حضرات! گزشتہ جمعہ میں‘ میں نے اپنے ان بعض مشاہدات کا ذکر کیا تھا جو ایک طویل سفر سے واپسی پر مجھے وطن عزیز میں ہوئے تھے اور ان کے بارے میں اپنے تاثرات اور اپنے احساسات قدرے تفصیل سے آپ کے سامنے رکھے تھے. انہی میں ایک مسئلہ قصاص و دیت کے مسودہ قانون سے متعلق ہے جس کے بارے میں ایک controversy ہمارے ملک میں عرصۂ دراز سے چل رہی تھی. واپسی پر معلوم ہوا کہ اس دوران اس controversy میں بہت شدت پیدا ہوئی. خاص نقطہ نظر کے حق میں خواتین کی بعض تنظیموں کی طرف سے احتجاجی جلوس نکالے گئے اور جلسے کیے گئے. اخبارات میں کثرت سے مضامین‘ بیانات اور مراسلات شائع ہوئے. جواباً دوسرے نقطہ نظر کی جانب سے بھی جلسے ہوئے اور اخبارات اور خاص طور پر دینی رسائل میں اپنی رائے کا اسلامی نقطہ نظر سے مدلل اظہار رائے کیا گیا. اس سے پہلے قانونِ شہادت کی ایک شق کے بارے میں بحث و تمحیص اور مخالفانہ آرا کا ہمارے ملک میں‘ ہمارے معاشرے میں ’’روشن خیال‘‘ خواتین کی طرف سے اخباری بیانات‘ مراسلات‘ مضامین کے اظہار اور احتجاجی جلسوں‘ جلوسوں اور مظاہروں کا سلسلہ چلتا رہا تھا. اس کے ضمن میں بہت سے احباب کے ذہن میں ایک سوال پیدا ہوا ہو گا.

اور بعض حضرات نے مختلف مواقع پر مجھ سے اس کے بارے میں استفسار بھی کیا. وہ استفسار یہ تھا کہ میں ان موضوعات و معاملات میں کیوں خاموش رہا ہوں اور میں نے ان مسائل پر اپنی کسی تفصیلی رائے کا اظہار کیوں نہیں کیا! حالانکہ ایک خاص اعتبار سے لوگوں کو توقع تھی کہ شاید ان معاملات میں سب سے زیادہ شد و مد کے ساتھ میری طرف سے اظہار خیال ہو گا. چونکہ ایسے معاملات میں نقطہ نظر کا جو بنیادی اختلاف کار فرما ہے وہ مردوں اور عورتوں کے مابین کامل مساوات کا نظریہ ہے جو مغرب کی جدید فکر‘ فلسفہ اور تہذیب و تمدن کے رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے ہے اور اسی نظریے سے مرعوب و مسحور ہمارے معاشرے میں ایک فعال طبقہ ایسا ہے جو اگرچہ عددی اعتبار سے یقینا ایک چھوٹی اقلیت ہے‘ لیکن فعال اقلیت ہے. وہ مساواتِ مرد و زن کے نظریے پر پورا ایمان رکھتی ہے اور وہی اقلیت ہے جو ایسے تمام مسائل میں جہاں ان کے نظریے کے مطابق عورت کا درجہ کسی نوعیت سے مرد کی برابری کا نہ ہو‘ سراپا احتجاج بن جاتی ہے‘ پھر اسی اقلیت کے زیادہ تر افراد چونکہ یا تو حکومت کے اعلیٰ ترین مناصب پر فائز ہیں یا بڑی بڑی صنعتوں اور بڑے بڑے تجارتی اداروں سے تعلق رکھتے ہیں. لہٰذا اس طبقے کے احتجاج‘ خاص طور پر اس کی خواتین کے احتجاج‘ مخالفانہ بیانات‘ مراسلات اور مضامین کو ہمارے ذرائع ابلاغ بڑی نمایاں حیثیت سے coverage دیتے ہیں. ان کی تشہیر کرتے ہیں. چنانچہ ایسے موضوعات معاشرے میں ایک شدید ردّ و قدح اور بحث و مباحثے کا باعث بن جایا کرتے ہیں.

آپ حضرات کو یاد ہو گا کہ یہ مساواتِ مرد و زن کا جو اصل مسئلہ ہے‘ اصل 
controversy ہے‘ جو اصل بنیاد ہے اس کے ضمن میں آج سے قریباً دو سال قبل جو سب سے بڑی controversy زور شور سے اٹھی تھی وہ میرے ہی حوالے سے شروع ہوئی تھی. یعنی ستر و حجاب اور عورت کے جداگانہ دائرہ کار کا مسئلہ. اگرچہ وہ مسئلہ میں نے اپنے کسی شعوری ارادے سے‘ اپنے کسی فیصلے سے یا اپنی کسی سوچی سمجھی اسکیم کے تحت شروع نہیں کیا تھا بلکہ ایک نیم دوستانہ اور ایک نیم صحافیانہ گفتگو تھی جس کی رپورٹنگ ہوئی اور اس کے حوالے سے اس وقت ہمارے ملک میں ایک طوفان کھڑا ہو گیا تھا. تاہم جب یہ مسئلہ چھڑ گیا اور سوال اُٹھ کھڑا ہوا تو اس مسئلہ پر میں اسلام کا جو نقطہ نظر سمجھتا ہوں اور ہمارے دین کی جو تعلیمات ہیں‘ میں نے اُن کو بھرپور انداز اور پوری قوت کے ساتھ پیش کیا تھا . (۱چنانچہ مساواتِ مرد و زن کے مسئلے کے بارے میں controversy کا وہ جو دَور تھا اس میں ’’روشن خیال‘‘ طبقے کے نزدیک نمایاں ترین اور متنازعہ ترین شخص مَیں بن گیا تھا.

لیکن جب اُسی مساواتِ مرد و زن کے مسئلہ کا ان دو اعتبارات سے یعنی قانون شہادت کی ایک شق اور مسودۂ قانون قصاص و دیت کے حوالے سے مزید ظہور ہوا تو اس پر مَیں خاموش رہا. یقینا یہ ایک سوال ہے جو بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہوا ہو گا اور بعض حضرات نے‘ جیسا کہ میں نے ابھی عرض کیا‘ اس کے بارے میں مجھ سے باضابطہ استفسار بھی کیا. میری اس خاموشی کا جو سبب ہے پہلے میں اُسے بیان کر دینا چاہتا ہوں. پھر قصاص و دیت کے مسئلہ پر اپنی رائے پیش کر دوں گا جو انشاء اللہ کتاب و سنت پر مبنی ہو گی. اصل سبب یہ ہے کہ میری 
(۱) محترم ڈاکٹر صاحب کا اس موضوع پر مبسوط و مدلل خطاب ’’اسلام میں عورت کا مقام‘‘ کے عنوان سے مطبوعہ شکل میں موجود ہے. (مرتب) تشخیص یہ ہے کہ ہمارے اس معاشرے میں‘ جس کے مختلف اجزائے ترکیبی ہیں‘ جن کا ایک اجمالی ذکر میں آگے چل کر آج کی گفتگو میں کروں گا انشاء اللہ. میری تشخیص یہ ہے کہ بحیثیت مجموعی اس معاشرے میں مسلمان جینے اور مسلمان مرنے کا داعیہ اور ارادہ مضمحل ہو چکا ہے. اصل شے یہ ہے کہ کسی فرد میں‘ کسی قوم میں یہ عزم پیدا ہو جائے کہ اُسے مسلمان جینا ہے‘ مسلمان مرنا ہے.

جب یہ کیفیت پیدا ہو جائے گی تو اب خود‘ اس کی طرف سے یہ بات ایک بالکل معروضی انداز میں پوچھی جائے گی‘ تلاش کی جائے گی کہ اسلام کیا کہتا ہے! میں مسلمان رہنا چاہتا ہوں‘ مسلمان مرنا چاہتا ہوں‘ لہٰذا مجھے معلوم ہونا چاہے کہ اسلام کیا ہے! اللہ کا حکم کیا ہے! اس کے رسول  کا حکم کیا ہے! ہمارے ائمہ عظام جنہوں نے اسلام کو سمجھنے میں اپنی پوری پوری زندگیاں کھپا دی ہیں‘ انہوں نے فلاں مسئلہ میںکیا رائے ظاہر کی ہے! اس وقت ایسے شخص کا رویہ ہو گا اتباع کا اس کے اندر جذبہ ہو گا اطاعت کا‘ ایسا شخص کسی مسئلہ کے بارے میں سوال کرے گا تو اس لیے کہ اس کے اپنے اندر ایک داعیہ پیدا ہو چکا ہے کہ اُسے معلوم ہو کہ اللہ کا حکم کیا ہے! تاکہ وہ اس پر چلے. اُسے معلوم ہو کہ رسول اللہ  کی سنت کیا ہے! تاکہ وہ اس کے مطابق اپنی زندگی کا رُخ تبدیل کرے. اُسے معلوم ہو کہ اہل علم کا کیا کہنا ہے! تاکہ وہ اس کے مطابق عمل کرے. یہ رویہ اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب کہ انفرادی یا اجتماعی سطح پر یہ ارادہ وجود میں آ چکا ہو. لیکن اگر یہ اارادہ موجود نہ ہو تو مختلف مسائل کے بارے میں یہ ساری بحثیں کہ قرآن کیا کہتا ہے! رسول کی سنت کیا ہے! امام ابو حنیفہ کا قول کیا ہے! امام شافعی کی رائے کیا ہے! اور امام مالک اور امام احمد بن حنبل( رحمہم اللہ) کا موقف کیا ہے! خلفائے اربعہؓ کا تعامل کیا ہے! تابعین و تبع تابعین کا مسلک کیا ہے! محض علمی بن کر رہ جاتی ہیں. یہ علمی controversy ہے جس کی عملی اعتبار سے کوئی افادیت نہیں ہے. 

اگر میری یہ تشخیص اور میری یہ رائے صحیح ہو کہ ہمارے معاشرے میں مسلمان جینے اور مسلمان مرنے کا جذبہ اور داعیہ مضمحل ہے‘ وہ ارادہ ہی موجود نہیں ہے. اشخاص کے اندر بھی شاذ ہی ایسے افراد ہمارے معاشرے میں ملیں گے‘ جن میں یہ ارادہ قوی ہے اور مضبوط ہے. لیکن جب ہم معاشرے کو ایک اکائی کی حیثیت سے اپنے سامنے رکھتے ہیں تومعلوم ہوتا ہے کہ اس اعتبار سے وہ ارادہ‘ جسے میں 
collective will کا نام دیتا ہوں‘ اگر بنظر غائر دیکھا جائے‘ تو معلوم ہو گا کہ زبانی کلامی اسلام کی مدح سرائی کے سوا عملی اعتبار سے اسلام کے حق میں وہ اجتماعی ارادہ‘ وہ collective will کہ ہمیں مسلمان جینا ہے‘ مسلمان مرنا ہے‘ موجود نہیں ہے. لہٰذا اس صورتِ حال کے پیش نظر جو فی الواقع درپیش ہے‘ موجود ہے‘ اصل کرنے کا کام یہ ہے کہ اس اجتماعی ارادے کو پیدا کیا جائے."The will to be a Muslim" اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ . ایک انسان پہلے یہ فیصلہ تو کرے اور اسی طریقے سے ایک معاشرہ‘ جب یہ فیصلہ ہو جائے گا تو اب شریعت کے تمام احکام کو ذہناً بالکلیہ قبول کرنا اور ان پر عمل کرنے کی پیہم اور مخلصانہ سعی و کوشش کرنا بڑا آسان کام ہو جائے گا. اس کی ایک بڑی نمایاں مثال ہمارے سامنے موجود ہے. اور قرآن مجید کے نزول کے اعتبار سے جو حکمت ِ دین ہے‘ اس کا بھی یہ ایک اہم پہلو ہے کہ ابتدا میں احکام نہیں دیے گئے. شریعت کے احکام اور حلال و حرام کے احکام‘ کچھ نہیں دیے گئے. بارہ تیرہ برس جو مکہ مکرمہ کے ہیں‘ ان میں اس ارادے کو تقویت دی گئی. اللہ کی توحید پر‘ رسول کی رسالت پر اور وقوعِ قیامت و آخرت پر ایمان پیدا کیا گیا. یقین پیدا کیا گیا‘ اس ایمان و ایقان کے نتیجے میں ارادہ ابھر کر سامنے آیا اور عمل کا ایک شدید داعیہ اہل ایمان کے قلوب میں موجزن ہو گیا. گویا ایک "strongest collective will" وجود میں آ گئی. 

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہجرت کے بعد جب اہل ایمان کا اپنا ایک معاشرہ وجود میں آ گیا تو انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ایمان کے مقتضیات کے مطابق بسر کرنے کی اس معاشرے میں شدید طلب اور پیاس پیدا ہو گئی. ایک 
urge پوری قوت سے ابھر آیا. لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ مدنی سورتوں میں سب سے پہلی اور سب سے طویل سورت سورۃ البقرۃ ہے. اس میں کئی جگہ بہت سے احکام کا ذکر اس طرح ملتا ہے ’’یَسْئَلُوْنَکَ ‘‘ اے نبی یہ آپ سے پوچھ رہے ہیں. جیسے یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ ’’(اے نبی ! )یہ آپ سے پوچھتے ہیں شراب اور جوئے کے بارے میں‘‘. یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ’’(اے نبی !) یہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کتنا خرچ کریں‘‘. یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا اُحِلَّ لَھُمْْ ’’ (اے نبی !) یہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا کیا چیزیں ان کے لیے حلال ہیں‘‘. پس معلوم ہوا کہ جب وہ collective will پیدا ہو گئی تو خود بخود سوال پیدا ہوئے کہ ہمیں بتایا جائے کہ زندگی کے مختلف معاملات اور مقتضیات میں ہم کیا کریں! کون سا رویہ اختیار کریں! یہ داعیہ اتنی شدت سے ابھرا کہ شریعت کے احکام معلوم کرنے کے بارے میں جستجو‘ اصرار اور urge پیدا ہو گیا. تو جب یہ collective will پیدا ہو گئی. یہ urge اچھی طرح ابھر آیا تو اس کے بعد احکام دیے گئے اور جیسے جیسے احکام نازل ہوتے گئے تو معاشرہ گویا پہلے سے تیار تھا اور وہ قبول کرتا چلا گیا اور احکام کی تنفیذ ہوتی چلی گئی. ہم کو اُس معاشرے میں یہ بات قطعی نظر نہیں آتی کہ کسی مسئلہ میں کوئی controversy پیدا ہو گئی ہو.

بلکہ سوائے سود کی حرمت کے حکم کے‘ اور کسی حکم کے متعلق ہمیں اُس دَور میں یہ بات بھی نظر نہیں آتی کہ کوئی عقلی دلیل بھی طلب کی گئی ہو. سود کی حرمت کے حکم پر یہ عقلی اعتراض وارد کیا گیا کہ وہ یہ کہتے ہیں: اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا کہ بیع میں بھی تو کچھ منفعت ہو جاتی ہے کچھ نفع ہو جاتا ہے. سو روپے کی چیز خرید کر ایک سو دس روپے میں بیچ دی تو دس بچ گئے‘ تو اگر سو روپے کسی کو قرض دے کر اس سے ایک سو دس لے لیے تو آخر اس میں فرق کیا ہے. (۱اس کے سوا ہمیں نظر نہیں آتا کہ کچھ controversies اُٹھی ہوں اور عقلی استدلالات یا عقلی اشکالات پیش اور وارد کیے گئے ہوں اور بحث و تمحیص کے دروازے کھل گئے ہوں. اس دَور میں جس طریقے سے ’’دانشوروں‘‘ اور علماء کے مابین دینی مسائل کے بارے میں بڑی ہی رنگ آمیزیوں اور حاشیہ آرائیوں کے ساتھ رنگا رنگ اختلافی مضامین چھپتے اور اخبارات کی زینت بنتے ہیں‘ اس قبیل کی کسی شے کا اُس دَور میں کوئی سراغ نہیں ملتا. اس لیے کہ پہلے وہ will پیدا کر دی گئی‘ وہ ارادہ پیدا کر دیا گیا تھا جس کے بعد اب جو بھی احکام دیے گئے تو ’’سر تسلیم خم ہے‘‘ والا رویہ اختیار کیا گیا اور ان کو اس طور سے قبول کیا گیا کہ جیسے وہ پہلے ہی سے منتظر تھے کہ وہ حکم آئے اور وہ قبول کریں اور فوراً اس پر عمل شروع کر دیں. 

بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں کم سے کم اجتماعی سطح پر وہ 
collective will موجود نہیں ہے. ہے بھی تو وہ بہت مضمحل ہے. اس کی وجہ کیا ہے! اس کو بھی سمجھ لیجیے. اصل میں مغرب و مشرق کا جو تصادم ہے اس کی تاریخ ویسے تو قریباً دو سو برس کی تاریخ ہے. جیسے ہی یورپ کے ممالک سے انگریز آئے‘ فرانسیسی آئے ‘اور ولندیزی آئے ‘لیکن ہوتے ہوتے (۱) اس کے جواب میں کوئی عقلی دلیل دینے کے بجائے فرمایا گیا : وَ اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰواط ’’ اللہ نے بیع کو حلال اور ربا کو حرام قرار دیا ہے‘‘. یعنی ایک بندہ ٔ مومن کے لیے تعمیل حکم کے واسطے یہ دلیل کافی ہے کہ حلال و حرام قرار دینے کا اختیار صرف اللہ کو ہے جس پر تم ایمان لانے کے مدعی ہو. (مرتب) انگریز کے سوا دوسری اقوام کا عمل دخل ختم ہو گیا یا نہ ہونے کے برابر رہ گیا‘ صرف انگریز قوم کا برصغیر پاک و ہند پر پورا تسلط قائم ہو گیا اور پورا ملک براہِ راست اس کی سیاسی غلامی میں چلا گیا. جیسے ہی یہ معاملہ ہوا‘ ویسے ہی تصادم شروع ہو گیا. بالکل نئی تہذیب آئی تھی. خداناآشنا مادہ پرستانہ تہذیب. اس تہذیب میں چمک دمک تھی. وہ جو علامہ اقبال نے کہا ہے ؎

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے

لیکن یہ تو ایک بالغ نظر شخص ہی دیکھ سکتا تھا کہ یہ جھوٹے نگ ہیں. ہمارے یہاں ایک خاص طبقے نے اس تہذیب پر لبیک کہا اور اُسے اختیار کیا. یہ بھی بلا سبب نہیں ہوا. اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ ایک حکمران قوم کی تہذیب تھی. یہ ایک محکوم قوم کے افراد تھے. محکوم قوموں میں حاکم قوم سے مرعوبیت ہوتی ہے. لہٰذا ہمارے ایک طبقے نے اس تہذیب کو‘ اس کے اصول کو‘ اس کے مبادی کو‘ اس کے مظاہر کو‘ اور اس کے فکر و فلسفہ کو ایک مرعوب ذہنیت کے ساتھ قبول کرنا شروع کیا. پھر یہ کہ یہ مظہر 
(phenomenon) مشترکہ طور پر آپ کو ہر محکوم قوم میں نظر آئے گا کہ محکوم قوم میں سے جو طبقہ حکمران قوم کی تہذیب کو آگے بڑھ کر قبول کرتا ہے‘ اپنے آپ کو اسی رنگ میں رنگنے اور اُسی سانچے میں ڈھالنے کی شعوری کوشش کرتا ہے ‘تو وہ طبقہ حاکم قوم کے قریب ہو جاتا ہے اوراس سے مفادات حاصل کرتا ہے‘ اس کی حکومت کی مشین میں پرزہ بنتا ہے‘ اس سے وفاداری کا معاملہ کرتا ہے اور اس سے خطابات حاصل کرتا ہے. اس لیے کہ اس وقت دنیوی ترقی کے لیے یہی راستہ سب سے زیادہ منفعت بخش ہوتا ہے. چونکہ اس طبقے کے لیے معیشت کے دروازے کشادہ ہوتے چلے جاتے ہیں. جو لوگ دُور رہیں گے‘ پیچھے رہیں گے‘ قریب نہیں آئیں گے وہ معاشی دوڑ میں بھی پیچھے رہ جائیں گے اور ان کا social status بھی کم رہ جائے گا. 

نتیجتاً ہمارے یہاں بھی ایک طبقہ ایسا پیدا ہوا جس نے اپنے آپ کو بالکلیہ انگریزی تہذیب میں رنگ لیا. اور ہمارے ایک بہت بڑے لیڈر کے قول کے مطابق اس طبقہ کا طرز عمل یہ ہو گیا کہ چمڑی کی رنگت کے سوا ہمیں ہر اعتبار سے ’’انگریز‘‘ بن جانا ہے. یہ گویا کہ 
objective تھا جو اس دَور میں دیا گیا تھا. یہ سر سید احمد خاں کا قول ہے جو میں آپ کو سنا رہا ہوں کہ ’’سوائے چمڑی کی رنگت کے‘‘. اس لیے کہ وہ تو اختیار سے باہر کی شے ہے اُسے بدلا نہیں جا سکتا. ’’مسلمانوں کو چاہیے کہ انگریز بن جائیں اور انگریزی تہذیب اختیار کر لیں‘‘. تو یہ ایک طبقہ تھا جو اگرچہ ایک محدود طبقہ تھا‘ بالکل اقلیت میں تھا‘ تعداد کے اعتبار سے بہت قلیل تھا. لیکن چونکہ حکمران طاقت کے قریب تر یہی طبقہ ہوتا چلا گیا. لہٰذا اس کا نفوذ اور اثر ہمارے معاشرے میں مسلسل بڑھتا چلا گیا. تو یہ تصادم ہمارے یہاں اس وقت سے شروع ہو چکا تھا. 

لیکن آج میں چاہتا ہوں کہ ایک خاص بات آپ نوٹ کر لیں. وہ یہ کہ ہمارے معاشرے پر مغربی تہذیب کا بحیثیت مجموعی عمل دخل انگریز کی براہِ راست سیاسی غلامی کے دَور میں اتنا نہیں ہوا‘ جتنا کہ آزادی کے بعد ہوا ہے. یہ جو سینتیس (۳۷)برس ہم نے آزادی کے بتائے ہیں‘ ان میں یہ عمل دخل بہت زیادہ بڑھ گیا ہے. بہت وسیع پیمانے پر ہوا ہے. اس لیے کہ جیسا کہ میں نے ابھی عرض کیا کہ اس وقت صورتِ حال یہ تھی کہ وہ جو ایک محدود طبقہ تھا اور اس کا انگریزی حکومت سے بڑا قریبی تعلق تھا ‘لہٰذا ہمارے عوام ان کو پسند نہیں کرتے تھے. عوام الناس کو اس طبقے سے عموماً نفرت تھی. دوسرے یہ کہ محکوم قوم کے جذبات حکمران قوم کے لیے خیر سگالی اور پسندیدگی کے نہیں ہوا کرتے. مزیدبرآں عالم اسلام کو انگریزی حکومت کی وجہ سے جو نقصان پہنچا‘ اس کی وجہ سے بھی بحیثیت مجموعی ہماری قوم کے اندر انگریز اور انگریزی تہذیب سے واضح نفرت برقرار رہی. تیسرا سبب یہ تھا کہ اُس وقت اس جدید تہذیب کے ساتھ کوئی بہت ہی قربت والا رابطہ 
(close contact )نہیں تھا. اس دَور میں آمد و رفت اور رسل و رسائل کے ذرائع اتنے آسان نہیں تھے. انتہائی قلیل ‘ معدودے چند لوگ ہوتے تھے جو ولایت جا کر تعلیم حاصل کرتے تھے. آٹے میں نمک کی نسبت سے بھی شاید کم. وہ آتے تھے مغربی تہذیب میں پورے رنگے رنگائے. ولایت پلٹ لوگ تو یقینا اسی تہذیب کو بالکلیہ اختیار کر کے آتے تھے. اِلا ماشاء اللہ. لیکن تعداد کے اعتبار سے وہ اتنے کم ہوتے تھے کہ اگر مجموعی لحاظ سے ہم جائزہ لیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ اس دَور میں ان کا معاشرے پر بہت کم اثر تھا. بلکہ عوام الناس ان کو طنزیہ انداز میں پھبتی کے طور پر ’’لندن پلٹ‘‘ کہا کرتے تھے. 

یہ معاملہ برصغیر پاک و ہند کی آزادی کے بعد ہوا ہے کہ ایک طرف تو اب جو ہمارے حکمران ہیں‘ وہ ہم میں سے ہیں. لیکن وہ کلیۃً اُسی تہذیب کے پروردہ ہیں ‘اُسی تہذیب میں رنگے ہوئے ہیں‘ اُسی تہذیب کے دلدادہ ہیں ‘اور اُسی کو انہوں نے عملاً اختیار کیے رکھا ہے. اور ہمارے سرکاری محکمہ جات کے عمال یعنی 
(bureaucracy) ہے یا ہماری ملٹری کی جو top class ہے‘ یہ سب ایک ہی ہیں. یہ سب ایک ہی طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں. یہی اونچا طبقہ بہت سے اعتبارات سے ہمارے یہاں انگریز کا وارث بنا ہے. ان میں SIR رہے ہیں. اب ان کی اولاد ہے. خان صاحبوں اور خان بہادروں کی نسل بھی چل رہی ہے ان سب کی اکثریت اُسی انگریزی تہذیب کے رنگ میں مزید رنگ گئی ہے. جو ان کے آباء و اَجداد نے اختیار کی تھی. انگریزی حکومت کے دَور میں جو طبقہ انگریز سے قریب تر تھا‘ وہی طبقہ یا اُسی کی اولاد ہے جو اکثر و بیشتر ہماری حکومتی اور قومی سطح پر جو اجتماعی زندگی ہے‘ اس میں سب سے زیادہ اونچے مناصب پر فائز اور سب سے زیادہ فعال یہی عنصر ہے. اب چونکہ یہ لوگ ہم ہی میں سے ہیں تو اُس وقت انگریزی تہذیب کے فروغ اور اثر و نفوذ میں کم از کم وہ نفرت روک اور آڑ بنی ہوئی تھی جو حاکم اور محکوم قوم کے مابین طبعاً موجود ہوتی ہے. اب وہ رکاوٹ دُور ہو گئی. نفرت کا وہ barrier بھی راستہ میں سے ہٹ گیا. اب تو وہ ہم میں سے ہیں. ہمارے معاشرے کے افراد ہیں "They are our own kith and kin" ان میں سے کسی کے نام کے ساتھ سید لکھا ہوا ہے‘ وہ سید زادہ ہے‘ چاہے وہ فکری اور عملی اعتبار سے سر تا پا مغربی تہذیب میں غرق ہو چکا ہو‘ لیکن بہرحال نسلی اعتبار سے وہ سید ہے. کوئی ہے جو خلفائے راشدینؓ یا دیگر اصحابِ رسول علی صاحبہم الصلوٰۃ والسلام و رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت رحمہم اللہ کے اسمائے گرامی اور خاندانوں سے خود کو منسوب کرتا ہے اس کے ناموں کے ساتھ صدیقی‘ فاروقی‘ عثمانی‘ علوی‘ حسنی‘ حسینی‘ زیدی‘ جعفری وغیرہم کے لاحقے ہوتے ہیں. لیکن فکر و عمل کے اعتبار سے ان کے نام کے سوا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا الاّ ماشاء اللہ. یہ لوگ مغربی فکر اور مغربی تہذیب کے عملاً بھی خاموش داعی اور نقیب ہوتے ہیں اور قولاً بھی. پھر اسی طبقے سے عموماً اور اکثر وہ لوگ ابھرتے ہیں جو ہمارے یہاں ’’دانشور‘‘ کہلاتے ہیں.

تو اس طرح حاکم قوم کی تہذیب سے‘ اس کی فکر سے محکوم قوم کو جو طبعاً نفرت ہوتی ہے ‘وہ barrier اب ہمارے معاشرے میں سرے سے موجود ہی نہیں ہے. لہٰذا انگریزی حکومت کے محکمہ جات کے جو وارث بنے ہیں ان کا معاملہ وہ ہے جو ہمارے یہاں بطور محاورہ کہا جاتا ہے کہ ’’شاہ سے بڑھ کر شاہ کا خیر خواہ‘‘. تو یہ طبقہ درحقیقت وہ ہے جو انگریزی دَور میں انگریز سے بڑھ کر مغربی تہذیب کا دلدادہ تھا. آزادی کے بعد اس میں کوئی کمی یا اصلاح کے عمل کے بجائے وہ اور ان کی اولاد اسی میں پختہ تر ہوتی چلی گئی. الا ماشاء اللہ. دوسرا عملی معاملہ یہ ہوا کہ ذرائع رسل و رسائل آسان ہو گئے‘ آمد و رفت میں سہولت پیدا ہو گئی ہے آزادی کے بعد سے ہمارے لوگ کثیر تعداد میں یورپ اور امریکہ گئے ہیں اور وہاں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے آئے ہیں تو تعلیم کے ساتھ وہ وہاں کے افکار اور تہذیبی اقدار کے جراثیم بھی ساتھ لے کر آئے. (۱ظاہر بات ہے کہ ان جراثیم کو ہمارے معاشرے میں پھیلنا ہی پھیلنا تھا اور ان حضرات کے بود و باش‘ وضع قطع اور خیالات و رجحانات‘ میلانات و تاثرات کا اثر ہمارے معاشرے پرپڑنا ہی پڑنا تھا. لہٰذا اصل تصادم اس وقت ہو رہا ہے. اگرچہ ہم مغرب کی براہِ راست غلامی سے آزاد ہو چکے ہیں‘ لیکن مغربی افکار اور اس کی تہذیبی اقدار کا غلبہ اس وقت زیادہ گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے. ان کے اثرات اب زیادہ نمایاں اور ظاہر ہو رہے ہیں. اسی وجہ سے اب وہ تصادم اور گہرا اور شدید ہو گیا ہے. یہ ہیں وہ اسباب جن کے پیش نظر آپ جب اجتماعی سطح پر اپنے معاشرے کا جائزہ لیں گے تو آپ اس نتیجہ تک پہنچ جائیں گے کہ وہ "collective will to be a Muslim" پہلے کے مقابلے میں مضمحل تر ہو چکی ہے. پہلے سے زیادہ کمزور ہو چکی ہے. اس لیے کہ وہ طبقہ بہرحال ہمارے معاشرے میں زیادہ مؤثر طبقہ ہے. اسے اپنے مرتبے‘ اپنے مقام اور اپنی حیثیت کی وجہ سے معاشرے پر اثر انداز ہونے کے مواقع زیادہ حاصل ہیں. 

تیسرا عملی معاملہ یہ ہوا کہ ذرائع ابلاغ نے نہایت وسعت حاصل کر لی. پچھلے دَور میں اگر کوئی روزنامہ یا ماہنامہ یا ہفت روزہ دس پندرہ ہزار کی تعداد میں شائع ہوتا تھا تو وہ کثیرالاشاعت کہلاتا تھا. اب اخبارات و رسائل لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوتے ہیں‘ بعض ایک ہی وقت میں چند دوسرے بڑے شہروں سے بھی شائع ہوتے ہیں. پھر ان کی تعداد بھی پہلے سے کہیں زیادہ ہو رہی ہے. اب اکثر روزناموں‘ ماہناموں‘ خاص طور پر ڈائجسٹوں کی تعدادِ اشاعت لاکھوں سے متجاوز ہے. ڈائجسٹوں کی اتنی کثرت ہے کہ ان کے ناموں کا شمار اچھا خاصا مشکل کام ہے. ابلاغ کے اس ذریعہ 
(media) پر بھی اِسی مغربی تہذیب و افکار سے مرعوب ذہنیت رکھنے والوں کی اکثریت قابض ہے. پھر اخبارات و رسائل کی اشاعت اب باقاعدہ (۱) علامہ اقبال مرحوم کا بڑا پیارا شعر ہے جو اس صورتِ حال پر صادق آتا ہے ؎

ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم

کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ! 
ایک انڈسٹری بن گئی ہے. ان کے مابین مسابقت کی دوڑ لگی ہوئی ہے‘ لہٰذا ہر ایک اس کوشش میں مصروف نظر آتا ہے کہ عوام الناس کو لذت کوشی اور اباحیت پسندی میں مزید مبتلا کر کے زیادہ سے زیادہ مالی منفعت حاصل کرے. ان کی بلا سے کہ ہماری قوم کے افراد میں مسلمان جینے اور مسلمان مرنے کے اجتماعی ارادے کو ضعف پہنچتا ہے تو پہنچا کرے. وہ مزید مضمحل ہوتا ہے تو ہوا کرے. بلکہ یہ بات منفعت کے لحاظ سے ان کے لیے مفید ہے. لہٰذا ان کو اس کی قطعی پرواہ نہیں ہے کہ قوم کس پستی میں گر رہی ہے. یہی حال اُن ذرائع ابلاغ کا ہے جو مکمل طور پر حکومت کے زیر انصرام و انتظام ہیں. یعنی ریڈیو اور ٹیلی ویژن. ان میں ڈراموں ‘راگ اور موسیقی‘ رنگ ترنگ اور اسی قبیل کے تفریحی پروگراموں کی پذیرائی ہوتی ہے جو بڑی فنکاری سے اور غیر محسوس طریق پر معاشرے میں مسلمان جینے اور مسلمان مرنے کے اجتماعی ارادے میں ضعف کا زہر پہنچا رہے ہیں. میں تو ٹی وی دیکھتا نہیں‘ الحمد للہ میرے یہاں ٹی وی کا گزر ہی نہیں ہوا ہے‘ لیکن دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ رہی سہی کسر وہ اشتہارات پوری کر دیتے ہیں جو کثرت کے ساتھ دکھائے جاتے ہیں.

پھر جو مذہبی پروگرام ہوتے ہیں وہ برائے وزنِ بیت ہوتے ہیں اور یہ دکھانے کے لیے ہوتے ہیں کہ ٹی وی پروگراموں میں اتنے گھنٹے مذہبی پروگراموں کے لیے مختص ہیں. اس میں ایسے دینی پروگراموں کی رسائی مشکل ہے جن سے قوم کو ایسا مثبت پیغام مل سکے جس سے اس میں مسلمان جینے اور مسلمان مرنے کا اجتماعی داعیہ پیدا ہو. پھر ان ذرائع ابلاغ پر مؤثر ترین گرفت اور hold اِسی طبقے کی اکثریت کا ہے جن کے اذہان و قلوب پر خدا ناآشنا مغربی افکار اور مغربی تہذیب کی بالادستی نقش و ثبت ہے. اس کی اکثریت کا اسلام سے محض مسلمانوں کے سے نام کے سوا شاید ہی کوئی عملی تعلق ہو تو ہو. یہ ہیں وہ اسباب اور یہ ہے اطراف و جوانب سے ہمارے معاشرے میں یلغار جس کی وجہ سے اگر اجتماعی سطح پر جائزہ لیں گے تو آپ کو صاف نظر آئے گا کہ "collective will to be a Muslim" وہ پہلے کے مقابلے میں مضمحل تر ہو چکی ہے‘ کمزور ہو چکی ہے اور یہ عمل مسلسل جاری ہے. لہٰذا نتیجہ یہ نکلا کہ فی الوقت ہمارا معاشرہ مغربی تہذیب‘ مغربی اقدار‘ مغربی تمدن‘ مغربی بود و باش اور مغربی طرزِ فکر کی زیادہ گرفت میں ہے اس کی بنسبت جبکہ آج سے چالیس برس قبل ایک مغربی قوم ہم پر براہِ راست حکمرانی کر رہی تھی. 

جب تک وہ اجتماعی ارادہ ‘وہ 
"collective will" پیدا نہیں ہو جائے گی اور یہ بحثیں چھڑ جائیں گی تو وہی کچھ ہو گا جو ہو رہا ہے. اس لیے کہ یہ تو ایک علمی بحث ہے اور چونکہ اذہان تیار نہیں‘ دلوں میں حقیقی ایمان کی جوت موجود ہی نہیں. الا ماشاء اللہ. اور وہ آمادگی دل میں پیدا ہی نہیںہوئی ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ فلاں مسئلے میں اسلام کا حکم کیا ہے تاکہ اس پر عمل کریں. لہٰذا لا حاصل بحث و مباحثہ اور controversy کے علاوہ کوئی اور نتیجہ برآمد نہیں ہورہا. 

اب یہاں چند سوالات پیدا ہوتے ہیں. پہلا یہ کہ اس 
collective will کو اسلام کی طرف لانے کا طریقہ کیا ہے! دوسرے یہ کہ اس کا ظہور کس طور سے ہوتا ہے! یہ کیسے معلوم ہوتا ہے کہ کسی معاشرے میں collective will اسلام کے حق میں پیدا ہو چکی ہے‘ اسلام کے رُخ کی طرف آ چکی ہے! ان دونوں سوالات پر تفصیلی گفتگو تو انشاء اللہ میں آئندہ کسی جمعہ میں کروں گا. اس وقت اجمالاً عرض کر رہا ہوں کہ نظری طور پر اس کے دو طریقے ہیں. ایک تو یہ کہ انتخابات کا عمل کسی ملک میں جاری ہو اور صحیح نہج پر جاری ہو. یہ نہ ہو کہ جس طرح گاڑی knocking کرتی ہو‘ قدم قدم پر رکتی ہو‘ ایک انتخاب ہو یا ہونے والا ہو تو ایک ہنگامہ بپا ہو جائے جس کے نتیجے میں فوج take over کر لے. پھر کسی نئے اسلوب اور نئے اصولوں پر انتخابات کا ڈھونگ رچایا جائے اور پھر اس کی وجہ سے کوئی ہنگامہ اُٹھ کھڑا ہو. پہلے کی جگہ دوسرا مارشل لاء آ جائے اور فوج کو تسلسل یا وقفے وقفے سے اقتدار اپنے ہاتھ میں رکھنے کا موقعہ اور جواز ملتا رہے. ایسا نہیں‘ بلکہ اگر کسی ملک میں واقعتا انتخابی عمل جاری ہے تو اس مسلسل انتخابی عمل کے ذریعے بھی collective will کا اظہار ہو سکتا ہے‘ اس کا ظہور ہو سکتا ہے. اس طرح معلوم ہوتا چلا جائے گا کہ لوگوں کا رخ کس طرف ہے! وہ کیا چاہتے ہیں! ان کا رجحان کس طرف ہے! میرے نزدیک نظری طور پر یہ بھی ایک طریقہ ہے لیکن میرا تاثر یہ ہے کہ ہمارے ملک کے موجودہ خاص حالات میں یہ طریقہ قریباً ناممکن العمل معاملہ بن گیا ہے. اس کی تفصیل‘ جیسا کہ میں نے عرض کیا‘ آئندہ کبھی عرض کروں گا. 

اب اس کے بعد دوسرا طریقہ رہ جاتا ہے‘ جسے آج کل ’’انقلاب‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے. مجھے معلوم ہوا کہ میری عدم موجودگی میں جب کہ میں بیرون ملک گیا ہوا تھا‘ اسی شہر لاہور کے ایک اعلیٰ ترین ہوٹل میں ایک بڑی آن بان اور بڑی شان و شوکت کے ساتھ ایک کانفرنس ہوئی ہے‘ اگرچہ تاحال پتا نہیں چل سکا کہ وہ کس نے منعقد کی تھی‘ اس کے داعی کون لوگ تھے! لیکن 
معلوم ہوا ہے کہ اس کانفرنس میں بڑی دھواں دھار تقاریر ہوئی ہیں کہ یہاں ایران کی طرح کا انقلاب آنا چاہیے اور ہمیں اس میدان میں ایران کی قیادت کو قبول کر لینا چاہیے. اس موضوع پر کہ ’’کیا پاکستان میں ایرانی طرز کا انقلاب ممکن ہے‘‘ میں ان شاء اللہ آئندہ جمعہ کو کچھ عرض کروں گا. اس وقت میں اس موضوع کو چھیڑنا نہیں چاہتا‘ لیکن یہ عرض ضرور کروں گا کہ معاشرے کی collective will کے ظہور کا دوسرا طریقہ یقینا انقلابی طریقہ ہے. 

اب سوال پیدا ہو گا کہ انقلابی طریقہ سے مراد کیا ہے! وہ یہ کہ اگرچہ ایک نقطہ نظر اور ایک 
ideology کے حامل اور قائل لوگ عددی اعتبار سے اقلیت میں ہوں‘ لیکن وہ دعوت و تبلیغ سے‘ اپنی محنت سے‘ اپنے ایثار سے‘ اپنی قربانیوں سے‘ اپنی تنظیم سے ‘مشقت جھیل کر‘ مصائب برداشت کر کے وہ موثر اور effective ہونے کے اعتبار سے ایک اکثریت کی شکل اختیار کر لیتے ہیں. یہ لوگeffective majority ہو جایا کرتے ہیں. اگرچہ numerically وہ ایک اقلیت ہوتے ہیں‘ لیکن وہ اپنی جدوجہد ‘اپنے ایثار و قربانی‘ اپنی استقامت و مصابرت اور اپنے موقف پر ایمان و ایقان کی طاقت سے کامیاب ہوتے ہیں اور اپنی پسند کا نظام قائم کر دیتے ہیں. یہ انقلابی طریقہ ہے. لہٰذا کسی بھی collective will کے ظہور کے نظری طور پر یہ دو طریقے ہیں. ایک یہ کہ اگر انتخابی عمل صحیح انداز اور صحت مند اصولوں پر جاری ہے تو وہ بھی ایک index ہے‘ ایک اشاریہ ہے کہ لوگ کیا چاہتے ہیں! لوگوں کا رُخ کس طرف ہے! لوگوں کے رجحانات و میلانات کیا ہیں! اور اگر یہ صورتِ حال نہیں ہے تو ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے اور وہ انقلابی راستہ ہے. بہرحال اس کے بارے میں اگر اللہ کو منظور ہوا تو گفتگو کسی آئندہ صحبت میں ہو گی.

اس وقت ہمارے یہاں ان دو میں سے کسی بھی ذریعے سے اسلام کے حق میں 
collective will کا ظہور نہیں ہوا. بلکہ بالفعل صورتِ حال یہ ہے کہ ایک مارشل لاء گورنمنٹ ہے. اس کی legitimacy‘ اس کا قانونی استحقاق ہی متنازعہ فیہ ہے‘ questionable ہے کہ یہ حکومت ہے تو کیوں ہے! آئی تھی تو کس دلیل سے آئی تھی! کس وعدہ کے تحت آئی تھی! اور اس حکومت کو اس وقت کی سپریم کورٹ نے تسلیم کیا تھا تو کن کڑی شرائط کے ساتھ کیا تھا! کیا کیا حد بندیاں اس پر عائد کی تھیں! لیکن یہ حکومت ہے کہ جس نے اپنے تسلسل کے لیے وجہ جواز یہ قرار دی ہے کہ ہم نے اس ملک میں اسلام قائم و نافذ کرنا ہے‘ لہٰذا اس نے اس وجہ جواز کو ثابت کرنے کے لیے کچھ نیم دلانہ قسم کے اسلام کے لیے اقدامات کیے ہیں‘ جن کی وجہ سے قیل و قال‘ بحث و مباحثہ اور controversies اُبھر آئی ہیں. اس کے سوا اسلام کی طرف کوئی مثبت (positive) پیش رفت نہیں ہو رہی‘ بلکہ ہر معاملے میں نظر یہ آ رہا ہے کہ دونوں نظریات کے حاملین کو شاید یہ اطمینان دلایا جا رہا ہے کہ ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور دوسری طرف والو ں کو اطمینان دلایا جاتا ہے کہ آپ مطمئن رہیں‘ میں کٹر آدمی نہیں ہوں. ایک طرف علماء کو اطمینان دلایا جاتا ہے کہ میں یہاں اسلام لانا چاہتا ہوں. دیکھ لو میری نماز‘ میرا روزہ‘ ٹوپی مصلے کا میرے ساتھ رہنا‘ یہ دین نہیں تو اور کیا ہے. میرا پختہ عزم ہے کہ یہاں مضبوط بنیادوں پر اسلام کو نافذ کروں. دوسری طرف یہ ہے کہ ایکٹروں اور ایکٹرسوں ‘جو اسلامی نقطہ نظر سے کسی بھی اکرام کے بہرحال مستحق نہیں ہیں‘ کویہ اطمینان دلایا جاتا ہے کہ میں اتنا کٹر نہیں ہوں آپ کو مجھ سے گھبرانا نہیں چاہیے. پھر ان کی جس طرح حکومت کے ایک ایوان میں پذیرائی ہوئی ہے اور صدر مملکت صاحب نے جن کی منصبی مصروفیات کا سب کو علم ہے‘ ان ایکٹروں اور ایکٹرسوں کے ساتھ تبادلہ خیال میں اخباری رپورٹ کے مطابق قریباً سات گھنٹے گزارے ہیں. پھر جس گرم جوشی کے ساتھ ملک کے منصب کے لحاظ سے سب سے اعلیٰ مقتدر اور بلند و بالا شخصیت نے اس طائفے کا استقبال کیا ہے‘ وہ ان لوگوں کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے جو اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ اس حکومت کے ہاتھوں پاکستان میں اسلام آ رہا ہے. (۱

یہ جو تضادات ہیں‘ یہ جو دو عملی ہے‘ یہ جو دو رُخا پن ہے اور یہ جو دو طرفہ عمل ہے اس نے ایک طرف تمام مخلص محب دین اور محب پاکستان عناصر میں شدید مایوسی پیدا کر دی ہے‘ دوسری طرف اسلام کے ان مسلّمات کے بارے میں جو چودہ صدیوں سے مجمع علیہ اور متفق علیہ چلے آرہے ہیں‘ ناقابل برداشت نوعیت کی 
controversies کا سلسلہ شروع کر دیا ہے جس کے باعث ہمارے تعلیم یافتہ خاص طور پر نئی نسل کے تعلیم یافتہ طبقے میں سخت ذہنی انتشار بڑھتا چلا جا رہا ہے. وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اسلام کس کو سمجھا جائے‘ اُسے جو خیر القرون سے نسلا ً (۱) یاد ہو گا کہ جب مارچ۱۹۸۳ء میں ڈاکٹر صاحب کی اس رائے پر کہ عورتوں کا دائرہ کار اسلام نے بالکل علیحدہ معین کیا ہے اور مخلوط اداروں میں خواتین کا مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا صریحاً اسلام کے خلاف ہے. اُس پر مغرب زدہ خواتین نے جو ہنگامہ آرائی کی تھی تو ان کو اطمینان دلانے کے لیے اخباری رپورٹوں کے مطابق جناب صدر مملکت نے فرمایا تھا کہ ’’اتھارٹی میرے پاس ہے ڈاکٹر اسرار کے پاس نہیں ہے.‘‘ (مرتب) بعد نسلٍ علمائے حقانی کے توسط سے نقل ہوتا ہوا ہم تک پہنچا ہے یا اُسے جو آج کل کے نام نہاد جدید مفسرین بالخصوص جدید ’’مفسرات‘‘ کی جانب سے پیش کیا جا رہا ہے. جن میں شاید ہی چند افراد ایسے ہوں جو قرآن حکیم کی ایک چھوٹی سی سورت کی بھی صحیح طور پر تلاوت کر سکیں. یا ان کو دین کے روز مرہ کے معمولات کی ذرا بھی شد بد ہو. 

آپ بنظر انصاف 
Islamisation کے اس process کا جائزہ لیں‘ جن کا پانچ چھ سال سے بڑا چرچا ہے تو آپ کو صاف نظر آئے گا کہ ہر قدم نیم دلی سے اور انتہائی ناقص انداز میں اٹھایا گیا ہے‘ حدود آرڈیننس کا جو حشر ہوا وہ کس سے پوشیدہ ہے! کیا سرقہ پر آج تک کسی کو قطع ید کی سزا ملی ہے! کیا ڈاکہ زنی کے مجرموں میں سے کسی پر اسلامی حد جاری ہوئی ہے! زکوٰۃ آرڈیننس کا جو معاملہ ہے اس پر میں گزشتہ تقریر میں اظہار رائے کر چکا ہوں. اسلام کے کسی معاملہ میں بھی فیصلہ کن انداز کہیں بھی موجود نہیں ہے‘ ورنہ آپ غور کیجیے کہ اخباری اطلاع کے مطابق اسلام کے قصاص و دیت کے قانون کو مدون کر کے اپنی مکمل رپورٹ اور سفارشات اسلامک آئیڈیالوجی کونسل نے چار سال قبل صدر مملکت کی خدمت میں پیش کر دی تھی. 

یہ اسلامی نظریاتی کونسل کن لوگوں پر مشتمل ہے! انہی لوگوں پر جنہیں اس حکومت نے اور اس کے جو بھی کارپرداز اور اربابِ حل و عقد ہیں‘ انہوں نے اس کونسل کے ارکان کو یہ سمجھ کر نامزد کیا تھا کہ یہ دین کے جاننے والے ہیں‘ سمجھنے والے ہیں. ہمارے یہاں جو مختلف فقہی مسالک یا فرقے ہیں یہ حضرات ان کے معتمد علیہ نمائندے ہیں. انہیں دین کا صحیح فہم اور شعور رکھنے والے جو بھی نظر آئے ان کو اسلامک آئیڈیالوجی کونسل میں رکھا. پھر علماء کے ساتھ اپنی صوابدید کے مطابق اس ملک ہی کے نہیں بلکہ دوسرے چند اہم ممالک کے دساتیر اور قوانین سے بخوبی واقف ماہرین ِقانون و دستور کو بھی شامل کیا. اس کونسل نے متفقہ طور پر مسودہ تیار کر دیا. معلوم ہوا کہ تمام فقہی مکاتب فکر اور فرقوں کے علماء کی تائید بھی اُسے حاصل تھی. جدید آئین و دستور کے ماہرین کی توثیق بھی اُسے حاصل تھی. گویا ایک متفقہ سند حکومت کو حاصل ہوگئی تھی کہ قصاص اور دیت کے مسئلہ میں اسلام کے مجمع علیہ قوانین یہ ہیں. اس کے بعد ایک ’’شوریٰ‘‘ وجود میں آ گئی تو یہ مسودہ اس کے سامنے رکھ دیا گیا. شوریٰ میں اس پر بحث ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہاں تو دونوں ذہن یعنی دینی اورسیکولر ذہن رکھنے والے لوگ جمع ہیں. یہاں تو وہ وکلاء بھی ہیں جو اسلام پر پھبتیاں چست کرنے سے بھی باز نہیں رہتے. پھر وہ علماء دین بھی 
ہیں کہ بہرحال جن کے فہم دین پر لوگوں کی اکثریت کو اعتماد ہے. لہٰذا محسوس ہوا کہ یہاں تو معاملہ آسانی سے نہیں چکے گا‘ تو ایک کمیٹی بنا دی گئی. کمیٹی کی رپورٹ آئی تو پھر ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا. معلوم ہوا کہ اس کمیٹی کے چیئرمین صاحب پر علماء کی طرف سے شدید الزامات عائد کیے گئے. علماء میں سے جو حضرات اس کمیٹی میں شامل تھے انہوں نے رپورٹ کو بالکلیہ disown کر دیا کہ یہ رپورٹ ہماری نہیں ہے ‘اس میں ہمارے نقطہ نظر کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے. پھر ایک کمیٹی تشکیل دی گئی. اس نے جو رپورٹ دی‘ وہ کابینہ میں زیر بحث آئی لیکن وہاں بھی اتفاق رائے نہیں ہو سکا. نتیجہ یہ ہے کہ معاملہ تاحال معلق ہے. البتہ اخباری اطلاعات سے معلوم ہوا ہے کہ اب اس مسئلہ کے بارے میں عالم اسلام کے علماء سے رائے لینے کے مرحلے تک بات آ گئی ہے. 

یہ سارا عمل غمازی کر رہا ہے کہ اصل میں پختہ ارادہ موجود نہیں ہے. 
(۱اگر پختہ ارادہ ہوتا تو بہت سے ضروری اسلامی قوانین کو اب تک حقیقی طور پر نافذ ہو جانا چاہیے تھا. درحقیقت اصل مسئلہ وہی ہے جو میں نے عرض کیا تھا کہ ان کو بھی راضی رکھنا ہے‘ اُن کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہے‘ اُن کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہے‘ یہ بھی ناراض نہ ہوں اور وہ بھی ناراض نہ ہوں. (۲ظاہر بات ہے کہ اس طرز پر جو بھی کام ہو گا‘ اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکتی اور عملی اعتبار سے انسان آگے نہیں بڑھ سکتا. پس میں نے اس controversy میں اسی لیے اپنے آپ کو ملوث نہیں کیا کہ میرے نزدیک اس کا حاصل کچھ نہیں. یہ بالکل ایک بے محل بحث ہو رہی ہے‘ یا تو وہ اجتماعی ارادہ موجودہوتا یا اس کو پیدا کرنے کے لیے مثبت اقدامات کیے جاتے.

جولائی ۱۹۷۷ء میں جب جناب جنرل محمد ضیاء الحق صاحب کی حکومت قائم ہوئی ہے اور انہوں نے نوے دن میں انتخابات کرانے کے بجائے اس عزم کا اعلان کیا کہ 
most earnestly ان کی حکومت یہاں اسلامی نظام نافذ کرنے کے لیے اپنی تمام قوت صرف کرے گی تو نومبر ۱۹۷۷ء میں اسی شہر لاہور میں ہماری سالانہ قرآن کانفرنس منعقد ہوئی تھی. اس کانفرنس میں‘ میں نے یہ بات عرض کی تھی‘ چونکہ مجھے جنرل صاحب کے متعلق معلوم تھا کہ وہ (۱) انگریزی کا ایک مشہور مقولہ ہے: Where there is a will there is a way ’’اگر عزم صمیم ہو کہ یہ کام بہرحال کرنا ہے تو راہ نکل آتی ہے.‘‘ (مرتب)

(۲؏ ’’باغباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی!‘‘ 
ایک دین دار مسلمان ہیں. مجھے یہ بھی علم تھا کہ وہ ماہنامہ میثاق کے اس زمانہ سے خریدار ہیں ‘ جب وہ ملتان میں جی او سی تھے اسی زمانہ میں انہوں نے تفسیر تدبر قرآن منگائی تھی. اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک شخص کا دینی ذوق ہے‘ دینی مزاج ہے‘ اس میں دین سے شغف ہے. انہوں نے ہماری قرآن کانفرنس کے لیے پیغام بھی ارسال کیا تھا‘ لہٰذا اُس وقت میں نے عرض کیا تھا کہ ’’اب جب کہ اللہ نے آپ کو اس آزمائش میں ڈال دیا ہے کہ آپ کے ہاتھ اس ملک کا اختیارِ کلی آ گیا ہے‘‘ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر سے زیادہ مختارِ مطلق اس دنیا میں کوئی اور نہیں ہوتا. امریکہ کا صدر بھی اتنا بااختیار نہیں ہے‘ وہ تو ملک بڑا وسیع ہے‘ وسائل بہت ہیں. اس لحاظ سے وہ ایک بڑی شخصیت ہوتی ہے لیکن اختیارات کے اعتبار سے اس پر قیود ہیں‘ حدود ہیں‘ پابندیاں ہیں. بہت سے امور میں اسے کانگریس سے منظوری حاصل کرنی ہوتی ہے. اُسے اپنی پالیسیوں میں بہت محتاط رہنا پڑتا ہے‘ اس نے یا اس کی پارٹی کے دوسرے نامزد کو صدارتی انتخاب لڑنا ہوتا ہے‘ پارٹی کو پھر ووٹوں کی بھیک مانگنی ہوتی ہے. ظاہر بات ہے کہ ان تمام حدود و قیود اور احتیاطوں سے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مبرا‘ محفوظ‘ مامون اور مطمئن ہوتا ہے. اُسے ان چیزوں کی کوئی فکر نہیں ہوتی. انہی اعتبارات کے پیش نظر مَیں نے ان سے عرض کیا تھا کہ ’’آپ کے لیے یہ بہت بڑی آزمائش ہے‘ اب یہ ہے کہ اگر آپ واقعتا اس آیت پر عمل کریں کہ:اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَھَوْ عَنِ الْمُنْکَرِط . تو آپ پورے کے پورے اسلام کو نافذ کیجیے. اس میں تدریج کا معاملہ نہ کیجیے گاکہ ایک حصہ نافذ کر دیا دوسرا نہیں. اس میں اپنی priorities بنا لینا‘ دین کی ترجیحات کو نظر انداز کر دینا‘ معاشرے کا رنگ دیکھ کر لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے‘ ان کو جانچنے پرکھنے کے لیے نفاذِ اسلام میں تدریج اختیار کرنا‘ پھر یہ کہ اس کا تجزیہ کرنا‘ یعنی اس کے اجزاء کرنا کہ دین کا ایک حصہ اس وقت نافذ کیا جائے اور دوسرے حصوں کو تعویق میں ڈالنا کہ پھر دیکھا جائے گا‘ یہ طرزِ عمل اسلام کے مطابق نہیں ہے. اس ضمن میں سورۃ البقرۃ کی آیت ۸۵ ذہن میں رکھیے گا: اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَ تَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ج. 

اب تدریج کے لیے مکی دور سے دلیل نہیں لائی جا سکتی‘ چونکہ اس وقت مکمل شریعت موجود نہیں تھی. اس وقت تک احکام نازل نہیں ہوئے تھے. اب وہ دَور دوبارہ نہیں آئے گا‘ مکمل شریعت حقہ موجود ہے. قرآن پورا کا پورا ہمارے سامنے ہے ‘سنت رسول ایک روشن 
آفتاب کی صورت میں موجود ہے. ہماری تاریخ تاریک رات کے مانند نہیں ہے بلکہ لَیْلُھَا کَنَھَارِھَا اس کی تو راتیں بھی اتنی روشن ہیں جتنے کہ دن روشن ہوتے ہیں. حضور کے دورِ سعید سے متصلاً بعد خلافت راشدہ کا زرین دَور ہے. پھر اس کے بعد ائمہ فقہاء اور ائمہ حدیث کا دَور ہے. ہماری روشن تاریخ ہے جس کو سامنے رکھ کر ہمیں کامل دین کو لینا ہو گا. اس کے اجزاء کرنے کا اختیار کسی کو نہیں ہے. یہود کی اسی روش کے بارے ہی میں فرمایا گیا تھا کہ اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَ تَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍج ’’کیا تم ہماری کتاب یعنی ہماری شریعت اور ہمارے دین کے ایک حصہ کو مانتے ہو اور ایک کو نہیں مانتے‘‘. فَمَا جَزَآئُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج ’’پس تم میں سے جو کوئی بھی یہ روش اور یہ رویہ اختیار کرے گا اس کی سزا اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ دنیا کی زندگی میںاُسے ذلیل و خوار کر دیا جائے‘‘. وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰٓی اَشَدِّ الْعَذَابِ ط ’’اور قیامت کے دن اسے شدید ترین عذاب میں جھونک دیا جائے‘‘. اس آیت میں ایک اٹل اصول‘ ضابطہ اور قاعدہ بیان کر دیا گیا ہے. شریعت محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام مکمل شکل میں موجود ہے. لہٰذا اب تو take it all or leave it والا معاملہ ہے. شریعت لینی ہو گی تو پوری لینی ہو گی ورنہ چھوڑیے. اللہ کو کوئی احتیاج نہیں ہے‘ کوئی غرض نہیں ہے‘ اس کی کوئی ضرورت اس سے لاحق نہیں ہے. اس کا کوئی کام اٹکا ہوا نہیں ہے کہ اس کی شریعت میں سے تھوڑی سی چیز مان لی جائے تو اس کا کام چل نکلے گا ورنہ کام اٹکا رہے گا. معاذ اللہ ثم معاذ اللہ!

اسی لیے میں نے زور دے کر کہا تھا کہ ’’آپ پورا اسلام نافذ کیجیے‘ اس میں تدریج کا معاملہ نہ کیجیے گا‘‘ ساتھ ہی میں نے صاف صاف یہ بھی عرض کر دیا تھا کہ ’’مجھے اندیشہ ہے کہ اگر آپ یہ کریں گے تو اس وقت معاشرے کی جو مجموعی کیفیت ہے تو یہ معاشرہ اُسے قبول نہیں کرے گا. ہو سکتا ہے کہ آپ کو اٹھا کر پھینک دے. آپ کی حکومت کا تختہ بھی اُلٹ جائے‘ لیکن اس کے باوجود آپ یہ کریں گے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت بڑی قربانی ہو گی. اللہ کے یہاں بھی آپ ماجور ہوں گے اور تاریخ میں بھی یہ بات ایک کارنامے کے طور پر درج ہو گی‘‘. میں نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ ’’اگر ایک انگریز بادشاہ ایک عورت کے لیے بر طانیہ کی حکومت کے تاج و تخت کو ٹھوکر مار سکتا ہے‘‘. وہ بھی اس دَور میں جب کہ برطانیہ کی حکومت اتنی وسیع تھی کہ کہا جاتا تھا کہ اس حکومت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا. ’’تو آج کا کوئی حکمران اگر اس لیے اقتدار 
سے محروم کر دیا جائے کہ وہ خود مسلمان جینا اور رہنا چاہتا ہے اور ملک میں بھی اسلام لانا چاہتا ہے. اگر اس وجہ سے حکومت سے محروم ہونا پڑے تو یہ ایک بڑی شان دار اور تابناک مثال قائم ہو جائے گی‘‘. اس سے ایک جوش پیدا ہو گا. ولولہ ابھرے گا‘ امنگیں جوان ہوں گی اور کروٹیں لیں گی‘ اسلام کے حق میں ایک نیا جذبہ پیدا ہو گا.

ان تمام مفاہیم پر مشتمل باتیں تھیں جو میں نے نو مبر ۱۹۷۷ء کی قرآن کانفرنس میں جناب جنرل محمد ضیاء الحق صاحب کو مخاطب کر کے کہی تھیں‘ لیکن سات سال پورے ہو چکے ہیں اور اب آٹھواں سال شروع ہو گیا ہے‘ ان سات سالوں کا جو ماحصل ہے‘ اس کی ہم جو 
balance sheet اپنے سامنے رکھ کر اُسے دیکھتے ہیں تو شدید مایوس کن صورتِ حال نظر آتی ہے. اس کے سوا کوئی اور نتیجہ نظر نہیں آتا کہ کچھ controversies ہیں‘ کچھ بحثیں ہیں جو بڑے زور وشور سے اخبارات و رسائل اور پبلک پلیٹ فارموں پر جاری ہیں. جن کا حاصل ذہنی الجھاؤ‘ پراگندگی اور انتشار کے سوا کچھ نہیں‘ جو بالکل ایک منفی کام ہے. عملی اعتبار سے ایک قدم آگے بڑھتا نظر نہیں آتا. زکوٰۃ کے بارے میں‘ میں گزشتہ جمعہ کو عرض کر چکا ہوں کہ اس نے کیا شکل اختیار کی ہے! اب اقامت صلوٰۃ کا جو اقدام کیا گیا ہے‘ اس کے متعلق اخبارات میں جس قسم کے بیانات اور خبریں آ رہی ہیں اور مجھے بتایا گیا ہے کہ ٹی وی پر بھی صلوٰۃ کمیٹیوں کی تشکیل کی بڑے زور و شور سے تشہیر کی جا رہی ہے. اس سے جو لوگ یہ اندازہ لگا رہے ہیں کہ یہ اصل میں الیکشن کے لیے خالص تمہیدی قدم ہے جو اٹھایا گیا ہے‘ تو جس انداز سے یہ کام ہو رہا ہے‘ اس کے پیش نظر ان کے اس خیال کو غلط قرار دینا مشکل ہے. یہ رمز بھی اس کی نشان دہی کرتا ہے کہ یہ کام فوج ہی کے ذریعے قائم کیا جا رہا ہے. اسے سول بیوروکریسی کے بجائے فوجی نظام کے ساتھ نتھی کیا گیا ہے. ایسا لگتا ہے کہ موجودہ regime کا جو معہودِ ذہنی ہے‘ ان کے پیش نظر آئندہ کے لیے جو نقشہ ہے‘ اس میں اس کا کوئی خاص مقام ہے. اس کی کوئی افادیت ہے‘ اس کا کوئی مصرف ہے. گویا نظامِ زکوٰۃ اور نظام اقامت صلوٰۃ کی پشت پر ایک سیاسی face اور image بنانا ہے‘ اس کے سوا اور کچھ نہیں.

یہی وجوہ ہیں کہ میں سوچتا ہوں کہ ان معاملات میں اگر بولوں تو اس کا فائدہ کیا ہے! حاصل کیا ہے! میں نے آپ کو بارہا بتایا کہ پردے کے سلسلہ میں گفتگو میرے اپنے کسی منصوبے اور ارادے کے تحت نہیں تھی. لیکن جب پوچھا جائے گا تو جو بات کتاب و سنت کے مطابق ہو گی 
وہ کہنی پڑے گی. پھر میں نے اس موضوع پر اپنی دو تقریروں میں اپنی استعداد کی حد تک کتاب و سنت کی تعلیمات پیش کیں. یہ تقریریں ’’میثاق‘‘ کی ایک خصوصی اشاعت میں شائع ہوئیں. ملک کے ایک مشہور اور نہایت کثیر الاشاعت روزنامے میں وہ قسط وار شائع ہوئیں. کتابی صورت میں بھی وہ اشاعت پذیر ہو چکی ہیں. پھر میں کیا اور میری بساط کیا! ملک میں ہمارے نامور اور جید علمائے کرام کی نہایت مبسوط کتب اس موضوع پر پہلے سے موجود ہیں. 

لیکن کیا موجودہ حکومت نے ان کتب سے کوئی استفادہ کیا! کیا اسلامک آئیڈیالوجی سے استصواب کیا کہ ستر و حجاب کے متعلق شریعت کے احکام کیا ہیں! بلکہ مجھے یہ بات کہنے پر معاف کیا جائے کہ جو کام ترکی میں اتا ترک نے اور ایران میں دونوں رضا شاہ پہلوی کے نام رکھنے والے بادشاہوں نے قانون‘ طاقت اور ڈنڈے کے زور سے کیا تھا‘ وہ موجودہ 
regime بڑی حکمت عملی سے انجام دے رہی ہے اور ان سات سالوں میں مغربی ذہن رکھنے والی خواتین کو نہ صرف یہ کہ کھلی چھٹی دی گئی ہے کہ اسلامی نظامِ معاشرت کے خلاف وہ جتنا چاہیں زہر اُگلیں. بلکہ انہیں نمایاں طور پر آگے بڑھایا گیا ہے ‘اور بڑھایا جا رہا ہے ‘مختلف طور پر ان کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے .اس دَور میں یہ کام جس پیمانے پر ہوا ہے اس کے عشر عشیر بھی پہلے کے تیس برسوں میں نہیں ہوا تھا. 

اب ان حالات کے پیش نظر قانونِ شہادت میں عورتوں سے متعلق شق پر اور قصاص و دیت کے مسودہ کے متعلق میں کچھ کہوں تو کیا کہوں! لیکن چونکہ مجھ سے سوال کیا گیا ہے اور بعض احباب کا اصرار ہے کہ قصاص و دیت کے مسئلہ پر جو متنازعہ بحث چلی ہے‘ اس کے متعلق میں کچھ عرض کروں. پھر میرے سامنے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث کا وہ حصہ بھی ہے جس پر بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نبی اکرم  سے بیعت کرتے تھے کہ 
عَلٰی اَنْ نَقُوْلَ بِالْحَقِّ اَیْنَمَا کُنَّا وَلَا نَخَافُ فِی اللّٰہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ لہٰذا اس مسئلہ پر قرآن و حدیث سے اپنی استعداد اور اپنے فہم کے مطابق جو کچھ میں نے سمجھا ہے وہ میں انشاء اللہ بعد میں عرض کروں گا. اس وقت بطور یاد دہانی اس کام کا اعادہ کر رہا ہوں‘ جس کے لیے میں نے اپنے آپ کو کھپا رکھا ہے‘ شاید کہ اس موقع پر میری بات چند لوگوں کے دل میں اتر جائے اور وہ جمود کو ختم کر کے آگے بڑھیں اور اس کام میں میرے اعوان و انصار بنیں یا اپنے طور پر منظم ہو کر اسی کام کی انجام دہی کی دھن ان کے سروں پر سوار ہو جائے. میں نے قرآن حکیم اور سیرت مطہرہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کا جو بھی معروضی مطالعہ کیا ہے‘ اس کے نتیجے میںمیرے سامنے اصل کرنے کا کام اور نہج یہ آیا ہے کہ دین کے تقاضوں اور مطالبوں کو اس وقت تک بطور نظام حیات نہ نافذ کیا جا سکتا ہے‘ نہ وہ مستحکم رہ سکتا ہے‘ جب تک معاشرے کے معتدبہ افراد میں مسلمان جینے‘ مسلمان مرنے کی collective will پیدا نہ ہو جائے. میں تو اس اجتماعی ارادے کو پیدا کرنے اور اسے قوی کرنے میں لگا ہوا ہوں. اس will ‘ اس ارادہ اور اس داعیہ کا براہِ راست تعلق ہے ایمان سے اور ایمان کا منبع و سرچشمہ ہے قرآن حکیم. اسی منبع اور چشمہ ٔ رشد و ہدایت کو عام کرنے کے لے میں نے ۱۹۶۵ء سے لے کر اب تک تقریباً بیس سال اپنی جوانی کے کھپائے اور لگائے ہیں. جو بھی اس کے اثرات ہیں اور کوئی نتیجہ نکلا یا نہیں نکلا! یہ علیحدہ معاملہ ہے‘ یہ دوسری بات ہے. میرے پیش نظر حالات کو بدلنے کی کوشش ہے اس کی کامیابی کا انحصار اللہ کی مشیت پر ہے. میری اُخروی نجات کے لیے شاید میری یہ حقیر کوشش کام آ جائے. بہر حال میںاسی کام میں ہمہ تن لگا ہوا ہوں اس لیے کہ میرا یمان و یقین ہے کہ قرآن حکیم کی دعوت‘ اس کے پیغام اور اس کے ساتھ صحیح تعلق ہی تجدید ایمان کا ذریعہ بنے گا. اسی سے ایمان کو تقویت حاصل ہو گی اور یہی کام درحقیقت ہمارے معاشرے میں collective will کو پیدا کرنے کا مؤثر ترین ذریعہ بن سکتا ہے. اس سے اگلا قدم یہ اٹھایا کہ جن لوگوں کے اندر انفرادی سطح پر یہ ارادہ اور داعیہ پیدا ہو چکا ہے‘ انہیں جمع کیا جائے‘ انہیں منظم کیا جائے اور اسلامی انقلاب کے لیے قرآن کے علوم و معارف اور اس کی حکمت کو ذہنوں میں اتارنے کے لیے علمی و فکری سطح پر کام ہو. پھر اسی منزل کی طرف پیش قدمی کے لیے سمع و طاعت کے اسلامی اصول پر ایک جماعت وجود میںآئے.

میری پہلی کوشش کے لیے عنوان ہے: ’’مرکزی انجمن خدام القرآن‘‘ اور دوسری کوشش کا نام ہے ’’تنظیم اسلامی‘‘. تو میں اپنی ساری مساعی‘ ساری صلاحیتیں‘ ساری توانائیاں اصل میں ان دونوں کاموں میں صرف کر رہا ہوں. اس وقت جو controversies پیدا ہو رہی ہیں اور پھیل رہی ہیں‘ اس میں دراصل lacking عنصر collective will کے فقدان کا یہ سبب تھا اس معاملہ میں میرا اب تک بالکل خاموش رہنے کا. آج میں قصاص اور دیت کے بارے میںاپنی رائے پیش کر دیتا ہوں‘ اس فیصلے کی وجوہ میں بیان کر چکا ہوں کہ مجھ سے سوال بھی کیا گیا ہے اور از خود بھی لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال ہوا ہو گا. اس معاملہ میں جہاں تک دیت کا مسئلہ زیر بحث ہے‘ اس میں ایک اہم بات شاید لوگوں کو معلوم نہیں ہے وہ یہ کہ یہ قصاص والی دیت نہیں ہے. دیتیں دو ہیں. ایک دیت تو وہ ہے جو قصاص کے ساتھ bracket ہو کر آتی ہے‘ وحدانی شکل میں آتی ہے. ایک دیت بالکل علیحدہ ہے. ان دونوں کو جب تک آپ علیحدہ علیحدہ نہیں سمجھیں گے تو جو باتیں کہی جا رہی ہیں اور عقلی میدان میں جو گھوڑے دوڑائے جا رہے ہیں اس کا توڑ آپ کے لیے مشکل ہو گا. ایک ہے قتل عمد کا معاملہ ایک شخص نے جان بوجھ کر کسی دوسرے شخص کو قتل کیا ہے. 

اس کا معاملہ بالکل علیحدہ ہے. اس کا شریعت میں‘ قانون اسلامی میں عنوان ہے قصاص‘ جان کے بدلے جان‘ اور اس میں جان بالکل برابر اور مساوی ہے عورت کی بھی اور مرد کی بھی. اس میں کوئی فرق و امتیاز نہیں ہے. مقتول چاہے مرد ہو چاہے عورت‘ اسی طرح قاتل چاہے مرد ہو چاہے عورت. ان چاروں حالتوں میں مرد و عورت میں کوئی فرق و امتیاز نہیں ہو گا. اس لیے کہ جانیں سب کی برابر اور مساوی ہیں. یہاں جو قصاص ہے وہ جان کے بدلے جان ہے کہ قاتل کی جان اب مقتول کے ورثاء کے رحم و کرم اور ان کی صوابدید پر منحصر کر دی گئی کہ اگر وہ چاہیں تو قاتل کی جان لینے ہی کا فیصلہ کریں اور چاہیں تو قاتل یا اس کے لواحقین سے کوئی معاوضہ قبول کر کے اس کی جان بخشی کر دیں. ان دو میں سے کوئی ایک فیصلہ کرنے کا بالکلیہ اختیار مقتول یا مقتولہ کے ورثاء کو حاصل ہے. اس میں حکومت کا عمل دخل یہ ہے کہ اس نے قاتل کو پکڑا. مقتول یا مقتولہ کے ورثاء کے لیے یہ ممکن نہیں‘ اس کے لیے حکومت کی مشینری کی ضرورت ہے‘ جس میں پولیس ہے‘ عدالت ہے. پولیس نے قاتل کو پکڑا‘ تفتیش کی‘ قانون اور عدل کے جو تقاضے ہیں ان کو پورا کیا. مقدمہ قائم ہو کر عدالت میں پیش ہوا. ملزم کے خلاف شہادتیں پیش ہوئیں. اس کی طرف سے صفائی پیش ہوئی. ہر نوع کی شہادتوں پر جرح ہوئی. یہ سارا کام حکومت کے ذمہ ہے. ان تمام مراحل سے گزر کر جب عدالت نے فیصلہ دے دیا‘ وہ چاہے جج یا قاضی نے خود دیا ہو یا جیوری کی رائے کے مطابق دیا ہو کہ ملزم کا جرم ثابت ہو گیا‘ یہ شخص فلاں مرد یا فلاں عورت کے قتل عمد کا مجرم ہے تو اس کے بعد حکومت کا اختیار اور عمل دخل ختم. اب اس میں صدر مملکت کو بھی کوئی اختیار حاصل نہیں ہے ‘اگر اب تک ہے تو یہ بالکل غلط ہے‘ خلاف اسلام ہے. 
(۱اب کسی کا کوئی اختیار نہیں ہے. نہ حکومت کا‘ نہ کسی گورنر کا‘ نہ صدر مملکت کا. (۱) اس کی خلافت راشدہ میں بڑی نمایاں مثال ملتی ہے. ابو لؤلؤ فیروز نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو شہید کیا. اس نے تو اس کے بعد فوراً خود کشی کر لی ‘وہ گرفتار نہیں ہو سکا. لیکن قرائن اور واقعاتی شہادتیں یہ تھیں کہ اس سازش میں ہرمزان بھی شریک تھا. وہ خلافت فاروقی میں مسلمان ہو چکا تھا اور مدینہ منورہ میں مستقل طور پر سکونت پذیر تھا. حضرت عبید بن عمر رضی اللہ عنہما نے رنج اور غصہ سے مغلوب ہو کر ہرمزان کو قتل کر دیا‘ جبکہ اس کو سازش میںملوث ثابت کرنے کے لیے عدل و قانون کے متعلق کوئی عدالتی کارروائی نہیں ہوئی تھی. حضرت عبیدؓ کو گرفتار کیا گیا‘ ان پر قتل عمد کا مقدمہ چلا اور وہ مجرم قرار دیے گئے. ہرمزان کا کوئی وہاں وارث نہیں تھا. جس کا کوئی وارث نہ ہو تواسلامی قانون کے مطابق خلیفہ ٔوقت بحیثیت خلیفہ اس کا وارث قرار پاتا ہے. لہٰذا حضرت عثمان رضی اللہ عنہنے بحیثیت وارث دیت قبول کرنے کا فیصلہ کیا. حضرت عبیدؓ کے مالی وسائل دیت ادا کرنے کے متحمل نہیں تھے. چنانچہ حضرت عثمانؓ ہی نے اپنی جیب خاص سے مقرر کردہ دیت ادا کی اور وہ بیت المال میں داخل کی گئی. حضرت عبیدؓ کے لیے جو حضرت عمر فاروقؓ کے فرزند ہیں ’’رحم‘‘ کی کوئی اپیل خلیفہ ٔوقت کو پیش نہیں کی گئی. لہٰذا قاتل کو صوبائی گورنر یا صدر مملکت سے رحم کی اپیل کا حق دینا خلاف اسلام ہے. (مرتب) اب یہ اختیار اسلامی قانون کے مطابق بالکلیہ مقتول یا مقتولہ کے ورثاء کو حاصل ہے. وہ چاہیں تو اس قاتل یا قاتلہ کی جان لینے کا فیصلہ کریں. حکومت اس کو execute کرے گی اور اگر چاہیں تو اس قاتل یا قاتلہ کی بلا دیت و قصاص جان بخشی کر دیں اور اگر وہ چاہیں توقاتل یا قاتلہ سے یا ان کے ورثاء سے کوئی رقم بطور دیت قبول کرلیں. 

ایک اور اہم بات نوٹ کیجیے کہ یہ دیت جو قصاص کا قائم مقام بنتی ہے اس کا تعین نہیں ہے یہ معاملہ جانبین کی باہمی رضا مندی سے طے ہو گا. اس سارے معاملے میں اصل میں جان کا بدلہ تو جان ہی ہے. یہ بات اچھی طرح جان لیجیے. دیت کی وہ رقم مقتول یا مقتولہ کی جان کی قیمت ہرگز نہیں ہے. اس کی قیمت تو قاتل یا قاتلہ کی جان ہی ہے البتہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں اگر کہنا چاہیں کہ قاتل یا قاتلہ نے اپنی جان بچائی ہے اپنی جان کی قیمت ادا کر کے. اگر اس نے دس لاکھ روپے دے کر یا اس کے اعزہ و اقارب نے‘ اس کے کنبے نے‘ اس کی برادری نے‘ اس کے قبیلے نے ادائیگی کر کے قاتل یا قاتلہ کی جان بچائی ہے تو یہ دیت درحقیقت قاتل کی 
جان کا معاوضہ ہے نہ کہ مقتول کی جان کی قیمت. یہ بدلہ قاتل کی جان کا ہے‘ مقتول کی جان کا نہیں ہے. چونکہ جان کا اصل بدلہ تو جان ہی ہے. اب اس فیصلے کا بالکلیہ اختیار مقتول کے ورثاء کی آزاد مرضی پر ہے. چاہیں دیت قبول کریں‘ چاہیں تو قبول نہ کریں اور قاتل کو موت کی سزا دلوا دیں. یہ ہے قتل عمد کا معاملہ. اس میں مرد کی پوری اور عورت کی آدھی دیت کا سرے سے مسئلہ زیر بحث آتا ہی نہیں. جان کی قیمت کا مسئلہ اگر زیر بحث آتا ہے تو یہاں آتا ہے اور اس میں قاتل چاہے عورت ہو یا مرد‘ اسی طرح مقتول عورت ہو یا مرد. دیت کی رقم کا تعین مقتول کے ورثاء کریں گے اور وہ درحقیقت قاتل اپنی جان بچانے کے لیے دیت دے گا جو دراصل اس کی اپنی جان کی قیمت ہو گی. 

دوسرا مسئلہ ہے قتل خطا کا جس میں قاتل یا قاتلہ کا اپنا کوئی ارادہ شامل تھا ہی نہیں. آپ گاڑی میں جا رہے ہیں کہ اچانک اور ناگہانی کوئی بچہ‘ کوئی عورت‘ کوئی مرد آپ کی گاڑی کے نیچے آ گیا اور ہلاک ہو گیا. آپ کا کوئی ارادہ نہیں تھا‘ آپ کی دشمنی نہیں تھی. یا یہ کہ آپ کی دیوار کے نیچے کوئی شخص بیٹھا ہوا تھا. وہ دیوار گر گئی اور اس کے ساتھ یا اس کے نیچے جو شخص بیٹھا ہوا تھا‘ وہ ہلاک ہو گیا. آپ کا کوئی ارادہ نہیں تھا. یا آپ نے گولی چلائی تھی کسی شکار پر وہ جا لگی کسی انسان کو. آپ کا قطعاً کوئی ارادہ اس شخص کو مارنے کا نہیں تھا. قتل خطا کی اور بھی بہت سی شکلیں اور نوعیتیں ہو سکتی ہیں. تو قتل خطا وہ ہے جس میں قتل کا ہرگز کوئی ارادہ شامل نہیں ہوتا. اب اسلامی قانون کا یہ ضابطہ نوٹ کیجیے کہ:-

’’قتل خطا کے معاملے میں اب جان کے بدلے جان نہیں ہے. اس لیے کہ جان لینا اس قاتل کے پیش نظر تھا ہی نہیں.‘‘

اس قتل خطا میں مقتول یا مقتولہ کے لیے جو دیت مقرر کی جائے گی وہ اس بنیاد پر ہے کہ اس خاندان کا نقصان کتنا ہوا ہے. قاتل کا جرم اس اعتبار سے تو نہیں ہے کہ اس کا قتل کرنے کا ارادہ تھا‘ وہ قتل عمد کا کسی اعتبار سے بھی مرتکب نہیں ہے. لہٰذا اس قتل کی سزا کا ضابطہ جان کے بدلے جان نہیں ہے چونکہ قتل خطا سے ہوا ہے. اب چاہے قتل خطا سے ہوا ہو لیکن اس خاندان کا تو نقصان ہو گیا ہے جس کا فرد مقتول ہوا ہے. اس کے نقصان کی تلافی تو ہونی چاہیے اس کا 
compensation تو ہونا چاہیے. اس کی تلافی حکومت اپنے بیت المال سے بھی کر سکتی ہے. اس بات کو بھی پیش نظر رکھیے یہ تلافی اس صورت میں حکومت کرے گی‘ جب کہ قتل خطا کا مجرم خود یا اس کے قریب ترین اعزہ اس تلافی کی استطاعت نہ رکھتے ہوں. اصلاً یہ تلافی اسلام نے اُس پر ڈالی ہے جو اس قتل خطا کا مرتکب ہوا ہے. کیوں ڈالی؟ اس کے اندر بھی حکمت ہے وہ یہ کہ اس سے احتیاط کا عنصر پیدا ہو گا. اگر اسے ہر صورت میں حکومت کے ذمے ڈال دیا جائے تو لوگوں میں احتیاط پیدا نہیں ہو گی. لوگ گاڑی rash چلائیں گے. ان کے پیش نظر یہ بات ہو گی کہ اگر کوئی گاڑی کے نیچے آ کر ہلاک یا معذور ہو گیا تو اس کی دیت حکومت دیتی پھرے گی. لیکن اگر ڈرائیور کو یہ معلوم ہو کہ یہ میرے سر پر آنے والی بات ہو گی تو اب وہ محتاط رہے گا یہ احتیاط معاشرے میں اسی شکل میں پیدا ہو سکتی ہے کہ اس قتل خطا کا تاوان اسی پر ڈالا جائے‘ جس کے ہاتھوں یا جس کے سبب سے یہ قتل خطا ہوا ہے. البتہ مستثنیات میں یہ تلافی بیت المال سے حکومت کر سکتی ہے. 

لیکن یہ جان کی قیمت نہیں ہے بلکہ درحقیقت یہ اس نقصان کی تلافی ہے‘ اس کا 
compensation ہے جو اس فرد کے ہلاک ہو جانے کے سبب سے اس خاندان کو پہنچا ہے جس کا وہ فرد تھا. 

اس دیت میںاسلام کے نزدیک مرد اور عورت میں فرق ہے. اس کی حکمت یہ ہے کہ اسلام کا جو نظام ہے اس میں معاش کا بوجھ عورت کے ذمے نہیں ڈالا گیا ہے. جب کہ مرد کسی خاندان کا ایک
earninig member ہے. وہ خاندان کی کفالت کے نظام کا ایک رکن ہے. وہ حصولِ معاش کا ایک عضو ہے. لہٰذا کسی خاندان کے کسی مرد کا قتل ِ خطا کے نتیجے میں ہلاک ہو جانا بڑا نقصان ہے بہ نسبت اس کے کہ اس طور پر اس خاندان کی کوئی خاتون ہلاک ہو جائے. چنانچہ شریعت نے اس میں یہ فرق رکھا ہے کہ: 

قتل خطا میں مرد کی دیت کے مقابلے میں عورت کی دیت آدھی ہو جائے گی. 

اس میں جو حکمت ہے وہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے. عقلی دلیل کے اعتبار سے بھی یہ بات عین عدل و قسط کے مطابق ہے اور واضح ہے کہ ہر سلیم العقل انسان اس کی معقولیت کو بآسانی سمجھ سکتا ہے. اس کے خلاف ایک عقلی دلیل یہ لائی جاتی ہے کہ اس زمانے میں تو عورتیں بھی کمانے والی ہیں‘ اس سے قطع نظر کہ شریعت کی کسی نص کے خلاف کوئی عقلی دلیل دینا ایمان کے بالکل منافی ہے. اس طرزِ فکر سے ایمان کی سلامتی خطرے میں پڑ جاتی ہے. میں یہ کہتا ہوں کہ یہ 
بِنَائُ الفاسد علی الفاسد ہے‘ اسلام کے منشا کے خلاف آپ نے ایک کارروائی شروع کی ہے. اسلام تو یہ نہیں چاہتا کہ عورت پر معاش کی ذمہ داری ڈالی جائے. اسلام نے عورت پر کچھ اور ذمہ داریاں ڈالی ہیں. وہ گھر میں بیٹھے‘ اس کے لیے حکم ہے وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ . وہ کیوں معاشی تگ و دو میں نکلی ہوئی ہے! وہ قناعت کرے‘ صبر کرے‘ اس کا شوہر جو کچھ کما کر لا رہا ہے‘ اسی کے اندر گھر گرہستی کی ضروریات پوری کرے. اسلام تو یہ نہیں چاہتا. اسلام نے معاش کی ذمہ داری عورت پر نہیں ڈالی. آپ نے خود یہ ذمہ داری عورت پر بھی ڈال دی اور اپنی اس غلط روش کو اسلام کے ایک دوسرے قانون کے خلاف دلیل بنا رہے ہیں. اسلام کا نظام اور قانون تو پورا کا پورا منطقی طورپر اور مربوط طور پر ایک وحدت ہے‘ ایک اکائی ہے. اس نے چونکہ معاش کی ذمہ داری مرد پر ڈالی ہے‘ عورت پر نہیں ڈالی ہے. یہی وجہ ہے کہ وراثت میں بیٹے کو بیٹی کے مقابلے میں دگنا حصہ دیا ہے. یہ ساری چیزیں مربوط ہیں. 

اس لیے کہ بیٹا ایک خاندان کا سربراہ بننے والا ہے یا بن چکا ہے. اُسے اپنے خاندان کی کفالت کرنی ہے جب کہ بیٹی بیاہ کر کسی اور خاندان میں چلی جائے گی یا جا چکی ہو گی اور اس کی کفالت اس کے شوہر کے ذمہ ہو گی لیکن عورت کو ایک قانونی 
status دینے کے لیے کہ اس کا بھی ایک تشخص ہے‘ اس کی بھی ایک حیثیت ہے ‘ لہٰذا وہ بھی اپنے والدین کے ترکے کی حق دار ہے. اُسے شریک تو رکھا گیا لیکن بھائی کے مقابلے میں اس کا حصہ نصف کر دیا گیا. لہٰذا اسلامی قانون کو جس زاویہ نگاہ سے بھی دیکھیں گے تو معلوم ہو گا کہ وہ ایک مربوط حکیمانہ نظام ہے. اس کا اپنا فلسفہ ہے. اور یہ فلسفہ تمام جزئیات کو govern کرتا ہے. تمام جزئیات اس فلسفے کے ساتھ مربوط ہو کر ایک وحدت بن جاتے ہیں جسے آپ ایک organic whole کہتے ہیں. اب اگر اس پورے اور وحدانی قانون سے ہٹ کر کوئی روش اختیار کریں گے‘ پھر اس سے اسلام کے کسی دوسرے قانون کے خلاف دلیل لائیں گے تو یہ میرے نزدیک بناء الفاسد علیٰ الفاسد ہے. ایک غلط چیز پر بنیاد رکھ کر دوسری صحیح چیز کو غلط قرار دینا ہے. یہ درحقیقت اسی قبیل کی شے ہے جو آج کل قصاص و دیت کے مسئلہ میں سامنے لائی جا رہی ہے. ورنہ اسلام کا نظام اور قانون عقلی اعتبار سے بھی بالکلیہ عادلانہ اور منصفانہ ہے اور اس کا ہر جزو باہم دگر مربوط ہے. البتہ انتہا درجے کی مجبوری اور ضرورت ہو تو استثنائی شق قانون میں رکھی جا سکتی ہے لیکن یہ ایسے ہی ہونا چاہیے جیسے اضطرار کی حالت میں حرام کھانے کی شریعت نے رخصت رکھی ہے. 

اب آئیے ایک اہم اصول کی طرف جہاں تک نقل کا معاملہ ہے تو ہمارے دین میں نقل کو عقل کے مقابلے میں اقدمیت و اولیت حاصل ہے جس کے قدرے تفصیلی دلائل میں 
دورانِ گفتگو پیش کروں گا. اس ضمن میں آپ کو یاد ہو گا کہ میں نے رمضان المبارک کے آخری جمعہ میں رجم کے متعلق بھی کچھ گفتگو کی تھی. اس ضمن میں ایک بڑی علمی شخصیت کی جو بفضلہ تعالیٰ بقید حیات ہیں. جو عالم دین ہونے کے ساتھ صاحب تفسیر بھی ہیں. رجم کے بارے میں جو رائے ہے اس پر تنقید کی تھی. پھر ان کے ایک شاگرد جو ان سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے ہیں. انہوں نے غامدیہ خاتون کے متعلق جو نازیبا بات کہی تھی بلکہ بہتان گھڑا تھا کہ ’’وہ چکلا چلاتی تھی اس لیے اُسے رجم کیا گیا تھا‘‘. پھر یہی نوجوان ہیں جنہوں نے چند سال پہلے اپنے رسالے میں لکھا تھا کہ آج تک اسلام کا صحیح قانونِ وراثت اور کلالہ کے صحیح معنی و مفہوم اور قانون کو آج تک کسی نے سمجھا ہی نہیں. اس کو بس انہوں نے ہی سمجھا ہے جسے وہ اب بیان کر رہے ہیں. تو بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ والا معاملہ سامنے آ رہا ہے. 

تو ان امور کے متعلق میں نے عرض کیا تھا. تو شریعت کے معاملے میں یہ بات جان لیجیے اور آج میں نے جو بات عرض کی ہے‘ اس کے ساتھ جوڑ کر سمجھ لیجیے کہ جہاں کہیں بھی یہ آمادگی پیدا ہو جائے گی کہ مجھے مسلمان جینا ہے‘ مجھے مسلمان مرنا ہے اس کے لیے سب سے پہلی دلیل یقینا قرآن مجید ہے. لیکن دین میں وہ تنہا دلیل نہیں ہے. اسی لیے میں نے اُسے پہلی دلیل کہا ہے. جو قرآنِ حکیم کو تنہا اور واحد دلیل سمجھتا ہے اس کا راستہ ہم سے جدا ہے. ہم ہیں اہل السنۃ کہ جنہوں نے سنت کو دوسری دلیل مانا ہے. ہمارے نزدیک دلیل اول ہے قرآن مجید اور دلیل ثانی ہے سنت رسول علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام. اور یہ بھی جان لیجیے کہ سنت قرآن کے تابع نہیں ہے بلکہ اپنی جگہ مستقل ماخذ ہے‘ اگراس کے تابع ہو تو اس کے تابع تو اولوا الامر بھی ہیں. اس کے تابع تو والدین کی اطاعت بھی ہے. اس کے تابع تو ساری اطاعتوں کا نظام بن جائے گا. درحقیقت سنت رسول علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام قرآن کے تابع ہو کر دلیل نہیں ہے بلکہ قرآن کے ساتھ ایک برابر کی دلیل ہے. یہ دو ستون ہیں‘ یہ دو 
pillars ہیں جن پر شریعت کی عمارت کی تعمیر ہوتی ہے.

ایک ستون ہے اللہ کی کتاب قرآن مجید‘ ایک ستون ہے سنت رسول علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام. (۱پھر فرض کیجیے کہ سنت رسولؐ میں کسی معاملہ میں ابہام ہے. (۱) رسول کی اطاعت کے لیے قرآن مجید میں یہ کلیہ بیان فرمایا گیا ہے کہ: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہ اور وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ . پہلی آیت میں ’’الرَّسُوْلَ‘‘ خاص ہے اور یہاں مراد جناب محمد رسول اللہ  ہیں. قرآن مجید میں پانچ مقامات پر امر کے صیغے میں اَطِیْعُوْ اللّٰہ وَاَطِیْعُوا الرَّسُول آیا ہے .اس اسلوب کے معانی و مفاہیم میں جوزور ہے ‘اس کی جو غایت و مطلوب ہے ا‘س میں جو حکمت اور رمز ہے وہ روزِ روشن کی طرح واضح ہے اور پھر چھ مقام پر اَطِیْعُو اللّٰہَ وَرَسُوْلَـہٗ آیا ہے. گیارہ مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کی زبان سے کہلوایا ہے کہ ’’اَطِیْعُوْنِ‘‘. پھر متعدد مقامات پر مختلف اسالیب سے رسول کی اطاعت اور اس کی معصیت سے بچنے کا حکم دیا ہے. اس سے نہ صرف رسول اللہ  کا ذاتی مقام واضح ہوتا ہے بلکہ سنت کا بھی‘ ویسے اتباعِ سنت کے لیے یہ آیت کریمہ نص کا درجہ رکھتی ہے کہ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَـکُمْ ذُنُوْبَکُمْط وَ اللّٰہُ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ 4 کہیں دو چیزیں بظاہر ایک دوسرے سے ٹکرا رہی ہیں. میں بظاہر کہہ رہا ہوں اس لفظ کو پیش نظر رکھیے. اس لیے کہ یہ چیز وہ ہے کہ محدثین عظام نے اپنی پوری پوری زندگیاں کھپا کر چھان پھٹک کی ہے اور پھر فقہاء کرام نے اس کے اندر عقلی اعتبار سے‘ استدلال کے ذریعے سے مطابقت پیدا کی ہے کہ ایک حدیث ہے جو عام بات بیان کر رہی ہے‘ دوسری حدیث ہے کہ اس کے اندر خاص بات بیان ہوئی ہے تو ایک حدیث گویا دوسری حدیث کے اتنے حصے کی ناسخ ہوجائے گی جو اس میں خصوص کا پہلو ہے. عام والا حصہ باقی رہ جائے گا‘ خاص والا معاملہ اب اس دوسری حدیث کی روسے طے ہو گا. یہ معاملہ دنیا میں ہر جگہ ہے. قرآن مجید میں بھی ہے عام و خاص. یہی حدیث کے اندر معاملہ ہے. 

اس کے بعد تیسری دلیل ہمارے یہاں سنت رسولؐ کے بعد ہے‘ سنت خلفاء راشدین مہدییّن. جس کے متعلق رسول اللہ  کی ایک طویل حدیث کے دوران یہ ارشاد آیا ہے: 
فَعَلَیْکُْمْ بِسُنَّتِیْ وَ سُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْنَ عَضُّوْا عَلَیْھَا بِالنَّواجِذِ ’’تم پر لازم ہے میری سنت اور میرے خلفاء راشدین کی سنت کو جو میرے ہدایت یافتہ ہیں. پکڑو ان کو مضبوطی سے اپنے دانتوں کے ساتھ ’ڈاڑھیوں اور کچلیوں کے ساتھ‘. یہ فرمانِ محمدی  ہے. یہاں کلمہ ’’فا ‘‘ بہت معنی خیز ہے‘ یہ تمام اختلافات کے لیے پناہ گاہ کی طرف دلالت کر رہا ہے. خلفاء راشدین کی سنت دراصل رسول اللہکی سنت ہی کا تتمہ ہے.

اس کے بعد ہمارے پاس چوتھی دلیل ہے ہمارے ائمہ دین‘ ائمہ فقہاء کی استنباطات‘ ان کی تعبیرات اور ان کے قیاسات و اجتہادات. جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ شاید کچھ لوگ سمجھتے ہوں کہ ان پر قرآن آج نازل ہو گیا ہے کہ وہ جس طرح چاہیں اُسے 
interpret کر دیں . ہماری ایک تاریخ ہے اور تاریخ تاریک نہیں ہے‘ بہت روشن ہے. یہ پچھلی دو تین صدیاں اگر ہمیں تاریک نظر آ رہی ہیں تو خدانخواستہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہماری پوری تاریخ تاریک ہے. ہماری بڑی تابناک تاریخ ہے‘ ہماری اس تاریخ میں وہ ائمہ دین گزرے ہیں کہ جنہوں نے بڑی با جبروت حکومتوں کے مقابلے میں کھڑے ہو کر اس رائے کا اظہار کیا ہے جسے وہ حق سمجھتے تھے. امام مالکؒ کا تصور کیجیے کہ حکومت وقت کے خلاف رائے دے رہے ہیں. ان کی مشکیں کَسی جا رہی ہیں. ان کے چہرے پر سیاہی مل کر پھر ان کو گدھے پر بٹھا کر پورے مدینہ میں پھرایا جا رہا ہے. لیکن اس حال میں بھی وہ کہہ رہے ہیں ’’جو مجھے جانتا ہے‘ وہ جانتا ہے اور جو نہیں جانتا وہ جان لے کہ میں مالک بن انس ہوں اور میں ڈنکے کی چوٹ کہتا ہوں کہ طلاقِ مکرہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے‘‘. مسئلہ یہ تھا کہ مجبور کر کے اگر طلاق دلا دی جائے تو وہ طلاق ہوگی یا نہیں ہو گی. (۱

اب یہ ایک مسئلہ ہے. یہ علیحدہ بحث ہے کہ کسی کو امام مالکؒ کی رائے سے اختلاف ہو. لیکن ہمارے ائمہ دین وہ ہیں جو کسی جبر اور کسی تشدد کے سامنے نہیں جھکے. امام ابو حنیفہؒ نے جیلیں کاٹی ہیں. ایک روایت کے مطابق انہیں زہر دیا گیا ہے. امام شافعیؒ نے سختیاں برداشت کی ہیں‘ کئی بار شہر بدر کیے گئے ہیں. امام ابن حنبلؒ نے وہ ماریں کھائی ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ اگر ہاتھی کی پیٹھ پر وہ مار پڑتی تو وہ بھی بلبلا اٹھتا. امام ابن تیمیہؒ دو مرتبہ محبوس کیے گئے. قید کی حالت ہی میں ان کا انتقال ہوا. تو کیا ان ائمہ کے بارے میں ہم یہ سمجھیں گے کہ دین اور شریعت کے بارے میں غور وفکر اور صحیح تر رائے تک پہنچنے میں انہوں نے کوئی کسر چھوڑ دی ہو گی! انہوں نے کیا یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی ہو گی کہ فلاں فلاں مسائل میں قرآن کا صریح تقاضا کیا ہے اور سنت کی نصوص کون کون سی ہیں اور وہ مسائل کون کون سے ہیں جن پر خیر القرون سے اجماع اور تواتر عمل چلا آ رہا ہے! رہے ایسے مسائل جن کی تعبیر و قیاس کے بارے میں اختلاف ہے ان کی نوعیت بالکل دوسری ہے. ان میں البتہ ایک گنجائش ہو گی. میرے لیے بھی گنجائش ہوگی. آپ کے لیے بھی گنجائش ہو گی. خلف کے علماء کے لیے بھی گنجائش ہو گی کہ وہ بھی امام دین اور امام فقہ ہیں‘ یہ بھی امام دین اور امام فقہ ہیں‘ امام حدیث ہیں. اُن کی رائے یہ ہے‘ اِن کی رائے یہ ہے. تو فقہی مسائل میں میدان وسیع ہو گیا. 
(۱) حکومت وقت کو اس مسئلہ پر تشدد کی ضرورت اس لیے درپیش ہوئی کہ خلیفہ ٔوقت کے لیے بالعموم بالجبر بیعت لی جاتی تھی. اگر طلاق مکرہ کو غیر مؤثر تسلیم کر لیا جائے تو حکومت کو خطرہ لاحق تھا کہ جبری بیعت کو بھی اس پر قیاس کر کے بیعت مکرہ سمجھا جائے گا. اور اس طرح یہ بیعت غیر موثر ہوجائے گی. (مرتب) لیکن یہ بات جان لیجیے کہ جن مسائل میں خلفاء اربعہ کا تعامل ہو‘ ائمہ اربعہ کا اتفاق ہو. سلفی مسلک رکھنے والوں کا اتفاق ہو ان سے باہر نکلنا میرے نزدیک فتنہ ہے. 

میں یہ بات پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور آج پھر ڈنکے کی چوٹ کہتا ہوں کہ یہ محض جذباتی بات نہیں ہے بلکہ نہایت غور و فکر کے نتیجے میں میری پختہ اور اٹل رائے ہے کہ جن مسائل میں خلفاء اربعہ کا تعامل موجود ہو‘ ائمہ اربعہ کا اتفاق موجود ہو‘ محدثین متفق ہوں‘ تمام واجب الاحترام اور معتمد ترین رجالِ دین کی رائے جن مسائل میں یک جا ہو جائے‘ وہ مجمع علیہ مسائل کی فہرست میں ہیں اسی کا نام اجماع ہے. یہ اجماع بھی دین میں حجت ہے. یہ چوتھی دلیل کا حاصل ہے. 
(۱اور اُس کے خلاف رائے دینا اور اپنی رائے پر اصرار کیے جانا میرے نزدیک یقینا اور لاریب فتنہ ہے. 

میرے بعض احباب کو جن کے خلوص پر مجھے کوئی شبہ نہیں‘ مجھ سے شکایت پیدا ہوئی ہے کہ میں شاید ایک خاص معاملے میں سختی کر رہا ہوں. بعض نے مجھ سے کچھ ناراضگی کا بھی اظہار کیا ہے. میں ان تمام حضرات سے گزارش کروں گا کہ شخصیتوں کو سامنے رکھ کر خدارا نہ سوچئے بلکہ یہ سوچئے کہ مجمع علیہ مسائل یا اجماع سے ہٹ کر کسی نص‘ کسی دینی مسئلہ اور متفق علیہ حدود شرعیہ 
(۱) آج سے کئی سال قبل امام شافعی رحمہ اللہ علیہ کے حالاتِ زندگی کے مطالعہ کا موقع ملا تھا. اس میں یہ بات بھی درج تھی کہ امام موصوف قرآن مجید سے بھی ’’اجماع‘‘ کے حجت ہونے کی دلیل کے متلاشی تھے. لیکن امام صاحب کا کہنا یہ تھا کہ تین مرتبہ تلاوت قرآن اور غور و فکر کے بعد بھی یہ دلیل نہ مل سکی (واضح رہے کہ کہا جاتا ہے کہ امام موصوفؒ عموماً تین دن میں قرآن کی تلاوت مکمل کر لیا کرتے تھے). ایک روز امام رحمہ اللہ علیہنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ’’اجماع‘‘ کے حجت ہونے کی دلیل بھی قرآن مجید سے ان پر واضح کر دی. انہوں نے بتایا کہ تین سو ایک مرتبہ تلاوت کے دوران اچانک ان کی نگاہ اس آیت پر جم گئی اور منکشف ہوا کہ اجماع کے حجت ہونے کی دلیل اس آیت میں موجود ہے. آیت یہ ہے: وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْم بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جَہَنَّمَط وَ سَآئَ تْ مَصِیْرًا (النسائ) امام موصوف کی رائے یہ ہے کہ ’’یہاں سبیل المؤمنین سے قطعی طور پر اجماع مراد ہے‘‘.

یہاں مؤمنین سے وہ مؤمنین صادقین‘ جیسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین‘ جیسے تابعین‘ تبع تابعین‘ فقہاء امت‘ محدثین کرام‘ علماء حقانی مراد ہیں جن کے قلوب حقیقی ایمان و ایقان کے نور سے منور تھے نہ کہ ہم جیسے کچے پکے اور روائتی مسلمان. (مرتب) کے خلاف راستہ نکالنا اور رائے دینا اور اجتہاد کرنا ‘ اسلاف کے ساتھ قطع تعلق ہے یا نہیں! ان تمام کی متفق علیہ رائے پر اظہار عدم اعتماد ہے کہ نہیں! میں صاف صاف عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ اس معاملے میں‘ میں کسی مداہنت کا روادار نہیں. میں اِسے حمیت و غیرتِ دین کے منافی سمجھتا ہوں. اس لیے مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ کون خوش ہوتا ہے‘ کون ناخوش. کون راضی رہتا ہے اور کون ناراض ہو جاتا ہے. شخصیتوں کو چھوڑ کر مسئلہ کی face value پر تبادلہ خیال‘ افہام و تفہیم اور دینی استدلال کے لیے میں ہر وقت تیار ہوں‘ نہ کسی کی دلداری کبھی پیش نظر رہی ہے اور نہ کسی کی ناراضگی سے خوف کھایا ہے. کسے باشد. اپنے دینی فہم و شعور کے مطابق جس بات کو حق سمجھا ہے اُسے برملا بیان کیا ہے اور پھر اس کا اعادہ کرتا ہوں کہ میرے نزدیک خلفاء راشدین‘ ائمہ مجتہدین‘ محدثین کرام کی مجمع علیہ متفق علیہ رائے اور مسائل کے خلاف اب کوئی نئی رائے دینا اور کوئی نئی راہ نکالنا یقینا فتنہ ہے.

یہ ہیں وہ اصل الاصول جن کو ہمیشہ پیش نظر رکھیے. یہی معاملہ رجم کا ہے. زنا کی حد کی آیت قرآنی کے بموجب سو کوڑے غیر شادی شدہ مرد اور عورت کے لیے حد عام ہے‘ لیکن اُسے سنت رسول علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام نے‘ اور سنت خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین نے شادی شدہ مرد اور عورت کی طرف سے زنا کے ارتکابِ جرم پر رجم کو مستقل حد قرار دے کر خاص کر دیا. اس پر اجماع چلا آ رہا ہے. خلفاء راشدین مہدیینؓ کے تعامل و تواتر کی پوری طرح تحقیق کے بعد فقہ کے مشہور ائمہ اربعہ نے شادی شدہ مرد و عورت کے لیے رجم کو ’’حد‘‘ قرار دیا. لہٰذا اس پر تواتر کے ساتھ اجماع چلا آ رہا ہے. اس پر رسول اللہ  کا عمل ہے. یہ ثابت شدہ سنت ہے. احادیث نبویہؐ ہیں. سنت اور حدیث دونوں جمع ہو گئیں. پھر یہ کہ خلفاء اربعہؓ کا اس پر عمل ہے. ائمہ اربعہ کا اس پر اجماع ہے. نہ صرف ائمہ اربعہؒ کا بلکہ اس میں امام بخاریؒ ہوں‘ امام مسلمؒ ہوں‘ امام ابن حزم ظاہریؒ ہوں. الغرض اہل سنت کے تمام معتمد علیہ محدثین کا اس مسئلہ میں کامل اتفاق ہے. اسی طرح اہل تشیع جو بالکل علیحدہ فرقہ ہے اس کے جو مستند ائمہ فقہ ہیں جن میں امام جعفر صادقؒ ہوں‘ امام زیدؒ ہوں‘ سب کے سب اس مسئلہ میں متفق ہیں کہ شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت کی اسلامی مستقل حد ’’رجم‘‘ ہے. خوارج اور گنتی کے چند معتزلہ ہیں جو اسے حد تسلیم نہیں کرتے. یہ فرقے اہل سنت والجماعت سے علیحدہ تسلیم کیے گئے ہیں اور تسلیم کیے جاتے ہیں. اس پر علماء امت کا اجماع ہے. اب آپ خود ہی نتیجہ نکال لیجیے کہ اس متفق علیہ اور مجمع علیہ مسئلے کے خلاف ایک نیا راستہ نکالنا اگر فتنہ نہیں تو کیا ہے. 
قصاص و دیت کے مسئلہ کو بھی انہی دلائل سے سمجھ لیجیے. جو رجم کے اسلامی حد ہونے کے بارے میں‘ میں نے پیش کیے ہیں. چونکہ اصول تو ایک ہی نہیں. دیکھئے قرآن مجید میں قصاص والا مسئلہ سورۃ البقرۃ میں زیر بحث آیا ہے اور قتل خطا کی دیت کا ذکر سورۃ النساء میں ہے. لیکن مقادیر وغیرہ کا کوئی ذکر قرآن مجید میں موجود نہیں ہے. اس ضمن میں عورت اور مرد میں فرق ہے یا برابری ہے‘ اس کا کوئی ذکر قرآن مجید میں نہیں ہے. البتہ قرآن مجید کے دو اصول اور ہیں جن کو دینی اصطلاح میں ’’نص‘‘ کہا جاتا ہے. یعنی اس کی لفظ بلفظ (literally) تعمیل ہو گی. ایک عورت کی شہادت کا معاملہ ہے تو وہ مرد کی شہادت سے نصف ہو گی. دوسرے قانونِ وراثت کے پورے قانون کو دیکھیں گے تو عورت ترکہ میں مرد کے مقابلے میں نصف کی حق دار بنتی ہے. دلالۃ النص سے اگر آپ کوئی چیز ثابت کرنا چاہیں تو یہ دو اصول قرآن میں موجود ہیں‘ لیکن اور کوئی صریح نص موجود نہیں ہے. اب آپ حدیث کی طرف آئیے. نبی اکرم  کی ایک حدیث quote ہو رہی ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ اس کے ساتھ ہی دوسری حدیث ہے اُسے دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں.

حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کو حضور نے ایک تحریر لکھوا کر دی‘ وہی quote ہو رہی ہے اس میں ایک کلی قانون بیان ہوا ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں کہ: فِی النَّفْسِ الْمُؤْمِنَۃِ مِائَۃٌ مِنَ الْاِبِلِ ’’ایک مؤمن جان‘‘ یہاں چونکہ عام ہے لہٰذا اس کا اطلاق دونوں پر ہو سکتا ہے مؤمن مرد پربھی اور مؤمن عورت پر بھی . (۱’’ایک مؤمن جان کی دیت قتل خطا کی صورت میں سو اونٹ ہوں گے. ایک دوسری حدیث میں یہ بات بھی موجود ہے: دِیَۃُ الْمَرْأَۃِ عَلَی النِّصْفِ مِنْ دِیَۃِ الرَّجُلِ ’’عورت کی دیت مرد کی دیت کے مقابلے میں نصف ہے‘‘. (۲معلوم یہ ہوا کہ ایک حدیث نے دوسری حدیث کو خاص کر دیا. ایک میں عام ہے کہ قتل خطا کے مقابلے میں ایک مؤمن جان کی دیت سو اونٹ ہے. دوسرا قولِ نبویؐ موجود ہے کہ عورت کی دیت مرد کے مقابلے میں نصف ہے. ہم عام و خاص کی نسبت سے دونوں حدیثوں کو مانتے ہیں. دونوں کے مابین ایک ربط قائم ہے کہ ایک عام بات حضورؐ نے (۱) لفظ ’’المؤمنۃ‘‘ سے مغالطہ نہ ہو. عربی کا قاعدہ ہے کہ اگر موصوف مؤنث ہو تو صفت بھی مؤنث کے صیغے میں استعمال ہو گی. نفس عربی زبان میں مؤنث ہے لہٰذا صفت بھی مؤنث آئی ہے‘ مراد جنس مؤمن ہے.
(۲) ’’ہدایہ‘‘ جلد دوم میں وضاحت ہے کہ یہ حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ سے موقوفاً مروی ہے اور یہ حدیث مرفوعاً بھی ثابت ہے. (مرتب) 
فرمائی‘ اس کے ایک جزو کی حد تک خصوص دوسرے قول سے ہو گیا. لہٰذا ان دونوں کو سامنے رکھیے تو مسئلہ بالکل واضح ہو جائے گا. جو شخص اتباعِ رسول کا جذبہ رکھتا ہو گا‘ اُسے اب اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ملے گی. وہ کوئی اپنا اقول نہیں لگائے گا‘ اپنی کوئی دلیل نہیں دے گا. 

آگے چلئے. ہمارے خلفاء راشدین مہدیین میں چار میں سے تین کے اقوال موجود ہیں. حضرت عمر کا قول موجود‘ حضرت عثمان کا قول موجود‘ حضرت علی کا قول موجود (رضی اللہ تعالیٰ عنہم وارضاہم اجمعین) کہ عورت کی قتل خطا میں دیت مرد کے مقابلے میںنصف ہے. اسی پر ان کا قول‘ اسی پر ان کا عمل. صحابہ کرامؓ میں سے تین عبادلہ‘ بہت مشہور ہیں. حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ وہ صحابی ہیں جن سے ساری فقہ حنفی چلی ہے. اسی لیے اس کو فقہ عبد اللہ بن مسعود بھی کہا جاتا ہے. چونکہ کئی واسطوں سے ان ہی کے پیرو ہیں امام ابو حنیفہؒ . دوسرے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہماہیں‘ جن کے لیے حضورؐ نے دعا کی تھی کہ ’’اے اللہ اس نوجوان کو قرآن کا علم عطا فرما دے‘‘. وہ 
حبر الامۃ کہلاتے ہیں. اُمت کے سب سے بڑے عالم. لہٰذا جو اکثر تفسیری روایات ہیں عموماً ان کے متعلق ہر معتمد تفسیر میں آخری بات حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی ملے گی. تیسرے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہہیں‘ تو حدیث کے سلسلے میں جو سلسلۃ الذہب مشہور ہے‘ جو سنہری زنجیر ہے‘ اس کی پہلی کڑی حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہیں (رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین). یہ تین عبادلہ اس اعتبار سے بہت مشہور ہیں. ان تینوں کے اقوال بھی اس کے حق میں موجود ہیں. پھر حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ہیں جن کے بارے میں نبی اکرم  نے فرمایا: اَفْرَضُ اُمَّتِیْ زَیْدُ بْنُ ثَابِت ’’میری اُمت میں قانونِ وراثت کے سب سے بڑے عالم زید بن ثابت ہیں‘‘. ان کا قول اس کے حق میں موجود ہے. کسی مسلمان کے لیے جس میںیہ جذبہ پیدا ہو چکا ہو کہ مجھے اسلام پر چلنا ہے‘ کیا اس کے لیے اس مسئلہ میں اتنے شواہد کے بعد بھی کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟ 

آگے چلیے. ائمہ اربعہ‘ امام مالک‘ امام ابو حنیفہ‘ امام شافعی‘ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم کا اس پر اتفاق ہے. مزید یہ کہ اہل تشیع کے دو ائمہ امام جعفر صادق اور امام زید رحمہما اللہ کا بھی اس پر اتفاق ہے جیسے سب کا اتفاق رجم کے مسئلہ پر ہے. اب بتائیے کہ جس شخص کے دل میں کوئی رمق بھی ایسی موجود ہو کہ وہ اسلام کے مجمع علیہ‘ متفق علیہ تمام مسائل کو تسلیم کرنا چاہتا ہے‘ وہ اس مسئلہ میں کوئی اپنی علیحدہ رائے رکھنے پر اصرار کر سکتا ہے! یوں تو کوئی شاذ رائے اکثر معاملات میں مل جائے گی. مجمع علیہ اور متفق علیہ آراء کے مقابلے میں شاذ رائے کی کھوج کرید 
کرنا اور اس سے دلیل پکڑنا چاہے وہ رائے الاصم کی ہو‘ چاہے ابن علیّہ کی ہو‘ آخر اس کی ضرورت کیا ہے. پھر یہ دیکھنا ہو گا کہ ان حضرات کا علمی اعتبار سے مقام و مرتبہ کیا ہے! ان کی حیثیت کیا ہے! کیا اہل سنت کے جو چار مسلک ہیں اور جو سلفی اور ظاہری مسلک ہیں‘ کیا ان مسالک میں سے کسی میں ان کی رائے اور قول کی کوئی اہمیت اور حیثیت ہے! صحابہؓ بالخصوص تین خلفاء راشدین کے قول و عمل‘ تابعینؒ ‘ تبع تابعین‘ ائمہ اربعہ اور تمام معتمد فقہائے اسلام کے مجمع علیہ اور متفق علیہ رائے کے مقابلے میں اِدھر اُدھر سے کھود کرید کر کے کسی شاذ اور غیر معروف قول پر استدلال کی عمارت کھڑی کرنا اس ذہنیت کی غمازی کرتا ہے کہ اصل میں جذبہ تو ہے نہیں‘ پیروی تو کرنی نہیں‘ وہ ارادہ موجود ہی نہیں کہ ہم کو اسلام پر چلنا ہے اور اسلام پر عمل کرنا ہے. لہٰذا یہی ہو گا جو ہو رہا ہے. آدمی کے پاس زبان ہے اور گز گزبھر کی زبان بھی موجود ہے اور لوگوں کے ہاتھ میں قلم ہے جن کو ہمارے اخبارات نے گزوں لمبا کر دیا ہے. قلم کا پہلے اتنا فتنہ نہیں تھا جو اس دَور میں اخبارات کے ذریعے سے یہ فتنہ شدید تر ہو گیا ہے وہ تو چاہتے ہیں کہ controversies زیادہ سے زیادہ پیدا ہوں. سیاست کا میدان تو بند پڑا ہے اس کے حوالے سے جو گرما گرمی ہوتی تھی اور نمک مرچ ملتا تھا‘ اور اخبارات کی زینت بنتا تھا‘ وہ موجود نہیں تو جہاں سے بھی بحث و تمحیص کا دروازہ کھل جائے اسے وہ نمایاں کریں گے. چونکہ اس میں ان کے قارئین کی دلچسپی کا سامان ہے اس کے سوا ان کے پیش نظر کوئی مثبت یا منفی تعلق یا مقصد نہیں ہے. اگر کوئی منفی تعلق ہو تو ہو. باقی مثبت تعلق کا تو ڈھونڈے سے بھی پتا نہیں ملے گا. یہ ہے اصل معاملہ کہ اگر کسی کو بات سمجھنی ہو اور فی الواقع سمجھنا ہو تو اس میں قطعاً کسی شک اور شبہہ کی گنجائش نہیں ہے کہ قتل خطا میں مرد کے مقابلے میں عورت کی دیت نصف ہے.

میں پھر عرض کروں گا کہ اصل بات یہ ذہن میں رکھیے کہ دو چیزیں ہیں. پہلی یہ کہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر وہ 
will ہے یا نہیں. فیصلہ کن بات تو یہ ہے. دوسری یہ کہ جب انفرادی اور اجتماعی سطح پرwill پیدا ہو جائے تو پھر عمل کے لیے ترتیب یہ ہے کہ پہلے اللہ کی کتاب ہے پھر سنت رسول ہے. اس سنت کے اندر صحابہ کرامؓ کے اقوال بھی آ جائیں گے. اس لیے کہ انہیں بھی احادیث کہا جاتا ہے. یہ بات بھی احادیث ہیں جو مرفوع نہیں موقوف ہیں‘ لیکن حدیث کے درجے میں شمار ہوتی ہیں. وہ سنت کا ایک جزو ہیں. اس پر نبی اکرم  کے دو ارشادات دلالت کرتے ہیں. پہلا ارشاد ایک حدیث کا آخری حصہ ہے: مَا اَنَا عَلَیْہِ وَ اَصْحَابِی ’’ہدایت یافتہ اور راہ یاب لوگ وہ ہوں گے جو میرے (یعنی نبی اکرم ) طریقے اور میرے اصحاب کے طریقے پر چلیں گے‘‘. دوسرا ارشاد ہے :اَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ فَبِاَیِّھِمُ اقْتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُمْ ’’میرے صحابہ ستاروں کے مانند ہیں‘ ان میں سے تم جس کی بھی اقتدا‘ پیروی اختیار کرو گے‘ راہ یاب ہو گے‘‘. پھر خاص طور پر خلفاء اربعہؓ کی سنت ہے. جس کے سنت ہونے پر ہمارے تمام ائمہ فقہاء اور تمام علماء حقانی بلکہ پوری امت کا اجماع ہے. جس کے لیے دلیل رسول اللہ  کی وہ حدیث ہے جو میں نے آغاز میں آپ کو سنائی تھی. اس کی تشریح کرنی باقی ہے. اس موقع پر وہ تشریح پیش کیے دیتا ہوں. اس حدیث سے ہمیں وہ رہنمائی بھی مکمل طور پر مل جائے گی‘ جس کی اس پُر فتن دَور میں ہم کو سخت احتیاج ہے. یہ حدیث حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور امام ابو دائودؒ اور امام ترمذیؒ نے اسے ’’حدیث حسن صحیح‘‘ قرار دیا ہے. حضرت عرباض بن ساریہؓ روایت کرتے ہیں : وَعَظَنَا رَسُوْلُ اللّٰہ  مَوْعِظَۃً وَّجِلَتْ مِنْھَا الْقُلُوْبُ وَ ذَرَفَتْ مِنْھَا الْعُیُوْنُ ’’رسول اللہ  نے ایک مرتبہ ہمیں وعظ و نصیحت فرمائی اور نصیحت ایسی تھی کہ اس سے قلوب پر ایسی رقت طاری ہوئی کہ وہ لرز گئے اور آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے‘‘. فَقُلْنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ کَاَنَّـھَا مَوْعِظَۃُ مُوَدِّعٍ فَاَوْصِنَا - ’’ہم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولؐ ! یہ نصیحت تو ایسے محسوس ہو رہی ہے جیسے آپؐ ہم سے رخصت ہو رہے ہیں! (اگر یہ اسی نوعیت کی ہے) تو ہمیں مزید وصیت و نصیحت فرمایئے‘‘. قَالَ اُوْصِیْکُمْ بِتَقْوَی اللّٰہِ والسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَاِنْ تَأَمَّرَ عَلَیْکُمْ عَبْدٌ ’’حضورؐ نے فرمایا کہ میں تمہیں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی اور سمع و طاعت کی روش پر کاربند رہنے کی وصیت کرتا ہوں خواہ تمہارا امیر ایک غلام ہی کیوں نہ ہو!‘‘ اس وصیت کے آخری حصے میں یہ حکمت ہے کہ غلام یا غلام زادے کا امیر بننا عرب جیسی آزاد اور خود سر قوم کے نفس پر بڑا شاق گزرنے کا احتمال تھا. نبی اکرم نے اس کی اس موقع پر پیش بندی فرما دی. اس کے بعد رسول اللہ نے فرمایا: فَاِنَّہٗ مَنْ یَعْشِ مِنْکُمْ بَعْدِیْ فَسَیَرٰی اِخْتِلَافًا کَثِیْرًا ’’تم میں سے جو کوئی بھی میرے بعد زندہ رہا وہ جلد ہی کثیر اختلافات دیکھے گا‘‘. آگے حضور ہدایت اور راہنمائی فرما رہے ہیں کہ اختلافات کے زمانے میں امت کے لیے مشعل راہ کون سی ہے! روشنی کا مینار کون سا ہے! ارشاد ہوا: فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَ سُنَّۃِ الْخُلَفَآئِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْنَ ’’پس تم پر واجب ہے‘ لازم ہے کہ میری سنت اور میرے تربیت و ہدایت یافتہ‘ صراط مستقیم پر گامزن خلفائؓ کی سنت کو کچلیوں کے ساتھ مضبوطی سے تھامنا‘‘. آگے فرمایا: وَاِیَّاکُمْ وَ مُحْدَثَاتِ الْاُمُوْرِ فَاِنَّ کُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ ’’اور دیکھنا دین میں جو نئی چیز ایجاد کی جائے گی وہ بدعت ہو گی اور بدعت گمراہی ہوتی ہے.‘‘

اس کے بعد تابعین‘ تبع تابعین‘ ائمہ فقہاء کا جس مسئلہ پر اجماع ہو جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس سے علیحدہ اور اُس سے باہر کوئی نیا راستہ کوئی ایسا شخص نہیں نکالے گا جس کے دل میں حقیقی دین پر عمل پیرا ہونے کے جذبے کی کوئی رمق بھی موجود ہو. اگر نکالے گا تو وہ اسی دائرے اور اسی زمرے میں آ جائے گا کہ 
وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُج وَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَg (آل عمران) جو شخص بھی فرماں برداری (اسلام) کے سوا کوئی اور طریقہ اور راستہ اختیار کرنا چاہے گا‘ اس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نامراد و خاسر رہے گا. لہٰذا جو بھی اسلام کے احکام و قوانین کے علاوہ اور ضابطے اور طریقے کا متلاشی ہے‘ وہ تو باہر اِدھر اُدھر جھانکے گا اور اپنی رائے کے لیے عقلی اور نقلی دلیلیں گھڑے گا. وہ وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا کے زمرے میں آ جائے گا. اللہ تعالیٰ ہم سب کو اور تمام مسلمانوں کو اس سے محفوظ رکھے.آمین!

جہاں تک عقل کا تعلق ہے تو میں پورے انشراحِ صدر سے کہتا ہوں کہ عقل بھی اس کے حق میں ہے. عقل تسلیم کرتی ہے کہ قوتِ کار کے اعتبار سے اور معاشی کفالت کے لحاظ سے مرد کی منفعت عورت کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے. 
(۱اس دلیل سے میراث میں‘ قانونِ شہادت میں اور زیر گفتگو قتل خطا کی صورت میں عورت کی دیت میں نصف کی نسبت عقل کے تقاضے کے عین مطابق ہے. اسی طریقے سے رجم کے ’’حد‘‘ ہونے کے منکرین بھی عقل کے اعتبار سے اندھے اور کور چشم ہیں کہ وہ گویا عقلی اعتبار سے یہ فیصلہ کر رہے ہیں کہ شادی شدہ اور غیر شادی شدہ زانی برابر کے مجرم ہیں‘ ذرا ان کی عقل پر ماتم کیجیے. ایک پیٹ بھرا انسان چوری کرے اور ایک غیر پیٹ بھرا انسان چوری کرے‘ کیا یہ برابر ہو جائیں گے! ایک چوری ہے جو ہیرے جواہرات کی کی جا رہی ہے‘ ایک چوری وہ ہے جو روٹی کی کی گئی ہے یا راہ چلتے کسی باغ (۱) ’’ہدایہ‘‘ میں علامہ مرغینانی ؒ کا یہ قول موجود ہے : وَلِاَنَّ حَالَھَا اَنْقَصُ مِنْ حَالِ الرَّجُلِ وَمَنْفَعَتُھَا اَقَلُّ ’’بلاشبہ عورتوں کی قوت کار اور ان کی منفعت مرد سے بہت کم ہے‘‘. یہاں انقص‘ اور اقل کے الفاظ نہایت قابل غور ہیں. (مرتب) کے پھل توڑ کر اپنا پیٹ بھرا گیا ہے. کیا یہ چوریاں برابر سمجھی جائیں گی! شریعت نے انہیں برابر نہیں رکھا. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں قحط کی حالت میں قطع ید کی سزا بالکل ساقط کر دی تھی اس لیے کہ شبہ موجود تھا کہ انسان چاہے چوری کسی شکل میں کر رہا ہو لیکن ہو سکتا ہے اور ظن غالب ہے کہ بھوک اس کا اصل سبب بن گیا ہو. تو کہاں ایک پیٹ بھرے انسان کا چوری کرنا اور کہاں ایک بھوکے انسان کا چوری کرنا! اسی پر قیاس کیجیے کہ کہاں ایک شادی شدہ انسان کا زنا کرنا! اور کہاں ایک غیر شادی شدہ انسان کا زنا کرنا! کیا عقل اس کو برابر تسلیم کر سکتی ہے. میں سمجھتا ہوں کہ اُن لوگوں کی عقل پر آنسو بہایئے اور ان کے حق میں دعا کیجیے جو ان دونوں کو برابر قرار دیتے ہیں. حالانکہ وہ بڑے rationalist ہونے کے مدعی ہیں. بڑے عقل پسند اور عقل پرست ہونے کے دعویدار ہیں. 

یہی معاملہ قصاص اور دیت کا ہے کہ اس مسئلہ میں خلط مبحث کر دیا گیا ہے. قتل خطا کی جو دیت ہے وہ جان کی قیمت ہے ہی نہیں. جان کی قیمت کا مسئلہ قتل عمد میں آتا ہے اور وہاں بھی اصل الاصول یہ ہے کہ جان کی قیمت جان ہے پیسہ نہیں ہے قاتل کی جان تو مقتول کے ورثاء کے حوالے کر دی گئی ہے. اب قاتل کی جان ان کے رحم و کرم پر ہے. اب وہ چاہیں تو اس کی جان لینے کا فیصلہ کریں‘ چاہیں تو قاتل کی جان کا معاوضہ قبول کر لیں. 

گویا قتل عمد کی دیت دے کر قاتل اپنی جان بچاتا ہے وہ مقتول کی جان کا معاوضہ نہیں ہے اس لیے کہ مقتول کی جان کے بدلے تو قاتل کی جان حاضر ہے. 

البتہ قتل خطا میں جان کی قیمت کا معاملہ نہیں ہے. وہ کسی حد تک اس نقصان کی تلافی ہے جو مقتول کے خاندان کو پہنچا ہے. اس میں یقینا عورت کی دیت مرد کے مقابلے نصف ہے اور وہ اس ذمہ داری اور اسلام کے فلسفہ ٔ عمرانیات کے اعتبار سے ہے کہ مرد کمانے والا ہے‘ عورت نہیں ہے. کسی خاندان کے مرد کا خطا سے کسی کے ہاتھ یا کسی کی بے احتیاطی سے ہلاک ہو جانا زیادہ بڑا نقصان ہے بمقابلہ عورت کے. یہ عقلی بنیاد بھی موجود ہے جس کے باعث شریعت میں یہ فرق رکھا گیا ہے. 

یہاں ایک اہم بات اور بھی عرض کر دوں‘ اگر عقل حاکم ہو جائے گی نقل پر‘ تو یہ اسلام کے خلاف راستہ ہے. اسلام اصلاً عقل پر نہیں بلکہ نقل پر قائم ہے. یہ نقل ہے وحی‘ اللہ کی جانب سے بذریعہ جبرئیل امین علیہ السلام منقول کی گئی ہے جناب محمد رسول اللہ  تک. قرآن بھی منقول 
ہے‘ یہ بھی ایک روایت ہے. اس کے راوی ٔاول کون ہیں! جبرئیل امین ؑ اور راوی ٔدوم کون ہیں! جناب محمد رسول اللہ  . پھر یہ روایت چلی آ رہی ہے‘ نبی اکرم نے یہ قرآن صحابہ کرامj کو دیا. صحابہ سے تابعین کو ملا. ان سے تبع تابعین نے لیا اور اس طرح نسلاً بعد نسلٍ قرآن مجید روایت اور نقل ہوتے ہوئے ہم تک پہنچا اور اسی طرح یہ نقل ہوتا چلا جا رہا ہے. یہ قرآن نقل ہے. اس کی اساس عقل پر نہیں ہے‘ ہاں جب آپ عقل کو اس کے تابع رکھ کر اس سے کام لیں گے تو یہ بہت مفید شے ہے ‘ بڑی طاقت ور شے ہے. یہ عقل آپ کو اس نقل پر مطمئن کرے گی. اس بات کو علامہ اقبال نے بڑے پیارے انداز میں بیان کیا ہے. ان کا ایک شعر ہے ؎

گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور چراغِ راہ ہے‘ منزل نہیں ہے!

قرآن مجید میں بھی بار بار دعوت ہے کہ قرآن کو پڑھو‘ اس پر غور و تدبر کرو‘ اس کے فہم کے لیے عقل سے کام لو. متعدد آیات میں سے دو کے حوالوں پر اکتفا کرتا ہوں. سورۃ الروم میں فرمایا: 
وَ مِنْ اٰیٰتِہٖٖٖٖ یُرِیْکُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَّطَمَعًا وَّیُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآئِ مَـآئً فَیُحْیٖ بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَاط اِنّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَX .سورۂ یٰسٓ میں ارشاد ہوا: وَمَنْ نُّعَمِّرْہُ نُنَکِّسْہُ فِی الْخَلْقِ ط اَفَلَا یَعْقِلُوْنَ. قرآن جو اصلاً نقل ہے اس کے لیے عقل کلید اور دلیل کا کام دے سکتی ہے لیکن مجرد عقل معرفت الٰہی اور شریعت کے حِکَمْ اور رموز صحیح فہم و ادراک کے لیے ہرگز کفالت نہیں کرے گی. اس کو بھی علامہ اقبال نے خوب ادا کیا ہے ؎

عقل گو آستان سے دور نہیں اس کی تقدیر میں حضور نہیں!

لیکن! یہاں یہ ’’لیکن‘‘ نہایت قابل غور ہے‘ 
it is a very big but لیکن اگر آپ نے اس نقل یعنی قرآن پر عقل کو حاکم بنا دیا تو جان لیجیے کہ چاہے آپ کہتے رہیں کہ آپ قرآن کو مانتے ہیں‘ درحقیقت آپ قرآن کو نہیں اپنی عقل کو مانتے ہیں اور اس کی روسے قرآن کو interpret کر رہے ہیں. ہمارے یہاں عملی اعتبار سے قرآن کی interpretation بالکل وہی ہے جو رسول اللہ  سے ثابت ہو. پھر اگر ہماری تاریخ کے ادوار میں حضورؐ سے لے کر تا امروز جن مسائل میں تسلسل‘ تواتر اور اجماع موجود ہو تو دوسری کوئی بات کہنے کا کسی کو حق ہی نہیں ہے. الا یہ کہ قرآن پر کسی وجہ سے اعتماد نہ رہا کہ یہ مُنَزّل مِنَ اللّٰہ ہے اور دل میں شک اور ریب کے کانٹے چبھ گئے ہوں. اللہ تعالیٰ اس گمراہی‘ اس ضلالت سے مجھے‘ آپ کو اور جمیع المسلمین کو اپنی حفظ و امان میں رکھے. 
وَ آخِرُ دَعْوَانا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ