ایک طرف تو صورتِ حال یہ تھی‘ دوسری طرف مجھے شروع ہی سے ایک دوسرے تجربے سے مسلسل سابقہ پیش آتا رہا. میں نے اس کام کا آغاز اسی شہر لاہور سے کیا تھا اور میں بحمداللہ اسی کام میں مسلسل لگا ہوا ہوں اور اپنی زندگی اسی کام کے لیے وقف کر رکھی ہے.تجربہ یہ ہوا کہ جیسے جیسے یہ کام اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے آگے بڑھنا شروع ہوا تو چند علماء کی طرف سے کچھ مخالفت بھی شروع ہو گئی. ان کی جانب سے کچھ اندیشوں‘ کچھ خطروں کا اظہار ہونے لگا کہ یہ دعوت ہے کیا؟ کہیں قرآن کا نام لے کر کوئی نیا فتنہ تو نہیں اٹھ رہا؟ میں حیران ہوتا تھا کہ اس کا سبب کیا ہے؟ پھر یہ کہ مخالفت صرف ایسے علماء کی طرف سے نہیں تھی کہ جن کے بارے میں لوگوں کی رائے اچھی نہ ہو‘ بلکہ وہ ثقہ علماء بھی جن کا میرے اپنے دل میں بڑا احترام ہے اور جن کے ساتھ میرا حسنِ عقیدت کا معاملہ ہے ‘ تشویش میں مبتلا نظر آئے. میں نے محسوس کیا کہ سب کے سب اس سے الرجک (allergic) ہیں اور قرآن کے نام کی دعوت سے بہت گھبراتے ہیں. انہیں کچھ اندیشہ ہوتا ہے کہ قرآن کے نام پر اٹھنے والی دعوت کے پس پردہ کہیں انکارِ سنت اور انکارِ حدیث کا معاملہ نہ ہو. چنانچہ اس طرح کا کچھ تجربہ مسلسل ہوا. 

یہ بات میرے لیے ایک پریشانی کا موجب تو رہی لیکن میں بحمد اللہ کام میں لگا رہا. اس لیے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے مزاج کچھ ایسا دیا ہے‘ اور بچپن ہی سے میرا طرزِ عمل یہ رہا ہے کہ جو بات حق معلوم ہو اُس پر ڈٹے رہو. میری عمر چوبیس برس کی تھی جب میں نے جماعت اسلامی کے سالانہ اجتماع منعقدہ ماچھی گوٹھ میں کھڑے ہو کر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم سے جماعت کے انقلابی طریقہ کار کوچھوڑ کر انتخابی طریق کار اختیار کرنے کی پالیسی سے ڈٹ کر اختلاف کیا تھا.مولانا مرحوم میرے والد کی عمر کے تھے‘ پھر میرے محسن بھی تھے کہ ان کی تصانیف کے مطالعہ سے مجھے دین کا صحیح مفہوم اور ایک مسلمان کی دینی ذمہ داریوں کا شعور حاصل ہوا تھا‘ جس پر محکم یقین مطالعۂ قرآن سے حاصل ہوا. لیکن اللہ تعالیٰ نے مزاج ایسا دیا ہے کہ جو بات سمجھ میں آتی ہے کہ درست ہے اس کا برملا اظہار کیا جائے. لہٰذا مولانا مودودی مرحوم کی انتخابی سیاست کے موقف پر میں نے جماعت اسلامی کا رکن رہتے ہوئے اپنا اختلافی موقف دلائل کے ساتھ تحریری شکل میں بھی پیش کیا اور ماچھی گوٹھ میں اسٹیج پر کھڑے ہو کر بھی. (۱اگر کوئی دلیل سے میری رائے اور میرے موقف کو غلط ثابت کر دے تب تو میں فوراً ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہوتا ہوں اور اپنی غلطی تسلیم کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتا‘ لیکن اگر کوئی اسے دلیل سے غلط ثابت نہیں کرتا تو مجھے اس کی قطعی پرواہ نہیں ہوتی کہ میری بات کی کون مخالفت کر رہا ہے.اللہ کا فضل ہے کہ اس نے مجھے یہ مزاج دیا ہے.

اس اعتبار سے میرا جو مزاج ہے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں مسلسل یہ سوچتا تو ضرور رہا کہ آخر علماء کرام کو یہ الرجی کیوں ہے‘ وہ کیوں بدظن ہیں؟ قرآن کی طرف دعوت پر کیوں ان کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ اندیشے اور خدشات محسوس کرنے لگتے ہیں؟ لیکن چونکہ کوئی ٹھوس بات سامنے نہیں آئی تو میں اپنی دھن میں لگا رہا اور میں نے اپنے کام میں قطعاً کوئی ڈھیل نہیں (۱) یہ بیان ’’تحریک جماعت اسلامی. ایک تحقیقی مطالعہ‘‘ کے نام سے مطبوعہ موجود ہے. آنے دی. لیکن کچھ عرصہ پہلے مجھے اس معمے کا حل مل گیا اور علمائِ کرام کے طرزِ عمل اور رویہ کا سبب میری سمجھ میں آ گیا. ہمارے علماء کی طرف سے‘ بالخصوص ان کی طرف سے جن کا ہمارے قدیم دینی حلقوں سے تعلق ہے‘ جن اندیشوں اور خدشات کا اظہار ہوتا ہے‘ اصل میں اس کا سبب ان کا ایک طویل تجربہ ہے. وہ تجربہ یہ ہے کہ ماضی بعید و قریب میں مسلمانوں میں جتنی بھی گمراہ تحریکیں اٹھیں وہ سب قرآن کا نام لے کر اٹھیں. مثلاً چکڑالویت اٹھی قرآن کے نام پر. اسی طرح پرویزیت اٹھی قرآن کے نام پر. اور تو اور قادیانیت بھی قرآن کے نام پر ہی اٹھی تھی. مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے کام کی ابتداء قرآن کی عظمت کے بیان سے کی تھی. ان گمراہ تحریکوں کی تکنیک اور طریق کار (methodology) مَیں آگے چل کر قدرے تفصیل سے ذکر کروں گا. 

ان سب سے پہلے سرسید احمد خان نے قرآن کے نام پر بہت سی گمراہیوں کا آغاز کیا. تو معلوم ہوا کہ جسدِ ملّی پرپے بہ پے اتنے چرکے لگے ہیں اور علماء کو اُن تحریکات سے ایسے غلط تجربات ہوئے ہیں کہ وہ اس معاملے میں بہت حساس ہو گئے ہیں. جیسے ہمارے یہاں کہاوت ہے کہ ’’دودھ کا جلا چھاچھ کو بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے‘‘. یا ایک دوسری کہاوت ہے کہ ’’سانپ کا ڈسا ہوا رسّی سے بھی ڈرتا ہے‘‘. چنانچہ ہمارے دینی حلقوں کو قرآن کے نام پراٹھنے والی کسی بھی دعوت اور تحریک کے بارے میں فوراً ایک خطرہ‘ ایک اندیشہ اور ایک سوءِ ظن لاحق ہو جاتا ہے اور ان کی جانب سے خدشات کا برملا اظہار ہونے لگتا ہے جو مخالفت کا رنگ اختیار کر لیتا ہے.

علمائے کرام کے بارے میں مَیں یہ بات صاف صاف عرض کرتا ہوں کہ ان حضرات کا احترام ملحوظ رکھنے اور ان سے حسنِ عقیدت رکھنے کے باوصف میں ان کے بارے میں کسی غلو اور افراط و تفریط میں مبتلا نہیں ہوں. ہمارے یہاں جو علماء پائے جاتے ہیں ان میں علمائے حق بھی ہیں اور علمائے سوء بھی. علمائے سوء سے کوئی زمانہ کبھی خالی نہیں رہا. علمائے سوء اُس زمانے میں بھی سرکار دربار سے بھی متعلق رہے اور عوام الناس سے بھی جو زمانہ کئی اعتبارات سے ہمارے دور سے کہیں بہتر تھا. دنیا داری اور اصحابِ اختیار و اقتدار کی خوشنودی کے حصول کا معاملہ بہرحال ہر دور میں رہا ہے. امامِ دار الہجرت امام مالکؒ کی جب مشکیں کَس کر ‘ منہ پر سیاہی مَل کر گدھے پر سوار کر کے مدینہ کی گلیوں میں گھمایا گیا تھا‘ جب امام اعظم امام ابوحنیفہؒ ‘کو جیل میں ڈالا گیا تھا‘ جب امام شافعیؒکے لیے بار بار شہربدر ہونے کے احکام جاری ہوتے رہتے تھے‘ 
جب امام احمد بن حنبلؒ ‘کوقید و بند کی صعوبتیں جھیلنی پڑیں اور وہ مار سہنی پڑی کہ اگر ہاتھی کو بھی اس طرح مارا جائے تو وہ بلبلا اٹھے‘ جب امام ابن تیمیہؒ ‘کو جیل میں ڈالا گیا اور وہیں انہوں نے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کی‘ جب مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ کو قید کیا گیا‘ اور جب چند خوانین سرحد نے بیعت قبول کرنے کے باوصف بھی سید احمد بریلویؒ سے غداری کی تو کیا آپ کے خیال میں ان تمام افعال کی پشت پر علمائے سوء کے فتاویٰ موجود نہیں تھے جو وقت کے صاحبانِ اقتدار و اختیار کی خوشنودی کے لیے دیے گئے تھے؟ دنیا دار اور فتویٰ فروش علمائے سوء ہر دَور میں موجود رہے ہیں. ہمارا زمانہ تو ظاہر بات ہے کہ فتنہ کے اعتبار سے اپنی انتہا کو پہنچا ہوا ہے. علماِء سو کے بارے میں نبی اکرم نے اُمت کو پیشگی متنبہ فرما دیا تھا. حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: 

یُوْشِکُ اَنْ یَّـاْتِیَ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلاَّ اسْمُہٗ ‘ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْآنِ اِلاَّ رَسْمُہٗ‘ مَسَاجِدُھُمْ عَامِرَۃٌ وَھِیَ خَرَابٌ مِنَ الْھُدٰی‘ عُلَمَاؤُھُمْ شَرٌّ مَنْ تَحْتَ اَدِیْمِ السَّمَائِ ‘ مِنْ عِنْدِھِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَۃُ وَفِیْھِمْ تَعُوْدُ
(۱

’’اندیشہ ہے کہ لوگوں کو ایک ایسے زمانے سے سابقہ پیش آئے گا کہ اسلام میں سے سوائے اس کے نام کے کچھ نہ بچے گا (اسلام پر عمل ختم ہو جائے گا ‘ صرف اس کا نام باقی رہ جائے گا) اور قرآن میں سے سوائے اس کے رسم الخط کے کچھ نہ بچے گا (قرآن پر عمل ترک ہو جائے گا اور اس کے الفاظ کی محض تلاوت باقی رہ جائے گی). مسلمانوں کی مسجدیں بظاہر آباد ہوں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوجائیں گی. ان کے علماء آسمان کی چھت کے نیچے کے بدترین انسان ہوں گے. سارے فتنے ان ہی میں سے برآمد ہوں گے اور ان ہی میں لوٹ جائیں گے.‘‘

نبی اکرم نے جہاں یہ انتباہ فرمایا وہاں یہ بشارت بھی دی کہ علمائے حقانی سے کوئی زمانہ خالی نہیں رہے گا. یہ ضمانت دی ہے محمدٌ رسول اللہ نے کہ : 
لَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِّنْ اُمَّتِیْ ظَاھِرِیْنَ عَلَی الْحَقِّ (۲’’میری اُمت میں ہمیشہ ایک گروہ حق پر ثابت قدم رہے (۱) رواہ البیھقی فی شعب الایمان. بحوالہ مشکاۃ المصابیح‘ کتاب العلم‘ الفصل الثالث.
(۲) صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب قولہ لا تزال طائفۃ من امتی ظاھرین علی الحق...... 
گا‘‘. ظاہر بات ہے کہ علمائے حق کے بغیر دین کا کوئی تصور ہی نہیں‘ لہٰذا ہر دَور‘ ہر زمان‘ ہر مکان میں علمائے حقانی بھی لازماً موجود رہیں گے. پس یہ دونوں چیزیں اپنی جگہ پر ہیں . جہاں تک علمائے سوء کا معاملہ ہے‘ ان کی باتوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے‘ لیکن اگر علمائے حق کی طرف سے تشویش کا اظہار ہو‘ اگر انہیں بھی خطرات و خدشات اور اندیشے محسوس ہوں تو یقینا قابل غور مسئلہ ہے. ان علماءِ حق کی تشویش اگر وہ شخص نظر انداز کر دے گا جو خادمِ دین‘ خادمِ قرآن اور خادمِ ملت ہو تو وہ اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارے گا‘ کسی اور کا نقصان نہیں کرے گا. اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ اپنے دس بیس یا سو پچاس ہم خیال پیدا کر کے دنیا سے چلا جائے تو یہ ہر وہ شخص کر سکتا ہے جس میں ذرا سی ذہانت اور صلاحیت ہو. کچھ نہ کچھ لوگ اسے لازماً مل جائیں گے جو اُس کے حواری بن جائیں گے. لیکن اگر کسی شخص کے پیش نظر یہ ہے کہ دین کی ایک ہمہ گیر دعوت اٹھا کر اقامت دین اور اسلامی انقلاب کے لیے جدوجہد کرے تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ کوئی کودن اور احمق شخص ہی ہو گا جو یہ سمجھتا اور توقع رکھتا ہو کہ علمائے حق کی اشیر باد کے بغیر‘ علمائے حقانی کی تائیدو تعاون کے بغیر اور اصحابِ علم و فضل کی دعاؤں کے بغیر کوئی ایسی تحریک پروان چڑھ سکے گی اور نتیجہ خیز ہو سکے گی. ایسی دعوت و تحریک کے داعی کے لیے‘اگر وہ مخلص ہے ‘ ان علمائے حقانی کا اعتماد حاصل کرنالازم ہے. میں اس مسئلہ پر مسلسل غور کرتا رہا کہ آخر کیا بات ہے کہ جن حضراتِ گرامی کو میں علمائے حق گردانتا ہوں‘ جن سے حسنِ عقیدت رکھتا ہوں مجھے ان کا تعاون حاصل نہیں ہو رہا. بلکہ کبھی دبی دبی زبان سے اور کبھی برملا ان کی طرف سے اختلاف کا اظہار ہو رہا ہے. بالآخر اللہ تعالیٰ نے میری رہنمائی فرمائی اور یہ عقدہ کھل گیا کہ ان علمائے حقانی کے خدشات کا سبب وہ گمراہ کن نظریات اور تحریکیں ہیں جو اِس برعظیم پاک و ہند میں قریباً ایک صدی کے دوران وقتاً فوقتاً قرآن کے نام پر اٹھتی رہی ہیں. میں ان کی طرف ابتدا میں اشارہ کر چکا ہوں‘ اب میں قدرے تفصیل سے ان کے متعلق کچھ باتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.

۱۸۵۷ء کے بعد جب مسلمانوں کی نام نہاد حکومت بالکل ختم ہو گئی اور برعظیم پاک و ہند پر سیاسی اعتبار سے حکومت برطانیہ کا تسلط و استیلاء کامل طور پر ہو گیا تو غلامی کا ایک نیا دَور شروع ہوا.۱۹۴۷ء تک یہ نوے سال کا دَور ہے. اس دَور میں قرآن کے حوالے سے جو سب سے پہلی زوردار آواز اٹھی وہ سرسید احمد خان کی ہے. انہوں نے پندرہ پاروں کی تفسیر بھی لکھی. 
انہوں نے قرآن کی تفسیر میں طرح طرح کے فتنے اٹھا دیے.مثلاً جنات کا انکار‘ فرشتوں کا انکار‘ وحی کا قریباً انکار. انہوں نے ان سب کی ایسی توجیہہ و تأویل کی جو سراسر قرآن کے خلاف تھی‘ ظاہر بات ہے کہ کھلم کھلا انکار تو کوئی نہیں کر سکتا تھا. انہوں نے جنات کا برملا انکار نہیں کیا‘ لیکن یہ کہا کہ قرآن نے مشتعل مزاج اور اُجڈ قسم کے لوگوں کو ’’جن‘‘ سے تعبیر کیا ہے‘ وہ کوئی علیحدہ مخلوق نہیں ہے. فرشتوں کا بھی برملا انکار تو نہیں کیا ‘ لیکن کہا کہ قوانینِ فطرت میں جو قوتیں (Forces of the Nature) کارفرما ہیں ان کو فرشتے کہا گیا ہے‘ ان کا کوئی علیحدہ وجود نہیں‘ وہ کوئی علیحدہ مخلوق نہیں . معجزات کی یہ تاویل کی گئی کہ یہ طبیعیات کے عجیب و غریب اور غیر معمولی مظاہر (Physical Phenomena) تھے‘ ان کو خواہ مخواہ معجزات سمجھ لیاگیا ہے. مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو لے کر سمندر سے نکل گئے اور فرعون کا لشکر غرق ہو گیا تو یہ مدّ و جزر کا کرشمہ تھا. حضرت موسیٰ علیہ السلام جزر کی کیفیت میں بنی اسرائیل کے ساتھ سمندر عبور کر گئے‘ لیکن جب فرعون اپنے لشکر کو لے کر سمندر میں اترا تو سمندر مدّ پر آ گیا اور آلِ فرعون اس کی لہروں کی نذر ہو گئے. گویا اپنے دَور کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ مصری قوم مدّ و جزر سے ناواقف تھی. سرسید احمد خان نے ایسی گمراہ کن تأویلات کی ہیں ‘اگرچہ کھلم کھلا انکار کسی چیز کا نہیں کیا. ان کی پیدا کردہ گمراہیوں کی فہرست بڑی طویل ہے. میں نے اس موضوع پر ایک طویل مضمون لکھا تھا جو میری کتاب ’’اسلام اور پاکستان‘‘ میں شامل ہے. ڈاکٹر فضل الرحمن نے اپنی کتاب ’’اسلام‘‘ میں وحی کے بارے میں یہ گمراہ کن خیال ظاہر کیا تھا کہ قرآن سارے کا سارا بیک وقت خدا کا کلام بھی ہے اور کلامِ رسولؐ ‘بھی‘ وحی ایک چشمہ کے مانند قلب محمدیؐ میں پھوٹی تھی. متذکرہ بالا مضمون میں مَیں نے لکھا تھا کہ اس گمراہی کا آغاز کرنے والے تو سرسید احمد خان ہیں‘ یہ گمراہی تو نمعلوم کتنی جگہ انڈے بچے دے چکی ہے. چنانچہ سرسید اس کے قائل نہیں تھے کہ جبریل امین علیہ السلام وحی لے کر نازل ہوتے تھے. اس طرح تو فرشتوں کا تشخص تسلیم کرنا پڑتا ‘جس کے وہ انکاری تھے. ان کا شعر ہے : ؎

ز جبریل امیں قرآں بہ پیغامے نمی خواہم
ہمہ گفتارِ معشوق است قرآنے کہ من دارم

’’جو قرآن جبریل امین لے کر آئے مجھے وہ نہیں چاہیے. میرے پاس جو قرآن ہے وہ تو سارے کا سارا میرے محبوب (محمد مصطفی ) کی گفتگوہے.‘‘

تفسیر قرآن میں ان گمراہ کن تأویلات کے باوجود ایک اچھی بات سرسید احمد خاں کے 
حق میں جاتی ہے کہ نہ تو انہوں نے کوئی دینی جماعت بنائی اور نہ ہی کسی دینی فرقے کا آغاز کیا. وہ اصل میں ایک سماجی مصلح (social reformer) اور مسلمانوں کے ایک قومی لیڈر کی حیثیت سے معروف ہوئے. چونکہ ان کا دینی معاملہ صرف نظریات کی حد تک رہا اور انہوں نے ان کی بنیاد پر کوئی تنظیم یاجماعت نہیں بنائی‘ لہٰذا انہوں نے ایک اجتماعی فتنے کی شکل اختیار نہیں کی. یہی وجہ ہے کہ علمائے کرام نے ا ن کا زیادہ نوٹس نہیں لیا. پھر مسلمانانِ ہند پر دوسرے اعتبارات سے ان کے احسانات بھی ہیں‘ لہٰذا ان کے معاملہ میں کسی حد تک نرمی کامعاملہ کیا جاتا رہا.

لیکن اس کے پہلو بہ پہلو برعظیم پاک و ہند میں جو ایک بڑا فتنہ اٹھا اس کا بانی تھا مرزا غلام احمد قادیانی آنجہانی.اس نے اپنی تحریک کا آغاز کیا تو قرآن کے نام پر بات شروع کی . اُس کے ابتدائی دَور کے دو شعر ملاحظہ کیجیے‘ جن سے معلوم ہوگا کہ شروع شروع میں اس نے اپنا اعتمادپیدا کر نے کے لیے کس طرح خدمت ِقرآن کا لبادہ اوڑھا. اس کا ایک شعر ہے: ؎

جمال و حسن قرآں نورِ جانِ ہر مسلماں ہے
قمرہے چاند اوروںکا ‘ ہمارا چاند قرآں ہے!

دوسرا شعر ہے : ؎

اے بے خبر بخدمت قرآں کمر بہ بند
زاں پیشتر کہ بانگ بر آید فلاں نماند
(۱
’’اے بے خبر مسلمان! قرآن کی خدمت کے لیے کمر کس کر تیار ہو جائو‘ اس سے پہلے کہ آواز لگائی جائے کہ فلاں شخص اس دنیا سے رخصت ہو گیا. (یعنی موت سے پہلے پہلے جو فرصت میسر ہے اسے قرآن کی خدمت کے لیے لگاؤ)‘‘. اس سے اندازہ کیجیے کہ ا س کی تکنیک کیا تھی. پھر اس نے آریہ سماجیوں اور عیسائی مشنریوں سے بڑے کامیاب مناظرے کیے. ان سب کا ذکر آپ کو اس کے ابتدائی لٹریچر میں مل جائے گا. لیکن اس شخص نے اپنا اعتماد پیدا کرنے کے بعد وہ گمراہی پھیلائی جو سرطان کی طرح جسدِ ملّی سے چمٹ گئی. جب لوگوں کا کثیر تعداد میں اس کی طرف رجوع ہوا اور عقیدت مندوں کی ایک معتدبہ تعداد اس کے گرد جمع ہو گئی تو اس کے دماغ کے اصل خنّاس نے ظہور شروع کیا. چنانچہ شیطان نے اس کی پیٹھ ٹھونکی اور سبز باغ دکھانے شروع کیے تو اس نے پے در پے دعووں کا آغاز کر دیا. کہیں مجدّد ہونے کا دعویٰ کیا تو کہیں مسیح موعود ہونے کا. پھر اس سے 
(۱) دوسرا مصرعہ دراصل شیخ سعدیؒ کا ہے.

آگے بڑھ کر ظلی اور بروزی نبی ہونے کا دعویٰ کیا اور بالآخر صاحبِ وحی نبی ہونے کا دعویٰ کربیٹھا. بعض علمائے کرام اور اہل قلم نے اس کے لٹریچر سے اس کی گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والی تصویر پیش کی ہے. اس کی تحریروں کو پڑھ کر انسان حیران ہوتا ہے کہ ایسا شخص تو صحیح العقل انسان بھی تسلیم نہیں کیا جاسکتا ‘کجا یہ کہ اسے نبی مان لیا جائے. مزید حیرانی اس پر ہوتی ہے کہ بڑے بڑے پڑھے لکھے لوگ اس کے پیچھے لگ گئے اور اس پر بحیثیت ِنبی ایمان لے آئے. ان میں سے کوئی انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کا جج رہا ہے اور کوئی نوبل پرائز یافتہ ہے. اس کی بڑی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ چونکہ مرزا غلام احمد کو انگریزی سرکار کی سرپرستی حاصل ہو گئی تھی لہٰذااس کے متبعین کو حکومت کی طرف سے بڑی مراعات ملیں‘ ان کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے مواقع حاصل ہوئے اور وہ سرکاری ملازمتوں اور منصبوں پر فائز ہوتے رہے. اس طرح مرزا غلام احمد قادیانی پر ایمان لانا دُنیوی ترقی اور انگریزی دورِ حکومت میں اثر و رسوخ نیز اعلیٰ ملازمتوں کے حصول کا زینہ بن گیا. بہرحال دعوتِ قرآن کا نام لے کر اٹھنے والا یہ دوسرا فتنہ تھا جس سے مسلمانوں کو بہت بڑا چرکہ لگا.

پھر ہمارے دَور میں غلام احمد پرویز نے جو گمراہی پھیلائی اور جو مسلسل پھیل رہی ہے وہ تو بالکل سامنے کی بات ہے. چکڑالویت‘ پرویزیت اور دوسرے منکرین سنت کے جو مختلف 
shades ہیں‘ ان کا تو سارے کا سارا اوڑھنا بچھونا قرآن کا نام ہے. ’’قرآنی نظامِ ربوبیت‘‘ کے عنوان سے وہ نظریۂ اشتراکیت اور الحاد کے علمبردار ہیں. ان کے نزدیک نبی اکرم صرف اپنے دَور کی حد تک واجب الاطاعت تھے (معاذ اللہ!) اور وہ بھی ’’مرکزِ ملت‘‘ کی حیثیت سے نہ کہ رسول کی حیثیت سے. رسول کی حیثیت سے تو بس ان کا کام قرآن کو پہنچانا اور حالات و ظروف کے مطابق اس کی عملی تعبیر (interpretation) کرنا تھا. نبی اکرم نے دنیا کو شریعت کا جو نظام دیا تھا‘ جس کا کامل ظہور خلافت راشدہ کے دورِ سعید میں ہوا‘ ان منکرین حدیث و سنت کے نزدیک وہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا. ان کا موقف یہ ہے کہ اپنے دور کا ’’مرکز ملت‘‘ قرآن سے اصول لے کر شریعت کا نظام رائج کرنے کا مطلقاً مختار و مجاز ہے.

صلوٰۃ‘ زکوٰۃ ‘ صوم اور حج کو وہ مستقل ارکانِ اسلام تسلیم نہیں کرتے ‘بلکہ ان کی رائے میں احوال و ظروف کے مطابق ان میں تغیر و تبدل ہو سکتا ہے اور لازماً ہونا چاہیے. یہ گمراہ کن تحریک قرآن کے نام پر اٹھی اور اسی نام پر وہ ہمارے معاشرے میں گمراہی پھیلا رہی ہے. اس طرح ہمارے علمائے حق کو پے بہ پے یہ جو چرکے لگے ہیں اورتجربات ہوئے ہیں‘ ان کی وجہ سے وہ اس معاملے میں بہت ہی متردّد اور فکرمند ہو جاتے ہیں کہ کچھ لوگ قرآن کا نام لے کر آگے آ رہے ہیں. سورۃ البقرۃ کی آیت ۲۶ میں یہ الفاظ آئے ہیں: یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًالا وَّیَہْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًاط یعنی اس قرآن ہی کے ذریعے اللہ تعالیٰ بہت سوں کو گمراہ کرتا ہے اور اسی قرآن کے ذریعے بہت سوں کو ہدایت دیتا ہے. اصل میں فیصلہ کن چیز انسان کی اپنی باطنی کیفیت ہوتی ہے. اگر کسی شخص میں عجب ہے‘ تکبر ہے‘ استکبار ہے‘ شہرت ووجاہت طلبی ہے‘ کچھ بننے کی آرزو ہے‘ اپنی عقل و فہم پر اعتماد میں غلو ہے ‘ اپنی بڑائی اور انفرادیت کے اظہار کی خواہش اور شوق ہے‘ وہ کسی پندار اور گھمنڈ میں مبتلا ہے تو اس کا چاہے صبح و شام قرآن مجید سے کتنا ہی اعتناء اور تعلق ہو‘ ایسا شخص آج نہیں تو کل خود بھی فتنے میںمبتلا ہو گا اور بہتوں کو فتنے میں مبتلا کرنے کا باعث بن جائے گا. لیکن اگر اس کی طبیعت میں خلوص و اخلاص ہے‘ تواضع ہے‘ انکسار ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ میں قرآن کی جو خدمت کر رہا ہوں وہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی توفیق سے کر رہا ہوں‘ اس میں میرے کسی ذاتی کمال کو کوئی دخل نہیں ہے‘ تو اِن شاء اللہ العزیز قرآن مجید اس پر اپنی ہدایت روشن کرتا چلا جائے گا.