مولاناآزاد کے متعلق میں عینی شاہد اور ذاتی معلومات کی بنا پر آپ کو بتا تا ہوں کہ دو چیزیں ان کے اندر لاجواب تھیں:
پہلی یہ کہ اپنے مخالف کو کبھی برا بھلا کہنا وہ جانتے ہی نہیں تھے. مولانا کے متعلق لوگوں نے کیا کچھ نہیں کہا‘ ان کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا گیا‘ لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ایک مرتبہ بھی کبھی میں نے مولانا کی زبان سے قائد اعظم یا لیاقت علی خان یا مسلم لیگ کے کسی دوسرے لیڈریا خود مسلم لیگ کے متعلق بد گوئی سنی ہی نہیں. ان میں اس قدر وسعتِ ظرف تھی کہ کبھی کسی کی برائی نہیں کرتے تھے‘ کبھی غیبت نہیں کرتے تھے.
دوسری بات یہ کہ ان کے اندر خودداری نہایت اعلیٰ درجے کی تھی. اس کا ایک واقعہ میں آپ کو بتلائوں. قرآن مجید کے ترجمہ کی ’’ترجمان القرآن‘‘ کے نام سے جو پہلی جلد شائع ہوئی تھی تو اس کے کاتب تھے مولانا عبد القیوم. بعد میں وہ ہمارے رسالہ برہان سے وابستہ ہوگئے تھے. وہ کہتے ہیں کہ مولانا کا بالی گنج میں جو مکان تھا وہیں انہوں نے مولانا عبد القیوم کو کتابت کے دوران رہنے کے لیے بلا لیا تھا. جہاں وہ نو دس مہینے مقیم رہے. ان نو دس مہینوں کے قیام میں مولانا عبد القیوم جو مشاہدات بیان کرتے ہیں‘ وہ بڑے عجیب و غریب ہیں. وہ کہتے ہیں کہ مولانا کی بالی گنج میں جو دو منزلہ کوٹھی تھی‘ میں نے بھی اسے دیکھا ہے. تو جب مولانا پر افلاس اور فقر و فاقہ کا دور آیا تو مولانا آزاد نے اس کا اوپر کا حصہ کرائے پر دے دیا یا نیچے کا. یہ مجھے اس وقت یاد نہیں. بہر حال کوٹھی کا ایک حصہ کرائے پر دے دیا‘ اور ایک حصہ میں خود رہائش رکھی. مولانا عبد القیوم بتاتے تھے کہ ہم نے کئی بار دیکھا کہ دوپہر کو کھانے کا وقت ہوگیا اور مولانا کے گھر میں چولہا نہیں جلا. معلوم ہوا کہ مولاناکے گھر کھانا نہیں پکا. ایسے حالات میں مولانا اپنے ذاتی ملازم کو بلاتے اور خاموشی سے اسے چونی دیتے‘ اور اس سے بازار سے سالن روٹی منگاتے اور مولانا اور ان کی اہلیہ اسی میں گزارا کرلیتے. یہ وقت بھی مولانا پر گزرا ہے.
ایک دن پنڈت جواہر لال نہرو اور گاندھی جی مولانا آزاد کی کوٹھی پر ان سے ملنے کے لیے آئے تو مولانا آزاد اس وقت کھدر کا جو کرتہ پہنے ہوئے تھے وہ مونڈھے کے اوپر سے پھٹا ہوا تھا .تو اسی کرتے کو پہنے ہوئے مولانا ان حضرات سے ملے‘ مگر انہوں نے مونڈھے پر ایک چادر ڈال لی. ان حضرات نے مولانا سے کہا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آج کل آپ مالی مشکلات سے دوچار ہیں‘ اس ضمن میں ہم آپ کے ساتھ تعاون کرنا چاہتے ہیں. مولانا نے جواب دیا کہ مجھے کسی تعاون کی ضرورت نہیں ہے اور ان حضرات کے اصرار کے باوجود مولانا نے کوئی امداد قبول نہیں کی
مولانا خیر الدین مرحوم‘ جو مولانا آزاد کے والد ماجد تھے‘ کلکتہ میں میمن اور دہلی اور یوپی کے تاجر حضرات‘ جو کلکتہ میں تجارت کرتے تھے‘ ان کی بہت بڑی تعداد ان کی مرید تھی. مولانا آزاد کے والد کے انتقال کے بعد ان کے مختلف وفود نے مولانا آزادسے اصرار کیا کہ آپ اپنے والد مرحوم کی گدی سنبھالیے ہم آپ کی وہی تعظیم و تکریم اور خدمت کریں گے جو آپ کے والد بزر گوار کی کیاکرتے تھے. مولانا آزاد نے صاف کہہ دیا کہ وہ راہ میرے والد کی راہ تھی‘ میں اس راہ کا آدمی نہیں ہوں. میں اس نوع کا کوئی تعلق رکھنا نہیں چاہتا. انہوں نے کہا کہ ہم تو آپ کی خدمت میں وعظ و نصیحت کے کچھ کلمات سننے کے لیے آنا چاہتے ہیں. تو مولانا نے کہا کہ اس مقصد کے لیے میں ہفتہ میں دو دن پیر اور جمعرات آپ کو دیتا ہوں. عصر سے لےکر مغرب تک آپ لوگ تشریف لا سکتے ہیں مگر ساتھ ہی تاکید کی کہ میں کسی قسم کا کوئی نذرانہ‘ کسی قسم کا کوئی عطیہ آپ حضرات سے قبول نہیں کروںگا.
الغرض ان کی بے نیازی اور ان کی خودداری کا یہ عالم تھا کہ خود تکلیف اٹھاتے تھے لیکن کسی سے نذرانہ یا عطیہ قبول نہیں کرتے تھے‘ یہ ان کا مستقل مزاج تھا