پانچویں اور آخری نکتے کے متعلق میں پوری دیانت داری سے عرض کرتا ہوں کہ میرا موقف یہ ہے کہ ہر وہ دعوت جو اقامت دین کو اپنا ہدف بنا کر کھڑی ہوئی ہو‘ اس کے لیے صرف وقتی تدبیر کے طور پر نہیں‘ بلکہ قلب کی گہرائیوں سے لازم ہے کہ علمائے حق کا اعتماد کرنے کے لیے بھرپور کوشش کرے.میں دعوے کے ساتھ یہ بات کہہ رہا ہوں کہ کوئی بھی شخص اُس وقت تک اُمت کے اندر دین کا کوئی مؤثر کام نہیں کر سکے گا جب تک وہ ان علماء کا اعتماد حاصل نہ کرے جن کے متعلق اسے یہ یقین ہو کہ ان میں للّٰہیت ہے‘ خلوص و اخلاص ہے‘ تقویٰ ہے اور ان میں انانیت و نفسانیت نہیں ہے. چھوڑ دیجیے ان کو جو علمائے سوء ہیں‘ جن کو اپنی گدیوں کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے‘ جنہیں یہ اندیشہ ہر وقت پریشان کیے رکھتا ہے کہ ہمارے گلے کی بھیڑیں ٹوٹ کر کسی اور کے گلے میں شامل نہ ہوجائیں.جہاں تک ہمارے علمائے حقانی کے اندیشوں اور خدشات کا تعلق ہے ‘اس کے اسباب تفصیل سے بیان کیے جا چکے ہیں. مجھے یقین ہے کہ جب بھی ان کے سامنے ان کے پورے احترام و ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنا موقف پیش کیا جائے گا اور ان سے مستقل و مسلسل ربط و ضبط قائم رکھا جائے گا تو اِن شاء اللہ العزیز اُن کی تائید اور ان کی دعائیں ضرور حاصل ہوں گی.