ایک فردِ واحد کی مختصر سی زندگی کے بائیس سالوں میں تاریخ انسانی کے عظیم ترین اور ہمہ گیر ترین انقلاب کے از ابتدا تا انتہا جملہ مراحل طے پاجانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ آنحضورﷺ کی حیاتِ طیبہ کے دوران حالات و واقعات کی رفتار اتنی تیز اور انقلابی عمل کا زور (tempo) اتنا شدید نظر آتا ہے کہ سیرتِ مطہرہ کے مطالعے میں بالعموم نگاہیں صرف تصادم و کشمکش کے مختلف مراحل و مظاہر میں اُلجھ کر رہ جاتی ہیں ‘اور جس طرح کسی زور شور سے بہنے والی پہاڑی ندی کو دیکھتے ہوئے انسان بالعموم اس کی سطح کے ہیجان و اضطراب ہی سے مبہوت سا ہو کر رہ جاتا ہے اور اس کی گہرائی کے بارے میں سوچنے کا موقع ہی اسے نہیں ملتا‘ اسی طرح انقلابِ نبویؐ کا اساسی منہاج بھی نگاہوں سے اوجھل رہ گیا ہے. چنانچہ اوّل اوّل تو سیرتِ مطہرہ سے متعلق جو مواد جمع ہوا تھا‘ وہ تھا ہی سارے کے سارا مغازی پر مشتمل. تاحال بھی سیرتِ مبارکہ کے مطالعے میں اصل توجہ مرتکز رہتی ہے ہجرت سے پہلے کی passive resistance پر ‘جس کے اہم نقوش ہیں تمام مسلمانوں پر بالعموم اور غلاموں پر بالخصوص شدید بہیمانہ تشدد (persecution) ‘ ہجرتِ حبشہ‘شعب بنی ہاشم‘ یومِ طائف‘ فیصلہ قتل ِنبویؐ ‘ محاصرئہ کاشانہ نبوت‘ غارِ ثور اور تعاقب سراقہ بن مالک اور ہجرت کے بعد کے اقدام اور active resistance پر جس کے اہم اور نمایاں نشانات ہیں قریش کی معاشی ناکہ بندی‘ بدر‘ اُحد اور احزاب کا مسلح تصادم‘ جس میں عارضی سا وقفہ ہوا صلح حدیبیہ سے جس کے ختم ہوتے ہی تصادم دوگونہ ہو گیا. یعنی اندرونِ عرب بھی جس کے اہم نقوش ہیں فتح خیبر‘ فتح مکہ اور غزوۂ حنین اور بیرونِ عرب بھی جس کے نمایاں نشانات ہیں غزوۂ موتہ اور سفر ِتبوک.
حضرت ِ اکبر الٰہ آبادی کے اس حد درجہ سلیس لیکن نہایت پرمعنی شعر کے مصداق کہ ؎
خدا کے کام دیکھو بعد کیا ہے اور کیا پہلے
نظر آتا ہے مجھ کو بدر سے غارِ حرا پہلے!
غور کرنا چاہیے کہ آنحضورؐ کی عظیم انقلابی جدوجہد کی تہہ میں کارفرماوہ اصل طریق کار اور اساسی منہج عمل کیا تھا جس کے ذریعے وہ مردانِ کار فراہم ہوئے جنہوں نے آیہ قرآنی:
مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیۡہِ ۚ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ ۫ۖ وَ مَا بَدَّلُوۡا تَبۡدِیۡلًا ﴿ۙ۲۳﴾ (الاحزاب)
’’اہل ایمان میں وہ جواں مرد ہیں جنہوں نے پورا کر دکھایا وہ عہد جو انہوں نے اللہ سے کیاتھا ‘پس ان میں سے وہ بھی ہیں جو اپنی نذر پیش کر کے سرخرو ہو چکے اور وہ بھی ہیں جو منتظر ہیں (کہ کب باری آئے اور وہ بھی اللہ کی راہ میں سر کٹا کر سبکدوش ہو جائیں.) بہرصورت انہوں نے اپنے موقف سے سرمو تبدیلی نہیں کی.‘‘