یہ بات کون نہیں جانتا کہ مولانا آزاد کو تحریک سے اختلاف تھا‘ لیکن میں اپنی ذاتی اور عینی شہادت کی بنا پر کہتا ہوں کہ ملک کی تقسیم اور آزادی کے بعد اکتوبر ۱۹۴۷ء میں مولانا آزاد نے لنچ کے لیے چند سربرآوردہ مسلمان رہنماؤں کو مدعو کیا. میں تو ان سب سے چھوٹا تھا‘ اور ان حضراتِ کرام کے ساتھ نتھی ہوتا تھا. ان حضرات میں قابل ذکر حضرات ڈاکٹر ذاکر حسین خان صاحب‘ مولانا حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی‘ مولانا مفتی عتیق الرحمن صاحب‘ مولانا حفظ الرحمن صاحب سیوہاروی ہیں. اور بھی چند اکابر اس لنچ میں شریک ہوئے‘ جن کے نام اس وقت ذہن میں مستحضر نہیں ہیں. بہر حال میں بھی مدعو وین میں شامل تھا. لنچ سے فارغ ہونے کے بعد مولانا آزاد نے فرمایا کہ میں نے آپ حضرات کو اس لیے بلایا ہے کہ میں آپ حضرات سے چندخاص باتیں کرناچاہتا ہوں. سب نے کہا ضرور ارشاد فرمائیے. مولانا نے فرمایا:
’’پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارا نظریہ پاکستان سے اختلاف تھا‘ وہ اپنی جگہ تھا‘ اس کے لیے ہمارے پاس ٹھوس وجوہ اور قوی دلائل تھے. لیکن اب جب کہ ملک تقسیم ہوگیا ہے اور پاکستان وجود میں آگیا ہے تو ہم کو پاکستان کے کسی لیڈر یا کسی شخص کے متعلق اپنے دل میں کوئی رنجش اور کدورت نہیں رکھنی چاہیے. میرے بھائی! وقت کی ایک سیاست تھی. جس سیاست کو کامیاب ہونا تھا وہ ہوگئی.‘‘

اس کے بعد پھر فرمایا:
’’دوسری بات یہ کہ اب پاکستان کے لیے کسی طرح کی بدخواہی کرنا یا اس کے لیے کسی طرح کی بداندیشی کرنا نہ صرف ہمارے ملک ہندوستان کے لیے مضر ہے بلکہ خاص طور پر ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کے لیے بھی انتہائی مضر‘ مہلک اور خطرناک ہے. اس واسطے کہ اگر پاکستان بھی ختم ہوگیا یا پاکستان پر کوئی زوال آیا تو پھر ہندوستان کے مسلمان منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہیں گے اور پھرا س پر مستزادیہ کہ برصغیر میں مسلمانوں کا مستقبل انتہائی تاریک ہوجائے گا. ان کے لیے یہاں کوئی گنجائش نہیں ہوگی. مولانا نے صاف لفظوں میں کہا کہ اب پاکستان کے ساتھ ہمارا بالکل دوسرا رویہ ہونا چاہیے اور ہم سب کو دعا کرنی چاہیے اور تمنا کرنی چاہیے کہ پاکستان پھلے پھولے اور مستحکم ہو.
سیاسی اعتبار سے ہماری حکومت بھی کہتی ہے کہ ہندوستان اور پاکستان ایک 
region ایک ہی خطہ کے دو ملک ہیں ‘اس region کی سلامتی اور خوشحالی اسی پر موقوف ہے کہ دونوں ملک اچھے پڑوسیوں کی طرح مل جل کر رہیں‘ اور دونوں ملکوں میں خیر سگالی اور خیر اندیشی کے جذبات پروان چڑھیں.‘‘

بھارت کی حکومت کی طرف سے تو یہ ایک سیاسی بات بھی ہوسکتی تھی لیکن میں مولانا آزاد کے متعلق آپ کو بتاتا ہوں کہ وہ تنہائیوں میں ہم سے بڑے شدت اور خلوص کے ساتھ یہ کہا کرتے تھے کہ اب پاکستان سے کوئی اختلاف ہمیں نہیں ہونا چاہیے.