اب تک جو کچھ عرض کیا گیا وہ پچھلے دو جمعوں کی تقاریر کا خلاصہ بھی ہے اور آج کی گفتگو کے لیے بمنزلۂ تمہید بھی. ایک عرصے سے میرے ذہن میں ایک بڑا سوال بلکہ اشکال رہا ہے. میں نے جس قدر قرآن کو پڑھا اور اپنی استعداد کے مطابق اس پر غور و فکر کیا‘پھر سیرتِ مطہرہ کا معروضی مطالعہ کیا‘ رسول اللہﷺ کی حیاتِ طیبہ جن جن مراحل اور اَدوار سے گزری ہے ان پر آپﷺ کے منہجِ عمل اور انقلابی لائحہ عمل کو سمجھنے کے لیے سوچ بچار کیا تو اس نتیجہ تک پہنچا کہ قرآن مجید کو مرکز و محور بنا کر ایک دعوت کا آغاز کیا جائے اور ایک خالص اسلامی انقلابی تحریک بپا کرنے کی سعی و جہد کی جائے. مجھے کچھ بزرگ ہستیوں کے افکار میں اس کی بھرپور تائید بھی ملی.میرے نزدیک چودہویں صدی ہجری میں دو عظیم ترین شخصیتیں گزری ہیں‘ نہ صرف برعظیم پاک و ہند کی حد تک بلکہ میرے اندازے کے مطابق پورے عالمِ اسلامی کی حد تک. ان میں سے ایک علامہ اقبال ہیں جو سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ لوگوں میں سے تھے اور انہوں نے قدیم وجدید مکاتیبِ فکر کا معروضی مطالعہ کیا. چنانچہ انہوں نے کہا ہے : ؎
عذابِ دانش حاضر سے باخبر ہوں میں
کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل خلیل
اور دوسری شخصیت حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ علیہ ہیں‘ جو دارالعلوموں کی فضا سے نکلے تھے اور علمائے حقانی کے صحبت یافتہ اور فیض یافتہ تھے. یہ ہیں میرے نزدیک دو عظیم ترین شخصیتیں. ان میں سے حضرت شیخ الہندؒ ‘ کو میں چودہویں صدی کا مجدد مانتا ہوں. قرآن کی بنیاد پر اسلامی انقلابی تحریک برپا کرنے کی کوشش میں مجھے ان دونوںکی طرف سے تائید ملی. علامہ اقبال کے اشعار میں مسلمانوں کو رجوع الی القرآن کا بھرپور سبق دیا گیا ہے. مثلاً : ؎
گر تو می خواہی مسلماں زیستن نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن
معلوم ہوا کہ ہمارے سامنے تجدید و احیائے دین کا راستہ ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم قرآن حکیم کی طرف رجوع کریں. چنانچہ علامہ نے کتنے پرتأثیر اسلوب سے کہا ہے: ؎
خوار از مہجوریٔ قرآں شدی شکوہ سنج گردشِ دوراں شدی
اے چوں شبنم بر زمیں افتندۂ در بغل داری کتابِ زندئہ
اُمت مسلمہ کے زوال کا سبب قرآن سے دوری و مہجوری ہے اور اس کا علاج یہی ہے کہ مسلمان اس کتابِ زندہ پر عمل پیرا ہو جو وہ بغل میں دبائے بیٹھا ہے یا اسے پیٹھ پیچھے ڈال رکھا ہے. (۱) یہی عصائے موسیٰ ؑ ہے جو ہمارے پاس ہے‘ بلکہ میں بلا ارادۂ تنقیص عرض کر رہا ہوں کہ عصائے موسوی ؑ کی توقرآن کے مقابلے میں کوئی حیثیت ہی نہیں ہے. اس لیے کہ عصائے موسٰی ؑ کی معجز نمائی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہی رخصت ہوئی‘جب کہ نبی اکرمﷺ کا لایا ہوا معجزہ قرآن مجید آج بھی زندہ ہے اور تاقیامِ قیامت زندہ و پائندہ رہے گا. اس کا یہ چیلنج جو چودہ صدی قبل دیا گیا تھا‘ قیامِ قیامت تک باقی رہے گا :
وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ… (البقرۃ:۲۳)
’’اور اگر تم اس چیز کے بارے میں کسی شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے تو اس کے مانند ایک سورت ہی لے آؤ…‘‘
علامہ اقبال کی ولولہ انگیز ملی شاعری سے تو میں زمانۂ طالب علمی ہی سے روشناس ہوگیاتھا. لیکن حضرت شیخ الہندؒ کے متعلق مجھے بہت بعد میں معلوم ہوا کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد جب وہ ۱۹۲۰ء میں اسارتِ مالٹا سے رہائی پا کر وطن واپس آئے تو رجوع الی القرآن کی دعوت کو اپنا مقصدِ حیات بنانے کے عزم کا اظہار فرمایا. انگریزوں نے حضرت کو اُس وقت چھوڑا تھا جب وہ ٹی بی کی تھرڈ اسٹیج کو پہنچ چکے تھے‘ ورنہ وہ اس مردِ حق پرست کو کب چھوڑنے والا تھا! حضرت شیخ الہند نے دارالعلوم دیوبند میں ایک عظیم بات ارشاد فرمائی ‘ جسے مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’وحدتِ اُمت‘‘ میں یوں نقل فرمایا ہے:
’’مالٹا کی قید سے واپس آنے کے بعد ایک رات بعد عشاء دارالعلوم میں تشریف فرماتھے. علماء کا بڑا مجمع سامنے تھا‘ اُس وقت فرمایا کہ ’’ہم نے تو مالٹا کی زندگی میں دو سبق سیکھے ہیں‘‘. یہ الفاظ سن کر سارا مجمع ہمہ تن گوش ہو گیا کہ اس استاذ العلماء درویش نے اسّی سال علماء کودرس دینے کے بعد آخر میں جو سبق سیکھے ہیں وہ کیا ہیں؟ (حضرت شیخ الہندؒ نے) فرمایا:
’’میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دُنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہو رہے ہیں تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے. ایک ان کا قرآن کو چھوڑ دینا‘ دوسرے ان کے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی. اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کر وں کہ (۱) محترم ڈاکٹر صاحب کی مشہور تالیف ’’علامہ اقبال اور ہم‘‘ میں ایک مستقل باب ’’اقبال اور قرآن‘‘ کے عنوان سے شامل ہے جس میں علامہ نے قرآن حکیم کے بارے میں جن جذبات و احساسات کا اظہار کیا ہے اس سے متعلق اکثر اردو اور فارسی کے اشعار شامل ہیں. قرآن کریم کو لفظاً اور معناً عام کیا جائے. بچوں کے لیے لفظی تعلیم کے مکاتب ہر بستی بستی میں قائم کیے جائیں‘ بڑوں کو عوامی درسِ قرآن کی صورت میں اس کے معانی سے روشناس کرایا جائے اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لیے آمادہ کیا جائے اور مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے.‘‘
میں حیران ہوتا ہوں کہ حضرت شیخ الہندؒ نے ۱۹۲۰ء میں یہ لفظ ’’عوامی‘‘ استعمال فرمایا جبکہ عوام و خواص میں سے کسی کی زبان پر یہ لفظ نہیں آیا تھا‘ جیسا کہ ’’عوامی‘‘ کا لفظ ہمارے دور میں عام ہو گیا ہے. یہ بھی ان کی دور بینی اور دور اندیشی کی دلیل ہے. نابغہ (Genius) اسی شخص کو کہتے ہیں جو بہت بعد کے حالات کو دیکھ رہا ہو.
مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ علیہ نے حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ علیہ کی اس با ت پر بڑا خوبصورت اور بڑا موزوں تبصرہ کیا ہے. وہ فرماتے ہیں:
’’آج بھی مسلمان جن بلائوں میں مبتلا اور جن حوادث و آفات سے دوچار ہیں‘ اگر بصیرت سے کام لیا جائے تو ان کے سب سے بڑے سبب یہی دو ثابت ہوں گے‘ قرآن کو چھوڑنا اور آپس میں لڑنا. غور کیا جائے تو یہ آپس کی لڑائی بھی قرآن کو چھوڑنے ہی کا لازمی نتیجہ ہے . قرآن پر کسی درجے میں بھی عمل ہوتا تو خانہ جنگی یہاں تک نہ پہنچتی‘‘.
حضرت شیخ الہندؒ اور مفتی محمد شفیع ؒ کے خیالات و آراء سے مجھے واقعتا بڑی تقویت ملی کہ میں نے اپنے غور و فکر اور سوچ بچار کے نتیجے میں دعوت رجوع الی القرآن کا جو کام شروع کر رکھا ہے اس کی تائید اِن دوحضرات کی آراء سے حاصل ہو گئی. فللّٰہ الحمد والمنّۃ.