پھر ان کے اخلاق کا یہ عالم تھا کہ میں بارہ چودہ سال تک بارہا ان کی نجی صحبتوں میں شریک رہا ہوں لیکن میں نے کبھی کسی کے متعلق ان کی زبان سے کوئی برا کلمہ یا شکوہ و شکایت کا جملہ نہیں سُنا. آپ میں سے اکثر حضرات نے وہ واقعہ سنا ہوگا کہ جب تحریکِ پاکستان کا بہت زور تھا اور یہ تحریک اپنے شباب پر تھی تواس زمانے میں مولانا ابوالکلام آزاد دہلی سے الٰہ آباد جارہے تھے‘ جب ان کی گاڑی علی گڑھ کے اسٹیشن پر پہنچی تو علی گڑھ یونیورسٹی کے چند طلبہ نے مولانا کے ساتھ گستاخی کا معاملہ کیا‘ اور مولانا کے ساتھ نہایت نازیبا حرکات کیں. پنڈت سندرلال کا بیان ہے کہ ہم نے جب دوسرے دن اخبارات میں پڑھا کہ علی گڑھ اسٹیشن پر مولانا آزاد کے اوپر رکیک حملہ ہوا‘ اور ان کے ساتھ اہانت آمیز حرکات کی گئی ہیں تو میں فوراً الٰہ آباد پہنچا تاکہ میں مولانا سے اس واقعے پر اظہارِ افسوس کروں‘ اور ان کی دلجوئی کروں. پنڈت جی کا بیان ہے کہ میں نے جاتے ہی کہا مولانا! بڑے افسوس کی بات ہے کہ علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ نے آپ کے ساتھ یہ حرکت کی. مولانا بجائے غصہ کے کچھ مسکرائے اور اسی حالت میں کہا کہ پنڈت جی کیا کیا جائے. اپنی ہی اولاد ہے‘ اپنے ہی بچے ہیں. شرارت بچے کیا ہی کرتے ہیں‘ ہوگئی شرارت. اب اس پر افسوس سے کیا حاصل‘ ہم کو کام تو ان ہی سے لینا ہے. الغرض مولانا نے اس پر اپنے کسی غم و غصہ کا کوئی اظہار نہیں کیا‘ کوئی ناگواری ان کے اوپر طاری نہیں تھی.اور وہ اس افسوس ناک واقعے کو بھی پی گئے اور ٹال گئے.

تو یہ تھے مولانا ابوالکلام آزاد اپنے کیریکٹر کے اعتبارسے اور اپنے اخلاق کے اعتبار سے.