اب اگلے فرض کی طرف آیئے‘ لیکن اس سے پہلے میں یہ عرض کروں گا کہ آپ جنت خریدنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آپ کو بہت بڑی قیمت دینی ہو گی. چھوٹی سے چھوٹی دنیوی کامیابیوں کے لیے بھی کتنی محنت کرنا پڑتی ہے تو ابدالآباد کی زندگی کی بہتری کے لیے کس قدر محنت درکار ہو گی! نبی اکرم کے ابتدائی دور کے ایک خطبے میں الفاظ آئے ہیں: ’’وَاِنَّـھَا لَجَنَّــۃٌ اَبَدًا‘‘ تو کیا یہ ممکن ہے کہ آپ ابدی جنت کے خریدار ہوں لیکن آپ کو کوئی مشقت نہ اُٹھانی پڑے‘کوئی مشکل پیش نہ آئے‘کوئی محنت اور ایثار نہ کرنا پڑے ‘کوئی قربانی نہ دینی پڑے اور کوئی نقصان نہ جھیلنا پڑے ؟ ؎

تن آسانیاں چاہے اور آبرو بھی
وہ قوم آج ڈوبے گی گر کل نہ ڈوبی!

چنانچہ آج دنیا میں ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ ذلت کا نشان بنے ہوئے ہیں. قرآن حکیم میں 
وَ ضُرِبَتۡ عَلَیۡہِمُ الذِّلَّۃُ وَ الۡمَسۡکَنَۃُ ٭ وَ بَآءُوۡ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ؕ (البقرۃ:۶۱کے الفاظ یہود کے لیے وارد ہوئے تھے‘لیکن آج ان کا مصداق مسلمان بن گئے ہیں. آج یہ یہود کی شان تو نہیں ہے‘وہ تو آج بہت عروج پر ہیں اور امریکہ جیسی sole سپریم پاور کے سر پر سوار ہیں. پوری دنیا کا مالیاتی نظام ان کے ہاتھوں میں ہے .ورلڈ بنک ہو یا آئی ایم ایف ہو ‘انہی کے زیر تسلط ہے. آج اللہ کا غضب ان پر نہیں‘ ہم پر ہے. اللہ کے جس قانون کے تحت ان کی وہ کیفیت ہوئی تھی آج اُس قانون کی زد میں ہم آ گئے ہیں. فَلَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا ۬ۚ وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحۡوِیۡلًا ﴿۴۳﴾ (فاطر) اللہ کی سنت اور اس کا قانون غیر مبدّل ہے‘اس میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا. آپ اس کی زد میں آئیں گے تو آپ گرفت میں آجائیں گے. بہرحال دینی فرائض کے ضمن میں ایک مسلمان کا دوسرا فرض اللہ کے اسی پیغام کے پیغامبر بن کر کھڑے ہو جانا ہے.