مولانا ابو الاعلیٰ صاحب مودودی ؒ نے بھی اقامت دین کی خاص جدوجہد میں قرآن کریم کو اہمیت دی.
قرآنِ کریم کی دعوت ایک اصولی دعوت ہے اور اس دعوت کی اہمیت یہ ہے کہ اُمت کے تمام فرقے ہر قسم کے فقہی اور اعتقادی اختلافات کے باوجود اس مشن پرمتحد ہو کر اور کندھے سے کندھا ملا کر جدوجہد کر سکتے ہیں.
دعوت قرآنی کی تحریک کو چلانے والے قائدین اور کارکنوں کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ اس اصولی دعوت کے اہم تقاضوں کو مدنظر رکھیں اور خاص طور پر اس تقاضے کو پورا کریں کہ اعتقادی اور فقہی جزوی اختلافات کی بحث کو اس تحریک کے دائرہ میں داخل نہ ہونے دیں.
شاہ ولی اللہؒ کے ہاں فقہی اختلافات میں جو توسع نظر آتا ہے اورجس توسع پر خاص کر حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ نے زور دیا ہے‘ اس کا مقصد یہی ہے.
شاہ ولی اللہؒ سے پہلے حضرت مجدد صاحبؒ کی تحریک ترویج سنت اور تردید بدعات کے اندر بھی فقہی اختلافات میں یہی وسعت فکر و نظر ملتا ہے.
حضرت مجدد صاحب ایک مکتوب میں فرماتے ہیں:
’’باوجود التزام ایں مذہب مرابا امام شافعیؒ گویا محبت ذاتی است و بزرگ مے دانم لہٰذا در بعض اعمال نافلہ تقلید مذہب اومے نمایم‘‘ (مکتوب ۵۵ ‘دفتر دوم ‘ص۱۴)
’’باوجود اس کے کہ میں حنفی مسلک کی پابندی کرتا ہوں مجھے امام شافعیؒ سے ذاتی محبت ہے اور میں انہیں بزرگ مانتا ہوں اور اسی لیے بعض عبادات میں ان کے مسلک کی پیروی کرتا ہوں. ‘‘
صاحب اتحاف نے لکھا ہے کہ شیخ عبد الحق صاحب محدث دہلوی ؒ اور حضرت مجدد صاحب ؒ کے درمیان اختلافات کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ محدث صاحب کو فقہی مذہب میں بے حد تشدد تھا اور مجدد صاحب مطلق اتباع سنت اور بدعات کی تردید پر زور دیتے تھے (ص ۱۶۲)
پاکستانی اہل علم میں ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے دین برحق کے غلبہ اور اقامت کے لیے قرآن کریم کی اصولی دعوت کا مشن اختیار کیا ہے.
ڈاکٹر صاحب کو نہ عالم ہونے کا دعویٰ ہے اور نہ فقیہہ و متکلم اور شیخ طریقت کا ادعا ہے.
خدا تعالیٰ نے موصوف کو اپنے مقدس کلام کا بڑا اچھا فہم عطا کیا ہے اور اس کلام عظیم کے اصولی پیغام کو جدید استدلالی اسلوب میں پیش کرنے کی صلاحیت سے نوازا ہے.
ڈاکٹر صاحب جدید تعلیم یافتہ آدمی ہیں اور موصوف نے قرآن کریم کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور وہ اس تحریک میں اپنا تن من دھن سب کچھ لگا چکے ہیں.
ڈاکٹر صاحب کے سامنے اقامت دین کی تحریک کے تمام دور موجود ہیں اور جماعت اسلامی کی تحریک میں شامل رہ کر تمام اتار چڑھاؤ سے موصوف آگاہ ہوئے ہیں.
ڈاکٹر صاحب نے دعوت قرآنی اور اقامت حق کی دعوت سے فقہی اختلافات کو دور رکھا ہے. وہ اہل علم کو فقہی اور اجتہادی مسائل میں وسعت فکر و نظر کی دعوت ضرور دیتے ہیں‘ معتدل راستہ اختیار کرنے کی اپیل کرتے ہیں جو آج کے حالات کا شدید تقاضا ہے. لیکن عوام کو وہ یہی مشورہ دیتے ہیں کہ اتباع سنت کی نیت سے ان کے لیے عافیت اسی میں ہے کہ وہ ایک فقہ کی پیروی کریں (میثاق ‘نومبر ‘ص ۴۷)
لیکن ایک تقریر میں ڈاکٹر صاحب نے ضمناً اجتہادی اور فقہی بحث میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ کیا اور اپنے فقہی مسلک کے بارے میں اپنے لیے نیم مقلد کی تعبیر اختیار کی اور مستقبل کے لیے یہ آرزو کی کہ فقہی اختلافات میں اتحاد عمل کی کوئی سبیل نکل آئے.
میرے خیال میں ڈاکٹر صاحب سے سہو ہوا. موصوف جس احتیاط کے ساتھ کام کر رہے ہیں وہ احتیاط اس تقریر میں قائم نہ رہ سکی.
موصوف کو اچھی طرح معلوم ہے اور ذاتی طور پر تجربہ ہے کہ مولانا مودودی صاحب نے تحریک اقامت دین کے امیر و قائد کی حیثیت سے فقہی مسائل میں اِدھر اُدھر ہاتھ مار کر تحریک کو نقصان پہنچایا.
وہ یقینا صاحب علم آدمی تھے فقہی مسائل میں بھی اچھی بصیرت کے حامل تھے ‘مگر ایک اصولی اور بنیادی تحریک کے داعی کے لیے فقہی مسائل کے اختلافات میں پڑنا اور ہر مسئلہ میں اپنی منفرد راہ دکھانا کسی طرح مناسب نہیں تھا. ڈاکٹر صاحب نے اس نزاعی خطاب میں تفصیلی طور پر نہ سہی اجمالی طور پر جس آرزو کا اظہار کیا ہے‘ اس سے بعض علماء کو شکایت پیدا ہوئی.
ڈاکٹر صاحب موصوف نے میثاق نومبر کے پرچہ میں اس غلط فہمی کو دور کرتے ہوئے جو کچھ لکھا ہے وہ علماء حق کو مطمئن کرنے کے لیے کافی ہے.
مجھے امید ہے کہ تقلید اور نیم تقلید جیسے جزوی مسائل کو دعوتِ قرآنی کے بنیادی مشن کے مقابلہ میں اہمیت نہیں دی جائے گی.
پاکستان کے اندر اس وقت جزوی مسائل میں مختلف مکاتب فکر کے علماء جس طرح آپس میں گتھم گتھا ہیں اور مخالف شریعت عناصر اس کو ہوا دے کر علمائے دین کا مذاق اڑا رہے ہیں اور اس حربِ عقائد سے وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ملک میں شرعی نظام قائم کرنے کا مطلب اس لڑاکو طبقہ کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور دینا ہے. اس کا تقاضا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے فقہی موقف کی حوصلہ افزائی کی جائے. موصوف کا مقصد یہی ہے کہ جزوی اور فروعی اختلافات کی شدت اور ہنگامہ آرائی کم سے کم ہو جائے‘ اور ملت کی پوری طاقت و توجہ دین برحق کی اصولی دعوت پر مرکوز ہو جائے.
البتہ اس بحث کے ساتھ ڈاکٹر صاحب نے ایک دوسرے بڑے جھگڑے کو چھیڑ دیا ہے اور امامت اور امارت کا مسئلہ کھڑا کر دیا ہے. اور ساتھ ہی اس کا جو ڑ مولانا ابو الکلام آزاد ؒ کی امامت کے بارے میں حضرت شیخ الہندؒ کی تجویز سے لگا دیا ہے‘گویا ڈاکٹر صاحب نے بھڑوں کے چھتے کو چھیڑ دیا ہے.
اس بحث کو چھیڑتے ہوئے ڈاکٹر صاحب جذبات میں آ گئے اور موصوف کو اتنا خیال نہ رہا کہ جس ہستی (مولانا آزاد) کی امامت کے مسئلہ کو وہ سند کے طور پر علمائے دیوبند کے سامنے پیش کر رہے ہیں‘ اس دانش مند ہستی نے امامت کی تجویز کو حالات کے پیش نظر کس طرح لپیٹ کر رکھ دیا اور ساری زندگی مولانا مرحوم اسے زبان و قلم پر نہ لائے.
امامت کی تجویز کی مخالفت گھر میں ہوئی ان رفقاء کی طرف سے ہوئی جو مولانا آزاد کی رفاقت میں کام کر رہے تھے. مگر مولانا نے حالات کے تیور دیکھ کر ہمیشہ کے لیے خاموشی اختیار کر لی ‘ کوئی شکوہ و شکایت زبان پر نہیں لائے.
مسلم جماعتوں کے تبصرہ میں ڈاکٹر صاحب نے غصہ سے کام لیا ہے ‘تحمل سے کام نہیں لیا.
موصوف کے نزدیک حضرت شیخ الہندؒ اپنے دَور کے مجدد تھے ‘شیخ الہند نے اپنے بعد اپنے شاگردوں کی ایسی جماعت چھوڑی جو علم و فضل اور تقویٰ و جہاد میں نابغہ روزگار تھی. لیکن اس کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کے خیال میں شیخ الہند کے شاگردوں نے سیکولر جماعتوں کا ضمیمہ بن کر آزادی ٔہند کی لڑائی میں حصہ لیا.
حالانکہ تاریخ کا ایماندارانہ مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ مشترک جدوجہد کا منصوبہ شیخ الہند اسارت مالٹا سے اپنے ساتھ لائے تھے.
ترکی قائدین نے شیخ کو یہ مشورہ دیا کہ ہندوستانی مسلمان تنہا جدوجہد کر کے انگریزوں کو ہندوستان سے نہیں نکال سکتے‘ جیسا کہ اب تک وہ ناکام رہے ہیں.
اسی تجویز کے مطابق شیخ الہندؒ کے مایہ ناز شاگرد مولانا حسین احمد مدنی ؒ ‘مولانا محمد انور شاہ صاحب کشمیریؒ ‘مفتی محمد کفایت اللہ‘مولانا ابو المحاسن سجاد بہاریؒ ‘مولانا احمد علی لاہوریؒ نے جمعیت علمائے ہند کے پلیٹ فارم سے آزادی کی جنگ میں قائدانہ طور پر حصہ لیا. تابعانہ اور ضمیمہ بن کر حصہ لینا ان حضرات کی خودداری اور علم و فضل کی توہین تھا‘ مکمل آزادی کی تجویز سب سے پہلے جمعیت علمائے ہند نے منظور کی. آزادی کی تحریکات میں ہر قسم کی قربانیوں کا حصہ اپنی تعداد کے لحاظ سے مسلمانوں کا زیادہ نکلتا ہے.
مشترک جدوجہد کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں ملت اسلامیہ کے تشخص کی حفاظت کے محاذ پر جماعت شیخ الہند نے بھرپور جدوجہد جاری رکھی. مولانا حسین احمد مدنی ؒ نے ۱۹۴۵ء کے اجلاس جمعیت علمائے ہند منعقدہ لاہور کے خطبہ میں صاف صاف اعلان کیا کہ مشترک جدوجہد سے حاصل ہونے والی آزادی اور جمہوری حکومت ہماری آخری منزل نہیں‘ بلکہ اس آزادی سے آخری منزل (اسلامی نظامِ حیات کا قیام) ہمارے لیے آسان ہو جائے گی.
اس خطبہ میں مولانا مدنی نے اسلامی نظامِ حیات کے بنیادی اصولوں کی مکمل وضاحت فرمائی.
یہ دَور جدوجہد آزادی کے شباب کا دَور تھا اور شیخ الہند کی جماعت لگی لپٹی اور گول مول بات کہنے کے بجائے اپنا مدعیٰ صاف صاف پیش کر رہی تھی.
جماعت شیخ الہند نے اسی دَور میں مخالف اسلام تحریکوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا. انگریز حکومت کے کارندوں نے جماعت شیخ الہند کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہ کی. سیاسی اتحاد کو مغربی تصور کے مطابق نیشنل ازم کے مترادف قرار دیا گیا. اور متحدہ قومیت کے لفظ سے فائدہ اٹھایا گیا‘ لیکن بہت جلد دنیا نے دیکھا کہ آزادی کے بعد مصائب و مشکلات میں گھری ہوئی ملت اسلامیہ ہند کے ملی اور ثقافتی تحفظ کی جدوجہد میں جماعت شیخ الہند مصروف جہاد ہے جبکہ بڑے بڑے بہادر قائدین اور اسلام پسند رہنمایانِ کرام ہجرت کے نام پر ہندوستان چھوڑ چکے تھے.
تقسیم ہند کے بعد اصل نصب العین کے لیے جدوجہد کرنے کا منصوبہ خطرہ میں پڑ گیا اور اقامت دین کے لیے براہِ راست جدوجہد کے بجائے مسلمانوں کے وجود کی حفاظت کا اہم مسئلہ سامنے آ گیا.
جمعیت علمائے ہند کے مشہور رہنما مولانا ابو المحاسن سجاد بہاریؒ نے تحریک آزادی کے دَور میں حکومت الٰہیہ کے نام سے ایک منصوبہ تیار کیا تھا اور یہ الہلال اور البلاغ کے پیغام کی صدائے بازگشت تھی. مولانا کی اس موضوع پر سب سے پہلی کتاب ہے.
اس منصوبہ کے مطابق ہندوستان کے بعض حصوں‘بہار اڑیسہ وغیرہ میں امارتِ شرعیہ قائم کر دی گئی تھی‘ جو آج تک قائم ہے. یہ امارتِ شرعیہ ایک نمونہ تھا اس اصل نصب العین کا‘ جس کا اعلان مولانا حسین احمد مدنی ؒ نے ۱۹۴۵ء کے خطبہ جمعیت علماء میں کیا تھا اور جماعت شیخ الہند کا حقیقی نصب العین تھا.
آزادی کے بعد جماعت شیخ الہند کے یہی مرد مجاد تھے جو بڑھاپے اور بیماری کی حالت میں شہر شہر اور گاؤں گاؤں پھر کر مسلمانوں کو تسلی دے رہے تھے‘ اور ہندو فرقہ پرستی کا مقابلہ کر رہے تھے.
جبکہ پاکستان کے مذہبی قائدین پاکستان میں حکومت الٰہیہ کے قیام کی قیمت پر ہندوستان کے مسلمانوں کو گیتا کی حکومت کے تحت ذلی بنا کر رکھنے کی تجویزیں پیش کر رہے تھے.
مسلمانوں کی جان و مال پر قیامت ٹوٹ رہی تھی اور کاغذی حکومت الٰہیہ کے علم بردار اس جلتی آگ پر تیل چھڑکنے کی سعادت حاصل کر رہے تھے.
اصل نصب العین کی طرف جماعت شیخ الہندؒ نے آگ اور خون کی اس بارش میں بھی اقدام کرنے سے غفلت اختیار نہیں کی. نعرہ بازی کی بجائے ٹھوس اقدام کیا اور دینی تعلیمی تحریک کے نام سے ملک بھر میں اسلامی دعوت و تبلیغ اور تعلیم و تربیت کے ہزاروں مراکز قائم کر دیے. اور مولانا محمد الیاس صاحب کی تحریک تبلیغ نے نہایت خاموشی کے ساتھ کونہ کونہ پہنچ کر مسلمانوں کے اندر ایمانی حوصلہ پیدا کیا. اس جدوجہد میں جماعت شیخ الہند کو دو طرفہ جہاد کرنا پڑا. ایک طرف ہندو فرقہ پرستی اور دوسری طرف دارا شکوہی ذہنیت کے حامل اور انتہا پسند نیشنلسٹ مسلمان.
مسلمانوں کے اس طبقہ نے جماعت شیخ الہندؒ کے اکابر پر یہ الزام تراشی شروع کی کہ ان ملائوں نے مسٹر جناح کی دو قومی تھیوری کی حوصلہ افزائی کی ہے اور درپردہ پاکستان کے قیام کی تحریک کو سہارا دیا ہے.
مرحوم انیس الرحمان بہاری ایڈیٹر ’’نئی زندگی‘‘ اس تحریک کے قائد تھے. اس تحریک کو اندر سے کانگرس کے بعض سینئر مسلمان لیڈر ہوا دے رہے تھے مگر مولانا ابو الکلام آزاد کی بھاری بھرکم شخصیت کے مقابلے میں وہ کھل کر سامنے آنے کی جرأت نہیں رکھتے تھے.
مولانا ابو الکلام آزادؒ کے کانگرس اور حکومت کے اندر رہنے سے مذہب پسند مسلم قیادت کو جو ٹھوس فائدہ پہنچا‘ وہ ناقابل بیان ہے. شروع ہی میں اگر یہ انتہا پسند نیشنلسٹ غالب آ جاتے تو واقعی ہندوستان میں اسلامی تہذیب و ثقافت کو زندہ رہنے میں بڑی مشکلات پیش آتیں. ایک طرف ہندو فرقہ پرستی کے حملے ہوتے اور دوسری طرف سے اندر کے منافقین اسلامی قدروں کو نقصان پہنچانے کی سازشیں کرتے رہتے. مولانا مدنی ؒ نے آزادی کے بعد سرکاری خطاب اور اعزاز قبول کرنے سے انکار کر دیا‘ مولانا کے بھائی اور بھتیجے سعودی عرب میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے ان کے اصرار کے باوجود مولاناؒ نے مدینہ منورہ میں قیام کرنے پر ہندوستان کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ رہنا پسند فرمایا.
مولانا مدنی ؒ تصوف و طریقت میں مولانا تھانویؒ کے مقابلہ میں بہت نرمی اختیار کرتے تھے مگر آزادی کے بعد مولانا کے رویہ میں سختی آ گئی تھی اور مولانا شرعی داڑھی کے بغیر کسی کو بیعت نہیں فرماتے تھے‘ جبکہ اس ماحول میں مسلمان کی شکل و صورت میں چلنا پھرنا بڑی ہمت کا کام تھا اور لوگ شکل و صورت بدل بدل کر ہندوستان سے باہر جا رہے تھے. یہ
انفرادی تشخص کی اہمیت اور حفاظت کے اظہار کی خاطر تھا.
آزادی کے بعد سالہاسال تک مسلمانوں کی حفاظت اور دین حق کی تبلیغ و دعوت کا سارا بوجھ جماعت شیخ الہندؒ نے اٹھایا.
اور آہستہ آہستہ ملک کی فضا کو اس قابل بنایا کہ دوسری مسلم جماعتیں بھی مسلمانوں کے اندر کام کرنے کے لائق ہو سکیں.
جماعت اسلامی ہند ان بدلے ہوئے حالات میں بھی مشترک تعاون اور سیاسی انتخابات میں حصہ لینے کو طاغوت پرستی کہتی رہی‘ جبکہ مولانا حفظ الرحمن صاحب اسی انتخاب و الیکشن کے ذریعہ ہندو پارلیمنٹ میں جا کر مسلمانوں کی مشکلات اور ہندو فرقہ پرستی پر پوری جرأتِ حق کے ساتھ اظہارِ خیال کرتے رہے اور ہندوستان کے ضمیر کو جھنجھوڑتے رہے‘ اور بالآخر جماعت اسلامی کے اسلام پسند رہنمائوں کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ ہندوستان کے لیے سیکولر طرز حکومت اکثریت کے ہندو راشٹر سے بہتر ہے.
ڈاکٹر صاحب پاکستان کی مسلم جماعتوں کے بارے میں جو تبصرہ کرنا چاہیں شوق سے کریں‘ لیکن شیخ الہندؒ جو موصوف کے نزدیک مجدد وقت تھے ان کی جماعت کے بارے میں تاریخ کا سنجیدہ مطالعہ فرما کر اظہار خیال فرمائیں تو بہتر ہے.
ڈاکٹر صاحب نے اس تقریر میں تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں کو بھی صرف افراد کی اصلاح تک محدود کہہ کر اس کی اہمیت کو تسلیم کرنے سے گریز کیا ہے‘ لیکن کیا ایک صالح معاشرہ صالح افراد کے بغیر وجود میں آ سکتا ہے؟ یہ غلبۂ دین کی پہلی منزل ہے.
اسی طرح علمائے مدارس کی تعلیمی سرگرمیوں کا معاملہ ہے‘ اس حلقہ کی جدوجہد ایک صالح معاشرہ کے لیے دین کے معلم‘امام‘قاضی اور داعی تیار کرنا ہے. پھر کیا یہ جدوجہد غلبہ ٔدین کی جدوجہد سے بے تعلق چیز ہے؟ ہاں‘یہ امر ضروری ہے کہ اصحابِ تبلیغ ہوں یا اربابِ مدارس‘ اپنے اپنے دائرہ کار کے بارے میں اس خوش فہمی کا شکار نہ ہوں کہ ان کے دائرہ کار میں حق کا انحصار ہے اور جو اللہ کے بندے اسلام کو بطور ایک مکمل نظام ہدایت کے پیش کرنے اور بطور دین کامل کے اس کے ایک ایک پہلو کو عصر حاضر کے استدلال کے مطابق نمایاں کرنے اور جدید جاہلیت کی گمراہیوں پر ضرب کاری لگانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں ان سے دُور رہیں‘ بلکہ ان سے بدگمان ہوں.
اس رَوش سے نہ صرف اسلامی جدوجہد کو نقصان پہنچے گا بلکہ تبلیغ و مدارس کے حلقوں پر تخریب کاری کا الزام آئے گا.
ڈاکٹر صاحب قبلہ نے علماء کے بارے میں لکھا ہے:
’’اور علماء کی حیثیت زندگی کی اصل منجدھار سے ہٹی ہوئی ایک پتلی سی دھار کی ہوتی چلی گئی‘ تاآنکہ اب وہ اپنے محدود دائرہ اثر کے جزیروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں اور یہ جزیرے بھی دن بدن نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُھَا کے مصداق روز بروز مختصر سے مختصر تر ہوتے چلے جا رہے ہیں. ‘‘(ص۶۶)
بڑے ادب سے ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں گزارش ہے کہ علماء کی اگر یہ حالت ہے تو یہ طنز و تعریض کی بات نہیں‘ بلکہ رنج و ملال کی بات ہے اور اس کے محرکات میں ایک بڑا محرک مذہبی قیادت کا زوال ہے جس کی زد میں خود ڈاکٹر صاحب کی تحریک بھی ہے.
اور یہ خوش فہمی مولانا مودودی صاحب کو بھی تھی کہ قوم کا مکھن ان کے ساتھ ہے. لیکن جب مرحوم اپنی قائدانہ جدوجہد اور دینی اور علمی کد و کاوش کا ثمرہ حاصل کرنے کی غرض سے عملی سیاست کے میدان میں کودے‘ تو عبرتناک شکست کے سوا انہیں کچھ حاصل نہ ہوا‘ جو طبقہ ان پر نوٹ نچھاور کرتا تھا اس نے ووٹ دینے سے انکار کر دیا.
اور ایک بے عمل معاشرہ پر دین کے غالب کرنے کا جو تجربہ کیا گیا تھا وہ ناکام ہو گیا. مرحوم جب تک کتابوں اور کاغذوں پر اللہ کے دین کو غالب کرتے رہے لوگ خوش ہوتے رہے اور جب ان کی زندگیوں پر دین کو غالب کرنے نکلے اور اجتماعی وسائل اور مادی ذرائع پر خدا کے نیک بندوں کو بٹھانے کے لیے اُمت مسلمہ سے ووٹ مانگے تو مرحوم نے کوفہ کے امام مسلم کی طرح اپنے آپ کو تنہا پایا‘ سوائے چند رفقاء باوفا کے. مجھے امید ہے کہ جس طرح ڈاکٹر صاحب نے تقلید کے مسئلہ کی وضاحت کر کے علماء کرام کو مطمئن کرنے کی سنجیدہ کوشش کی ہے‘ اسی طرح موصوف امامت اور امارت کے مسئلہ کو دعوتِ دین کی تحریک کے لیے بنیادی مسئلہ نہیں بنائیں گے.
ظاہر ہے کہ جو اللہ کا بندہ خدا تعالیٰ کی توفیق سے باقاعدہ اس جدوجہد میں شامل ہو گا وہ ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ پر رفاقت و تعاون کے عہد و پیمان میں کوئی تأمل نہیں کرے گا. ڈاکٹر صاحب نے اس احقر کو تنظیم اسلامی کے حلقہ مستشارین میں شامل فرمایا ہے حالانکہ یہ احقر اس قابل نہیں ہے. پھر پاک و ہند کے درمیان ایک دیوار حائل ہے‘جس کو بڑی مشکل سے عبور کرکے ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوتا ہے. بہرحال ڈاکٹر صاحب جس انقلابی دعوت کو لے کر اُٹھے ہیں اس کے بارے میں اسلام کے لیے بننے والے دیش میں یہ توقع بے جا نہیں کہ وہ تحریک اگر ارباب اقتدار کے جبر و جور سے محفوظ رہی تو ان شاء اللہ کامیاب ہو گی‘ اور ہمارا اس تحریک سے تعلق رضائے الٰہی کا سبب بنے گا. ان شاء اللہ!