انقلابی عمل کا دوسرا مرحلہ کیا ہوتا ہے! یہ کہ جو لوگ اس فکر کو قبول کریں انہیں منظم کیا جائے. اس لیے کہ انقلاب بغیر جماعت کے نہیں آتا. میں ہرگز یہ نہیں کہتا کہ انفرادی طور پر دین کا کوئی کام نہیں ہو سکتا.انفرادی سطح پر تبلیغ ہو سکتی ہے. میرے نزدیک اس کی سب سے اعلیٰ اور درخشاں مثال حضرت نوح علیہ السلام کی ہے کہ ساڑھے نو سو برس دعوت دیتے رہے. سورۂ نوح کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آنجناب علیہ السلام نے کس کس طور اور طریقے سے دعوت و تبلیغ کے فریضہ کی انجام دہی کے لیے مساعی کیں اور پھر کتنی حسرت کے ساتھ بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا : 

رَبِّ اِنِّیۡ دَعَوۡتُ قَوۡمِیۡ لَیۡلًا وَّ نَہَارًا ۙ﴿۵﴾فَلَمۡ یَزِدۡہُمۡ دُعَآءِیۡۤ اِلَّا فِرَارًا ﴿۶﴾وَ اِنِّیۡ کُلَّمَا دَعَوۡتُہُمۡ لِتَغۡفِرَ لَہُمۡ جَعَلُوۡۤا اَصَابِعَہُمۡ فِیۡۤ اٰذَانِہِمۡ وَ اسۡتَغۡشَوۡا ثِیَابَہُمۡ وَ اَصَرُّوۡا وَ اسۡتَکۡبَرُوا اسۡتِکۡبَارًا ۚ﴿۷﴾ثُمَّ اِنِّیۡ دَعَوۡتُہُمۡ جِہَارًا ۙ﴿۸﴾ثُمَّ اِنِّیۡۤ اَعۡلَنۡتُ لَہُمۡ وَ اَسۡرَرۡتُ لَہُمۡ اِسۡرَارًا ۙ﴿۹﴾ 

’’اے میرے ربّ! میں نے اپنی قوم کے لوگوں کو شب و روز تیری طرف بلایا‘ مگر میری دعوت نے اُن کے فرار ہی میں اضافہ کیا. اور جب بھی میں نے اُن کو بلایا تاکہ تو انہیں معاف کر دے‘ انہوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور اپنے کپڑوں سے مُنہ ڈھانک لیے اور اپنی روش پر اَڑ گئے اور بڑا تکبر کیا. پھر میں نے انہیں بآوازِ بلند دعوت دی. پھر میں نے عَلانیہ بھی ان کو تبلیغ کی اور چپکے چپکے بھی سمجھایا.‘‘

لیکن قوم مردہ ہو چکی تھی. اس نے حضرت نوح علیہ السلام کی دعوتِ توحید کو قبول نہیں کیا‘بلکہ اس سے اعراض و انکار کیا. ساڑھے نو سو برس کی دعوت و تبلیغ کا جو نتیجہ نکلا اس کو سورۂ ہود کی آیت۴۰ کے آخر میں بیان کیا گیا ہے: 
وَمَآ اٰمَنَ مَعَہٗ اِلاَّ قَلِیْلٌ ’’اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو اس (نوحؑ) کے ساتھ ایمان لائے تھے‘‘. یہاں ’’قلیل‘‘ وہ معنی دے رہا ہے جو انگریزی میں a little دیتا ہے‘ یعنی بہت ہی کم‘ معدودے چند. قرآن حکیم میں تدبر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتؑ پر ان کے گھر والے ہی ایمان لائے تھے اور ان میں سے بھی ایک بیٹے نے دعوتِ حق قبول نہیں کی تھی‘ وہ کفر پر ہی اڑا رہا تھا. ممکن ہے کہ انگلیوں پر گنے جانے والے چند اورلوگ بھی ایمان لائے ہوں‘ بہرحال ساتھی نہ ملے‘ جمعیت فراہم نہیں ہوئی‘لہٰذا اگلا قدم کیسے اٹھتا!اعوان و انصار نہ ہوں تو اگلی منزل کی طرف پیش رفت کیسے ہو! لیکن حضرت نوح علیہ السلام کی استقامت و مصابرت دیکھئے کہ ساڑھے نو سو برس دعوت و تبلیغ میں کھپا دیے اور اپنا فرضِ منصبی ادا کر دیا. ہمارے لیے اس میں یہ سبق ہے کہ ایک مخلص شخص اپنی پوری زندگی اس کام میں لگا دے‘ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سرخرو اور کامیاب ہو گا. معاشرہ اگر مر چکا ہے‘ حق کو قبول کرنے کی صلاحیت معدوم ہو چکی ہے تو کوئی مثبت جواب نہیں ملے گا‘ ساتھی میسر نہیں آئیں گے. اس میں اُس کا کوئی قصور نہیں. چونکہ اگلا قدم اٹھانے اور اگلی منزل کی طرف پیش رفت کرنے کا موقع ہی نہیں ملا‘ لہٰذا وہ بریٔ الذمہ ہے. 

اسی طرح تربیت و تزکیہ‘ تدریس و تعلیم اور تصنیف و تألیف یہ سارے کام دین کے ہیں اور یہ انفرادی طور پر بھی ہو سکتے ہیں اور بحمداللہ ہمارے یہاں یہ سب ہی کام ہو رہے ہیں.لیکن جب آخری منزل اور اصل ہدف کی بات ہو گی جس کو میں اب انقلاب سے تعبیر کر رہا ہوں‘ یعنی دین کا غلبہ‘ دین کا قیام‘ دین کا نفاذ‘ دین کی سربلندی‘ توکوئی احمق شخص ہی ہو سکتا ہے جو یہ سمجھے کہ یہ کام انفرادی طور پر ممکن ہے. بلکہ ایسا خیال رکھنے والا شخص فاترالعقل ہی ہو سکتا ہے. میں کہا کرتا ہوں کہ تنظیم کے بغیر کوئی اجتماعی کام نہیں ہوسکتا‘چاہے وہ خیر کے لیے ہوچاہے شر کے لیے ہو .جو اشخاص لوگوں کی جیبیں کاٹتے ہیں‘ ان کی بھی تنظیم ہوتی ہے .ڈاکوؤں کے بھی گروہ 
(gangs) ہوتے ہیں‘ تنظیم ہوتی ہے. تخریب کاری کے لیے بھی تنظیمیں قائم ہیں. لہٰذا اقامت ِدین اور اظہارِ دین کے لیے تنظیم اور جماعت ناگزیر ہے‘ اس سے مفر نہیں. بقول فیض احمد فیضؔ ؎

جز دار اگر کوئی مفر ہو تو بتائو
ناچار گنہگار سوئے دار چلے ہیں!

حضرت نوح علیہ السلام کے بالکل برعکس دوسری مثال میں حضرت محمد رسول اللہ  کی دیا کرتا ہوں. سورۃالشوریٰ کی آیت ۱۳ میں جن پانچ اولوالعزم رسولوں کا ذکر ہوا ہے‘ ان میں زمانی ترتیب کے لحاظ سے اوّلین ہیں حضرت نوح علیہ السلام اور آخری ہیں جناب محمد . درمیان میں تین رسول ہیں‘ حضرت ابراہیم‘ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام. اس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام بالکل وسط میں آتے ہیں. اب دیکھئے ‘اوّل و آخر میں کتنی متضاد کیفیت ہے کہ ایک نے ساڑھے نو سو برس دعوت دی‘ لیکن کوئی اعوان و انصار نہیں ملے. جمعیت ہی فراہم نہیں ہوئی تو اگلا قدم کیسے اٹھے! اور دوسرے کا معاملہ یہ ہے کہ کل بیس برس میں دنیا کا عظیم ترین صالح انقلاب برپا فرما دیا. میں بیس سال فتح مکہ اور اس کے بعد غزوۂ حنین کی کامیابی کے اعتبار سے کہہ رہا ہوں‘ کیونکہ اس کے ساتھ ہی جزیرہ نمائے عرب کی حد تک انقلابِ اسلامی کی تکمیل ہو گئی تھی. محمد رسول اللہ کی جدوجہد میں مابہ الامتیاز اور فیصلہ کن چیز کیا ہے! اسے سورۃالفتح کی آیات ۲۸‘ ۲۹ کے حوالے سے سمجھئے. فرمایا: 

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰۦ وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ؕ 
وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ۲۸﴾مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ… 
’’وہ (اللہ) ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ :کو ہدایت کاملہ اور دین ِحق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اس کو پوری جنس دین پر غالب کر دے ‘اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے.محمد( ) اللہ کے رسول ہیں اور جولوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں…‘‘

بقول شاعر مشرق ؎ 
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مؤمن!

محمد رسول اللہ کی جمعیت اور تنظیم کو تصور میں تولائیے. وہ لوگ کہ جن کی دین سے وابستگی اور دین کے لیے ایثار کا یہ عالَم تھا کہ وہ اس شان سے نبی اکرم کے اعوان و انصار بنے ہیں کہ ؏ ’’ہر چہ بادا باد ما کشتی درآب انداختیم‘‘ والا نقشہ ہے. جو غزؤہ بدر سے قبل ایک مشاورت میں کہہ رہے ہیں کہ ’’اے اللہ کے رسول ( )! آپ ہم سے کیاپوچھ رہے ہیں! بسم اللہ کیجیے جو بھی آپ کا ارادہ ہو‘ کیا عجب کہ اللہ ہمارے ذریعے آپ کو آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما دے. جو کہہ رہے ہیں کہ حضور ! آپ ہمیں حضرت موسیٰ ( علیہ السلام ) کے ساتھیوں پر قیاس نہ فرمائیے جنہوں نے کہا تھا: 

فَاذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْنَ  (المائدۃ) 

’’ پس (اے موسیٰ!) تم جاؤ اور تمہارا ربّ جائے اور دونوں جنگ کرو‘ ہم تو یہاں بیٹھے رہیں گے .‘‘

جہاں آپؐ کا پسینہ گرے گا وہاں اپنا خون بہانا ہمارے لیے سعادت ہوگی. حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جملہ یاد کیجیے جو کہہ رہے ہیں کہ حضورؐ ! آپ ہم سے کیا مشورہ لے رہے ہیں‘ 
اِنَّا اٰمَنَّا بِکَ وَصَدَّقْنَاکَ. ہم آپ پرایمان لا چکے ہیں‘ ہم آپؐ کی تصدیق کر چکے ہیں‘ ہم آپؐ ‘ کو اللہ کا رسول تسلیم کر چکے ہیں. اب خدا کی قسم !اگر آپؐ ہمیں حکم دیں گے تو ہم اپنی سواریاں سمندر میں ڈ ال دیں گے. اگر آپؐ ہمیں حکم دیں گے تو ہم اپنی اونٹنیوں کو دبلا کر دیں گے لیکن برک الغماد تک جا پہنچیں گے( جو عرب کا ایک دوردراز علاقہ ہے جس کی راہ میں لق و دق صحرا پڑتا ہے. ) یہ ہے وہ فیصلہ کن اور مابہ الامتیاز بات کہ اگر جمعیت نہ ہو‘ اس میں بنیانِ مرصوص کی کیفیت نہ ہو‘ اس میں سمع و طاعت کا وصف و جوہر نہ ہو‘ اس میں نظم و ضبط نہ ہو‘ وہ تربیت یافتہ نہ ہو‘ اس کو اللہ کی رضا ہر چیز سے زیادہ محبوب نہ ہو‘ اس کو زندہ رہنے سے زیادہ اللہ کی راہ میں جان دینا عزیز نہ ہو تو اگلی منزلوں کی طرف پیش رفت اور پیش قدمی کے مراحل آئیں گے ہی نہیں. حضرت نوح علیہ السلام کو ایسے ساتھی نہ ملے‘ لہٰذا اگلے مرحلے کا معاملہ درپیش ہی نہ ہوا. لیکن آنحضور کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے اعوان و انصار مل گئے جنہوں نے دعوتِ توحید پر لبیک کہا‘ دعوتِ حق کو قبول کیا‘ اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالا اور انہوں نے دعوت الی اللہ‘ اعلائے کلمۃ اللہ‘ شہادت علی الناس اور اقامت ِدین کے لیے شدائد و مصائب‘ فقر و فاقہ‘ کشمکش و تصادم‘ جہاد و قتال کے مراحل میں جاں نثاری‘ قربانی و ایثار‘ صبر و تحمل اور استقامت کی وہ مثالیں قائم کیں کہ ان کی نظیر تاریخ انسانی نہ آج تک پیش کر سکی ہے اور نہ آئندہ پیش کر سکے گی. اللہ کی طرف سے حضور کو ایسے جاں نثار اصحاب کا ملنا اس لیے بھی تھا کہ اظہار دین الحق آپ کے فرائض منصبی میں شامل تھا‘ بفحوائے لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ . چونکہ آپؐ ‘ آخری نبی اور رسول ہیں لہٰذا بنفس نفیس دین ِحق کو ایک نظامِ اجتماعی کی حیثیت سے قائم اور نافذ کرکے تاقیامِ قیامت نوعِ انسانی پر حجت قائم کرنا بھی آپؐ کے فرائض منصبی میں ایک امتیازی شان رکھتا تھا. 

اب آئیے سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ کی طرف. اولوالعزم من الرسل میں سے بالکل وسط میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر ہے. آنجنابؑ کی بعثتیں بھی دو نوعیتوں کی حامل تھیں. ایک آنجنابؑ آلِ فرعون کی طرف رسول تھے. 
اِذْھَبْ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّــہٗ طَغٰیX (طٰہٰ) اور دوسرے آپؑ بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے تھے. آنجنابؑ کی دعا پر آپ کی معاونت کے لیے آپؑ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو بھی نبوت سے سرفراز فرمایا گیا تھا. مصر میں دونوں حضرات دعوت و تبلیغ اور بنی اسرائیل کی تربیت و تزکیہ میں ہمہ وقت و ہمہ تن لگے رہے‘ حتیٰ کہ فرعون کے اعراض‘ سرکشی ‘دشمنی اور انکار کے باعث ہجرت کا مرحلہ آ گیا اور آپؑ کو حکم ہوا کہ بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر مصر سے نکل جائیں. آپؑ کے ساتھ لاکھوں کی جمعیت تھی. جب آپؑ بنی اسرائیل کے ہمراہ صحرائے سینا پہنچے تو اگلا اور آخری مرحلہ دین کے قیام اور غلبہ کے لیے قتال کا درپیش ہوا اور وحی ٔ الٰہی کے ذریعے حکم ہوا کہ ارضِ مقدس (فلسطین) میں داخل ہو جائو. چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے کہا: یٰــقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّٰہُ لَـکُمْ وَلَا تَرْتَدُّوْا عَلٰٓی اَدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَU (المائدۃ) 
’’اے برادرانِ قوم! اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جائو جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے‘ اور پشت پھیر کر پیچھے مٹ پلٹو ‘ورنہ ناکام و نامراد لوٹو گے.‘‘

لیکن قوم بزدل اور تھڑدلی نکلی اور اس نے کورا جواب دے دیا: 

قَالُوْا یٰمُوْسٰٓی اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَـھَـآ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِیْھَا فَاذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْنَ 
(المائدۃ) 
’’انہوں نے کہا: اے موسٰی! ہم تو وہاں کبھی نہ جائیں گے جب تک وہ (زبردست لوگ) وہاں موجود ہیں. بس تم اور تمہارا ربّ‘ دونوں جاؤ اور لڑو‘ ہم یہاں بیٹھے ہیں.‘‘

نتیجہ یہ نکلا کہ انقلابی عمل وہیں رک گیا .اگر اقامت ِدین کا کام اجتماعی قوت اور منظم جمعیت کے بغیر ممکن ہوتا تو اللہ کے دو جلیل القدر پیغمبروں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیٰ نبینا و علیہما الصلوٰۃ والسلام) کے مبارک ہاتھوں سے تکمیل پاجاتا. لیکن ساتھیوں کی بزدلی اور پیٹھ دکھانے کے باعث انقلابی عمل تکمیل تک نہ پہنچ سکا. حالانکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قوم کو اللہ کی طرف سے بشارت دی تھی کہ ارضِ مقدس تمہارے لیے لکھی جاچکی ہے‘ اب تمہاری ہمت درکار ہے‘ پیٹھ دکھاؤ گے تو ناکام و خاسر ہو جاؤ گے. حضرت موسیٰ علیہ السلام قوم کی اس ڈھٹائی‘ نافرمانی‘ بزدلی اور کورے جواب سے اتنے آزردہ اور دل گرفتہ ہوئے کہ ان کی زبان پر آ گیا: 

رَبِّ اِنِّیْ لَآ اَمْلِکُ اِلاَّ نَفْسِیْ وَاَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَY 
(المائدۃ) 
’’اے میرے ربّ! مجھے تو سوائے اپنی ذات اور اپنے بھائی کے کسی اور پر کوئی اختیار نہیں‘ پس تو ہم میں اور ان نافرمانوں میں جدائی ڈال دے.‘‘

قوم کی اس بزدلی اور کم ہمتی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ نے بطورِ پاداش اپنا حکم سنا دیا: 

قَالَ فَاِنَّھَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیْھِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃًج یَتِیْھُوْنَ فِی الْاَرْضِط 
(المائدۃ:۲۶

’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (ان کی نافرمانی اور بزدلی کی وجہ سے )ان پر ارض مقدس چالیس سال تک حرام کر دی گئی ہے. اب یہ اسی صحرا میں (اس مدت تک) بھٹکتے رہیں گے.‘‘ 
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس واقعہ سے سبق ملتا ہے کہ اگر جمعیت موجود ہو لیکن وہ غیرمنظم ہو‘ اس میں سمع و طاعت کا جوہر نہ ہو‘ اس میں نظم و ضبط نہ ہو تو بھی انقلابی عمل آخری مرحلہ میں داخل نہیں ہو سکے گا. اس کے لیے وہ جماعت درکار ہے جس کے متعلق آنحضور نے‘فرمایا: 

آمُرُکُمْ بِخَمْسٍ: بِالْجَمَاعَۃِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَالْھِجْرَۃِ وَالْجِھَادِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ 
(۱
’’(مسلمانو!) میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں. التزامِ جماعت کا‘ اور سننے اور ماننے کا‘ اور اللہ کی راہ میں ہجرت اور جہاد کا.‘‘

ایک اور روایت میں 
آمُرُکُمْ بِخَمْسٍ کے بعد الفاظ آتے ہیں: اَللّٰہُ اَمَرَنِیْ بِھِنَّ ’’اللہ نے مجھے ان کا حکم دیا ہے‘‘.اس طرح یہ حکم مزید مؤکد ہو جاتا ہے. پس معلوم ہوا کہ اقامتِ دین کے مرحلے کو طے کرنے کے لیے ٹھیٹھ اسلامی اصولِ سمع و طاعت پر مبنی ایک منظم جماعت ناگزیرہے. یہ بات بھی واضح رہے کہ جہاد کی میں نے جو سطحیں بیان کی ہیں‘ اُن سے عہدہ برآ ہونے کے لیے بھی جماعتی زندگی لازم ہے. اکیلا شخص معاشرے کے دباؤ‘ نفس کی ترغیبات اور ابلیس لعین کی تحریصات کے مقابلے میں مشکل ہی سے ٹھہر سکتا ہے.