’شہادت علی النّاس‘ ،’اقامت ِدین‘ اور ’اظہار دین الحقّ علی الدین کلہ‘ کے فرائض ادا کیے اور تیس سال کی قلیل سی مدت میں اللہ کے دین کا پرچم اس وقت کی معلوم دنیا کے ایک بہت بڑے حصے پر لہرا دیا.

اور اس کے بعد شروع ہوا زوال و انحطاط کا وہ عمل جو مسلسل تیرہ صدیوں تک جاری رہا تاآنکہ اس صدی کے آغاز میں نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ دین ِحق جو پورے روئے ارضی پر غالب ہونے کے لیے نازل ہوا تھا 
’’غریب الغربائ‘‘ بن کر رہ گیا. بقول مولانا الطاف حسین حالی مرحوم : ؎

اے خاصۂ خاصانِ رسل وقت ِدعا ہے
اُمت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے
وہ دیں جو بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغرباء ہے!

ا و ر

پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گر کر نہ اُبھرنا دیکھے!

(۱) ’’میں نے (آپ لو گوں تک پیغامِ الٰہی) پہنچا دیا یا نہیں؟‘‘
(۲) ’’ہم گواہ ہیں کہ آپ ؐ نے تبلیغ بھی فرما دی ‘امانت ادا فرما دی اور (ہماری) خیر خواہی کا حق بھی ادا فرما دیا!‘‘

مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اُترنا دیکھے!

الغرض آج کی گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ ضرورت ہے کہ اب پھر اُمت ِمحمد 
علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام اپنے فرض منصبی کو پہچانے اور اُس سے عہد ہ برآ ہونے کے لیے ایک عزمِ نو کے ساتھ کمر بستہ ہو جائے‘ تاکہ بعثت ِمحمدی کا مقصد بتمام و کمال پورا ہو اور پورے کرۂ ارضی پر دین ِمحمدیؐ کا پرچم لہرا اُٹھے ؎

کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

اَللّٰھُمَّ انْصُرْ مَنْ نَصَرَ دِیْنَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاجْعَلْنَا مِنْھُمْ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَ دِیْنَ مُحَمَّدٍ  وَلَا تَجْعَلْنَا مَعَھُمْ 
آمِیْنَ یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ!