چوتھا نکتہ یہ ہے کہ اس دورِ فتن میں ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم:۴۱) کا نقشہ ہماری نگاہوں کے سامنے ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ خداناآشنا اور ملحدانہ نظریات و افکار‘ تہذیب و تمدن اور نظام ہائے زندگی کے باعث پوری دنیا میں فساد رونما ہو چکا ہے‘ انسانیت تیزی کے ساتھ ہلاکت خیزی کی طرف چلی جا رہی ہے. اُمت مسلمہ جو امر بالمعروف‘ نہی عن المنکر‘ دعوت الی اللہ اور دعوت الی الخیر کے لیے برپا کی گئی تھی وہ خود خوابِ غفلت میں پڑی ہوئی ہے. لہٰذا س دور میں کرنے کا اصل کام ہے نوعِ انسانی کو دعوتِ (۱) سنن الترمذی‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب ما جاء فی فضل القرآن.توحید و ایمان دینا اور توحید علمی و عملی کو بالفعل قائم کرنے کی جدوجہد کرنا. اسی کا نام تکبیر ربّ ہے‘ اسی کا نام اظہار دین الحق علی الدین کلہٖ ہے.
اب جو بھی دعوت اور تحریک اس مقصد کو لے کر اٹھے اس کے سربراہ اور رفقاء کو اپنے اوپر لازم کر لینا چاہیے کہ وہ علماءِ حق سے ربط و ضبط رکھیں گے‘ اپنے اوقات و مصروفیات میں سے وقت نکال کر ان کی خدمت میں حاضری دیں گے اور ان سے رہنمائی حاصل کریں گے. معلوم کریں گے کہ ان کے مغالطے کیا ہیں اور ان کے خدشات کی نوعیت کیا ہے! بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انہیں کوئی غلط بات پہنچا دی جاتی ہے‘ ہمارے موقف کے متعلق انہیں مغالطے دے دیے جاتے ہیں اور وہ اپنی نیک نیتی سے راویوں پر اعتماد کر کے ان غلط خبروں کو درست مان لیتے ہیں. اس لیے کہ جو شخص خود نیک نیت ہوتا ہے وہ دوسروں کے ساتھ بھی حسنِ ظن کا معاملہ کرتا ہے.
میں نے تنظیم اسلامی میں شمولیت کے لیے بیعت کا جو طریقہ اختیار کر رکھا ہے کچھ عرصہ قبل اس کے خلاف اخبارات میں تین علماء کا فتویٰ شائع ہوا تھا‘ جس میں بیعت کے طریقہ کار کو کسی دینی ہیئت ِ اجتماعی کی تشکیل کے لیے غلط قرار دیا گیا تھا. اس ضمن میں جب میں نے ایک عالمِ دین سے رجوع کیا‘ ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے بتایا کہ مجھے تو وہ بیان دکھایا ہی نہیں گیا‘ مجھے تو فلاں صاحب نے ٹیلی فون پر کچھ بتایا تھا‘ اس میں بیعت کا مسئلہ تھا ہی نہیں‘ انہوں نے مجھ سے پوچھا تھاکہ اس پر آپ کا نام بھی دے دیا جائے؟ انہوں نے جن صاحب کا نام لیا وہ بھی ایک بڑی مذہبی شخصیت ہیں ‘ لہٰذا انہوں نے نیک نیتی سے سمجھا کہ اتنی بڑی شخصیت جو بات بتا رہی ہے وہ صحیح ہو گی‘ اس لیے انہوں نے اپنے نام کی شمولیت کی منظوری دے دی. چنانچہ ان کی خدمت میں حاضری کا یہ فائدہ ہوا کہ پھر ان بزرگ نے اپنا تردیدی بیان اخبارات کو جاری کرایا کہ ’’میرے نزدیک دینی ہیئت ِ اجتماعیہ کے لیے بیعت کا طریق کار اختیار کرنے میں شرعی نقطۂ نظر سے قطعاً کوئی قباحت نہیں ہے‘‘. یہ بات ان بزرگ کی نیک نفسی اور خلوص کی دلیل ہے. اگر میںان کی خدمت میں حاضر نہ ہوا ہوتا تو یہ غلط بات آگے بڑھتی اور اس کے نمعلوم کہاں کہاں اور کیا کیا اثرات مترتب ہوتے. لیکن ربط و ضبط کے ذریعہ سے مغالطوں اور سوئِ ظن کو اگر بالکل نہیں تو بہت حد تک کم کیا جا سکتا ہے. میں ان صاحب کے پاس بھی گیا جنہوں نے ٹیلی فون پر ان عالمِ دین سے گفتگو کی تھی. ان سے تبادلۂ خیال کیا اور افہام و تفہیم کی کوشش بھی کی‘ جو اگرچہ نتیجہ خیز نہیں ہوئی لیکن بہرحال میں نے دلائل کے ساتھ اپنا نقطہ ٔنظر اُن کے سامنے رکھ دیا.