’’جماعت شیخ الہند‘‘ سے میرا قلبی تعلق

مولانا سید محمد یوسف بنوری سے میرے روابط
اور مدیر ’’بیّنات‘‘ کراچی کے فرمودات کے ضمن میں کچھ گزارشات

گزشتہ ماہ کے طویل ’’تذکرہ و تبصرہ‘‘ کے آخری حصے کی تحریر کے وقت راقم الحروف پر ایک عجیب ’’سُکر‘‘ کی سی کیفیت طاری ہو گئی تھی. چنانچہ حسب ذیل الفاظ بھی اسی کیفیت میں سپرد قلم ہو گئے تھے. (۱

’’چنانچہ راقم خدا کو گواہ بنا کر عرض کرتا ہے کہ راقم کے دل میں بلا تکلف و تصنع از خود محبت و عقیدت پیدا ہو جاتی ہے ہر اُس شخص سے جس کا ادنیٰ سے ادنیٰ تعلق رہا ہو حضرت شیخ الہندؒ سے یا جسے ادنیٰ سے ادنیٰ نسبت حاصل ہو ان کی ذاتِ گرامی سے اور راقم ہاتھ باندھ کر عرض کرتا ہے جملہ متوسلانِ حضرت شیخ الہندؒ کی خدمت میں کہ خدارا! وقت کی پکار کو کھلے اور متوجہ کانوں اور ’’کشادہ‘‘ و ’’حاضر‘‘ دلوں سے سنیں. بفحوائے الفاظ قرآنی: 

اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَی السَّمْعَ وَ ھُوَ شَھِیْدٌ4‘‘ 

بعد میں محسوس ہوا کہ یہ فی الحقیقت ’’مستی‘‘ کی کیفیت میں نکلی ہوئی نہایت ہی ’’سچی بات‘‘ ہے! 
(۲چنانچہ بعد میں ماضی کے جھروکوں میں مزید جھانکا اور اپنے ذہن و شعور کی تحتانی سطحوں میں مزید کھود کرید کی تو اندازہ ہوا کہ اگرچہ راقم ابتداء ً ایک مبہم سے جذبۂ ملّی اور (۱) اسی کیفیت میں علامہ اقبال مرحوم کے اُن اشعار کی جانب بھی ذہن اچانک منتقل ہو گیا تھا جو گزشتہ ماہ بھی شامل اشاعت تھے اور اس ماہ پھر نمایاں طور پر شائع کیے جا رہے ہیں. ورنہ راقم کے قارئین اور سامعین کے علم میں ہے کہ علامہ کے یہ اشعار اس سے قبل کبھی بھی راقم کی تحریر یا تقریر میں نہیں آئے. بعد میں کئی دن یہ اشعار راقم کے ذہن پر سوار رہے اور تنہائی میں بے اختیار زبان پر جاری ہوتے رہے اور دل کی گہرائیوں سے علامہ کے لیے دعائیں نکلتی رہیں! بعد میں جدید تہذیبی و عمرانی نظریات اور سائنس و ٹیکنالوجی کے پیدا شدہ مسائل و معاملات کے ضمن میں ’’فکر قرآنی‘‘ کے سلسلے میں شدید زیر بارِ احسان اور مرہونِ منت ہے علامہ اقبال مرحوم و مغفور کا. اور ’’تدبر قرآن‘‘ کے سائنٹفک طریق کے ضمن میں خوشہ چین ہے علامہ حمید الدین فراہیؒ اور مولانا امین احسن اصلاحی کا. تاہم راقم کا قلبی جھکاؤ اور لگاؤ رہا ہے ان ہی شخصیتوں کی جانب جن کا کوئی نہ کوئی تعلق ہے حضرت شیخ الہندؒ سے.

حضرت شیخ الہندؒ کی ذاتِ جامع الصفات سے علم و عمل کے جو چشمے جاری ہوئے ان کا ایک اجمالی ذکر گزشتہ صحبت میں ہو چکا ہے. اس سلسلے میں ذرا سے تامل سے جو حقائق سامنے آتے ہیں وہ یہ ہیں:

حضرت شیخ الہندؒ کے نام نامی سے سب سے زیادہ نمایاں طور پر ’’معنون‘‘ سلسلہ تو وہ ہے جو حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ کی ذات سے چلا. جبکہ راقم کے نزدیک حضرتؒ کی حیاتِ مستعار کے آخری دَور کی کیفیات کے اعتبار سے سب سے زیادہ ’’مستند‘‘ سلسلہ وہ ہے جس کی پہلی کڑی تھے مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم‘ دوسری کڑی تھے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی مرحوم اور تیسری کڑی ہے ’’بزعم خویش‘‘ ان سطور کا حقیر و عاجز راقم!

مزید برآں ایک سلسلہ وہ ہے جس کی پہلی کڑی تھے مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم ومغفور ‘ جن پر آخری عمر میں ’’انقلابیت‘‘ کچھ زیادہ ہی طاری ہو گئی تھی. چنانچہ ان کے عزیز و شاگرد حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ ان کے راستے سے ذرا ہٹ کر پوری طرح ضم اور مدغم ہو گئے متذکرہ بالا ’’سلسلہ اولیٰ ‘‘ ہی میں. جبکہ ایک سلسلہ وہ ہے جو اس کے بالکل برعکس اس ’’سلسلہ اولیٰ‘‘ سے قومی اور ملّی سیاست کے ضمن میں اختلاف رائے کی بنا پر منقطع ہو کر جا ملا مسلمانانِ ہند کی قومی تحریک‘ یعنی تحریک پاکستان کے ساتھ جسے حلقہ دیوبند ہی کی ایک دوسری عظیم شخصیت یعنی حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی حمایت و تائید حاصل تھی. اس سلسلے کی اولین کڑی تھی مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ کی شخصیت اور ان کے جانشین کی حیثیت حاصل ہوئی مفتی محمد شفیع ؒ کو.

انگریزی مثل "Last but not the least" کے مصداق ذکر میں آخری اور پانچواں‘ لیکن خالص علمی اعتبار سے اولین اور اہم ترین سلسلہ وہ ہے جس کی پہلی کڑی تھے مولانا سید انور شاہ کاشمیریؒ . اور دوسری اہم ترین کڑی تھے مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ . ان ’’سلاسل خمسہ‘‘ کی اولین شخصیتوں کی زیارت کی سعادت تو راقم کو بُعد زمانی و مکانی کے باعث حاصل نہیں ہو سکی‘ لیکن دوسری اور تیسری کڑیوں کی حیثیت رکھنے والے حضرات میں سے اکثر سے نیاز مندی اور حصولِ فیض صحبت کے مواقع میسر آئے. اور بعض دوسرے علماءِ کرام کے علمی تبحر اور خلوص و اخلاص کے پوری طرح قائل و معترف ہونے کے باوجود قلبی میلان صرف ان ہی حضرات کی جانب رہا. 

لاہور میں راقم کی نیاز مندی اور گاہ بگاہ حاضری کا سلسلہ اگرچہ بعض دوسرے حضرات کے یہاں بھی ہے لیکن سب سے زیادہ ربط و تعلق مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے خلیفہ مجاز اور جامعہ مدنیہ کے مہتمم اور شیخ الحدیث مولانا سید حامد میاں مدظلہٗ سے ہے‘ جو تنظیم اسلامی کے حلقہ مستشارین میں بھی شامل ہیں. 

دہلی کے مولانا اخلاق حسین قاسمی مدظلہٗ بھی جو حال ہی میں تنظیم کے حلقہ مستشارین میں شامل ہوئے ہیں‘ جمعیت علماء ہند ہی کے پرانے متوسلین میں سے ہیں اگرچہ فی الوقت ان کا کسی قدر اختلاف مولانا اسعد مدنی خلف الرشید مولانا حسین احمد مدنی ؒ سے ہے!

حضرت لاہوریؒ کی تو صرف ایک بار زیارت کا شرف راقم الحروف کو حاصل ہوا تھا. لیکن لاہور میں دوسرے نمبر پر راقم کی حاضری کا معاملہ ان کے جانشین مولانا عبید اللہ انور مدظلہٗ ہی کی خدمت میں ہوتا رہا. چنانچہ کئی سال وہ قرآن کانفرنسوں میں بھی تشریف لاتے رہے اور ہمارے بعض دوسرے اجتماعات میں بھی شرکت فرماتے رہے. ایک تقریر جو اب ’’شہید مظلوم ؓ ‘‘ کے عنوان سے کتابچے کی صورت میں طبع ہوتی ہے‘ راقم نے اُن ہی کی مسجد میں اُن ہی کی زیرصدارت کی. اور ۱۹۷۴ء میں جس ’’قرآنی تربیت گاہ‘‘ کے اختتام پر راقم نے ’’تنظیم اسلامی‘‘ کے قیام کا اعلان کیا اس کی افتتاحی تقریب کے مہمان خصوصی بھی وہی تھے اور انہوں نے نہایت شاندار بلکہ ’’شرمسار کن‘‘ الفاظ میں راقم الحروف کو خراج تحسین ادا کیا تھا. اگرچہ اِدھر کچھ عرصہ سے وہ بعض نا معلوم اسباب کی بنا پر راقم اور اس کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے اجتماعات سے پہلو تہی فرمانے لگے ہیں اور راقم یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اسے اب بھی ان کی سرپرستی حاصل ہے. 

مولانا سندھی مرحوم کے شاگردوں‘ شارحوں اور راویوں میں سے پروفیسر محمد سرور مرحوم سے راقم کو بھی اُنس تھا اور وہ بھی راقم سے بہت دلچسپی رکھتے تھے‘ حتیٰ کہ عمر کے آخری دَور میں اگرچہ تقدیر انہیں کھینچ کر اسلام آباد ایک سرکاری ادارے میں لے گئی‘ لیکن خود ان کی شدید خواہش ’’قرآن اکیڈمی‘‘ ہی میں ڈیرہ لگا لینے کی تھی (ان کی نمازِ جنازہ پڑھانے کا موقع بھی راقم کو حاصل ہوا). دوسری طرف مولانا سندھیؒ کے دو متدین ’’دیوانوں‘‘ یعنی شیخ بشیر احمد لدھیانوی مرحوم اور محمد مقبول عالم مرحوم سے بھی راقم کا خاصا ربط ضبط رہا. چنانچہ ان کے مضامین بھی ’’میثاق‘‘ میں شائع ہوتے رہے اور ان کے حوالے سے مولانا سندھیؒ کے فکر کا تعارف بھی ایک مضمون میں پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم نے کرایا. (۱

ادھر مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ کی زیارت تو راقم کو نصیب نہ ہوئی لیکن راقم کے لیے یہ خیال بہت غنیمت ہے کہ راقم کا ایک غائبانہ اور معنوی تعلق ان سے اس طرح بنتا ہے کہ جب وہ تحریک پاکستان کے عروج کے زمانے میں ہندوستان کے طول و عرض میں دورے کر رہے تھے اس وقت راقم الحروف بھی تحریک پاکستان کے ایک ننھے کارکن کی حیثیت سے (بطور جنرل سیکرٹری حصار ڈسٹرک مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن) ضلع حصار کے قصبات ہانسی‘ سرسہ وغیرہ کے ہائی اسکولوں کے طلبہ کو آمادۂ عمل کرنے کے لیے سفر کیا کرتا تھا. باقی مولاناؒ کا جو معنوی فیض صحبت راقم کو ان کے ’’حواشی ترجمہ قرآن‘‘ کے ذریعے حاصل رہا ہے‘ اس کا تفصیلی ذکر گزشتہ اشاعت میں آ ہی چکا ہے.

البتہ مولانا مفتی محمد شفیع ؒ کی خدمت میں حاضری کے راقم کو ۶۵-۱۹۶۴ء میں وافر مواقع ملے.خصوصاً ان چھ ماہ کے دوران جبکہ راقم کی رہائش بھی کورنگی میں ’’دارالعلوم‘‘ کے نہایت قریب تھی اور رمضان المبارک میں اعتکاف بھی راقم نے دار العلوم ہی کی مسجد میں کیا تھا‘ جس کے دوران حضرت مفتی صاحبؒ کے خویش کلاں مولانا نور احمد صاحب سے بہت قرب رہا تھا.

حضرت مفتی صاحبؒ کے صاحبزادوں میں سے مولانا رفیع عثمانی ؒ اور مولانا تقی عثمانی ؒ (۱) مولانا سندھی مرحو م اور حضرت لاہوریؒ کے ساتھ راقم کے ایک اور تعلق کا راز بھی آج فاش ہوجائے تو بہتر ہے. اور وہ یہ کہ حاجی عبد الواحد صاحب ایم اے‘ جو ایک سال مکہ مکرمہ میں مقیم رہ کر مولانا سندھیؒ سے کسب فیض کرتے رہے‘ بعد ازاں حضرت لاہوریؒ سے بیعت ارشاد میں منسلک ہوئے (مزید براں ایک طویل سفر میں مولانا محمد منظور نعمانی مدظلہٗ اور مولانا علی میاں مدظلہٗ کے ہم رکاب رہے جس کا مقصد وحید اعلاء کلمۃ اللہ کی تحریک کے لیے کسی ’’داعی‘‘ کی تلاش تھا. بعد ازاں کچھ عرصہ ندوۃ العلماء میں مقیم رہ کر عربی کی تحصیل کرتے رہے) پہلے شخص ہیں جنہوں نے راقم الحروف سے اس وقت ’’بیعت جہاد‘‘ کی‘ جبکہ خود راقم کو ابھی اس کا خیال بھی نہیں تھا. اور انہوں نے زبردستی راقم کا ہاتھ کھینچ کر بیعت کی تھی! سے بھی ان دنوں کافی ملاقاتیں رہیں. مولانا تقی عثمانی صاحبؒ سے بعد میں بھی متعدد بار ملنا ہوا. ایک ملاقات میں انہوں نے پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم کی بعض تحریروں کی ’’میثاق‘‘ میں اشاعت پر احتجاج کیا. اور حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کا ایک رسالہ دکھایا جو انہوں نے حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے تفسیری حواشی پر تنقید و اصلاح کے ضمن میں’’التقصیر فی التفسیر‘‘ کے عنوان سے تحریر فرمایا تھا. ایک بار میری درخواست پر انہوں نے مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے زیر اہتمام ’’قرآن کانفرنس‘‘ منعقدہ کراچی کے ایک اجلاس کی صدارت بھی فرمائی. (۱

حضرت شیخ الہند سے معنوی تعلق ہی کا یہ فیض بھی ہے کہ دیوبند میں قائم ’’شیخ الہندؒ اکیڈمی‘‘ کے ڈائریکٹر مولانا سعید احمد اکبر آبادی مدظلہٗ کی بھی خصوصی شفقت و عنایت گزشتہ دو تین سالوں کے دوران راقم الحروف کو حاصل ہو گئی ہے. 

مولانا ابو الکلام آزاد اور مولانا ابو الاعلیٰ مودودی سے راقم الحروف کی نسبت کا ذکر تحصیل حاصل ہے! اور خواہ اسے ’’یہ دعویٰ بہت بڑا ہے‘ پھر ایسا دعویٰ نہ کیجئے گا!‘‘ (حالی)ؔ کا مصداق کامل ہی قرار دیا جائے راقم کا موقف یہی ہے کہ اُس کی دعوت و تحریک ’’الہلال‘‘ اور’’البلاغ‘‘ اور ’’ترجمان القرآن‘‘ اور ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ ہی کی صدائے بازگشت ہے اوراس کی قائم کردہ ’’تنظیم اسلامی‘‘ ’’حزب اللہ‘‘ اور ’’جماعت اسلامی‘‘ ہی کے سلسلے کی کڑی ہے. حضرت شیخ الہندؒ کی ذات سے شروع ہونے والے ’’سلسلہ خامسہ‘‘ کے ساتھ اپنے ربط و تعلق کا ذکر راقم کو ذرا تفصیل سے کرنا ہے‘ اس لیے کہ اس کے موجودہ ’’آرگن‘‘ ماہنامہ (۱) تاہم چند دن ہوئے تنظیم اسلامی کے ایک نوجوان رفیق نے ان کے والد ماجد کے استفتاء پر مولانا تقی عثمانی صاحب کے دستخط سے جاری شدہ تحریر دکھائی جس میں کہا گیا ہے کہ چونکہ راقم الحروف باضابطہ عالم دین نہیں ہے لہٰذا نہ میری تنظیم میں شمولیت درست ہے نہ میرے دروس میں شرکت (اس کے بارے میں راقم اپنی گزارشات آگے عرض کرے گا) ساتھ یہ بھی درج تھا کہ انہوں نے (یعنی مولانا تقی عثمانی صاحب نے) نہ میری تقریریں سنی ہیں نہ تحریریں پڑھی ہیں. اس پر کسی قدر تعجب ہوا کہ اگر وہ ’’میثاق‘‘ نہیں دیکھتے تھے تو چشتی صاحب کی تحریریں ان کے علم میں کیسے آئیں؟ اور کم از کم میری وہ تقریر تو انہوں نے از ابتدا تا انتہا سنی تھی جو میں نے ’’قرآن کانفرنس‘‘ کے متذکرہ بالا اجلاس میں ان ہی کے زیر صدارت ’’مقامِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین‘‘ کے موضوع پر کی تھی اور جو اختصار کے باوصف خاصی طویل تھی. اس کی اس کے سوا اور کیا تاویل کی جائے کہ کچھ عرصہ گزر جانے کے باعث یہ واقعات مولانا کے حافظے سے محو ہو گئے! واللہ اعلم! ’’بیّنات‘‘ کے دو حالیہ شماروں کے ادارتی صفحات راقم کے تذکرے میں صرف ہوئے ہیں.

اس سے قبل راقم ’’اکابر دیوبند‘‘ رحہم اللہ کے ساتھ اپنے ایک اور تعلق کے اظہار کی اجازت چاہتا ہے. اور وہ ہے ’’زمینی نسبت‘‘ یعنی یہ کہ راقم کے آباء و اجداد کا تعلق بھی یوپی کے مشہور دوآبہ کی اسی سرزمین سے ہے جس میں سہارنپور‘ دیوبند‘ کاندھلہ‘ گنگوہ‘ نانوتہ‘ بڈھانہ‘ جھنجھانہ‘ کیرانہ‘ تھانہ بھون اور پھلت ایسے قصبات واقع ہوئے ہیں‘ جنہوں نے مسلم انڈیا کے ابتدائی دور میں تو شیخ عبد القدوس گنگوہی ایسی عظیم شخصیت پیدا کی تھی. پھر شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا خاندان عطا کیا (یہ حضرات اصلاً قصبہ پھلت کے تھے) بعد ازاں مجاہد کبیر سید احمد بریلویؒ کو کثیرترین تعداد میں جہاد و قتال کے ساتھ (Comrades at arms) مہیا کیے. اور پھر جملہ اکابرین دیوبند کا تحفہ مسلمانانِ ہند کو دیا. 

ان قصبات میں ’’شیوخ‘‘ کی ایک برادری آباد ہے جن میں سے کچھ تو اپنے ناموں کے ساتھ ’’قریشی‘‘ کا عمومی لاحقہ لگاتے ہیں اور کچھ تعین کے ساتھ صدیقی‘ فاروقی یا عثمانی لکھتے ہیں. ان کے رشتے ناطے آپس میں بھی بہت ہیں اور ہندی نو مسلم خاندانوں کے ساتھ بھی‘ اس طرح ان میں باہر سے آنے والے قدیم الاسلام اور مقامی آبادی میں سے ایمان لانے والے حدیث العہد مسلمان باہم گڈمڈ ہیں. راقم کا ددھیال اسی علاقے کے قصبہ حسین پور سے تعلق رکھتا ہے اور ننھیال قصبہ بَنَت سے! میری والدہ صاحبہ تو تعین کے ساتھ صدیقی ہیں. ان کے مورثِ اعلیٰ شیخ حبان المصری الیمنی الصدیقی تھے جن کی سترہویں پشت میں شیخ محمد طاہر ہندوستان آئے تھے (اس خاندان کے بعض حضرات جیسے مولانا محمد حسین فقیر اور ان کے صاحبزادگان مولانا محمد ابراہیمؒ اور مولانا محمد اسحق قبرستان مہندیاں دہلی میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ اور ان کے ابناء و احفاد کے قریب محو استراحت ہیں) میرے پڑ دادا حافظ نور اللہ صاحب حسین پور میں ’’پکی حویلی والے‘‘ مشہور تھے. ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد وہ انگریزی حکومت کے زیر عتاب آئے اور ان کی جائیداد ضبط کر لی گئی. مجبوراً انہوں نے نقل مکانی کی اور دریائے جمنا عبور کر کے مشرقی پنجاب کے ضلع حصار آ گئے اور سرکاری ملازمت شروع کر دی. میرے دادا حاجی محمد یحییٰ بھی وہیں سرکاری ملازمت میں رہے. والد مرحوم شیخ مختار احمد کے ساتھ ہم سب لوگ ۱۹۴۷ء کے قتل عام اور جبری تبادلۂ آبادی کے ضمن میں واقعتا آگ اور خون کے دریا عبور کر کے پاکستان آئے (حصار سے سلیمانکی ہیڈ ورکس کا ایک سو ستر میل کا فاصلہ ہم لوگوں نے ایک پیدل قافلے کے ساتھ بیس دنوں میں طے کیا‘ اور راستے میں جو مصیبتیں اٹھائیں ان کے بیان کے لیے ایک دفتر درکار ہے). الغرض ؏ ’’کعبے سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دُور کی!‘‘ کے مصداق یہ بھی میری اکابرین دیوبند کے ساتھ ایک نسبت کی اساس ہے.

مولانا سید انور شاہ کشمیریؒ کے تلمیذ رشید مولانا سید یوسف بنوریؒ کے تذکرے سے قبل چند الفاظ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے بارے میں بھی ضروری ہیں. مبادا کوئی غلط فہمی راہ پا لے. مولانا تھانویؒ کو بھی اگرچہ حضرت شیخ الہندؒ سے ایک نسبت تلمذ حاصل تھی‘ تاہم ان کا شمار حضرت شیخ الہندؒ کے تلامذہ یا متوسلین میں درست نہیں‘ بلکہ وہ ہر اعتبار سے ایک متوازی شخصیت ہیں اور ان کی عظمت خالص ذاتی ہے. چنانچہ عمر کے اعتبار سے بھی وہ حضرت شیخ الہندؒ سے صرف بارہ سال چھوٹے‘ اور ان کے اکثر تلامذہ سے پندرہ پندرہ بیس بیس سال بڑے تھے. پھر ان کا مزاج بھی خالص علمی و اصلاحی تھا. چنانچہ ان کی اصل توجہات یا تصنیف و تالیف پر مرتکز رہیں یا تزکیہ و سلوک پر‘ سیاسیات پر وہ نگاہ رکھتے تھے اور آزادانہ رائے کے حامل بھی تھے. لیکن اس سے انہیں کوئی عملی دلچسپی نہ تھی. چنانچہ جہاد حریت اور تحریک استخلاص وطن میں بھی ان کا کوئی قابل ذکر حصہ نہیں ہے. لیکن دوسری طرف یہ واقعہ ہے کہ موجودہ پورے حلقہ دیوبند پر اُن ہی کے علم اور تصوف کی چھاپ سب سے بڑھ کر ہے اور پاکستان میں اکثر و بیشتر عظیم الشان دینی درسگاہیں ان ہی کے خلفاء اور متوسلین نے قائم کی ہیں. الغرض ان کی ذات سے جو ’’خیر کثیر‘‘ برصغیر پاک و ہند میں پھیلا‘ وہ اظہر من الشمس ہے تاہم راقم کے نزدیک ان کا شمار ’’حضرت شیخ الہندؒ کی جماعت‘‘ میں نہیں ہے‘ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ شمارہ میں ان کا کوئی ذکر نہیں آیا تھا.

بیہقی وقت مولانا سید انور شاہ کاشمیریؒ کے شاگردِ رشید مولاناسید محمدیوسف بنوریؒ کا مزاج بھی بالکل غیر سیاسی اور خالص علمی بلکہ تعلیمی و تدریسی تھا! اہل علم کے حلقے میں تو وہ یقینا بہت پہلے نمایاں اور معروف ہو گئے ہوں گے لیکن عوامی سطح پر ان کی شہرت ۱۹۷۴ء کی تحریک ِختم نبوت سے پہلے زیادہ تر صرف کراچی اور اس کے گرد و نواح تک محدود تھی‘ البتہ ۱۹۷۴ء کی تحریک کے دوران وہ دفعتاً ملک گیر شہرت کے حامل ہو گئے راقم کو ان سے جو ذہنی و قلبی تعلق رہا اس کی اجمالی داستان الحمد للہ کہ ان کی وفات پر سپرد قلم ہو گئی تھی اور ’میثاق‘ کی نومبر۱۹۷۷ء کی اشاعت میں شائع ہو گئی تھی جو ذیل میں نقل کی جا رہی ہے! (اگر راقم آج یہ باتیں لکھتا تو شاید بعض حضرات اسے ’سخن سازی‘ قرار دیتے !)