اس کے بعد جب تحریک خلافت شروع ہوئی تو مولانا نے اس پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا. اس مسئلہ پر مولانا کی ملک کے مشہور شہروں میں سے اکثر میں نہایت زور دار اور ولولہ انگیز تقریریں ہوئیں‘ جو صرف خطابت ہی کے لحاظ سے نہیں بلکہ علمی اعتبار سے بھی معرکے کی تقاریر تھیں. آگرہ یعنی اکبر آباد میں خلافت کمیٹی کے زیر اہتمام ایک عظیم جلسہ ٔ عام میں مولانا نے ’مسئلہ خلافت‘کے موضوع پر نہایت خطیبانہ اور عالمانہ تقریر کی. میں خود تو اس جلسہ میں نہیں تھا لیکن مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی مرحوم اور مولانا عتیق الرحمن صاحب نیز دوسرے لوگوں سے‘ جو اس جلسہ میں موجود تھے‘ میں نے سنا کہ ’مسئلہ خلافت‘جواب کتابی شکل میں طبع شدہ موجود ہے. یہ پورا کا پورا خطبہ مولانا آزاد نے زبانی دیا تھا. اس میں بکثرت حوالہ جات تھے جو بالکل صحیح تھے . جس سے مولانا آزاد کی ذہانت اور ان کے حافظہ کی پختگی کا اندازہ ہوتا ہے. ان حضرات کا کہنا ہے کہ اس کتاب میں بعد میں بھی مولانا نے کوئی اضافہ اور ترمیم نہیں کی. بلکہ یہ کتاب جوں کی توں مولانا کی زبانی تقریر پر مشتمل ہے. مولانا آزاد نے اس نوع کی جگہ جگہ تقریریں کیں اور لوگوں کو تعجب ہوتا تھا کہ مولانا کا دماغ تو پورا ایک کتب خانہ معلوم ہوتا ہے. چونکہ شاید ہی مولانا کی کوئی تقریر ایسی ہوتی ہو جس میں مولانا سلف کی کسی نہ کسی معروف علمی شخصیت کی تحریروں کا باقاعدہ حوالہ نہ دیتے ہوں. یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ مولا نا کا حافظہ اور ان کا مطالعہ کس قدر مضبوط اور وسیع تھا.