راقم الحروف اپنی اس تحریر کو مکمل کر کے حیدر آباد سندھ اور کراچی کے آٹھ روزہ دورے پر روانہ ہو گیا تھا. اُمید تھی کہ واپسی تک پرچہ کم از کم پریس میں جا چکا ہو گا لیکن خوشنویس صاحب کی علالت کے باعث پرچے کی تکمیل میں تاخیر ہو گئی. اس اثنا میں ایک مکتوب مولانا اخلاق حسین قاسمی مدظلہٗ کا دہلی سے موصول ہوا جس میں انہوں نے اپنی اُس تحریر کے بارے میں ہندوستان کے علماء کا ایک مجموعی تاثر اور بالخصوص مولانا افتخار احمد فریدی مدظلہٗ کے خط کا اقتباس درج فرمایا ہے جس کے بارے میں تفصیلی گفتگو راقم نے اپنی مندرجہ بالا تحریر میں کی ہے. مولانا تحریر فرماتے ہیں: 

گرامی قدر ڈاکٹر صاحب 
سلام مسنون 

ماہ جنوری کا میثاق ملا‘ بندہ کا مضمون ہندوستان کے علماء کو پسند آیا‘ اسی کے ساتھ آپ کی وسیع النظری اور اخلاص کی لوگوں نے تعریف کی کہ آپ نے مجھ ناچیز کی تنقید اور اختلافِ رائے کو گوارا فرمایا. مراد آباد کے مولانا افتخار فریدی صاحب کے پاس میثاق آتا ہے. موصوف نے لکھا ہے:

’’حق تعالیٰ ڈاکٹر صاحب سے قرآن حکیم کی خدمت لے رہے ہیں. ان کے لیے آپ کی (مجھ ناچیز کی) رفاقت بہت مناسب ہے. میدان میں کام کرنے والوں کی اس طرح نگرانی کرنا تریاق کے حکم میں ہے.‘‘

اگر گنجائش ہو تو ۵ عدد پرچے ڈاک سے مجھے ارسال کر دیں تاکہ میںہندوستان سے نکلنے والے جماعتی رسائل کو بغرض اشاعت ارسال کر دوں. چند کاپیاں اپنے مضمون کی فوٹو اسٹیٹ کرا کر بھیج رہا ہوں ‘لیکن پورا پرچہ جو اثر کرے گا وہ صرف میرے مضمون سے نہیں ہو گا. 
تمام رفقاء کرام کی خدمت میں سلام مسنون.

اخلاق حسین قاسمی
۲۲؍ جنوری ۱۹۸۵ء

راقم کو امید واثق ہے کہ مولانا موصوف اور حضراتِ علماء کرام میری ان گزارشات پر خوشدلی اور وسعت ِقلب کے ساتھ غور فرمائیں گے اور اپنی آراء سے نوازیں گے. 
خاکسار اسرار احمد عفی عنہ