’’دعوتِ رجوع الی القرآن‘‘

’’حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ علیہ کی جماعت‘‘ او ر ’’مسئلہ امامت و امارت‘‘ مولانا اخلاق حسین قاسمی مدظلہ‘ کے فرمودات پر چند گزارشات

از: اسرار احمد

مولانا اخلاق حسین قاسمی مدظلہ ’’مہتمم و شیخ التفسیر جامعہ رحیمیہ‘‘ مرکز حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ ‘ خواجہ میر درد روڈ‘ دہلی (بھارت) سے راقم الحروف کا تعارف کچھ اتنا پرانا نہیں‘ زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ دو برس کا ہے.

اُن سے اولین تعارف اُن کی بیش بہا تالیف ’’محاسن موضح القرآن‘‘ اور اُس کے پاکستانی ناشر برادرم قاری سعید الرحمن علوی کی وساطت سے ہوا. اسی کی اساس پر راقم نے انہیں گزشتہ سال کے ’’محاضراتِ قرآنی‘‘ میں شرکت کی دعوت ارسال کر دی. اُ ن کا کرم کہ انہوں نے بلا پس و پیش اور بغیر تکلف و تصنع دعوت قبول فرما لی اور تشریف لے آئے. 

اس طرح متعدد بالمشافہ ملاقاتوں کا موقع بھی ملا. اور محاضرات کی متعدد نشستوں میں ان کی کئی تقاریر بھی سننے میں آئیں. اُن کے علم و فضل کا اندازہ تو ظاہر ہے کہ کوئی اُن سے اعلیٰ پایہ کا عالم و فاضل ہی لگا سکتا ہے‘ مجھ ایسے عامی و اُمی شخص کے دل نے تو اُن کے جذبہ و خلوص‘سادگی و اخلاص اور بالخصوص طبیعت کے تواضع اور مزاج کے اعتدال سے بہت اثر قبول کیا. اس طرح گویا فوراً ہی ’’دل رابہ دل رہیست!‘‘ والا معاملہ بن گیا.

’’محاضرات‘‘ کے ایک ہی ماہ بعد میرا بھارت جانا ہو گیا. اصل سفر تو حیدر آباد دکن کا تھا لیکن آتے جاتے دہلی میں بھی دو مرتبہ مختصر قیام رہا. اور دونوں ہی بار مولانا سے ملاقات ہوئی. مولانا کی محبت بھری دعوت پر ایک جمعہ میں جامع مسجد مدرسہ حسین بخش‘ چتلی قبر‘ میں جمعہ سے قبل خطاب کا موقع ملا (جہاں اب مولانا جمعہ پڑھاتے ہیں‘ اور بھائی جمیل الرحمن صاحب سے معلوم ہوا کہ اسی مسجد میں ایک طویل عرصہ تک رئیس الواعظین سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلویؒ وعظ فرماتے رہے ہیں) اور اُن ہی کی وساطت سے قبرستانِ مہندیان اور جامعہ رحیمیہ میں بھی حاضری کا موقع ملا.

راقم کو مولانا کی عمر کا صحیح اندازہ تو نہیں‘ البتہ گمانِ غالب ہے کہ لازماً ساٹھ سے متجاوز ہوگی لیکن اُن کی جواں ہمتی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اُس کے بعد سے اب تک اُن کے پاکستان کے دو مزید چکر لگ چکے ہیں جن سے بحمد اللہ ربط و تعلق کے مزید استوار ہونے میں بہت مدد ملی جس کا ایک اہم مظہر قارئین ’’میثاق‘‘ کے علم میں گزشتہ شمارے سے آ چکا ہے‘ یعنی یہ کہ مولانا نے ’’تنظیم اسلامی‘‘ کے ’’حلقہ مستشارین‘‘ میں شرکت قبول فرما لی. فجزاہُ اللّٰہ عنّی و عن جمیع رفقائی أحسن الجزائ! 

مولانا کی جو تحریر گزشتہ اشاعت میں ’’ڈاکٹر اسرار احمد کی اپیل اور علمائے دیوبند‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے اُس کے ضمن میں: 

اولاً تو راقم کو مولانا کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا ہے کہ انہوں نے راقم کا اس درجہ اعزاز و اکرام فرمایا کہ اُسے بھی برصغیر کی ’’دعوتِ رجوع الی القرآن‘‘ کے اُس ’’سلسلۃ الذھب‘‘ میں منسلک کر دیا جس کا سر آغاز تو تھے امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور اُن کے جلیل القدر فرزند (رحمہم اللہ) درمیانی کڑی کی حیثیت حاصل ہے حضرت شیخ الہندؒ کو.اور پھر ان کی ذاتِ مجمع الصفات سے جو متعدد لڑیاں شروع ہوئیں اُن میں سے ایک مشتمل ہے مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور اور مولانا احمد علی لاہوریؒ پر‘ تو دوسری میں شامل ہیں مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم اور مولانا ابو الاعلیٰ مودودی مرحوم . 
(۱

اس ضمن میں مولانا کے شکریے کے ساتھ راقم یہ عرض کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اگرچہ مولانا (۱) مولانا مودودی مرحوم کے ضمن میں ’’علمائے دیوبند کے فیض یافتہ عالم‘‘ کے جو الفاظ مولانا نے استعمال فرمائے ہیں‘ وہ بہت معنی خیز ہیں. اسی طرح مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کا ذکر اگر سہواً چھوٹ گیا ہے تب تو خیر‘ لیکن اگر جان بوجھ کر ہے تو یہ بھی ایک اہم معاملہ ہے! بہر حال ان دونوں باتوں کے ضمن میں ان شاء اللہ راقم آئندہ کچھ عرض کرے گا! کی یہ ’’سند‘‘ راقم کے لیے تا زیست متاعِ بے بہا کا درجہ رکھے گی‘ تاہم راقم نہ اس سے قبل اس زعم میں مبتلا تھا نہ ان شاء اللہ مولانا کے اس اعزاز و اکرام سے اس مغالطے میں مبتلا ہو گا کہ راقم ان عظیم ہستیوں کا کسی بھی درجے میں ہمسر یا ہم پلہ ہے. اللہ گواہ ہے کہ راقم کا معاملہ ان حضرات کے ساتھ وہی ہے جو اس شعر میں بیان ہوا کہ ؎

اُحِبُّ الصالحین و لستُ منھم لعل اللّٰہ یرزقنی صلاحًا!

اس سلسلے میں راقم الحروف کے لیے مولانا نے جن جذبات و خیالات کا اظہار فرمایا ہے ان میں سے صد فی صد درست بات تو صرف یہ ہے کہ:

’’ڈاکٹر صاحب کو نہ عالم ہونے کا دعویٰ ہے اور نہ فقیہہ و متکلم اور شیخ طریقت ہونے کا ادّعا‘‘

مندرجہ ذیل باتیں بھی بحمد اللہ بہت حد تک واقعیت پر مبنی ہیں:

’’ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے دین برحق کے غلبہ اور اقامت کے لیے قرآن کریم کی اصولی دعوت کا مشن اختیار کیا ہے اور وہ اس تحریک میں اپنا تن من دھن سب کچھ لگا چکے ہیں‘‘
البتہ یہ الفاظ ہمت افزائی کے جذبہ کی بنا پر مبالغہ کی صورت اختیار کر گئے ہیں کہ:

’’ڈاکٹر صاحب جدید تعلیم یافتہ آدمی ہیں اور موصوف نے قرآن کریم کا گہرا مطالعہ کیا ہے … خدا تعالیٰ نے موصوف کو اپنے مقدس کلام کا بڑا اچھا فہم عطا فرمایا ہے اور اس کلام عظیم کے اصولی پیغام کو جدید استدلالی اسلوب میں پیش کرنے کی صلاحیت سے نوازا ہے. ‘‘

بہر حال راقم اس ہمت افزائی پر مولانا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے کہ وہ اپنے کمال فضل و کرم سے اُسے فی الواقع ان الفاظ کا مصداق بنا دے. وما ذٰلک علیہ بعزیز! 
مسالک فقہیہ کے ضمن میں راقم کی تقریر مطبوعہ ’’میثاق‘‘ ستمبر ۱۹۸۴ء میں تقلید اور عدمِ تقلید یا اجتہاد مطلق کے مابین ’’نیم تقلید‘‘ کا جو تصور سامنے آیا تھا اُس پر ابتداء ً مولانا بھی بہت برہم تھے‘ لیکن جب راقم نے ان کے سامنے اپنی وہ وضاحت پیش کی جو ’’میثاق‘‘ کے دسمبر کے شمارے میں شائع ہو چکی ہے (مولانا کی دہلی واپس روانگی تک پرچہ طبع نہ ہوا تھا لیکن راقم نے ان کی خدمت میں کچھ کتابت شدہ صفحات کی فوٹو سٹیٹ نقل اور کچھ اصل مسودہ پیش کر دیا 
تھا) تو انہوں نے اطمینان کا اظہار فرمایا.

مولانا کی برہمی کے آثار ان کی زیر تبصرہ تحریر میں بھی موجود ہیں:
’’ڈاکٹر صاحب نے دعوتِ قرآنی اور اقامت حق کی دعوت سے فقہی اختلافات کو دُور رکھا ہے. وہ اہل علم کو فقہی اور اجتہادی مسائل میں وسعت فکر و نظر کی دعوت ضرور دیتے ہیں اور معتدل راستہ اختیار کرنے کی اپیل کرتے ہیں جو آج کے حالات کا شدید تقاضا ہے. لیکن عوام کو وہ یہی مشورہ دیتے ہیں کہ اتباع سنت کی نیت سے اُن کے لیے عافیت اسی میں ہے کہ وہ ایک فقہ کی پیروی کریں. 

لیکن ایک تقریر میں ڈاکٹر صاحب نے ضمناً اجتہادی اور فقہی بحث میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ کیا اور اپنے فقہی مسلک کے بارے میں اپنے لیے ’’نیم مقلد‘‘ کی تعبیر اختیار کی اور مستقبل کے لیے یہ آرزو (ظاہر) کی کہ فقہی اختلافات میں اتحاد عمل کی کوئی سبیل نکل آئے. 

میرے خیال میں ڈاکٹر صاحب کو سھو ہوا‘ موصوف جس احتیاط کے ساتھ کام کر رہے ہیں وہ احتیاط اس تقریر میں قائم نہ رہ سکی!‘‘ 

تاہم راقم کی توضیحات ملاحظہ فرمانے کے بعد مولانا نے جس فراخدالی کے ساتھ تسلیم فرمایا کہ:

’’ڈاکٹر صاحب موصوف نے میثاق نومبر (مراد ہے دسمبر) کے پرچے میں اس غلط فہمی کو دُور کرتے ہوئے جو کچھ لکھا ہے وہ علماء حق کومطمئن کرنے کے لیے کافی ہے اس کا تقاضا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے فقہی موقف کی حوصلہ افزائی کی جائے!‘‘ 

اُس سے جہاں اُن کے وسعت ِظرف کا اندازہ ہوتا ہے وہاں یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ ؏ ’’گاہ مری نگاہ تیز چیر گئی دلِ وجود!‘‘ کے مصداق ان کی نگاہ جزوی اور فروعی مسائل میں الجھ کر رہ جانے کی بجائے دین و ملت کے اصل مسئلہ پر مرکوز ہے! فللّٰہ الحَمد! 
’’فقہی اختلافات میں توسع‘‘ کے ضمن میں مولانا نے شاہ ولی اللہ دہلوی اور شاہ اسمٰعیل شہیدؒ کا جو ذکر فرمایا ہے وہ اپنی جگہ پر راقم کے لیے خصوصی دلچسپی کا باعث ہے‘ حضرت مجدد الف ثانی ؒ کا حوالہ ہے کہ:

’’حضرت مجدد صاحبؒ ایک مکتوب میں فرماتے ہیں: ’’باوجودِ التزام ایں مذہب مرا با امام شافعیؒ گویا محبت ذاتی است و بزرگ مے دانم‘ لہٰذا در بعض اعمالِ نافلہ تقلید مذہب او می نمایم‘‘ (مکتوب ۵۵‘ دفتر دوم) یعنی ’’باوجود اس کے کہ میں حنفی مسلک کی پابندی کرتا ہوں مجھے امام شافعیؒ سے ذاتی محبت ہے اور میں انہیں بزرگ مانتا ہوں اور اسی لیے بعض (نفلی) عبادات میں ان کے مسلک کی پیروی کرتا ہوں .‘‘

’’صاحب اتحاف نے لکھا ہے کہ شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ اور حضرت مجدد صاحبؒ کے درمیان اختلاف کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ محدث صاحب کو فقہی مذہب میں بے حد تشدد تھا اور مجدد صاحب مطلق اتباع سنت اور بدعات کی تردید پر زور دیتے تھے (ص ۱۶۲) ‘‘

مولانا قاسمی مدظلہ کی تحریر کا اہم ترین حصہ وہ ہے جو ’’حضرت شیخ الہندؒ کی جماعت‘‘ اور ’’مسئلہ امامت و امارت‘‘ سے متعلق ہے. ان مسائل کے ضمن میں بھی مولانا کے انداز میں ایک محبت آمیز برہمی نمایاں ہے. اور فی الوقت راقم الحروف نے اسی مسئلے پر اظہار خیال کے لیے قلم اٹھایا ہے.

اس ضمن میں مولانا کی ناراضگی کی اصل بنیاد تو وہی ’’ضمیمہ‘‘ والا لفظ ہے‘ جس کے بارے میں ضروری وضاحت گزشتہ شمارے میں پیش کی جا چکی ہے‘ بالمشافہ ملاقات میں مولانا کا انداز تحریر کے مقابلے میں کہیں زیادہ غضبناک تھا لیکن الحمد للہ کہ جب راقم نے اپنی وہ گزارشات زبانی پیش کیں جو گزشتہ ماہ کے ’’تذکرہ و تبصرہ‘‘ میں درج ہو چکی ہیں تو مولانا نے اطمینان کا اظہار فرمایا اور یہ ہدایت فرمائی کہ اسے ’’میثاق‘‘ میں شائع کر دیا جائے. اس طرح ایک خاص لفظ کی حد تک تو معاملہ ختم ہو گیا‘ البتہ اس تحریر میں شامل متعدد باتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں راقم اپنے خیالات وضاحت کے ساتھ پیش کرنا چاہتا ہے. تاکہ اگر وہ درست ہوں تو مولانا اور دوسرے اصحاب علم و فضل ان کی تائید فرمائیں ورنہ میری اصلاح فرما کر عند اللہ ماجو ر ہوں.

اس ضمن میں سب سے پہلے راقم مولانا کی تحریر کے اُس حصے کے ’’اول و آخر‘‘ کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہے جو اس موضوع سے متعلق ہے. مولانا نے ابتدا ان الفاظ سے فرمائی ہے:

’’البتہ اس بحث کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب نے ایک دوسرے بڑے جھگڑے کو چھیڑ دیا ہے اور امامت و امارت کا مسئلہ کھڑا کر دیا ہے. اور ساتھ ہی اس کا جوڑ مولانا ابوالکلام آزادؒ کی امارت کے بارے میں حضرت شیخ الہندؒ کی تجویز سے لگا دیا ہے. گویا ڈاکٹر صاحب نے بِھڑوں کے چھتے کو چھیڑ دیا ہے!‘‘ اور اختتام ان الفاظ پر فرمایا: 

’’مجھے امید ہے کہ جس طرح ڈاکٹر صاحب نے تقلید کے مسئلہ کی وضاحت کر کے علماء کرام کو مطمئن کرنے کی سنجیدہ کوشش کی ہے اسی طرح موصوف امامت کے مسئلہ کو دین کی تحریک کے لیے بنیادی مسئلہ نہیں بنائیں گے!‘‘

اس سلسلے میں راقم کی گزارش صرف یہ ہے کہ ان شاء اللہ العزیز ایسا ہی ہو گا. اس لیے کہ ہمارے نزدیک نہ یہ کوئی اساسی اور بنیادی مسئلہ ہے‘ نہ ہی برصغیر کے دونوں ملکوں یعنی پاکستان اور بھارت تو کجا‘ کسی چھوٹے سے چھوٹے مسلمان ملک کے علماء کرام کا کسی شخص واحد کی امامت و امارت پر متفق ہو جانے کا کوئی امکان حال چھوڑ مستقبل میں بھی دُور دُور تک موجود ہے! اور واقعہ یہ ہے کہ راقم نے اس مسئلہ کو ہرگز کسی ارادے یا منصوبے کے تحت نہیں چھیڑا بلکہ یہ از خود (اور چونکہ ہم ’’از خود‘‘ کچھ ہونے کے ہرگز قائل نہیں ہیں‘ بلکہ ہمارا ایمان ہے کہ جو کچھ ہوتا ہے مشیت ایزدی سے ہوتا ہے‘ لہٰذا) گویا ’’من جانب اللہ‘ چھڑ گیا. 

راقم کو اواخر ۱۹۷۴ء میں رمضان مبارک کے عشرہ اخیرہ کے وہ کیف آور لمحات اور ان کی سرور آمیز کیفیات اچھی طرح یاد ہیں جب راقم مسجد خضراء‘ سمن آباد میں اعتکاف میں تھا اور اسی دوران میں راقم کے قلم سے وہ تحریر نکلی جو ’’میثاق‘‘ بابت اکتوبر‘نومبر ۱۹۷۴ء میں بڑے سائز کے ۴۸ صفحات پر پھیلی ہوئی ہے. جس میں راقم نے نہ صرف یہ کہ امت مسلمہ کی چودہ سو سالہ تاریخ کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا ہے اور عروج و زوال کے ادوار کا تجزیہ کیا ہے بلکہ موجودہ ’’ہمہ گیر احیائی عمل‘‘ کا جائزہ بھی لیا ہے اور اُس کے مختلف ’’محاذوں‘‘ کی تفصیل بھی بیان کی ہے. اسی کے ضمن میں راقم کے قلم سے مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم کی بیعت امامت کی تجویز کے بارے میں پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم سے سنا ہوا ایک واقعہ اور اُس موقع پر مولانا معین الدین اجمیریؒ کی زبان سے نکلا ہوا ایک جملہ ٹپک گیا‘ جس پر صرف سَن کی غلطی کی آڑ لے کر ایک نہایت جارحانہ تردیدی خط لکھ دیا ڈاکٹر احمد حسین کمال صاحب نے‘ جس پر میرے لیے مزید تحقیق و تفتیش لازم ہو گئی اور اس طرح الحمد للہ کہ برصغیر پاک و ہند میں ’’تاریخ دعوت و عزیمت‘‘ کا ایک اہم لیکن گمشدہ باب روشنی میں آ گیا. 

اس تحقیق و تفتیش کے دوران جو ’’انکشافات‘‘ مجھ پر ہوئے ان میں سے اہم ترین حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ المعروف بہ ’’شیخ الہند‘‘ کی عظمت شان اور جلالت قدر کے بارے میں تھا. جن سے اس وقت تک میں اصلاً تو ان کے ترجمۂ قرآن کے حوالے ہی سے واقف تھا اور اس کی بنا پر میرے دل میں ان کے لیے ایک گونہ محبت و عقیدت بھی موجود تھی. مزید برآں اُن کی ذاتی عظمت‘ ان کے تقویٰ و تدیُّن ‘ اُن کے اخلاص و للہیت‘ان کا علم و فضل‘ان کے مجاہدانہ کردار‘ان کی عالی ہمتی اور جہاد حریت اور تحریک استخلاصِ وطن میں ان کے مقام و مرتبہ کا تو کسی قدر اندازہ تھا لیکن ان کی وسعت نظر‘ان کی عالی ظرفی‘ان کی معاملہ فہمی‘ان کی انسان شناسی‘ان کی وسعت قلب‘ اور سب سے بڑھ کر ان کی عاجزی و انکساری کا کوئی اندازہ راقم کو نہ تھا. یہی وجہ ہے کہ ان کی ذاتی عظمت کے اس پہلو کے ’’یکبارگی‘‘ انکشاف سے راقم پر ایک مبہوتیت سی طاری ہو گئی. چنانچہ اس موقع پر جو تحریر راقم کے قلم سے نکلی اُس میں ایک والہانہ آمد کی کیفیت بدرجہ ٔاتم موجود ہے! 

وہ دن اور آج کا دن! راقم کی پختہ رائے ہے کہ چودہویں صدی ہجری کے مجدد حضرت شیخ الہندؒ تھے! اس لیے کہ ان کی سی ’’جامعیت کبریٰ‘‘ کی حامل کوئی دوسری شخصیت اس پوری صدی میں کم از کم مجھے نظر نہیں آتی. 

میری متذکرہ بالا تحریر اولاً ’’میثاق‘‘ بابت ستمبر و اکتوبر ۱۹۷۵ء میں شائع ہوئی تھی اور اس سے وہ بحث ختم ہو گئی تھی جو اس پوری تحقیق و تفتیش کا سبب بنی تھی‘ چنانچہ اس کے بعد پورے آٹھ سال اس مسئلے پر ’’میثاق‘‘ کے صفحات میں کوئی بات نہیں آئی. لیکن ۸۲-۱۹۸۳ء میں میرے جو ’’طوفانی دورے‘‘ پاکستان کے طول و عرض میں ہوئے اور ان کے دوران حلقہ ٔدیوبند کے علماء کرام کی ایک بڑی تعداد سے ملاقات اور گفت و شنید کا موقع ملا تو یہ افسوسناک انکشاف ہوا کہ دیوبندی علماء کی نوجوان نسل کی عظیم اکثریت تو حضرت شیخ الہندؒ کے صرف نام سے واقف ہے‘ ان کی عظمت سے بالکل واقف نہیں‘ بزرگ حضرات کی اکثریت بھی اپنے اکابر میں سے بعض دوسری عظیم شخصیتوں کو جو مقام دیتی ہے وہ حضرت شیخ الہندؒ کو نہیں دیتی. اور خاص طور پر مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم کی بیعت امامت کی تجویز کی ناکامی اور اس کے اسباب تو دُور رہے اس واقعہ کا علم تک کسی کو نہیں ہے! تب خیال ہوا کہ اس تحریر کو دوبارہ شائع کر دیا جائے‘ چنانچہ اسے ’’قند مکرر‘‘ کے طور پر ’’میثاق‘‘ کی جنوری ۱۹۸۴ء کی اشاعت میں شائع کر دیا گیا. 

اس پر کہروڑ پکا’’ضلع ملتان‘‘ کے ایک عالم دین مولانا اللہ بخش ایاز ملکانوی نے دو خطوط تو راقم کو لکھے اور ایک مضمون معاصر ’الخیر‘ ملتان میں شائع کرایا جس میں اس تحریر کی اشاعت اور تکرار کے پس پردہ جس محرک کا سراغ لگایا وہ ان ہی کے الفاظ میں یہ ہے:
’’مگر ڈاکٹر اسرار احمد اس سے کچھ اور مفہوم اخذ کرنا چاہتے ہیں. ان کے مطابق شیخ الہندؒ کے ارادت مند‘ عقیدت کیش جانشینوں کو اپنے شیخ کی طرح وسعت قلبی اور اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے اس دور میں ایک مثال قائم کرنی چاہیے اور ’’سکہ بند حنفیت‘‘ زہد و تقویٰ کی اجارہ داری اور روایتی‘مدرسی علم کا ادعا آڑے نہیں آنا چاہیے.

آج شیخ الہندؒ کے جانشین اتباع شیخ میں کس کو ’’امیر الباکستان‘‘ تسلیم کر لیں‘ اس کی وضاحت امیر تنظیم اسلامی نے نہیں فرمائی مگر ان کے پرپیچ‘پُر اسرار اور دبے دبے لفظوں میں جس شخصیت کے بارے میں وسعت قلبی اور اعلیٰ ظرفی اختیار کیے جانے کا مطالبہ چھلک رہا ہے‘ وہ چشم بد دور ’’حضرت اقدس ڈاکٹر صاحب‘‘ ہی کی ذاتِ گرامی قدر معلوم ہوتی ہے. مگر غالباً انہوں نے ازراہِ کسرنفسی اپنے نام کی صراحت نہیں فرمائی. باقی

؏ یہی کہتے ہیں وہ اور کیا کہنے کو ہے!
اور ؏ ہے تجھ میں مکر جانے کی ہمت تو مکر جا!‘‘
اس کے جواب میں جو کچھ میں نے انہیں تحریر کیا تھا اُس کے بعض ضروری حصے بھی فوری مراجعت کے لیے پیش خدمت ہیں:

’’البتہ اس کے بین السطور میں آپ نے میری جس ’’نیت‘‘ یا ’’خواہش‘‘ کا سراغ لگایا ہے‘ میں اس کی بالکلیہ نہ تردید کرتا ہوں نہ توثیق. من وجہ اقرار ہے اور من وجہ انکار!
ایک شاعر کے قول ’’ہم اقراری مجرم ہیں‘‘ کے مصداق مجھے برملا اعتراف ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے جس کام کے لیے اپنی زندگی وقف کر دینے کی توفیق عطا فرمائی ہے اور جس کے لیے میں نے اپنے پیشہ طب کو بھی خیر باد کہا ہے‘ وہ وہی ہے جس کی بیسویں صدی عیسوی میں پہلی بار نہایت زور دار دعوت دی تھی مولانا ابو لکلام آزاد مرحوم نے ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ کے ذریعے. اور جس کے لیے انہوں نے عملی جدوجہد کا آغاز بھی ’’حزب اللہ‘‘ کے قیام کی صورت میں کر دیا تھا. لیکن جسے وہ بعض داخلی عوامل اور خارجی موانع کے باعث جلد ہی بد دل ہو کر چھوڑ بیٹھے.‘‘ (’’میثاق‘‘ نومبر۱۹۸۴ء‘ ص ۶۰)

’’… بہر حال میرے نزدیک مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم کے اس انتقال موقف سے جو جگہ خالی ہوئی تھی اسی کو پُر کرنے کے لیے اٹھے تھے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی مرحوم. چنانچہ یہ محض ’’اتفاق‘‘ نہیں ہے کہ مولانا مودودی مرحوم کی پہلی تصنیف تھی ’’الجھاد فی الاسلام‘‘ جو گویا نہایت بسیط اور مدلل صدائے بازگشت تھی ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ کی دعوتِ جہاد فی سبیل اللہ کی. اور مولانا آزاد مرحوم کی تفسیر اور مولانا مودودی مرحوم کے ماہنامے دونوں کا نام ایک ہی ہے یعنی ’’ترجمان القرآن‘‘.

مولانا مودودی مرحوم کے بعض نظریات سے شدید اختلاف کے باوجود میری رائے ہے کہ انہوں نے اصلاً اس دعوت کے تسلسل کو قائم رکھا جس کے داعی اول مولانا آزاد تھے اور اس سلسلے میں یقینا قابل لحاظ پیش رفت بھی کی. لیکن افسوس کہ جس طرح ان کے پیش رو اپنے رُخ کی تبدیلی کے بعد کلیۃً وقف ہو کر رہ گئے تھے ہندوستان کی قومی سیاست کے ‘اسی طرح مولانا مودودی اور ان کی قائم کردہ جماعت اسلامی بھی آزادیٔ ہند اور قیامِ پاکستان کے بعد ’’پاکستانی قومی سیاست‘‘ کی نذر ہو گئے اور اس طرح خالص اقامت دین و غلبہ ٔدین کی جدوجہد اور اسلام کی انقلابی دعوت کا تسلسل پھر ٹوٹ کر رہ گیا چنانچہ اسی کے احیاء کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دینے کا عزم مصمم کیا ہے ان سطور کے حقیر و عاجز راقم نے. اور اس کام میں وہ اپنے آپ کو محتاج پاتا ہے جملہ علمائے دین‘بالخصوص حلقہ ٔدیوبند کے وابستگان کی اعانت اور سرپرستی کا. چنانچہ یہ ہے میری اصل خواہش یا تمنا‘ جسے آپ نے میری تحریر کے بین السطور پڑھا ہے‘ اور اس حد تک میں ’’اقراری مجرم‘‘ ہوں. لیکن اگر آپ اسے تعبیر کرتے ہیں ’’امام الباکستان‘‘ بننے کی خواہش اور منصب کی تمنا سے تو یہ میرے نزدیک ع ’’جوچاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے‘‘ کے مصداق خالصتاً آپ کے اپنے ذہن کی تخلیق و اختراع ہے جس سے میں اظہار براء ت کرتا ہوں اور آپ سے بھی عرض کرتا ہوں کہ ’’اِجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ‘‘ کی قرآنی ہدایت کو پیش نظر رکھیں اور اس سوءِ ظن سے اجتناب فرمائیں. 

الحمد للہ کہ مجھ پر یہ حقیقت پوری طرح منکشف ہے کہ کسی ایک انسانی زندگی کے مختصر سے عرصہ میں کسی خطہ ٔزمین میں دعوت اسلامی کے آغاز سے اقامت و غلبہ دین کی آخری منزل تک کے جملہ مراحل یا بالفاظِ دیگر اسلامی انقلاب کی تکمیل کا واقعہ تو پوری انسانی تاریخ میں ایک ہی بار ہوا ہے. یعنی سید الاولین والآخرین اور امام الانبیاء و المرسلین  کے دست مبارک سے. اور آپؐ ہی کے مقصد بعثت کی آخری تکمیل (بقول امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ )‘ (ازالۃ الخفائ) کے طور پر یہ کام ایک بار پھر ہو گا اور عالمی سطح پر ہو گا. لیکن اس کے لیے آپؐ کے غلاموں کو کئی نسلوں تک مسلسل جدوجہد کرنی ہو گی اور ایک ایک نسل کے دوران اس عمل کو ایک ایک درجہ آگے بڑھا دینا بھی اُمت کے لیے بہت بڑی کامیابی ہے اور جو خوش قسمت افراد اس کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دیں ان کے لیے بہت بڑی سعادت ہو گی. اور اس ضمن میں اپنی تمام تر ناکامیوں کے باوصف جو خدمت انجام دی تھی مولانا آزاد نے. اسی کے چراغ سے روشن ہوا جماعت اسلامی کا دیا‘ اور اب اس کی بھی ناکامی کے بعد انشاء اللہ اسی کی خاکستر سے نئی چنگاریاں روشن ہوںگی اور میں اپنی تمام تر بے بضاعتی کے باوجود ’’خواہشمند‘‘ ہوں ؎

اُحِبُّ الصَّالحینَ و لستُ منھم لعل اللّٰہ یرزقنی صلاحًا

کے مصداق اسی فہرست میں اپنا نام درج کرانے کا. لیکن ہرگز مبتلا نہیں ہوں اس خبط و حماقت میں کہ یہ عظیم کام میری امامت میں سرانجام پائے گا اور میں نہ صرف یہ کہ مجددین کی فہرست میں جگہ پا جاؤں گا بلکہ بقول مولانا مودودی ’’مجدد کامل‘‘ کے مقام پر فائز ہوجاؤں گا!‘‘ (’’میثاق‘‘ نومبر ۱۹۸۴ء‘ص ۶۲.۶۳)

البتہ جہاں تک حضرت شیخ الہندؒ کے تلامذہ کا تعلق ہے تو اگرچہ میں مجموعی اعتبار سے بھی ان سب کی عظمت اور جلالت شان کا تہہ دل سے قائل و معترف ہوں‘ اور ان میں سے ایک ایک کے اپنے اپنے مقام پر علم و فضل‘تقویٰ و تدین‘خلوص و اخلاص اور عظمت کردار کا نقش میرے دل پر قائم ہے. بلکہ میں نے کہیں پہلے بھی یہ لکھا ہے اور اب پھر اعادہ کر رہا ہوں کہ میرے نزدیک جس طرح امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی جامعیت کبریٰ کی مظہر ہیں ان کی تصانیف و تالیفات‘ اسی طرح حضرت شیخ الہندؒ کی ’’جامعیت کبریٰ‘‘ کے مظہر اتم ہیں ان کے تلامذہ بحیثیت مجموعی. تاہم راقم اپنے اس واقعی احساس کے اظہار پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے کہ انفرادی طور پر ان عظیم شخصیتوں میں سے کوئی ایک بھی اُن کی سی ’’جامعیت‘‘ کی حامل نظر نہیں آتی‘ اس ضمن میں بھی راقم اپنی آج سے دس سال قبل کی تحریر کا اقتباس پیش کر رہا ہے‘ اس لیے کہ آج بھی اُس کی رائے یہی ہے :
’’اور اس پس منظر میں‘ ہمیں معاف فرمایا جائے اگر ہم اپنے آپ کو اپنے اس احساس کے اظہار پر مجبور پائیں‘ کہ اُن کے جانشینوں میں سے مختلف حضرات ان کی ہمہ گیر شخصیت کے مختلف پہلوئوں کے وارث تو ضرور بنے‘ لیکن کوئی بھی ان کی جامعیت کا وارث نہ بن سکا. گویا ؎

نہ اٹھا پھر کوئی رومیؔ عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب و گل ایراں وہی تبریز ہے ساقی!

اور صورتِ حال بالکل اس شعر کے مصداق ہو گئی کہ ؎

اڑائے کچھ ورق لالے نے‘ کچھ نرگس نے‘ کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری!

خصوصاً وہ حضرات جو سیاست یا جہادِ حریت‘یا تحریک استخلاصِ وطن کے میدان میں ان کے جانشین بنے‘ انہوں نے تو اپنے گرد تقلید جامد کا لبادہ اس قدر کس کر لپیٹا کہ دنیا اِدھرسے اُدھر ہو گئی لیکن انہوں نے اپنے موقف میں ترمیم کی کوئی ضرورت محسوس نہ کی.‘‘ (تحریر ۱۹۷۵ء .’’میثاق‘‘ جنوری ۱۹۸۴ء‘ص ۶۱)

اس ضمن میں مولانا اخلاق حسین قاسمی مدظلہ کی تحریر کے پیش نظر راقم اپنی اس رائے کے اظہار کی بھی ادب کے ساتھ اجازت چاہتا ہے کہ حضرت شیخ الہندؒ کے تلامذہ یا حضرت کے شاگردوں کی اصطلاح تو درست ہے‘ لیکن ’’شیخ الہندؒ کی جماعت‘‘ یا ’’جماعت شیخ الہند‘‘ کی اصطلاح جو مولانا نے اپنی اس تحریر میں گیارہ بار استعمال کی ہے‘ واقعہ کے خلاف ہے. اور راقم کا شدید احساس ہے کہ اصل میں یہی وہ کمی ہے جو اس حلقے میں رہی جس کے باعث ان نابغہ ٔروزگار ہستیوں سے جو برکاتِ عظیمہ ملت اسلامیہ ہندیہ کے حق میں ظہور پذیر ہو سکتی تھیں وہ بتمام و کمال نہ ہو پائیں جس کے نتیجے میں ان کی حیثیت قومی اور سیاسی سطح پر مآلِ کار اور نتائج واقعی کے اعتبار سے عظیم تر اور سیکولر مزاج سیاسی تحریکوں کے ’’ضمیموں‘‘ کی ہو گئی. چنانچہ اسی پس منظر میں اصل عظمت ابھر کر سامنے آتی ہے حضرت شیخ الہندؒ کی اس خواہش کی کہ کسی کو امام الہندؒ مان کر اُس کے ہاتھ پر بیعت کر لی جائے تاکہ ایسا نہ ہو کہ ان کی جامع و مجمع ذات کے اٹھتے ہی وہ انجمن منتشر ہو جائے جو انہوں نے عمر بھر کی کمر توڑ دینے والی مشقت سے سجائی تھی اور اسی سے سمجھ میں آتا ہے اس مسئلے میں حضرتؒ کے انہماک کی شدت کا سبب کہ بقول مولانا سعید الرحمن علوی (سابق مدیر ’’خدام الدین‘‘ لاہور) کہ:

’’شیخ الہندؒ نے شدید علالت کے دوران جمعیت علماء ہند کے دوسرے جلسہ ۱۹ تا ۲۱ نومبر ۱۹۲۰ء بمقام دہلی کی صدارت بھی فرمائی تھی اور خطبہ ٔصدارت بھی ارشاد فرمایا تھا. بقول مولانا محمد میاں ’’بیماری و نقاہت کے سبب تھوڑی دیر بھی اسٹیج پر بیٹھنا دشوار تھا‘‘ لیکن اس اجلاس کے اہم ترین ایجنڈا یعنی امیر الہند کے انتخاب کے سلسلے میں ان کے احساسات یہ تھے ’’میری چارپائی اٹھا کر جلسہ گاہ میں لے جائی جائے. اور یہ کام کر لیا جائے. پہلا شخص جو بیعت کرے گا وہ میں ہوں گا.‘‘ (میثاق‘ اکتوبر ۱۹۸۳ء‘ بحوالہ تاریخ امارت‘ص ۵۲

’’ما شاء اللّٰہُ کانَ و ما لم یشاء لم یکن‘‘ اور ’’ان کلمۃ ’لو‘ تفتَحُ عملَ الشیطان‘‘ کے پیش نظر قلم اور زبان پر گرہ لگ جاتی ہے ورنہ دل کی گہرائیوں سے تو ہوک سی اُٹھتی ہے کہ کاش! حضرت شیخ الہندؒکے تلامذہ اس مرحلہ پر یا حضرت کی وفات کے فوراً بعد اگر مولانا آزاد مرحوم پر دل نہیں ٹھکتا تھا تو اپنے میں سے کسی اور کے ہاتھ پر ’’اطاعت فی المعروف‘‘ کی بیعت کر لیتے تو بعد میں صرف مزاج اور افتادِ طبع اور رائے اور خیال کے اختلاف نے جو گل کھلائے وہ نہ کھلتے اور یہ حضرات ایک بنیان مرصوص کی مانند ’’آمُرُکُمْ بِخَمْسٍ: بِالْجَمَاعَۃِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَالْھِجْرَۃِ وَالْجِھَادِ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ‘‘ پر باحسن وجوہ عمل پیرا ہو سکتے. 

کہا جا سکتا ہے کہ حضرت شیخ الہندؒ کی زندگی میں ان کی ’’جماعت‘‘ کون سی ’’بیعت‘‘ پر قائم تھی جو عند الوفات یا بعد الوفات اس معاملے کی اس قدر اہمیت ہو گئی؟؟ تو اس کا جواب مسکت تو یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ ’’کسی شئے کا عدم ثبوت اُس کے وجود کے عدم کو مستلزم نہیں ہے!‘‘ ویسے راقم کے نزدیک اس کی اصل وجہ وہی ہے جو نبی اکرم  کے اس طرزعمل کی تھی کہ مکہ میں پورے دس برس تک جو لوگ ایمان لائے اُن سے آپ نے کوئی بیعت نہیں لی لیکن مدینہ والوں سے آپؐ نے ایک چھوڑ دو دو بیعتیں لیں. اس کا سبب جو بادنیٰ تامل سمجھ میں آ جاتا ہے‘ یہ ہے کہ مکہ میں آنحضور بنفس نفیس موجود تھے اور جملہ اہل ایمان آپؐ کی اطاعت کرتے ہی تھے لہٰذا ’’قیام جماعت‘‘ یا ’’نظم سمع و طاعت‘‘ کے لیے کسی رسمی بیعت کی چنداں ضرورت نہ تھی‘ لیکن مدینہ والوں کا معاملہ مختلف تھا .وہاں کے لیے آنحضور نے بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر بارہ نقیب نامزد فرمائے تھے اور آپؐ کی عدم موجودگی میں وہاں کے مسلمانوں کو ان ہی کی اطاعت کرنی تھی. چنانچہ آپؐ نے ان سے ان جامع الفاظ میں بیعت لی جو حضرت عبادہ بن صامت hسے متفق علیہ روایت میں منقول ہیں: 

بَایَعْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِی الْـعُسْرِ وَالْـیُسْرِ وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ وَعَلٰی اَثَرَۃٍ عَلَیْنَا وَعَلٰی اَنْ لاَّ نُـنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ وَعَلٰی اَنْ نَقُوْلَ بِالْحَقِّ اَیْنَمَا کُنَّا لَا نَخَافُ فِی اللّٰہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ (متفق علیہ)
’’ہم نے بیعت کی رسول اللہ  سے سننے اور ماننے کی‘ تنگی میں بھی اور کشادگی میں 
بھی اور طبیعت کی آمادگی کی کیفیت میں بھی اور ناگواری کے احساس کے باوصف بھی اور اس پر بھی کہ ہم پر خواہ کسی کو بھی ترجیح دی جائے‘ اور اس پر بھی کہ ہم اصحاب امر سے جھگڑیں گے نہیں البتہ حق بات ضرور کہیں گے خواہ کہیں بھی ہوں‘ اللہ کے معاملے میں کسی بھی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کریں گے.‘‘

بعینہٖ یہ معاملہ یہاں تھا کہ جب تک حضرت شیخ الہندؒ موجود تھے رسمی بیعت کے بغیر بھی کام چل سکتا تھا. اگرچہ واقعات یہ ہیں کہ مولانا ابو الکلام آزاد نے ۱۹۱۲ء میں ’’الہلال‘‘ جاری کرنے کے ایک ہی سال بعد یعنی ۱۹۱۳ء میں بعض حضرات سے بیعت لی اور اس طرح ’’حزب اللہ‘‘ وجود میں آ گئی. لیکن ۱۹۱۵ء میں انہوں نے حضرت شیخ الہندؒ کو آمادہ کر لیا اور خود اپنے متوسلین سمیت ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی. اس کے بعد ایک اختلافِ رائے پیش آ گیا‘ مولانا آزاد کی رائے تھی کہ حضرتؒ ہندوستان ہی میں مقیم رہ کر تحریک چلائیں‘ لیکن بعض دوسرے اصحاب الرائے نے مشورہ دیا کہ حجاز تشریف لے جائیں اور وہاں مرکز بنائیں‘ مولانا آزاد کا فرمانا ہے کہ ’’افسوس کہ حضرتؒ نے دوسری رائے کو اختیار فرمایا!‘‘ بہر حال حجاز سے حضرتؒ کی گرفتاری عمل میں آ گئی اور وہاں سے واپسی اس وقت ہوئی جبکہ شمع حیاتِ دنیوی گُل ہوا چاہتی تھی‘ چنانچہ یہ ہے وہ مرحلہ جس پر حضرتؒ کی شدید خواہش تھی کہ مولانا آزاد کے ہاتھ پر بیعت ہو جائے لیکن افسوس کہ بوجوہ ان کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی!

مولانا قاسمی مدظلہٗ کی تحریر سے مترشح ہوتا ہے کہ وہ صرف ’’جمعیت علماء ہند‘‘ ہی کو ’’حضرت شیخ الہند کی جماعت‘‘ قرار دیتے ہیں. راقم کے نزدیک یہ رائے دو اعتبارات سے محل نظر ہے:

ایک یہ کہ ’’جمعیت علماء ہند‘‘ کو ’’جماعت‘‘ قرار دینا ہی صحیح نہیں ہے‘ اسے زیادہ سے زیادہ ’’علماء ہند کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم‘‘ قرار دیا جا سکتا ہے. سنن دارمیؒ کی مرفوع روایت میں یہ الفاظ مبارکہ موجود ہیں کہ ’’لاَ جَمَاعَۃَ اِلاَّ بِالْاَمَارَۃَ‘‘ لہٰذا چونکہ جمعیت علماء ہند ’’جماعت‘‘ نہ تھی اسی لیے اُس میں صدارت تھی ’’امارت‘‘ نہ تھی! (۱

ثانیاً اگر ’’جماعت شیخ الہند‘‘ کے الفاظ وسیع تر معنی میں لیے جائیں تو اس کے اہم ترین ’’ارکان‘‘ میں سرفہرست نام آئیں گے مولانا عبید اللہ سندھی اور مولانا ابو الکلام آزاد کے‘ (۱) اس موضوع پر بعض دلچسپ حقائق مولانا نعمانی کی اس تحریر میں مذکور ہیں جو اس شمارے میں شائع کی جا رہی ہے. پھر نام ہوں گے مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے‘ پھر نام آئیں گے ایک جانب کثیر تعداد میں علماء کرام کے‘ جن میں سرفہرست ہوںگے مولانا انور شاہ کاشمیریؒ ‘مولانا احمد سعید دہلویؒ ‘مفتی کفایت اللہؒ اور مولانا ابو المحاسن سجاد بہاریؒ اور دوسری جانب ایک بڑی تعداد میں غیر علماء کے‘ جن میں سرفہرست ہوں گے حکیم اجمل خان اور ڈاکٹر انصاری وغیرہم. 

بلکہ یہ فہرست نا مکمل رہے گی حضرت مولانا محمد الیاسؒ کے نام نامی اور اسم گرامی کے بغیر‘ اس لیے کہ اُن سے بھی یہ قول منقول ہے کہ: ’’میں بھی حضرت شیخ الہندؒ کی جماعت ہی کا آدمی ہوں‘‘. جس کے راوی ہیں مولانا افتخار احمد فریدی مراد آبادی مدظلہٗ. اگرچہ اس میں ہرگز کوئی شک نہیں کہ حضرت شیخ الہندؒ کے انتقال کے کچھ عرصے بعد ’’جمعیت علماء ہند‘‘ کے پلیٹ فارم پر مولانا مدنی ؒ کی شخصیت اپنے جذبہ و جوش‘محنت و مشقت‘تواضع و ایثار اور مجاہدانہ سیرت و کردار کی بنا پر کلیۃً چھا گئی تھی. چنانچہ بقیہ حضرات میں سے جو بھی اپنے مزاج اور افتاد یا پالیسی اور حکمت عملی کے اعتبار سے ان سے ہم آہنگی اختیار نہ کر سکا وہ نہایت خاموشی اور حلم و وقار کے ساتھ ابتداء ً غیر فعال اور رفتہ رفتہ غیر متعلق ہوتا چلا گیا اور اس طرح جہاد حریت اور تحریک استخلاصِ وطن کے میدان میں حضرت شیخ الہندؒ کے مسلمہ جانشین کی حیثیت حاصل ہو گئی مولانا مدنی ؒ اور ان کی زیر قیادت جمعیت علماء ہند کو. 

مولانا آزاد مرحوم ۱۹۲۰ء کے بعد بھی اگرچہ جمعیت علماء ہند کے جلسوں میں شرکت فرماتے رہے‘ لیکن اصلاً انہوں نے کچھ علماء کے رویے سے بد دل ہو کر (۱اور کچھ اس شعر کے (۱) اس ضمن میں مولانا قاسمی مدظلہٗ نے مولانا آزاد کے حلم و وقار اور عالی ظرفی کا تذکرہ جن الفاظ میں کیا ہے وہ تو راقم کے نزدیک بہت قیمتی ہیں‘ یعنی:

’’جس ہستی (مولانا آزاد) کی امامت کے مسئلے کو وہ (یعنی راقم الحروف) سند کے طور پر علماء دیوبند کے سامنے پیش کر رہے ہیں اُس دانش مند ہستی نے امامت کی تجویز کو حالات کے پیش نظر کس طرح لپیٹ کر رکھ دیا اور ساری زندگی مولانا مرحوم اسے زبان و قلم پر نہ لائے. امامت کی تجویز کی مخالفت گھر میں ہوئی. ان رفقاء سے ہوئی جو مولانا آزاد کی رفاقت میں کام کر رہے تھے مگر مولانا نے حالات کے تیور دیکھ کر ہمیشہ کے لیے خاموشی اختیار کر لی اور کبھی شکوہ و شکایت زبان پر نہ لائے!‘‘

تاہم یہ عرض کرنے کو ضرور جی چاہتا ہے کہ اس کا مطلب یہ تو نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی اور بھی اس اہم واقعہ کا ذکر نہ کرے اور اسلامیانِ ہند کی بیسویں صدی عیسوی کی تاریخ کے اس اہم باب کو ہمیشہ کے لیے پردۂ اخفاء ہی میں رہنے دیا جائے. مصداق کہ ؎

کچھ اور چاہیے وسعت میرے بیاں کے لیے
سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے!

اپنی طبیعت کی جولانیوں کے لیے انڈین نیشنل کانگریس ہی کے پلیٹ فارم کو مستقلاً اختیار کر لیا. تاہم چونکہ سیاسی میدان میں کانگریس اور جمعیت کی حکمت عملی ایک ہی رہی‘ لہٰذا ان دونوں بزرگوں کے مابین تا زیست کوئی تصادم تو درکنار کوئی اختلاف رائے بھی سامنے نہیں آیا. 

’’جماعت شیخ الہند‘‘ کے ان متذکرہ بالا اساطین میں سے مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم کے تفصیلی ذکر کی یہاں چنداں ضرورت نہیں ہے. اس لیے بھی کہ وہ ہندوستان سے باہر چلے گئے تھے اور ان کی واپسی کم و بیش رُبع صدی کے بعد ہوئی‘ اور اس لیے بھی کہ وہ ایک متنازعہ شخصیت ہیں اور ان کی زندگی کے آخری دَور کے نظریات و خیالات کے بارے میں متضاد آراء ملتی ہیں (البتہ قارئین میثاق کی دلچسپی کے اعتبار سے ان کے ایک قول کے نقل کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں ہوتا جس کے سامع و راوی حاجی عبد الواحد صاحب بحمد اللہ تاحال بقید حیات ہیں‘ ان کا کہنا ہے کہ وطن واپسی پر جب مولانا سندھی لاہور تشریف لائے اور انہوں نے اپنے شاگرد رشید یعنی حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے مشاغل کا مشاہدہ و مطالعہ کیا تو نہایت برہمی کے انداز میں فرمایا ’’میں نے اسے اس کام کے لیے تو تیار نہیں کیا تھا!!‘‘). بہرحال اس میں ہرگز کوئی شک نہیں کہ مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم حضرت شیخ الہندؒ ہی کی جماعت کے اہم فرد تھے اور مولانا احمد علی لاہوریؒ کا سلسلہ بھی یقینا حضرت شیخ الہند ہی کے سلسلے کی ایک کڑی ہے. 

مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم کا معاملہ البتہ نہایت اہم بھی ہے اور بہت پیچیدہ بھی لہٰذا قدرے طوالت طلب ہے!

سب کو معلوم ہے کہ مولانا نہ حضرت شیخ الہندؒ کے تلامذہ میں سے تھے نہ ہی باضابطہ مستند عالم دین تھے. تقویٰ کا علم تو اللہ ہی کو ہو سکتا ہے‘ تدین کے اعتبار سے وہ کسی طرح علماء کرام کے معیار پر پورے نہیں اترتے تھے اور خود ان کا قول ہے کہ ’’ہم گلیم زُہد اور ردائے رندی کو بیک وقت اوڑھنے کے جرم کے مرتکب ہیں!‘‘ مزید برآںوہ پختہ مقلد اور پکے حنفی بھی نہ تھے‘ بلکہ (حضرت مولانا عزیز گل مدظلہٗ سے ایک حالیہ ملاقات میں شنیدہ جملے کے مطابق) واقعتا ’’آزاد‘‘ تھے! اور ’’دینی فکر‘‘ کے اعتبار سے ان کا سب سے قریبی اور مضبوط ترین تعلق امام ابن تیمیہؒ سے تھا (بلکہ برصغیر کے مسلمانوں کا امام ابن تیمیہؒ سے تعارف اصلاً اُن ہی کے ذریعے ہوا!) 

دوسری طرف یہ بھی سب ہی جانتے ہیں کہ ذہانت اور فطانت کے اعتبار سے ان کا مقام بہت بلند تھا اور وہ واقعتا ’’ابو الکلام‘‘ تھے‘ اسی طرح ادب و انشاء اور صحافت کے میدان کے بھی وہ عظیم شہسوار تھے‘ عربی اور فارسی پر تو انہیں عبور حاصل تھا ہی‘متعدد یورپین زبانوں پر بھی دسترس رکھتے تھے‘ اور بالکل نوجوانی کی عمر میں وہ اچانک اس طرح اُبھر کر سامنے آئے تھے کہ وقت کی بڑی بڑی ہستیاں اور عظیم شخصیتیں حیران ہو کر رہ گئی تھیں. 
لیکن ان کی اصل اہمیت اس اعتبار سے تھی کہ انہوں نے مسلمانانِ ہند کی ایک بہت بڑی تعداد کو خوابِ غفلت سے بیدار کر دیا اور ان کے سامنے نہ صرف یہ کہ ’’اعلائِ کلمۃ اللہ‘‘ یا ’’قیامِ حکومت الٰہیہ‘‘ کا نصب العین رکھ دیا بلکہ اس کے لیے صحیح طریق کار کی بھی نشاندہی فرما دی اور امام مالکؒ کا یہ قول یاد دلا کر کہ 
’’لا یصلح آخرُ ھٰذہِ الامّۃِ الّا بما صلح بہٖ اوّلھا ‘‘ واضح کر دیا کہ اس مقصد کے لیے پیش قدمی صرف اور صرف نبویؐ منہج عمل پر ممکن ہے! جس کے تین لازمی اجزاء ہیں: (۱) دعوت و تبلیغ اور تطہیر افکار و تعمیر سیرت بذریعہ قرآن (۲) بفحوائے حدیث نبویؐ : آمُرُکُمْ بِخَمْسٍ: بِالْجَمَاعَۃِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَالْھِجْرَۃِ وَالْجِھَادِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ تنظیم اور شیرازہ بندی بذریعہ بیعت (۳) جذبہ و جوشِ جہا داور ذوق و شوق شہادت!

اہم ترین بات یہ کہ ذہانت وفطانت کی بہتات کے ساتھ ساتھ مولانا میں ہمت و عزیمت کی فراوانی کا عالم یہ تھا کہ ۱۹۱۲ء میں چوبیس برس کی عمر میں ’’الہلال‘‘ جاری کیا‘جس نے ایک سال کی مختصر مدت کے اندر اندر برصغیر کے طول و عرض میں تہلکہ مچا دیا‘ اور پھر اگلے ہی سال یعنی ۱۹۱۳ء میں ’’بیعت‘‘ کی اساس پر بالفعل ’’حزب اللہ‘‘ قائم فرما دی. 
مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم کی شخصیت کا یہی پہلو ہے جس نے شیخ وقت اور استاذ العلماء حضرت شیخ الہندؒ کو ان کا گرویدہ بنا دیا‘ اور گرویدہ بھی اتنا کہ حضرت شیخ کے یہ الفاظ تو مشہور و معروف ہیں ہی کہ ’’اس نوجوان نے ہمیں ہمارا بھولا ہوا سبق یاد دلا دیا ہے!‘‘ (ان الفاظ کی توثیق راقم الحروف نے ذاتی طور پر حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ سے بھی حاصل کر لی تھی!) مولانا سعید احمد اکبر آبادی مدظلہٗ کی روایت کے مطابق ۱۹۱۵ء میں حادثہ کانپور کے بعد حالات 
کو سنبھالنے کے لیے جب یوپی کے لیفٹیننٹ گورنر دارالعلوم دیوبند آئے اور اُن کے ایما پر مہتمم صاحب نے مولانا ابو الکلام آزاد کے داخلے پر پابندی لگا دی تو احتجاجاً حضرت شیخ الہندؒ نے بھی شرکت سے انکار فرما دیا اور لوگوں کو سمجھانے بجھانے پر کہ حضرت! آپ اس نوجوان کو اتنی اہمیت کیوں دیتے ہیں؟‘‘ حضرت شیخ الہندؒ نے جواباً یہ شعر پڑھا:

کامل اس طبقہ زہاد سے اٹھا نہ کوئی
کچھ ہوئے تو یہی رندانِ قدح خوار ہوئے!

۱۹۱۵ ء میں مولانا نے خود (گویا اپنی ’’حزب اللہ‘‘ سمیت!) حضرت شیخ الہندؒ کے دست حق پرست پر ’’بیعت‘‘ کی‘ اس کے فوراً بعد حضرتؒ کی حجاز روانگی ہو گئی. جہاں سے اسیری اور پھر اسیری سے رہائی کے بعد ۸؍ جون ۱۹۲۰ء کو واپسی ہوئی‘ اور ۳۰؍ نومبر ۱۹۲۰ء کو انتقال ہو گیا. 

حضرت شیخ الہندؒ کی حیاتِ دنیوی کے آخری پونے چھ ماہ جہاں اس اعتبار سے ’’تاریخ دعوت و عزیمت‘‘ کے ایک نہایت درخشاں باب کی حیثیت رکھتے ہیں کہ پیری اور ضعیف العمری کی درماندگی و نقاہت اور عوارض و امراض کے غلبہ و شدت کے باوصف و علی الرغم ان کا جذبۂ جہاد اور جوشِ عمل پورے عروج پر تھا اور دین حق اور اُمت ِمحمد (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ و السلام) کے لیے ان کی درد مندی پورے شباب پر تھی‘ وہاں اس اعتبار سے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے (اور اس پہلو پر افسوس ہے کہ کم ہی توجہ دی گئی ہے) کہ اسی کے دوران ان کے عمر بھر کے غور و فکر‘ مطالعہ و مشاہدہ‘ اور تجربات کا خلاصہ و نچوڑ اور بالخصوص اسارتِ مالٹا کی تنہائیوں کے سوچ بچار اور غور و خوض کا حاصل و لب لباب سامنے آتا ہے. 
چنانچہ یہی ہیں وہ ایام جن کے دوران حضرتؒ کی زبانِ حقیقت ترجمان سے وہ حکیمانہ جملے ادا ہوئے کہ:

’’میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہو رہے ہیں تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے. ایک ان کا قرآن چھوڑ دینا‘دوسرے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی‘ اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کروں کہ قرآن کریم کو لفظاً و معناً عام کیا جائے. بچوں کے لیے لفظی تعلیم کے مکاتب ہر بستی بستی میں قائم کیے جائیں. بڑوں کو عوامی درس قرآن کی صورت میں اس کے معانی سے روشناس کرایاجائے ا ور مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے.‘‘ (ماخوذ از ’’وحدتِ امت‘‘ تالیف مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ علیہ)

غور کا مقام ہے کہ کیا یہ صدائے بازگشت نہیں ہے اُسی نعرئہ حق کی جو مولانا ابو الکلام آزاد نے ۱۹۱۵ء میں ’’البلاغ‘‘ کے پہلے شمارے (مورخہ ۱۲؍ نومبر) میں ان الفاظ میں لگایا تھا:
’’اگر ایک شخص مسلمانوں کی تمام موجودہ تباہ حالیوں اور بد بختیوں کی علت حقیقی دریافت کرنا چاہے اور ساتھ ہی یہ شرط بھی لگا دے کہ صرف ایک ہی علت اَصلی ایسی بیان کی جائے جو تمام علل و اسباب پر حاوی اور جامع ہو تو اس کو بتایا جا سکتا ہے کہ علماء حق و مرشدین صادقین کا فقدان اور علماء سوء و مفسدین و دجالین کی کثرت. 
رَبَّـنَـآ اِنَّا اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَ کُبَرَآئَ نَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِیْلاَ. 

اور پھر اگر وہ پوچھے کہ ایک ہی جملے میں اس کا علاج کیا ہے؟ تو اس کو امام مالکؒ کے الفاظ میں جواب ملنا چاہیے کہ ’’لَا یَصْلُحُ اٰخِرُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ اِلَّا بِمَا صَلَحَ بِہٖ اَوَّلُھَا‘‘ یعنی امت مرحومہ کے آخری عہد کی اصلاح کبھی نہ ہو سکے گی‘ تاوقتیکہ وہی طریق اختیار نہ کیا جائے جس سے اس کے ابتدائی عہد نے اصلاح پائی تھی اور وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ قرآن حکیم کے اصلی و حقیقی معارف کی تبلیغ کرنے والے مرشدین صادقین پیدا کیے جائیں.‘‘ 
پھر انہی ایام میں حضرتؒ نے سفر فرمایا علی گڑھ کا‘ جہاں سنگ بنیاد رکھا ’’جامعہ ملیہ‘‘ کا‘ اور وہاں ارشاد فرمائے یہ تاریخی جملے:

’’اے نونہالانِ وطن جب میں نے دیکھا کہ میرے اس درد کے غم خوار‘ جس سے میری ہڈیاں پگھلی جا رہی ہیں‘ مدرسوں اور خانقاہوں میں کم اور اسکولوں اور کالجوں میں زیادہ ہیں تو میں نے اور چند مخلص احباب نے ایک قدم علی گڑھ کی جانب بڑھایا اور اس طرح ہم نے دو تاریخی مقاموں‘ دیوبند اور علی گڑھ کا رشتہ جوڑا!‘‘ (’’میثاق‘‘ جنوری ۱۹۸۴ء‘ص ۶۲. بحوالہ ’’بیس بڑے مسلمان‘‘)

غور کرنا چاہیے کہ یہ حضرت شیخ کا واقعی احساس تھا یا تصنع و تکلف پر مبنی دلجوئی اور مدارات کا معاملہ؟

پھر اسی سلسلۂ واقعات کا نقطہ ٔعروج ہے حضرتؒ کے ایما پر جمعیت علماء ہند کے اجلاس میں مفتی کفایت اللہ دہلویؒ کی تجویز اور مولانا احمد سعید دہلویؒ کی تائید کے ساتھ پیش ہونے والا ’’امارت و امامت‘‘ اور مولانا ابو الکلام آزاد کے ہاتھ پر ’’بیعت‘‘ کا معاملہ. غور طلب بات ہے کہ کیا امامت ہند کے لیے حضرت شیخ کی نگہ انتخاب کا مولانا آزاد کی ذات پر ٹک جانا محض رواروی کا معاملہ تھا؟ اور کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مسلم انڈیا کے مستقبل کے ضمن میں اُس مرحلے پر حضرت شیخ کی نگاہیں مولانا آزاد ہی کی قیادت و رہنمائی پر مرتکز ہو گئی تھیں؟ چشم تصور سے دیکھئے کہ کیا اُس مجمع میں بیہقی ٔوقت مولانا انور شاہ کاشمیریؒ ایسے محدث و فقیہہ‘ علامۃ الہند مولانا معین الدین اجمیریؒ ایسی جامع معقول و منقول شخصیت اور خود تجویز امامت کے مجوز مفتی اعظم مولانا کفایت اللہ دہلویؒ ایسے فقیہہ و مفتی موجود نہ تھے جو مولانا آزاد کے مقابلے میں علم و فضل کے کوہ ہمالیہ کی حیثیت تو رکھتے ہی تھے عمر میں بھی اُن سے بارہ بارہ تیرہ تیرہ برس بڑے تھے. پھر کیا اسی اجتماع میں مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ ایسی شخصیت موجود نہ تھی جنہیں حضرت شیخ کا اس درجہ اعتماد حاصل تھا کہ اُن کے نمائندے کی حیثیت سے ان کی جانب سے خطبہ صدارت انہوں نے ہی پڑھا تھا اور جنہیں حضرت شیخ الہندؒ کے مزاج اور طرزِفکر سے اس درجہ ہم آہنگی حاصل تھی کہ ترکِ موالات کے ضمن میں فتویٰ کی عبارت حضرت شیخ الہندؒ کو ان ہی کی پسند آئی تھی. پھر خواہ اس اجتماع سے غیر حاضر ہی سہی لیکن ہندوستان میں اُس وقت موجود نہ تھے ؟ مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ جو علم و فضل اور تقویٰ و تدین کا پہاڑ تو تھے ہی‘ پورے ساڑھے چار سال حضرت شیخ کے شب و روز کے رفیق و خادم بھی رہے تھے؟ (واضح رہے کہ عمر میں مولانا آزاد سے مولانا عثمانی ؒ تین برس اور مولانا مدنی ؒ نو؍دس برس بڑے تھے). پھر اگر ان سب کی موجودگی میں حضرت شیخ کی نگاہِ انتخاب مولانا آزاد مرحوم پر ٹک گئی تو کیا اس سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہو گا کہ 

اگر ’’حضرت شیخ الہندؒ کی جماعت‘‘ کسی حقیقت واقعہ کا نام ہے تو ۱۹۲۰ء میں اُس کا عظیم ترین مظہر مولانا کلام آزاد کی ذات تھی! (۱

اور اگر یہ صحیح ہے کہ یہ۱۹۱۲ء تا۱۹۲۰ء والے مولانا ابوالکلام آزاد ہی کی شخصیت کا معنوی تسلسل تھا جو ۳۲.۱۹۳۳ء میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی صورت میں سامنے آیا اور یہ ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ ہی کے پیغام کی صدائے بازگشت تھی جو ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ کے ذریعے دوبارہ لوگوں کے کانوں تک پہنچی اور یہ ’’حزب اللہ‘‘ ہی کی بدلی ہوئی صورت تھی جو ۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی کی شکل میں سامنے آئی تو کیا یہ نتیجہ نکالنا غلط ہو گا کہ: 
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی مرحوم بھی حضرت شیخ الہندؒ ہی کی جماعت کے ایک فرد تھے اور ان کا ترتیب دیا ہوا قافلۂ غلبہ و اقامتِ دین بھی ’’جماعت شیخ الہندؒ ‘‘ ہی کی ایک شاخ تھا! 

اور چونکہ راقم الحروف کو حق الیقین کے درجہ میں وثوق حاصل ہے کہ ابو الکلام آزاد مرحوم اور ابوالاعلیٰ مرحوم کی دعوت‘ اور ’’حزب اللّٰہ‘‘ اور ’’جماعت اسلامی‘‘ کی تنظیمی ہئیتیں ایک ہی سلسلہ کی کڑیاں ہیں‘ لہٰذا راقم کو نہایت پسند بھی آئے اور حد درجہ معنی خیز بھی نظر آئے مولانا اخلاق حسین قاسمی مدظلہٗ کے مولانا مودودی کے بارے میں ’’علماء دیوبند کے فیض یافتہ عالم‘‘ کے الفاظ !

جہاں تک مولانا آزاد مرحوم کی حیاتِ دنیوی کے ۱۹۲۰ء تا ۱۹۵۸ء کے دَور کا تعلق ہے مجھے اصلاً اُس سے نہ دلچسپی ہے نہ بحث. اور اپنی بیس سالہ پبلک لائف کے دوران میں نے اس کے بارے میں نفیاً یا اثباتاً بہت ہی کم کہا یا لکھا ہے. تاہم ریکارڈ درست رکھنے کے لیے عرض ہے کہ میرے نزدیک اس مسئلے کے تین گوشے ہیں: ایک ذاتی سیرت و کردار اور اس کا بھی ایک گوشہ ہے بنیادی انسانی کیریکٹر کا اور دوسرا گوشہ ہے تقویٰ و تدین کا! دوسرے نظریات و خیالات اور تیسرے سیاسی حکمت عملی. 

جہاں تک سیاسی حکمت عملی کا تعلق ہے وہ مولانا آزاد کی بھی وہی تھی جو مولانا حسین احمد مدنی ؒ کی زیر قیادت جمعیت علماء ہند کی رہی‘ لہٰذا اُس کے ضمن میں تو بات یکجا ہو گی.

جہاں تک بنیادی انسانی اخلاقیات اور اساسی سیرت و کردار کا تعلق ہے‘ پوری دنیا اُن کے کیریکٹر کا لوہا مانتی ہے اور سوائے اس کے کہ کانگریس اور مسلم لیگ کی سیاسی کشمکش اور رسہ کشی کی شدت کے دَور میں بعض رکیک باتیں بھی ان کے بارے میں کہی گئیں‘ جو ایک خاص دَور کی (۱) اس ضمن میں راقم کو شدت کے ساتھ احساس ہوتا ہے کہ مولانا آزاد سے اس درجہ محبت و وقعت اور ان کی جانب اتنی عنایت و التفات کی بنا پر حضرت شیخ کے بہت سے معتقدین و متوسلین کے احساسات و جذبات کی کیفیت اور خاص اس معاملے میں حضرت شیخ کے بارے میں ان کی سوچ کا رُخ کیا ہو گا. اس کا اندازہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی حضرت یوسف علیہ السلام سے والہانہ محبت کی مثال سے لگایا جا سکتا ہے جس کے ضمن میں قرآن مجید میں آنجنابؑ کے فرزندوں کا یہ قول نقل ہوا ہے : اِنَّ اَبَانَا لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ اور خود آنجنابؑ کا یہ قول نقل ہوا ہے : لَو لَا اَنْ تُـفَنِّدُوْنِ. شدتِ جذبات کا مظہر تھیں‘ اُن کی ذہانت و فطانت‘فہم و بصیرت اور وسعت فکر و نظر کے ساتھ ساتھ ان کی پامردگی و بلند حوصلگی‘جرأت و شجاعت اور ثبات و استقامت اور ان سب پر مستزاد اُن کی ذاتی شرافت و مروّت‘عالی ظرفی‘وضع داری اور وسعت ِقلب کے بارے میں دو رائیں ممکن نہیں‘ اس معاملے میں مولانا قاسمی مدظلہٗ نے خاص مسئلہ امامت و امارت کے ضمن میں ان کی جس وسعت ظرف کا ذکر کیا ہے اس کا حوالہ پہلے آ چکا ہے. 

البتہ ان کے تقویٰ و تدین اور بعض نظریات و خیالات کے بارے میں متضاد آراء موجود ہیں. تاہم راقم کے نزدیک ان کی ذات کی حد تک تو کف ِلسان اور ’’اُذْکُرُوْا مَوْتَاکُمْ بِالْخَیْرِ‘‘ پر عمل اولیٰ و انسب ہے ہی‘ ان کے خیالات کے بارے میں بھی خود یہ رائے رکھنے کے باوجود کہ کچھ اپنی فلسفیانہ افتادِ طبع اور کچھ گاندھی جی کے قرب کے باعث وہ ان کے مرشد راجہ رام موہن رائے کے ایجاد کردہ ’’نظریہ ٔوحدت ادیان‘‘ سے کسی قدر متاثر ہو گئے تھے‘ راقم کا طرز عمل یہی ہے کہ کبھی اس کا ذکر ہوتا بھی ہے تو نہایت اجمال و اختصار سے‘ اور 
راقم کے نزدیک اصل اہمیت اسلام کی اس اصولی و انقلابی دعوت کی ہے جس کے برصغیر پاک و ہند میں اس صدی کے داعیٔ اول کی حیثیت عطا فرمائی اللّٰہ تعالیٰ نے مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم کو. 

ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤُتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ 

یہی معاملہ راقم کا مولانا مودودی مرحوم کے ساتھ بھی ہے. کہ جہاں تک ان کے شخصی محامد و محاسن یا کوتاہیوں اور تقصیروں کا معاملہ ہے وہ ان کی ذات سے متعلق تھا اور خصوصاً ان کی وفات کے بعد ان کے ’’معائب‘‘ کے بارے میں گفتگو لا حاصل ہی نہیں‘ مضرت بخش بھی ہو سکتی ہے‘ البتہ جہاں تک ان کے نظریات و خیالات کا تعلق ہے ان میں سے جو چیزیں قابل گرفت نظر آئیں ان پر تنقید و تبصرہ نہ صرف یہ کہ نا مناسب نہیں‘ بلکہ لازمی اور ضروری ہے. چنانچہ خود راقم کو ان کے بعض نظریات سے شدید اختلاف ہے (جیسے ان کا نظریۂ حکمت عملی اور تاریخ اسلام کے صدر اول کے دورِ فتن کے حالات و واقعات کے ضمن میں ان کا تجزیہ اور بعض جلیل القدر صحابہ کرامؓ پر ان کی نا روا تنقید و الزام تراشی. اسی طرح تصوف سے ان کا بُعد اور اس کی کلی نفی و تردید وغیرہ) اور ان پر راقم نے مختلف مواقع پر لکھا بھی ہے اور اپنی تقاریر میں 
تفصیلی کلام بھی کیا ہے. اسی طرح راقم الحروف کو ان کی بعد از تقسیم ہند سیاسی حکمت عملی سے جو شدید اختلاف ہے وہ صرف قارئین ’’میثاق‘‘ کے حلقے ہی میں نہیں بلکہ اُس سے کہیں زیادہ وسیع حلقے میں معروف و مشہور ہے‘تاہم ان کے ضمن میں بھی: 

راقم کے نزدیک اصل اہمیت اس اصولی دعوت و تحریک کی ہے جس کے وہ ۱۹۳۹ء تا ۱۹۴۷ء داعی و قائد رہے اور جو اصلاً تسلسل ہے مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم ہی کی ۱۹۱۲ء تا ۱۹۲۰ء کی دعوت و تحریک کا. اور جس کی امانت کا بارِ گراں اب راقم الحروف اپنے ضعیف و ناتواں شانوں پر محسوس کرتا ہے. اور اس اصولی دعوت و تحریک کی حد تک چونکہ مولانا آزاد کو سند حاصل تھی حضرت شیخ الہندؒ کی‘ لہٰذا راقم اپنے آپ کو ان دو ’’واسطوں‘‘ سے اصلاً منسلک سمجھتا ہے شیخ الہندؒ حضرت مولانا محمود حسن رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ساتھ! 

جہاں تک مولانا حسین احمد مدنی ؒ کی زیر قیادت جمعیت علماء ہند اور کانگریس میں شمولیت کی بنا پر مولانا آزاد مرحوم کی سیاسی حکمت عملی کا تعلق ہے‘ مجھے اس میں ہرگز کوئی اشتباہ نہیں ہے کہ وہ اصلاً حضرت شیخ الہندؒ ہی کی اختیار کردہ تھی. اور مجھے مولانا قاسمی مدظلہٗ کے ان الفاظ سے ہرگز کوئی اختلاف نہیں کہ ’’مشترکہ جدوجہد کا منصوبہ شیخ الہندؒ اسارتِ مالٹا سے اپنے ساتھ لائے تھے‘‘ بلکہ مولانا کی تحریر سے میرے علم میں یہ اضافہ ہوا ہے کہ ’’ترکی قائدین نے شیخ کو یہ مشورہ دیا تھا کہ ہندوستانی مسلمان تنہا جدوجہد کر کے انگریزوں کو ہندوستان سے نہیں نکال سکتے. جیسا کہ وہ اب تک ناکام رہے ہیں‘‘ 
(۱بلکہ اس ضمن میں مَیں مولانا مدنی ؒ کے اس موقف کو صد فی صد درست سمجھتا ہوں جو انہوں نے اپنی خود نوشت سوانح ’’نقش حیات‘‘ میں پیش فرمایا ہے کہ (۱) ان ہی دنوں ’’بیس بڑے مسلمان‘‘ نامی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے یہ بات بھی نظر سے گزری‘ اور مجھے اعتراف ہے کہ یہ بھی میرے علم میں اضافہ کا موجب بنی ہے کہ امیر حبیب اللہ خان والی ٔافغانستان نے بھی بعینہٖ یہی مشورہ مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم کو دیا تھا. انگریز کی غلامی سے گلو خلاصی کے لیے ہندوؤں اور مسلمانوں کی مشترکہ جدوجہد کا راستہ تیرہویں صدی کے مجدد‘مجاہد کبیر حضرت سید احمد بریلویؒ کا اختیار کردہ تھا (۱اور اس مسئلے میں جو شدید اورجارحانہ تنقیدیں مولانا مودودی مرحوم نے جمعیت علماء ہند اور عرفِ عام کے مطابق ’’نیشنلسٹ علماء‘‘ پر کیں انہیں مَیں انتہا پسندی کا مظہر سمجھتا ہوں اور میرے نزدیک ایک دفاعی حربے کے طور پر ’’متحدہ قومیت‘‘ کے تصور کو عارضی طور پر اختیار کر لینا ہرگز نہ کفر تھا نہ شرک‘ جیسا کہ مولانا مودودی نے اپنی انتہا پسندی کی بنیاد پر اور اپنی انشاء پردازانہ مہارت کے ذریعے اُسے بنا دیا تھا!

اس موضوع پر بھی راقم کی ۱۹۷۴ء کی تحریر کا ایک اقتباس طوالت کے خوف کے علی الرغم ضروری محسوس ہوتا ہے. یوروپی استعمار سے خلاصی حاصل کرنے کے لیے جو تحریکیں موجودہ صدی کے وسط میں مختلف مسلمان ممالک میں چلیں ان کے تذکرہ میں راقم نے لکھا تھا (’’میثاق‘‘ اکتوبر‘نومبر ۱۹۷۴ء‘حال مشمولہ کتاب ’’سرافگندیم‘‘)

’’اس ضمن میں ایک اور حقیقت بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اگرچہ مختلف مسلمان ممالک میں حصول آزادی کی تحریکوں کی تقویت کے لیے جن علاقائی یا نسلی عصبیتوں کو استعمال (invoke) کیا گیا‘انہیں بھی خالص اصولی اور نظری اعتبار سے اسلام کے نظامِ فکر (۱) اس ضمن میں بھی راقم کی زندگی کا ایک اہم واقعہ ضبط تحریر میں آ جائے تو اچھا ہے. اور وہ یہ کہ ۵۶۱۹۵۵ء میں جب ’’نقش حیات‘‘ شائع ہوئی تو مولانا مودودی مرحوم نے اس پر شدید تنقید ’’ترجمان القرآن‘‘ میں شائع کی. راقم اس وقت جماعت اسلامی کا فعال رکن ہی نہیں جماعت منٹگمری (حال ساہیوال) کا امیر بھی تھا. لیکن اس پر یہ اللہ کا بڑا فضل و احسان ہے کہ وہ اندھا بہرا مقلد کبھی بھی نہیں رہا. چنانچہ راقم نے بعمر (۲۳۲۴ سال) جامعہ رشیدیہ حاضر ہو کر اصل کتاب حاصل کی اور اس کا مطالعہ کیا‘ اور جب یہ حقیقت سامنے آئی کہ حضرت مدنی ؒ کا موقف یہ ہے کہ ہم نے جو سیاسی لائحہ عمل اختیار کیاتھا وہ ہمارے اپنے اجتہاد پر مبنی نہیں تھا بلکہ یہ تو حضرت سید صاحبؒ کا اختیار کردہ تھا جسے ہم نے جاری رکھا ہے تو میں نے جماعت اسلامی ساہیوال کے اجتماعِ ارکان میں برملا یہ الفاظ کہے کہ ’’اس معاملے میں مولانا مودودی سے علمی خیانت کا ارتکاب ہوا ہے‘ اس لیے کہ دیانتداری کا تقاضا ہے کہ یا تو مولانا مدنی ؒ کی اس بات اور اس کے لیے جو حوالے انہوں نے پیش کیے ہیں ان کو چیلنج کیا جائے‘ ورنہ اب اگر تنقید کرنی ہے تو حضرت سید احمد بریلویؒ پر کریں. یہ علمی بد دیانتی ہے کہ تنقید میں ان کا ذکر تک نہ کیا جائے‘ اور ساری جرح مولانا مدنی ؒ پر کی جائے!‘‘ کے ساتھ سوائے تباین و تضاد کے کوئی نسبت حاصل نہیں ہے. لیکن عالم واقعہ میں اس کے سوا کوئی چارہ کار موجود نہیں تھا. اس لیے کہ اسلام کے ساتھ مسلمانوں کا ذہنی و قلبی رشتہ اتنا قوی نہ رہا تھا کہ اسے کسی جاندار اور فعال تحریک کی اساس بنایا جا سکتا اور حصول استقلال کے لیے جس مؤثر مزاحمت (effective resistance) کی ضرورت ہوتی ہے‘ اس کی بنیاد خیالی یا جذباتی نہیں بلکہ حقیقی اور واقعی اساسات (concrete foundation) ہی پر رکھی جا سکتی ہے. واقعہ یہ ہے کہ اگر ترک نیشنلزم کا جذبہ فوری طور پر بیدار نہ ہو گیا ہوتا تو شاید آج ترکی کا نام و نشان بھی صفحہ ٔارضی پر موجود نہ ہوتا. اسی طرح اسلام سے جتنا کچھ حقیقی اور واقعی تعلق اس وقت مسلمانانِ عرب کو ہے وہ کسے معلوم نہیں. اندریں حالات عرب نیشنلزم ہی یورپی سامراج کے چنگل سے نکلنے کی جدوجہد کے لیے واحد موجود (The only available) بنیاد بن سکتا تھا اور ایک وقتی ضرورت اور دفاعی تدبیر کی حد تک اس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے بشرطیکہ اسے نظامِ فکر کی مستقل اساس کے طور پر قبول نہ کر لیا جائے اور حصول آزادی کے عبوری مقصد کی تکمیل کے بعد صحیح اسلامی فکر اور وحدت ملی کے شعور و احساس کو اجاگر کیا جائے.

چنانچہ جمعیت علماء ہند کی سیاسی جدوجہد اسی اصول پر مبنی تھی بلکہ مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ علیہ نے اپنی خود نوشت سوانح ’’نقش حیات‘‘ میں تو ثابت کیا ہے کہ خود مجاہد کبیر حضرت سید احمد بریلوی رحمہ اللہ علیہ مسلمانانِ پنجاب کو ’’سکھا شاہی‘‘ سے نجات دلانے کے بعد اسی اساس پر انگریزوں کے خلاف تحریک چلانے کا ارادہ رکھتے تھے‘‘. (’’میثاق ‘‘اکتوبر‘نومبر ۱۹۷۴ء)

البتہ راقم کے نزدیک جیسے جیسے حالات نے کروٹ لی اور صورتِ حال تبدیل ہوئی‘ قطع نظر اس کے کہ وہ ہندوؤں کی قدیم متعصب ذہنیت کا نتیجہ تھی‘ یا مسلمانوں کی ’’ہزار سالہ‘‘ غلامی سے پیدا شدہ انتقامی جذبہ کا شاخسانہ تھی‘ یا انگریزی سیاست اور اس کی شاطرانہ چال کی پیدا کردہ تھی‘ بہرحال اس پالیسی پر اس نظر ثانی کی ضرورت تھی جس کی جانب اشارہ حضرت شیخ الہندؒ کے خطبہ ٔصدارت۱۹۲۰ء میں موجود ہے. یعنی
’’مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب تک بہت جگہ عمل اس کے خلاف ہو رہا ہے. مذہبی معاملات میں تو بہت لوگ اتفاق ظاہر کرنے کے لیے اپنے مذہب کی حد سے گزر جاتے ہیں‘ لیکن محکموں اور ابوابِ معاش میں ایک دوسرے کی ایذا رسانی کے درپے رہتے ہیں. میں اس وقت جمہور سے خطاب نہیں کر رہا ہوں بلکہ میری گزارش دونوں قوموں کے زعماء (لیڈروں) سے ہے کہ ان کو جلسوں میں ہاتھ اٹھانے والوں کی 
اکثریت اور ریزولیشنوں کی تائید سے دھوکہ نہ کھانا چاہیے کہ یہ طریقہ سطحی لوگوں کا ہے اور ان کو ہندوئوں اور مسلمانوں کے نجی معاملات اور سرکاری محکموں میں متعصبانہ رقابتوں کا اندازہ کرنا چاہیے.‘‘ (ماخوذ از ’’بیس بڑے مسلمان‘‘)

اس ضمن میں بھی راقم اب کچھ کہنے کی بجائے اپنی ۱۹۶۷ء کی ایک تحریر کا اقتباس پیش کرنا مناسب سمجھتا ہے تاکہ اسے کسی وقتی سخن سازی سے تعبیر نہ کیا جائے:

’’بد قسمتی سے اس موقع پر مسلمانانِ ہند کے مذہبی طبقوں اور خصوصاً تحریک شہیدینؒ اور جماعت مجاہدینؒ کے معنوی و روحانی وارثوں نے حالات کے رخ کو سمجھنے میں سخت غلطی کی اور وہ ہندوستان کی پوری مسلمان قوم کے سوادِ اعظم کے احساسات کا صحیح اندازہ کرنے میں بری طرح ناکام رہے!! اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کا اصل سبب کیا تھا؟ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کا اصل سبب وہ حد سے بڑھی ہوئی انگریز دشمنی ہو جو ان کے لائے ہوئے زندقہ و الحاد اور مشرق وسطیٰ کے مسلمانوں پر ان کے بے پناہ مظالم سے پیدا ہوئی تھی. اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کا اصل سبب ان حضرات کی ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی ہو جس کی بنا پر وہ یہ سمجھتے تھے کہ انگریز سے نبٹ لینے کے بعد ابنائے وطن کے مقابلے میں اپنے دین اور اپنے تہذیب و تمدن اور فی الجملہ اپنے قومی تشخص کا تحفظ کچھ مشکل نہ ہو گا. بہر حال ہوا یہ کہ ان حضرات نے اپنے لیے یہ راہ متعین کی کہ پہلے ہندوؤں کے ساتھ مل کر غیر ملکی حکمرانوں سے گلو خلاصی کرا لی جائے. ہندو مسلم معاملات اس کے بعد طے ہوتے رہیں گے. جبکہ بحیثیت مجموعی ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنے لیے یہ لائحہ عمل طے کیا کہ وہ پہلے ہی سے تحفظات کے حصول کی جدوجہد کریں گے. اور اس امر کی سعی کریں گے کہ وطن اس طور سے آزاد ہو کہ اس میں ان کے جملہ حقوق اور فی الجملہ ان کے قومی تشخص کے تحفظ کی مکمل ضمانت حاصل ہو جائے.

اس طرح ہندوستان کی مسلمان قوم کے سوادِ اعظم اور اس کے مذہبی طبقات کے مابین بُعد مزید بڑھ گیا‘ بلکہ آزادی کی جدوجہد میں یہ دونوں علیحدہ علیحدہ راہوں پر گامزن ہو گئے.
اس صورت حال کا سب سے اہم نتیجہ جس کی جانب بہت کم لوگوں کی نگاہ گئی ہے‘ یہ نکلا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی قومی تحریک قوم کے بہترین افراد سے محروم ہو گئی. اب تک قوم کی پوری سیاسی و دینی قیادت جس طبقے کے ہاتھ میں رہی تھی اور جس میں ایک سے ایک بڑھ کر مخلص و بے نفس‘محنتی و سخت کوش‘آزمودہ و تجربہ کار اور ہر اعتبار سے منجھا ہوا اور سرد و گرم چشیدہ سیاسی کارکن موجود تھا وہ قوم سے بے تعلق ہو کر رہ گیااور 
کون کہہ سکتا ہے کہ آج خصوصاً پاکستان میں ہماری قومی زندگی جس شدید قحط الرجال سے دوچار ہے اس کا اصل سبب یہی نہیں ہے!‘‘ (شائع شدہ ’’میثاق‘‘ مئی ۱۹۶۷ء مشمولہ ’’اسلام اور پاکستان‘‘ ص: ۸۹)

چنانچہ راقم کے نزدیک اس صدی کے پانچویں دَہے تک حالات کی تبدیلی کے پیش نظر ’’حضرت شیخ الہندؒ کی جماعت‘‘ کے لیے صحیح تر طرز عمل وہ تھا جو حضرت شیخ ہی کے ایک دوسرے شاگرد و رفیق مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ نے اختیار کیا‘ اور جیسا کہ راقم اس سے قبل عرض کر چکا ہے‘ اب تو حسرت کے ساتھ یہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر وہ پالیسی جمعیت علماء ہند نے مجموعی طور پر اختیار کر لی ہوتی تو برصغیر کی تاریخ کا رخ ہی اور ہوتا‘ اور آج ہم حیرانی و سرگشتگی کے ’’صحرائے تیہہ‘‘ میں نہ گھوم رہے ہوتے!!

اگرچہ اس اختلاف رائے کی بنا پر حضرت مدنی ؒ اور ان کے جلیل القدر رفقاء پر سب و شتم یا ان کے خلوص و اخلاص پر شک و شبہ یا ان کی شان میں گستاخی کو میں گناہ عظیم تصور کرتا ہوں. یہی وجہ ہے کہ میں نے ’’میثاق‘‘ میں پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم و مغفور کا وہ ’’توبہ نامہ‘‘ بھی پوری آب و تاب کے ساتھ شائع کیا تھا جو انہوں نے اپنی اُن گستاخیوں کے ضمن میں حضرت مولانا احمد علی لاہوری ؒ کی تاکید پر تحریر کیا تھا جو تحریک پاکستان کے عروج کے دَور میں حضرت مدنی ؒ کی شان میں ان سے سرزد ہوئی تھیں. اور خود راقم نے جب ۱۹۷۰ء میں تھانوی حلقے کے ایک بزرگ عالم دین کی زبان سے مولانا مدنی ؒ اور ان کے رفقاء کے بارے میں ’’کانگرسی مولوی‘‘ کی پھبتی سنی تو جو جذباتی ردّ عمل قلب کی گہرائیوں سے اُبھرا تھا اُسے شائع کر دیا تھا ’’میثاق‘‘ جون‘جولائی ۱۹۷۰ء میں بایں الفاظ: 

’’ان حضرات پر ’’کانگریسی مولوی‘‘ کی پھبتی سن کر خدا جانتا ہے کہ دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے. اس لیے کہ اس کی اولین زد مولانا حسین احمد مدنی ؒ ایسے اکابر ملت‘ مجاہدین حریت اور زعمائے دین پر پڑتی ہے جن کے سیاسی موقف سے چاہے کسی کو کتنا ہی اختلاف ہو‘اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے علم و فضل‘تقویٰ و تدین‘خلوص و بے نفسی‘عزم و ہمت‘جانفشانی و تندہی‘قربانی و ایثار اور حلم و تواضع کی کوئی دوسری مثال مسلم ہند کی ماضی قریب کی تاریخ پیش نہیں کر سکتی.

مولانا مدنی ؒ کی زیارت کا شرف ہماری گناہ گار آنکھوں کو تو حاصل نہیں ہوا لیکن ان کی اُس ’’کرامت‘‘ کا مشاہدہ ہم نے بچشم سر کیا ہے کہ کتنے ہی مخلص اور متدین لوگوں کی آنکھوں سے ان کا نام سنتے ہی آنسوؤں کا دریا بہہ نکلتا ہے. اور حلقہ ٔدیوبند کے مدارس کی وہ زیر تعلیم نوجوان نسل جس نے مولانا کو نہ دیکھا نہ سنا‘ ان کی توہین پر مرنے مارنے پر آمادہ ہو جاتی ہے.‘‘

’’اس سلسلے میں ایک واقعہ بھی ایک مرتبہ مولانا اصلاحی نے سنایا کہ: جن دنوں کانگریس اور مسلم لیگ کی کش مکش زوروں پر تھی اور مولانا مدنی ؒ اور ان کے رفقاء تنقید و استہزاء کا ہدف بنے ہوئے تھے‘ ایک روز خبر آئی کہ کچھ لیگی نوجوانوں نے مولانا کے ساتھ نہایت توہین و تذلیل کا معاملہ کیا. ان دنوں دارالاسلام سرنا‘پٹھان کوٹ میں عام معمول یہ تھا کہ شام کے وقت ہم سب لوگ اکٹھے سیر کے لیے نہر پر جایا کرتے تھے (گویا یہ ان دنوں کی مرکز جماعت اسلامی کی شام کی نشست تھی! مدیر) وہاں مولانا مودودی سمیت کچھ لوگوں نے اس خبر پر خوش گپی کے انداز میں تبصرے کرنے شروع کیے‘ لیکن میں خاموش رہا. کچھ دیر بعد مولانا مودودی نے مجھ سے بھی کچھ کہنے کی فرمائش کی تو میں نے کہا: ’’میں اور کچھ تو نہیں جانتا لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ جس قوم نے مولانا مدنی ؒ ایسے شخص کی توہین کی ہے اس پر یقینا کوئی بہت بڑی آفت آنے والی ہے‘‘ اس پر پوری مجلس پر خاموشی سی طاری ہو گئی. تھوڑی دیر کے بعد مولانا مودودی نے کہا کہ ’’مولانا آخر جو لوگ قوم کے احساسات و جذبات کا بالکل لحاظ نہ کریں ان کے ساتھ قوم کبھی گستاخی بھی کر گزرے تو کون سی بڑی بات ہے!‘‘ اس پر میں نے مزید تو کچھ نہ کہا لیکن اپنے فقرے کو دہرا دیا: ’’میں اور تو کچھ نہیں جانتا صرف یہ جانتا ہوں کہ جس قوم نے مولانا مدنی ؒ ایسے شخص کی توہین کی ہے اس پر یقینا کوئی بڑی آفت آنے والی ہے!‘‘ 

’’ذاتی تقویٰ و تدین کے علاوہ اب تو ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو ان حضرات کے سیاسی موقف کے بارے میں اپنی رائے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں. خود مولانا احتشام الحق تھانوی نے آج سے تقریباً تین (۱سال قبل جامعہ اشرفیہ لاہور میں جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کچھ ایسے الفاظ کہے تھے کہ: ’’اب جو حالات پیش آرہے ہیں ان کو دیکھ کر تو یہ خیال ہوتا ہے کہ تحریک پاکستان کے بارے میں ان حضرات کی رائے زیادہ درست تھی جو یہ کہتے تھے کہ پاکستان میں فروغِ اسلام کو نہیں‘ فرقِ باطلہ اور الحاد و اباحیت کو حاصل ہو گا!‘‘ لیکن بات یہاں تک نہ پہنچے تو بھی کم از کم اتنا تو ہونا چاہیے کہ اس وقت ضدم ضدا میں جو زیادتیاں ایک دوسرے پر ہو گئی تھیں‘ اب کم از کم ان کا اعادہ تو نہ ہو. (۱) واضح رہے کہ یہ تحریر ۱۹۷۰ء کی ہے. ہم خود اپنا یہ ذاتی احساس بھی اس مقام پر بیان کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ بقیہ تمام معاملات اور قیل و قال ایک طرف کم از کم ہندوستان کے مسلمانوں کے مسئلہ کے اعتبار سے تو کبھی کبھی شدت کے ساتھ محسوس ہونے لگتا ہے کہ جن لوگوں نے یہ کہا تھا کہ ’’پاکستان کی اسکیم سے ہندوستان کے مسلمانوں کی قوت جو پہلے ہی تہائی ہے وہ تو تین حصوں میں بٹ کر مزید کم ہو جائے گی اور ہندوؤں کی طاقت بالکل یکجا اور مجتمع رہے گی‘ ان کا خیال کس قدر درست تھا. 

اس لیے کہ واقعہ یہ ہے کہ جب بھی ہندوستان سے مسلمانوں کے کسی تازہ قتل عام کی خبر آتی ہے دوسرے لاکھوں اور کروڑوں حساس مسلمانوں کی طرح راقم الحروف کے دل پر بھی چھریاں چل جاتی ہیں. اور نہ صرف یہ کہ یہاں کا سکھ چین کاٹ کھانے کو دوڑنے لگتا ہے‘ بلکہ سیدنا مسیحؑ کی تمثیل کے عین مطابق ہر کھانا ہندوستان کے مظلوم مسلمانوں کا گوشت اور ہر مشروب ان کا خون نظر آنے لگتا ہے. 

ہمیں دوسروں سے تو کوئی گلہ نہیں لیکن حیرت ناک افسوس ہوتا ہے حلقہ ٔدیوبند ہی کے ان اکابر پر جو نہ صرف درس و افتاء بلکہ تلقین و ارشاد کی مسندوں پر رونق افروز ہوتے ہوئے بھی ایسے کٹھور دل واقع ہوئے ہیں کہ کچھ سیاسی یا روپہلی مصلحتوں کی بنا پر اب بھی ان خادمانِ دین و ملت پر ’’کانگریسی مولوی‘‘ ایسی تحقیر آمیز پھبتی کسنے سے باز نہیں رہتے.‘‘ (’’میثاق‘‘ جون ‘جولائی ۱۹۷۰ء)

یہ اقتباسات ہماری آج سے لگ بھگ پندرہ برس قبل کی تحریروں کے ہیں اور ان کی طوالت کے باوجود ہم نے انہیں یہاں اس لیے نقل کر دیا ہے کہ یہ گمان نہ کیا جائے کہ یہ کوئی وقتی ’’سخن سازی‘‘ والا معاملہ ہے. ان سے یہ بات بلا شائبہ و شک و شبہ ثابت ہو جاتی ہے کہ مولانا مدنی ؒ اور ان کے رفقاء گرامی کی سیاسی حکمت عملی سے اختلاف کے باوصف ہمارے دل میں ان کے خلوص و اخلاص اور ان کی سیرت و کردار کی عظمت کے بارے میں نہ صرف یہ کہ کوئی شک نہیں رہا بلکہ مثبت طور پر ان کی علّو ہمت اور مجاہدانہ کردار کی عظمت کا نقش قائم رہا ہے.

بایں ہمہ راقم کو اعتراف ہے کہ مولانا اخلاق حسین قاسمی مدظلہٗ نے مولانا آزاد مرحوم‘ حضرت مدنی ؒ اور مولانا حفظ الرحمن کی موجودہ بھارت میں اسلام اور مسلمانوں کی جن خدمات جلیلہ کا ذکر فرمایا ہے اس سے راقم کے دل میں ان حضرات کی قدر و وقعت اور محبت و عقیدت میں مزید اضافہ ہوا ہے جس کے لیے راقم مولانا کا ممنون ہے!

تاہم جیسا کہ راقم پہلے عرض کر چکا ہے ’’جماعت شیخ الہندؒ ‘‘ کے اس مختصر ’’تذکرے‘‘ یا صحیح تر الفاظ میں ’’اشاریئے‘‘ میں مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ کا نام اگر سہواً رہ گیا ہے تب تو خیر‘ ورنہ راقم اپنا احتجاج ثبت (register) کرانا ضروری سمجھتا ہے. اس لیے کہ وہ بلا شبہ دارالعلوم دیوبند کے مایہ ناز فرزند اور حضرت شیخ الہندؒ کے منظورِ نظر تلامذہ اور معتمد ساتھیوں میں سے تھے. 

۱۹۰۸ء میں مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ دارالعلوم کے دورۂ حدیث کے امتحان میں اول آئے اور ۱۹۰۹ء ہی میں فتح پوری مسجد دہلی کے عربی مدرسے کی صدر مدرسی کے عہدے پر فائز ہو گئے. اُس زمانے میں دیوبند میں حضرت شیخ الہندؒ کی زیر ہدایت مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور نے ’’جمعیت الانصار‘‘ قائم کی ہوئی تھی‘ مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ نے اُس میں بھرپور حصہ لیا اور اس کے سالانہ جلسوں میں نہایت وقیع علمی مقالات پیش کیے. ۱۹۱۱ء سے مولانا نے اپنی مادر علمی دارالعلوم دیوبند ہی میں تدریس کی ذمہ داری سنبھال لی. اور اس کے ساتھ ہی گویا حضرت شیخ الہندؒ کے معتمد رفیق کار کی حیثیت بھی اختیار کر لی. چنانچہ اکثر و بیشتر دوروں اور سفروں میں وہ ہی حضرت شیخ کی رفاقت اور تقاریر کے ضمن میں نیابت و نمائندگی کی ذمہ داری ادا کرتے تھے. یہی وجہ ہے کہ جب ۱۹۱۹ء میں ’’جمعیت علماء ہند‘‘ کی تأسیس ہوئی تو اس کی ورکنگ کمیٹی اور مجلس منتظمہ کے لیے علامہ عثمانی ؒ بھی منتخب کیے گئے. جامعہ ملیّہ کے افتتاح کے موقع پر حضرت شیخ الہندؒ سخت بیمار تھے. چنانچہ مولانا عثمانی ؒ ہی نے ان کے نمائندے کی حیثیت سے خطبہ ٔصدارت تحریر بھی کیا اور پڑھا بھی. پھر جیساکہ اس سے قبل بھی اشارہ کیا جا چکا ہے کہ ’’ترکِ موالات‘‘ کے ضمن میں جب حضرت شیخ الہندؒنے یہ فرماتے ہوئے کہ ’’مجھ میں انگریزوں کی نفرت کا جذبہ شدت لیے ہوئے ہے‘ مجھے اپنے نفس پر اطمینان نہیں ہے کہ حدود کی رعایت ہو سکے گی. اور حق تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰی اَنْ لَّا تَعْدِلُوْا‘‘ (سوانح قاسمی بحولہ معاصر ’’الخیر‘‘ بابت فروری ۱۹۸۵ء) اپنے تین شاگردوں یعنی: مفتی کفایت اللہ‘سید حسین احمد مدنی ؒ اور مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ کو فتویٰ لکھنے کا حکم دیا اور امتثالِ امر میں ان تینوں حضرات نے اپنے اپنے انداز میں فتویٰ تحریر کیا تو جس کی تحریر حضرت شیخ کو سب سے زیادہ پسند آئی وہ علامہ عثمانیؒ ہی کی تھی. چنانچہ حضرت شیخ کے نمائندے کی حیثیت سے یہ ’’خطبہ‘‘ مولانا عثمانی ؒ ہی نے جمعیت علماءِ ہند کے اجلاس ۱۹۲۰ء میں پڑھ کر سنایا. اور راقم کے نزدیک تو ان سب چیزوں سے بھی کہیں بڑھ کر ہے یہ حقیقت کہ حضرت شیخ الہندؒ کے ’’ترجمہ قرآن‘‘ کے حاشیہ پر ’’فوائد عثمانی ؒ ‘‘ کی اشاعت نے ابدلآباد تک کے لیے حضرت شیخ کے نام نامی اور اسم گرامی کے ساتھ مولانا عثمانی ؒ کے نام کو لازم و ملزوم کے درجے میں چسپاں کر دیا ہے.

ان تفسیری فوائد کے بارے میں‘ جو بلا شبہ اپنی جگہ مکمل تفسیر کا درجہ رکھتے ہیں‘ خود حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ کے خیالات ملاحظہ ہوں: 

’’اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے علامہ زمان ‘ محقق دوران حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی زید مجدہم کو دنیائے اسلام کا درخشندہ آفتاب بنایا ہے. مولانا نے موصوف کی بے مثل ذکاوت‘بے مثل تقریر‘بے مثل تحریر‘عجیب و غریب حافظہ‘عجیب تبحر وغیرہ کمالات علمیہ ایسے نہیں ہیں کہ کوئی شخص مصنف مزاج اس میں تامل کر سکے. قدرت قدیمہ نے مولانا شبیر احمد صاحب موصوف کی توجہ تکمیل فوائد اور ازالہ ٔمغلقات کی طرف منعطف فرما کر تمام عالم اسلامی اور بالخصوص اہل ہند کے لیے عدیم النظیر حجت بالغہ قائم کر دی ہے. یقینا مولانا نے بہت سی ضخیم تفسیروں سے مستغنی کر کے سمندر کو کوزے میں بھر دیا ہے.‘‘ (قرآن حکیم تفسیر عثمانی . مدینہ بجنور ‘بھارت)

اس پر مستزاد ہے علوم حدیث و فقہ اور علم الکلام میں ان کا مقام و مرتبہ‘ چنانچہ صحیح مسلمؒ کی شرح ’’فتح الملہم‘‘ کے بارے میں بیہقی وقت مولانا سید محمد انور شاہ کاشمیری کا فرمانا ہے کہ: 

’’یقینا اپنے زمانہ کے علامہ مولانا مولوی شبیر احمد صاحب عثمانی دیوبندی کہ اس زمانہ کے محدث و مفسر و متکلم ہیں اور احقر کے علم میں کوئی شخص اس کتاب (مسلم) کی خدمت ان سے زیادہ بہتر اور برتر نہ کر سکا. اس کی خدمت (شرح) کی طرف متوجہ ہو کر انہوں نے اہل علم کی گردنوں پر احسان کیا ہے.‘‘ 

اور بحیثیت ’’متکلم اسلام‘‘ مولانا عثمانی ؒ کا درجہ کیا تھا اس کے ضمن میں کفایت کرے گی مولانا محمد منظور نعمانی مدظلہٗ کی یہ شہادت کہ : 

’’جن حضرات کو حضرت موصوف سے علمی استفادے کا موقعہ ہوا ہو گا‘ انہیں اس میں شک نہیں ہو سکتا کہ ذہانت و ذکاوت‘فکر کی دقت ومتانت اور دماغ کے سلجھائو میں وہ آپ ہی اپنی نظیر تھے. اسی طرح اپنے مدعا کو بہترین اسلوب اور نہایت دلنشین انداز میں بیان کرنے اور دقیق سے دقیق علمی حقیقتوں کو آسان کر کے سمجھا دینے کا جو خاص ملکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موصوف کو عطا فرمایا تھا‘ وہ ان کے لیے ان کے ربّ کا خاص عطیہ تھا.

ایک مبصر ناقد نے مولانا کی بعض تقریریں سن کر ایک زمانہ میں کہا تھا اور بالکل صحیح کہا تھا کہ جب مولانا غیبی حقیقتوں کو دلیلوں اور مثالوں سے سمجھانے اور منوانے کی کوشش کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غیب اب شاید غیب نہیں رہے گا بلکہ شہود بن کر سامنے آ جائے گا.‘‘ (الفرقان لکھنؤ‘بھارت‘دسمبر ۱۹۴۹ء)

تو اس سب کے باوصف کیا صرف اس لیے کہ مولانا شبیر احمد عثمانی مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ کی سیاسی حکمت عملی سے کلیۃً اتفاق نہ کر سکے اور اگرچہ وہ ۱۹۴۶ء تک جمعیت علماء ہند کی مجلس عاملہ کے رکن رہے‘ لیکن اسی اختلافِ رائے (اور ہو سکتا ہے کہ اس میں مزاج و افتاد طبع کے فرق یا بعض ذاتی نوع کی شکایتوں کو بھی دخل حاصل ہو) کی بنا پر ۱۹۲۸ء میں دارالعلوم دیوبند سے تعلق منقطع کر کے ڈابھیل چلے گئے. اور بالآخر اپنے سیاسی موقف کی وضاحت اور اس کے لیے بالفعل کام کرنے کے لیے ۱۹۴۵ء میں ’’جمعیت علماء اسلام‘‘ کا ایک جداگانہ پلیٹ فارم اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے. ان کے نامِ نامی کو ’’جماعت شیخ الہندؒ ‘‘ سے خارج کر دینا قرین انصاف ہو گا؟

بہرحال راقم الحروف کا تو حضرت شیخ الہندؒ کی شخصیت سے ابتدائی تعارف ہی تفسیری فوائد کی وساطت سے علامہ عثمانی ؒ ہی کے ذریعے سے ہوا تھا اور راقم اپنی گردن پر ایک احسان عظیم سمجھتا ہے شیخ الہندؒ مولانا محمود حسن دیوبندی اور شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ کا کہ علامہ اقبال مرحوم کے اشعار سے ایک مبہم سے جذبہ ملّی اور ’’میلان الی القرآن‘‘ کے حصول ‘ اور ابتداء ً مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی مرحوم اور مولانا امین احسن اصلاحی کی تصانیف اور بعد ازاں مولانا مودودی کی ’’تفہیم القرآن‘‘ اور مولانا اصلاحی کی ’’تدبر قرآن‘‘ کے ذریعے معانی قرآن کے ساتھ ابتدائی تعارف کے بعد جب راقم نے بھی آزادانہ طور پر علم و حکمت قرآن کے بحر ذخار میں غوطہ زنی شروع کی تو اس پورے عرصے میں میرا ’’عروۃ وثقٰی‘‘ ترجمہ شیخ الہندؒ اور حواشی شیخ الاسلام ہی رہے ہیں. جنہوں نے مجھے بفضلہ تعالیٰ نئی نکتہ طرازیوں اور دور دراز کی تاویلوں سے حفاظت میں رکھا ہے. 
اور اس اعتبار سے بھی میں اپنے آپ کو بواسطہ شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ منسلک اور متوسل سمجھتا ہوں شیخ الہندؒ حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ سے! 

اس موضوع پر اس قدر طولِ کلام سے راقم الحروف نے اس لیے کام لیا ہے کہ جیسا کہ مولانا اخلاق حسین قاسمی مدظلہٗ نے بھی فرمایا‘ اور راقم بھی عرض کر چکا ہے‘راقم کو یقین ہے کہ چودہویں صدی ہجری کے مجدد تھے حضرت شیخ الہندؒ ! اور ان کی جامعیت کبریٰ کے مظہر اتم ہی 
ں ان کے تلامذہ بحیثیت مجموعی! اور اگرچہ ان میں سے کوئی بھی ان کی سی جامعیت کا مظہر تو نہ تھا تاہم ان میں سے ہر ایک نے برصغیر پاک و ہند کی ماضی قریب کی تاریخ پر نہایت گہرا اثر ڈالا ہے. اور پاکستان اور ہندوستان کے موجودہ مسلمان معاشرے میں مختلف عنوانات کے ذیل میں اور مختلف تحریکوں اور تنظیموں میں منقسم صورت میں جو بظاہر ایک دوسرے سے بہت مختلف بلکہ متضاد نظر آتی ہیں درحقیقت اثرات پھیلے ہوئے ہیں حضرت شیخ الہندؒ ہی کی عظیم ذاتِ جامع الصفات کے‘ بالکل اُس شان سے جو علامہ اقبال کے ان اشعار میں سامنے آتی ہے کہ: ؎

اڑا لی قمریوں نے طوطیوں نے عندلیبوں نے 
چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرز فغاں میری!
اڑائے کچھ ورق لالے نے کچھ نرگس نے کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری!

اور اب اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ظاہری افتراق و انتشار میں تالیف و اجتماع کی صورت پیدا کی جائے اور ان بکھرے ہوئے اثرات کو از سر نو سمیٹ کر تعمیر نو کی سعی کی جائے !! اس شان کے ساتھ کہ ؎

دھرتی کے کونوں کھدروں میں پھر اپنے لہو کی کھاد بھرو!
پھر مٹی سینچو اشکوں سے پھر اگلی رُت کی فکر کرو!!

اور اسی کے لیے کمر ہمت کَسی ہے حضرت شیخ الہندؒ کے اس ادنیٰ عقیدت مند‘ اور ان کے علم و فضل اور جذبہ و جوش عمل کے اس ادنیٰ خوشہ چیں نے‘ بفحوائے ؎

اخلاصِ عمل مانگ نیا گانِِ کُہن سے
شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدارا!

چنانچہ راقم اللہ کو گواہ بنا کر عرض کرتا ہے کہ راقم کے دل میں بلا تکلف و تصنع از خود محبت و عقیدت پیدا ہو جاتی ہے ہر اُس شخص سے جس کا ادنیٰ سے ادنیٰ تعلق رہا ہو حضرت شیخ الہندؒ سے. یا جسے ادنیٰ سے ادنیٰ نسبت حاصل ہو اُن کی ذات گرامی سے! اور راقم ہاتھ باندھ کر عرض کرتا ہے جملہ متوسلان حضرت شیخ الہندؒ کی خدمت میں کہ خدارا! وقت کی پکار کو کھلے اور متوجہ 
کانوں اور کشادہ و ’’حاضر‘‘ دلوں سے سنیں‘ بفحوائے الفاظِ قرآنی: 
اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکرٰی لِمَنْ کَانَ لَہٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَی السَّمْعَ وَ ھُوَ شَھِیْدٌ 


رہا مولانا اخلاق حسین قاسمی مدظلہٗ کی تحریر کے آخری حصے میں وارد شدہ پند و نصائح کا معاملہ تو ان کے ضمن میں گزارش ہے کہ راقم نے جب مولانا اللہ بخش ایاز ملکانوی صاحب کے نام خط میں یہ لکھا:

’’کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ علی گڑھ اور دیوبند کے مابین جس خلیج کو ابتدا ہی میں پاٹ دینے کی کوشش کی تھی حضرت شیخ الہندؒ نے‘ وہ اس کے بعد روز بروز وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی گئی اور مسلمانانِ برصغیر کی ملّی اور قومی زندگی کا اصل دھارا علی گڑھ کے زیر اثر آتا چلا گیا. اور علماء کی حیثیت زندگی کی اصل منجدھار سے ہٹی ہوئی ایک پتلی سی دھار کی ہوتی چلی گئی‘ تاآنکہ اب وہ اپنے محدود دائرہ اثر کے جزیروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں. اور یہ جزیرے بھی دن بدن ’’نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُھَا مِنْ اَطْرَافِھَا‘‘ کے مصداق روز بروز مختصر سے مختصر ہوتے چلے جا رہے ہیں؟‘‘

’’پھر کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ علماء کرام جمعہ و جماعت‘درس و خطابت‘افتاد و ارشاد ایسی اہم خدماتِ جلیلہ اور قال اللہ اور قال الرسول  کی صداؤں اور دینی علوم کو زندہ رکھنے کے عظیم کارنامے‘ اور دین حق اور شریعت ِحقہ کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں کے خلاف مساعی و عظیمہ کے باوصف غلبہ و اقامت ِدین کے مثبت مقصد کی جانب کوئی قابل لحاظ اور موثر اجتماعی تحریک نہیں چلا پا رہے؟ علماء دیوبند کے ایک حلقے سے تبلیغ دین کے عنوان سے جو عظیم حرکت شروع ہوئی‘ اس میں شک نہیں کہ وسعت کے اعتبار سے اس کی کوئی نظیر حال میں تو کیا ماضی میں بھی نہیں ملتی. لیکن کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ وہ بھی انفرادی اصلاح کے مرحلے سے آگے بڑھ کر کسی خطہ ٔارضی پر دین حق کے واقعی قیام و نفاذ کے لیے کوئی راست اقدام کرنے کے بارے میں سوچنے پر بھی آمادہ نہیں!‘‘

تو اس سے مقصود نہ کسی کی دلآزاری تھی‘ نہ توہین و تنقیص اور نہ طنز و تعریض‘ بلکہ صرف اور صرف صورتِ واقعہ کا ’’کما ھِیَ‘‘ بیان و اظہار تھا‘ تاکہ سینوں میں درد اور دلوں میں سوز و گداز پیدا ہو. ورنہ واقعہ یہ ہے کہ راقم کے قلب کی گہرائیوں میں حد درجہ قدر و وقعت اور کمال محبت و عقیدت موجود ہے ان علماء کرام کے لیے بھی جو شب و روز قال اللہ تعالیٰ اور قال الرسول  میں مصروف و مشغول رہتے ہیں یا جمعہ و جماعت اور وعظ و خطابت کے فرائض سر انجام دیتے ہیں اور ان مربی اور مزکی حضرات کے لیے بھی جو لوگوںکے نفوس کے تزکیے‘قلوب کی تنویر اور روح کے تجلئے میں منہمک رہتے ہیں. رہی جماعت تبلیغی‘ تو یہ تو راقم عرض کر ہی چکا ہے کہ اُسے بھی راقم حضرت شیخ الہندؒ کی جماعت کی ایک شاخ سمجھتا ہے‘مزید برآں راقم کے قلب و ذہن میں اس کے نقل و حرکت کی وسعت اور اس کے اصحابِ عزم و ہمت کے خلوص و اخلاص کے احساس و شعور کی کوئی کمی نہیں. اور آخری بات یہ کہ راقم اللہ کے فضل و کرم کے پورے احساس و ادراک اور اس پر اُس (تعالیٰ) کی حمد و شکر کے ساتھ اپنا یہ ’’مشاہدہ‘‘ عرض کر رہا ہے کہ متعدد گوشوں اور مختلف واسطوں سے یہ اطلاعات مل رہی ہیں کہ اب اس حلقے میں بھی جہاد و قتال کی باتیں ہو رہی ہیں اور آخری منزل مقصود کے طور پر غلبہ و اقامت دین ہی کا ذکر ہو رہا ہے. راقم کے لیے یہ اطلاعات حد درجہ حوصلہ افزا اور اُمید بخش ہیں اور ان سے راقم کی اس توقع کو بہت تقویت حاصل ہوئی ہے کہ ان شاء اللہ خدمت دین کے یہ قافلے جلد ایک دوسرے سے متحد اور ایک ہی عظیم تر تنظیم و تشکیل میں ضم و مدغم ہو جائیں گے اور پھر اللہ نے چاہا تو وہ دن دُور نہیں رہے گا جب:

آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
آ ملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک بزم گل کی ہم نفس باد صبا ہو جائے گی
پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغام سجود پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہو جائے گی
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے یہ چمن معمور ہو گا نغمۂ توحید سے!

یعنی: وَیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْزٍ